ہزارہ برادری کا احتجاج اور امریکی پارلیمنٹ پر حملہ

243

یہ ہفتہ سوشل میڈیا پر بہرحال ہزارہ برادری کے نام رہا۔ پاکستان میں ایک غیر سرکاری تخمینہ کے مطابق پچھلے 6 سال میں 15 سو کے قریب ہزارہ ہدف لے کر دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں جب کہ مختلف ادوار میں اس کا سلسلہ20 سال سے جاری ہے۔
پاکستان میں مذہبی منافرت کو ہمیشہ بلکہ 60کی دہائی کے بعد سے ایک ’اہم آلہ‘کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لسانی تعصبات کی تاریخ اس سے الگ ہے۔ افغانستان کے ہزارہ موجودہ دور کے افغانستان کے قدیم رہائشی ہیں۔ ہزارہ افغانستان کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ کابل کے مغرب میں کوہِ ہندوکش کے دامن میں واقع ہے جسے ’’ہزارہ جات‘‘ کہا جاتا ہے۔ افغانستان کے پشتون امرا نے ہزارہ آبادی کو افغانی کبھی تسلیم نہ کیا اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھا۔ اس کے لیے انہیں ہجرتوں سے گزرنا پڑا، اب وہ افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی آباد ہیں۔ دنیا میں ہزارہ کی آبادی کا تخمینہ ساٹھ لاکھ نفوس تک لگایا گیا ہے جن میں سے اندازاً چالیس لاکھ افغانستان اور دس لاکھ پاکستان میں رہتے ہیں۔ ہزارہ کی زبان ’’ہزارگی‘‘ کہلاتی ہے جو فارسی کا مشرقی لہجہ ہے جس میں ترک زبان کے اثرات بھی شامل ہیں۔
جینیاتی اعتبار سے چین کے صوبے سنکیانگ میں رہنے والے ایغور نسل کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ ہزارہ مذہبی اعتبار سے شیعہ امامیہ مسلمان ہیں البتہ ان میں بہت کم تعداد شیعہ اسماعیلی اور سنی حنفی مسلک کی پیروی بھی کرتی ہے۔ تقریباً سو سال قبل وہ پاکستان میں‘ خصوصاً کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ مذہب سے خاصے جڑے ہوئے ہیں روایتی طور پر اس لیے یہی تشخص ہے۔ حجاب، طہارت، پاکی، حرام حلال و طرز معاشرت میں دین کی سخت پابندی کرتے ہیں۔ منفرد نین نقش والوں کوعام ایرانی آبادی بھی حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہ معاشی طور پر کوئی بہت مضبوط نہیں محسوس ہوتے بلکہ اکثریت محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ یہی افراد آسان نشانہ بنتے رہے ہیں جنہیں کبھی بس سے اتار کر ، کبھی دکان پر، کبھی کام کی جگہ پر نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان کے علاقے میں کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے دس نوجوان مزدوروں کوہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ کوئٹہ کے یخ بستہ موسم میں مزدوروں کے لواحقین اپنے پیاروں کے لاشوں کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کو پکارتے ہوئے سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ ہی مختلف ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنے رہے۔ جن میں ہزارہ کو جینے دو، #IndiabehindMachAttack، #HazaraShiasWantJustice، #ShiaHazaraCallsPMIK، #HazaraLivesMatter، #hazarakillings، #HazaraGenocide، #CrushISIS PMLNwithHazaraCommunity ، لاپتا وزیر اعظم کے ہیش ٹیگ شامل رہے اس میں کچھ حصہ پیپلز پارٹی نے اور کچھ تو مسلم لیگ ن کے رہنماؤںکی آمد کی وجہ سے بھی ڈالا۔ اطلاعات کے مطابق بظاہر داعش نے ’’ذمہ داری قبول‘‘ کی ہے، مگر اس کے پیچھے بھارت کے بطور معاون ملوث نہ ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پھر بھارت خود اپنے کئی ڈراموں فلموں سے یہ تعلق ثابت کر تا رہا ہے اور سب جانتے ہیںکہ مذکورہ ڈرامے فلمیں ’را‘ کے تعاون اور ایما کے بغیر نہیں بنتیں۔ چوں کہ ملک بھر میں خصوصاً کوئٹہ میں انتہائی سرد موسم ہے اس لیے اس بات کو سب نے محسوس کیا اور لکھا کہ 5 راتوں سے شدید سردی میں ہزارہ برادری اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ اسلام آباد کی بے حسی کو آواز دے رہی ہے۔ یہ اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کے حوالے سے ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔
ہزارہ قوم کا واقعہ ہو یا ساہیوال کا‘ سب میں عام لوگ ہی جاں بحق ہوتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ سعد حسین رضوی نے بھی اس واقعے کی مذمت اور لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ ’ہزارہ برادری کے ورثا کی تسلی اگر وزیراعظم کے جانے سے ممکن تھی تو انھیں ایک دفعہ نہیں سو بار جانا چاہیے تھا۔‘‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وزیر داخلہ سمیت کئی وفاقی وزرا نے چکر لگائے۔ بھاری امدادی رقوم کی بھی آفر کی گئی جو کہ کسی بھی مزدور گھرانے کے لیے اہم ہو سکتی تھی مگر اُن کا مؤقف بس یہ تھا کہ ہمیں صرف تحفظ کی یقین دہانی چاہیے۔ وہ وزیر اعظم کے آنے کے سوا کسی پر نہ مانے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے بھی شاید تہیہ کرلیا ہے کہ اس طرح بلیک میل نہیں ہونا اس لیے مرحومین کی تدفین کے بعد ہی تمام گلے شکوے سننے آئوں نگا۔
سوشل میڈیا پر یہ مؤقف چلایا گیا کہ وزیراعظم کو ’’سیکورٹی کلیئرنس‘‘ نہیں مل رہا۔ جس پر ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے کچھ حکومتی چاپلوس اور خوشامدی میڈیا پرخبر لگوا رہے ہیں کہ وزیراعظم نے کوئٹہ جانے کا اُصولی فیصلہ کر لیا بس سیکورٹی کلیئرنس کا انتظار ہے۔‘‘ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ ہزارہ برادری سیکورٹی نہ ملنے پر مسلسل گاجر مولی کی طرح کٹ رہی اور یہاں کلیئرنس کی جعلی خبر چلائی جا رہی ہے۔ بہر حال وقت گزرتا رہا احتجاج کوئٹہ سے سوشل میڈیا اور پھر اچانک کراچی پہنچ گیا۔ کراچی میں پہلے 6 پھر9 پھر 15مقامات پر احتجاجی دھرنا شروع ہوگیا۔ بلا شبہ سب کچھ پُر امن تھا۔ سندھ حکومت کی جانب سے پوری کوشش رہی کہ دیگر عوام کو صرف سفری تکالیف ہوں باقی کوئی جسمانی تکلیف نہ ہو۔ ٹریفک پولیس نے اس سلسلے میں عوام کو حتی المقدور متبادل راستے استعمال کرنے پر مطلع کیا۔ 3 کروڑ آبادی کے اس شہر میں اگر 15 اہم سڑکیں‘ راستے ایک طرف سے بند بھی ہو جائیں تو شہرکی حالت الٹی ہو جاتی ہے۔ اب اس ایشو پر بھی سیاست شروع ہو گئی۔ اتنے سارے صرف کراچی میں احتجاجی کیمپس لگنے پر سوشل میڈیا پر بھی رد عمل آنا شروع ہو گیا۔ کہا گیا کہ اِس میں سندھ حکومت کی معاونت بدنیتی پر مبنی ہے۔ واضح رہے کہ تادم تحریر لاہور میں بھی گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا شروع ہوگیا تھا جس میں گورنر پنجاب نے بھی شرکت کی جب کہ لاہور میں مزید کچھ مقامات پر دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا، جس سے ظاہر ہوا کہ یہ احتجاج بتدریج پھیلے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور مسلم لیگ ن کی مریم نواز بھی کوئٹہ پہنچ گئیں اور وزیر اعظم کے نہ آنے پر خوب تنقید کی۔ اب بھلا کوئی ان دونوں ( بلاول، مریم ) سے پوچھے کہ کیا پیپلز پارٹی کے دور میں سب سے زیادہ ہزارہ برادری کو نشانہ نہیںبنایا گیا؟ کیا مسلم لیگ ن کے گزشتہ 5 سالہ دور میں ہزارہ برادری پر یہ مظالم نہیں ہوتے رہے؟ کوئی قاتل آج تک نہیں پکڑا گیا۔ یہ بات واضح ہے کہ چند معاملات پر یہ تمام پارٹیاں اندر سے ملی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماضی کے واقعات پر عمران خان کا جاندار مؤقف نکال نکال کر وائرل کیا گیا جس میں وہ ایسے واقعات کا ذمے دار حکومت وقت کو قرار دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک مطالبات کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا گیا جس میں مطالبات کی شقوں پر تنقید کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ایک اور قصہ بلوچستان ہی سے وائرل کیا گیا جس میں مبینہ طور پر تبلیغی جماعت سے ظاہری مشابہت رکھنے والے افراد پر شدید تشدد کا ذکر کیا گیا اور اس کو بہ طور انتقام پیش کیا گیا۔ اس کے جواب میں کئی وضاحتیں سامنے آئیں اور واضح کیا گیا کہ اس واقعہ کا مچھ کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ تبلیغی جماعت کے نہیں ہیں۔ ایک اور تبدیلی یہ ہوئی کہ 7 جنوری تک خبروں میں مقتولین کی تقسیم یوں ہوئی کہ ’’مچھ میں مارے گئے 10میں سے 7 افراد افغان ہیں‘ لواحقین کی خواہش پر3 کی میتیں افغانستان بھیجنے پر کام شروع۔‘‘اس سرخی سے ناظرین کو بہت کچھ سمجھایا گیا۔
