سود

قسط (13)۔
یہاں پہنچ کر سود کی شر انگیزی و فتنہ پردازی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ کیا اس پر بھی کوئی صاحبِ عقل و ہوش آدمی یہ ماننے میں تامل کر سکتا ہے کہ سود ایک ایسی برائی ہے جسے قطعی حرام ہونا چاہیے؟ کیا اس کے یہ نقصانات اور یہ نتائج دیکھ لینے کے بعد بھی کسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں شک ہو سکتا ہے کہ:
’’سُود اتنا بڑا گنا ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک ہلکے سے ہلکا جز اس گناہ کے برابر ہوگا کہ ایک آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘

جدید بینکنگ

مگر سود کی شناعتوں کا مضمون ابھی ختم نہیں ہواہے۔ اس کی اپنی ذاتی برائیوں کو اس تنظیم نے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا جائے جو زمانۂ حال میں مہاجنی و ساہوکاری کے پرانے طریقوں کی جگہ جدید بینکنگ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس تنظیم نے قدیم صراف کی گدی پر دورِ جدید کے بینکر اور فینانشیر کو لا بٹھایا ہے جس کے ہاتھ میں آکر سود کا ہتھیار ہر زمانے سے زیازہ تجارت گر بن گیا ہے۔

ابتدائی تاریخ

اس نئے نظامِ ساہوکاری کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ آپ کے سامنے ہو۔
مغربی ممالک میں اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ پہلے جب کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کرتے تھے اور اسے گھروں میں رکھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سناروں کے پاس رکھوا دیتے تھے۔ سنار ہر امانت دار کو اس کی کے بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فلاں سنار کے پاس محفوظ ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رسیدیں خریدوفروخت اور قرضوں کی ادائیگی اور حسابات کی تصفیہ میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ آسان تھی کہ سونے کی رسید ایک دوسرے کو دے دیں۔ بہ نسبت اس کے کہ ہر لین دین کے موقع پر سونا سنار کے ہاں سے نکلوایا جائے اور اس کے ذریعے سے کاروبار ہو۔ رسید حوالے کر دینے کے معنی گویا سونا حوالہ کر دینے کے تھے۔ اس لیے تمام کاروباری اغراض کے لیے یہ رسیدین اصل سونے کی قائم مقام بنتی چلی گئیں اور اس امر کی نوبت بہت ہی کم آنے لگی کہ کوئی شخص وہ سونا نکلوائے جو ایک رسید کے پیچھے سنار کے پاس محفوظ تھا۔ اس کا موقع بس انہی ضرورتوں کے وقت پیش آتا تھا جب کسی کو بجائے خود سونے ہی کی ضرورت ہوتی تھی ورنہ ذریعۂ مبادلہ کی حیثیت سے جتنے کام سونے سے چلتے تھے وہ سب ان ہلکی پھلکی رسیدوں کے ذریعے سے چل جایا کرتے تھے جن کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس قدر سونے کا مالک ہے۔
اب تجربہ سے سناروں کو معلوم ہوا کہ جو سونا ان کے پاس لوگوں کی امانتوں کا جمع ہے اس کا بمشکل دسواں حصہ نکلوایا جاتا ہے‘ باقی 9 حصے ان کی تجوریوں میں بے کار پڑے رہتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ 9 حصوں کو استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے یہ سونا لوگوں کو قرض دے کر اس پر سود وصول کرنا شروع کردیا اور اسے اس طرح استعمال کرنے لگے گویا کہ وہ ان کی اپنی مِلک ہے۔ حالانکہ دراصل وہ لوگوں کی مِلک تھا۔ مزید لطیفہ یہ ہے کہ وہ اس سونے کے مالکوں سے اس کی حفاظت کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے اور چپکے چپکے اسی سونے کو قرض پر چلا کر اس کا سود بھی وصول کر لیتے تھے۔
پھر ان کی چالاکی اور دغا بازی اس حد پر نہ رکی۔ وہ اصل سونا قرض دینے کے بجائے اس کی قوت پر کاغذی رسیدیں چلانے لگے۔ اس لیے کہ ان کی دی ہوئی رسیدیں بازار میں وہ سارے کام کر رہی تھیں جو ذریعۂ مبادلہ ہونے کی حیثیت سے سونا کرتا تھا اور چونکہ انہیں تجربہ سے معلوم ہو چکا تھا کہ محفوظ سونے کا صرف دسواں حصہ ہی عموماً واپس مانگا جاتا ہے اس لیے انہوں نے باقی 9 حصوں کی قوت پر 9 کی نہیں بلکہ حصوں کی جعلی رسیدیں بنا کر زر کاغذی کی حیثیت سے چلانی اور قرض دینی شروع کردی۔ اس معاملے کو مثال کے ذریعے یوں سمجھیے کہ اگر سنار کے پاس ایک شخص نے سو روپے کا سونا جمع کرایا تھا تو سنار نے سو‘ سو روپے کی رسیدیں بنائیں‘جن مین سے ہر ایک پر لکھا کہ اس رسید کے پیچھے سو روپے کا سونا میرے پاس جمع ہے۔ ان دس رسیدوں میں سے ایک (جس کے پیچھے فی الواقع سو روپے کا سونا موجود تھا) اس نے سونا جمع کرانے والے کے حوالے کی اور باقی 9 سو روپے کی رسیدیں (جن کے پیچھے درحقیقت کوئی سونا موجود نہ تھا) دوسرے لوگوں کو قرض دیں اور اس پر ان سے سود وصول کرنا شروع کردیا۔
ظاہر ہے کہ ایک سخت قسم کا دھوکا اور فریب تھا۔ اس دغا بازی اور جعلی سازی سے ان لوگوں نے 90 فیصدی جعلی روپے بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا اور خواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس‘ بارہ فیصد سود وصول کرنے لگے حالانکہ انہوں نے اس مال کو کمایا تھا‘ نہ کسی جائز طریقے سے اس کے حقوق ملکیت انہیں پہنچتے تھے اور نہ وہ کوئی حقیقی روپیہ تھا جس کو ذریعہ تبادلہ کے طور پر بازار میں چلانا اور اس کے عوض اشیا اور خدمات حاصل کرنا کسی اصولِ اخلاق و معیشت و قانون کی رُو سے جائز ہو سکتا تھا۔ ایک سادہ مزاج آدمی جب ان کے اس کرتوت کی روداد سنے گا تو اس کے ذہن میں قانونِ تعزیرات کی وہ دفعات گھومنے لگیں گی جو دھوکے اور جعل سازی کے جرائم سے متعلق ہیں اور وہ اس کے بعد سننے کی توقع کرےگاکہ پھر شاید ان سناروں پر مقدمہ چلایا گیا ہوگا‘ لیکن وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی 90 فیصدی دولت کے مالک ہو چکے تھے۔ بادشاہ اور امرا اور وزرا سب ان کے قرض کے جال میں پھنس چکے تھے۔ خود حکومتیں لڑائیوں کے موقع پر اور اندرونی مشکلات کی عقدہ کشائی کے لیے ان سے بھاری قرض لے چکی تھیں۔ اب کس کی مجال تھی جو یہ سوال اٹھا سکتا کہ یہ لوگ کہاں سے اتنے بڑے سرمائے کے مالک ہو گئے۔ پھر جیسا کہ ہم اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں بیان کر چکے ہیں‘ پرانی جاگیرداری کے مقابلے میں جو نئے بورژوا تہذیب وسیع المشربی اور آزادی اور جمہوریت کے زبردست اسلحہ لے کر نشاۃ ثانیہ کے دور میںاٹھ رہی تھی اس کے میر کارواں اور مقدمہ الجیشی یہی ساہو کار اور کاروباری لوگ تھے جن کی پشت پر فلسفہ ،ادب اور آرٹ کا ایک لشکر عظیم ہر اس شخص اور گروہ پر ہلہ بول دینے کے لیے تیار تھا جو مسٹر گولڈ اسمتھ کے سرمایۂ عظیم کا ماخذ دریافت کرنے کی جرأت کرتا۔ اس طرح وہ دغا بازی‘ وہ جعل سازی جس سے یہ دولت بنائی گئی تھی‘ قانون کی گرفت سے صرف محفوظ ہی نہیں رہ گئی بلکہ قانون نے اس کو بالکل جائز تسلیم کر لیا اور حکومتوں نے ان سناروں کا جو‘ اب بینکر اور فینانشیر بن چکے تھے‘ یہ حق مان لیا کہ وہ نوٹ جاری کریں اور ان کے جاری کردہ نوٹ باقاعدہ زرِ کاغذی کی حیثیت سے کاروبار کی دنیا میں چلنے لگے۔