اس کے علاوہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ایما پر اُن کے چاہنے والوں کا واشنگٹن میں امریکی پارلیمنٹ ’’کیپٹل ہل‘‘ کی عمارت پر حملے کا منفرد واقعہ دنیا بھر میں بڑا موضوع بنا۔ اس کا شور پوری دنیا کے سوشل میڈیا پر نظر آیا کیوں کہ سپر پاور ہونے کی وجہ سے واشنگٹن پوری دنیا کے لیے ایک اہم سیاسی مرکز ہے ۔#WashingtonDC، #CapitolHill، #America، #DCProtest، #CapitalRiots#Democracy، ٹرمپ، امریکا، کانگریس، ڈیمو کریٹس، کے کئی ٹرینڈ بنے۔ امریکی پارلیمنٹ حملہ کی تصاویر بھی خوب وائرل ہوئیں۔ جمہوریت کے چیمپئن ملک میں جمہوریت کی ایسی توہین و تذلیل بہرحال سیاہ ترین دن کی صورت مقدر تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ کانگریس کا اجلاس جاری تھا، مطلب چھٹی کے دن نہیں ہوا۔ ماضی میں جو جملے امریکی صدوریا اُن کے وزراء پاکستان کے لیے کہتے تھے اب ان کے لیے یہ جملے کون کہے گا۔ یہ واقعہ امریکا کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کی انتخابات میں جیت کی توثیق کے دوران سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اشتعال دلانے والی اور مبینہ منصوبہ بندی کے ساتھ تقریر کے نتیجے میں ہوا۔ اُن کے حامی بے قابو ہوگئے اور امریکی پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل پر دھاوا بول دیا۔ مظاہرین لاٹھی، ڈنڈے اور جھنڈے لیے عمارت میں گھس گئے، توڑ پھوڑ کی اور پولیس سے جھڑپوں میں کئی اہلکار زخمی ہوئے جس کے بعد پولیس کو شیلنگ کرنا پڑی۔ ارکان کانگریس عمارت میں محصور ہوگئے اور کرسیوں کے پیچھے چھپ کر جانیں بچائیں۔ ٹرمپ کے حامیوں کے جانب سے کپیٹل ہل کا محاصرہ کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک وڈیو جاری کی، جس میں انھوں نے حملہ آوروں اور حملے کی مذمت تو نہیں کی لیکن الیکشن میں دھاندلی کے الزامات دھراتے ہوئے اپنے حمایتیوں کو پولیس سے تعاون کرنے کی تلقین ضرور کی۔ لوگوں نے اسے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا امریکی ورژن بھی قرار دیا۔ تاہم اس وڈیو کو ٹوئٹر اور فیس بک کی جانب سے یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا کہ یہ پیغام مزید انتشار اور بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 جب کہ فیس بک نے 24 گھنٹوں کے لیے معطل بھی کر دیا، جس پر متعدد سوشل میڈیا صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آئے کہ کیا ایسے شخص کے ہاتھ میں ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں جس کو اپنا سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں؟ تفصیلات کے مطابق اس حملے میں 4 افراد ہلاک بھی ہوئے۔
6 جنوری کو جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد ؒ کا یوم وفات گزرا۔ جماعت اسلامی نے #QaziTheLeaderکے ساتھ آنے والی نسلوں تک اُس عظیم انسان کی عالم اسلام اور تحریک اسلامی کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرکے زندہ رکھا۔ اسی طرح منہاج القرآن کے ویمن ونگ کے 33 سال مکمل ہونے پر #Celebrating33yearsOfMWL کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت لایا گیا اور منہاج القرآن کے خواتین ونگ کی تفصیلی خدمات کو پھیلایا گیا۔ تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم رضوی ؒ کے چہلم کے موقع پر لاہور میں منعقدہ عظیم الشان جلسہ پر بھی ٹرینڈ بنے اس میں شام سے تشریف لانے والے معروف عالم دین الشیخ علامہ عبد العزیز الحسینی نے تحریک کے نو منتخب امیر سعد رضوی کے ہاتھ پر بیعت بھی کی، جس پر اہل شام سعد کے سنگ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنایا گیا۔

حصہ