دوسرا مرحلہ

یہ تھی اس سرمائے کی اصلیت جس کے بل بوتے پر قدیم سنار دورِ جدید کے ساہوکار اور اقلیم زر کے فرماں روا بنے۔ اس کے بعد انہوں نےایک قدم اور بڑھایا جو پہلے قدم سے بھی زیادہ فتنہ انگیز تھا۔
جس دور میں یہ جدید ساہوکاری اس جعلی سرمایہ سے طاقت پکڑ کر سر اٹھا رہی تھی‘ یہ وہی دور تھا جب مغربی یورپ میں ایک طرف صنعت اور تجارت سیلاب کی سی شدت کے ساتھ اٹھ رہی تھی اور تمام دنیا کو مسخر کیا چاہتی تھی‘ دوسری طرف تمدن و تہذہب کی ایک نئ عمارت اٹھ رہی تھی جو یونیورسٹیوں سے لے کر میونسپلٹیوں تک زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر جدید چاہتی تھی۔ اس موقع پر ہر قسم کے معاشی اور تمدنی کاموں کو سرمائے کی حاجت تھی‘ نئی نئی صنعتیں اور تجارتیں اپنے آغاز کے لیے سرمایہ مانگ رہی تھیں۔ پہلے کے چلتے ہوئے کاروبار اپنی ترقی اور پیش قدمی کے لیے بڑی اور روز افزوں مقدار میں سرمائے کے طالب تھے اور تہذیبی و تمدنی ترقی کی مختلف انفرادی و اجتماعی تجاویز بھی اپنی ابتدا اور اپنے ارتقا کے لیے اس چیز کی محتاج تھیں۔ ان سب کاموں کے لیے خود کارکنوں کا اپنا ذاتی سرمایہ بہرحال ناکافی تھا۔ اب لامحالہ دو ہی ذرائع تھے جن سے یہ خونِ حیات اس تمدنِ جدید کے نوخیز شباب کی آبیاری کے لیے بہم پہنچ سکتا تھا۔
-1 وہ سرمایہ جو سابق سناروںاورحال کے ساہوکاروں کے پاس تھا۔
-2 وہ سرمایہ جو متوسط اور خوش حال طبقوں کے پاس ان کی پس انداز کی ہوئی آمدنیوں کی شکل میں جمع تھا۔
ان میں سے پہلی قسم کا سرمایہ تو تھا ہی ساہوکاروں کے قبضے میں اور وہ پہلے سے سود خواری کے عادی تھے‘ اس لیے اس کا ایک جتہ بھی حصہ داری کے اصول پر کسی کام میں لگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس ذریعہ سے جتنا روپیہ بھی صناعوں اور تاجروں اور دوسرے معاشرے معاشی و تمدنی کارکنوں کو ملا قرض کے طور پر ملا اور اس شرط پر ملا کہ خواہ ان کو نفع ہو یا نقصان اور خواہ ان کا نفع کم ہو یا زیادہ‘ بہرحال ساہوکار کو انہیں ایک طے شدہ شرح کے مطابق منافع دینا ہوگا۔
اس کے بعد صرف دوسرا ذریعہ ہی ایسا رہ جاتا تھا جس سے معاشی کاروبار اور تعمیر و ترقی کے کاموں کی طرف سرمایہ اچھی اور صحت بخش صورتوں سے آسکتا تھا‘ مگر ان ساہوکاروں نے ایک ایسی چال چلی جس سے یہ ذریعہ بھی انہی کے قبضے میں چلا گیا اور انہوں نے اس کے لیے بھی تمدن و معیشت کے معاملات کی طرف جانے کے سارے دروازے‘ ایک سودی قرض کے دروازے کےسوا‘ بند کر دیے۔ وہ چال یہ تھی کہ انہوں نے سود کا لالچ دے کر تمام ایسے لوگوں کا سرمایہ بھی اپنے پاس کھینچنا شروع کر دیا جو اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی بچا رکھتے تھے یا اپنی ضرورتیں روک کر کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کی عادی تھے یہ بات اوپر آپ کومعلوم ہو چکی ہے کہ یہ سنار ساہوکار پہلی سے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ربط ضبط رکھتے تھے اور ان کی جمع پونجی انہی کے پاس امانت رہا کرتی تھی۔ اب جو انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگانے میں لگے ہیں اور ان کی پس انداز کی ہوئی رقمیں ہمارے پاس آنے کے بجائے کمپنیوں کے حصے خریدنے میں زیادہ صرف ہونے لگی ہیں‘ تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اس زحمت میں کہاں پڑتے ہیں؟ اس طرح و آپ کو خود شرکت کے معاملات طے کرنے ہوں گے‘ خود حساب کتاب رکھنا ہوگا اورا س سے زیادہ یہ کہ اس طریقہ سے آپ نقصان کے خطرے میں بھی پڑیں گے اور نفع کا اتار چڑھائو بھی آپ کی آمدنی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ اس کے بجائے آپ اپنی رقمیں ہمارے پاس جمع کرایئے‘ ہم ان کی حفاظت بھی بلا معاوضہ کریں گے‘ ان کا حساب کتاب بھی مفت رکھیں گے اور آپ سے کچھ لینے کے بجائے الٹا آپ کو سُود دیں گے۔
یہ چال تھی جس سے 90 فیصد‘ بلکہ اس سے زیادہ پس انداز رقمیں براہِ راست معیشت و تمدن کے کاموں کی طرف جانے کے بجائے ساہوکار کی دست تصرف میں چلی گئیں اور قریب قریب پورے قابل حصول سرمائے پر اس کا قبضہ ہو گیا۰ اب صورت حال یہ ہوگئی کہ ساہوکار اپنے جعلی سرمائے کو تو سود پر چلا ہی رہا تھا‘ دوسروں کا سرمایہ بھی انھوں نے سستی شرح سود پر لے کر زیادہ شرح پر قرض دینا شروع کردیا۔ اس نے یہ بات ناممکن بنا دی کہ ان کی مقرر کی ہوئی شرح کے سوا کسی دوسری شرط پر کسی کام کے لیے کہیں سے کوئی سرمایہ مل سکے جو تھوڑے بہت لوگ ایسے رہ بھی گئے جو ساہوکار کی معرفت سرمایہ لگانے کے بجائے خود براہِ راست کاروبار میں لگانا پسند کرتے تھے‘ ان کو بھی ایک لگا بندھا منافع وصول کرنے کی چاٹ لگ گئی اور وہ سیدھے سادے حصے (Share) خریدنے کے بجائے وثیقوں (Debenture) کو ترجیح دینے لگے جن میں ایک مقرر منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔
اس طریق کار نے تقسیم مکمل کر دی۔ وہ ساری آبادی ایک طرف ہو گئی جو معیشت اور تمدن کی کھیتیوں میں کام کرتی ہے جس کی محنتوں‘ کوششوں اور قابلیتوں ہی پر ساری تہذیبی ومعاشی پیداوار کا انحصار ہے اور وہ تھوڑی سی آبادی دوسری طرف ہوگی۔ جس پر ان ساری کھیتیوں کی سیرابی کا انحصار ہے۔ پانی والوں نے کھیتی والوں کے ساتھ رفاقت اور منصفانہ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور یہ مستقل پالیسی طے کر لی کہ وہ پانی کے اس پورے ذخیرے کو اجتماعی مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف اپنے مفاد اور وہ بھی خالص مالی مفاد کے لحاظ سے استعمال کریں گے۔
(جاری ہے)