ہم کیوں مسلمان ہوئے

314

کاؤنٹ ایڈورڈ گیادا (انگلستان)۔
میری پیدائش اگرچہ ایک کیتھولک گھر میں ہوئی تھی لیکن اپنے والد کے زیر تربیت میں نے کیتھولک مذہب کے پیچیدہ اور فسطائی عقائد کو کبھی قبول نہیں کیا۔ حضرت مسیح ؑ نے اخوتِ انسانی کی تلقین کی تھی کہ خدا کی نظر میں سب انسان خواہ امیر ہوں یا غریب‘ بلا تفریق یکساں درجہ رکھتے ہیں‘ مگر کیتھولک چرچ مین قدم رکھتے ہی اخوت اور مساوات کا جو نقشہ نظر آتا ہے وہ بڑا بھیانک اور درد ناک ہے۔ امرا صفِ اوّل مین قربان گاہ کے قرین مخملیں گدوں پر جھکتے ہیں‘ جب کہ غریب لوگ بہت پیچھے دور کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے لیے لکڑی کے سخت بینچوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص کارڈینل سے کچھ کہنا چاہتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ درخواست لکھ کر پیش کرے۔ بالعموم ان درخواستوں کو رد کر دیا جاتا ہے کہ کارڈینل اپنے آپ کو کلیسا کے شہزادے سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے یسوع مسیحؑ نے جس سادگی اور اخوت کی تعلیم دی تھی‘ اس ماحول سے اس کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ مسیحؑ کے ماننے والے سیدھے سادھے اور غریب لوگ تھے مجھے یقین ہے کہ آج اگر جناب مسیح پھر دنیا میں آجائیں تو ان کے نام لیوا ن کی باتیں سن کر انہیں یقینا صلیب یا اس قسم کی کسی نئی ایجاد پر کھینچ دیں گے۔
پاپائے روم کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت مسیح کے جانشین ہیں‘ حالانکہ ان کی زندگی انتہائی امارات میں بسر ہوتی ہے۔ اغوانی مخمل‘ ریشم‘ کمخواب اور سمور میں ملبوس‘ سر پر جواہرات کا چمکتا ہوا تاج۔ پاپائے اعظم زریں تخت پر جلوہ افروز ہوتذے ہیں۔ چکمیلی وردیاں پہنے مؤدب خدام اردگرد کھڑے رہتے ہیں۔ سارا ماحول خوشبو سے معطر ہے۔ یہ منظر بلا شبہ پُر شکوہ اور خوب صورت ہے لیکن ظاہر ہے دلوں پر اس کا کوئی روحانی اثر نہیں ہوتا اور نہ اسے مسیع علیہ السلام کی تعلیمات سے کوئی واسطہ ہے۔
پھر روما کے کلیسائے سینٹ پیٹر میں جب کسی ولی کے اعزاز میں کوئی تقریب ہوتی ہے تو اس میں شمولیت کے لیے بھاری رقم کی عوض ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ ٹکٹ پر جو نمبر درج ہے وہی نشست آپ کو دی جائے گی اور یہ آپ کی رقم اور حیثیت کے مطابق ہوگی۔ گرجے کی اندر متعدد گیلریاں ہیں جو روسا‘ امرا‘ اربابِ سیاست اور دوسرے معززین کے لیی مخصوص ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس میں بچپن ہی سے مساجد کی سادگی اور خوب صورتی سے بڑا متاثر تھا۔ اسلامی تمدن و معاشرت نے میرے ذہن پر دور رس اثرات چھوڑے تھے۔ خصوصاً میں مسلمانوں کی شاعری اور فنِ تعمیر کا بڑا مداح تا۔ اکثر سوچا کتا کہ جس قوم نے تہذیب و شائستگی کے ہر پہلو کو اس قدر ترقی اور اہمیت دی ہے اور دنیا کی سامنے حسن و جمال کا ایک وسیع منظر پیش کیا ہے‘ یقینا اس کا فلسفہ اور مذہب میں بھی بلند درجہ ہوگا۔ یہی تجسس مجھے اسلام کی قریب لے آیا۔
تلاشِ حق کے لیے میں نے جدید و قدیم مذاہب کا مطالعہ شروع کردیا پھر ان کا ایک دوسرے سے مقابلہ کیا اور گہری تلاش و تنقید کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور قرآن میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی انسان کو اپنے روحانی ارتقا کے لیے ضرورت رہتی ہے۔ اب میں خدا سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے اسلام کے آغوش میں آنے کی توفیق عطا فرما دے کہ ابھی میں آبائی مذہب کو ترک کرنے اور پورے خاندان اور ماحول سے ٹکر لینے کی استعداد نہ پاتا تھا۔
اسی شش و پنج اور گو مگو کی کییت میں ایک رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں متلاطم سمندر میں جان بچانے کے لیے موجوں سے لڑ رہا ہوں اور بڑی مشکلوں سے ساحل پر پہنچا ہوں۔ اس وقت میں نے ایک آواز سنی جو سمندر کے شور سے بھی زیادہ تیز تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا ’’تمہیں غرق ہونی سے کس نے بچایا ہے‘ تجھے ایمان کے اقرار سے تامل کیوں ہے؟‘‘ بیدار ہوا تو یقین کو ساحلِ ماد سے لگے ہوئے پایا۔ صبح ہی میں نے اسلام قبول کر لیا۔
قبولِ اسلام کے بعد قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور میرا سماجی مقاطعہ بھی ہوا‘ لیکن میں نے پروا نہ کی۔ اب میری انتہائی آرزو ہے کہ میں کسی طرح خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوں۔ میں بسا اوقات تخیل ہی تخیل میں اپنے آپ کو تن تنہا صحرائے عرب میں کھڑا ہوا پاتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ریت کا سمندر ہر چہار طرف میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور میں اکیلا بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہوں۔ اس وقت میری مثال ایک ذرۂ ریگ کی سی ہوتی ہے اور دنیا کی تمام مکروہات سے اپنے آپ کو دور پاتا ہوں۔ ستاروں کی دنیا میرے سامنے ہوتی ہے اور میرا دل قدرتِ خداوندی کے لامتناہی کرشموں کو دیکھ کر حیران ہونے لگتا ہے۔ اس وقت میرا خیال بار بار اس چیز کی طرف جاتا ہے کہ جوں جوں علم و حکمت کے تعجب انگیز اور زبردست قوانین دریافت ہوتے جائیں گے‘ اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قوت آشکار ہوتی جائے گی۔ آہ وہ دن کیسا خوب صورت ہوگا جب میں کسی تفریق و امتیاز کے بغیر اپنے مختلف نسلوں اور رنگوں کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خوش باش کھڑا ہوں گا اور انکی معیت میں مجھے طوافِ کعبہ کی سعادت حاصل ہوگی۔
آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ مجھے سیاہ اور بھوری جلد بہت پسند ہے۔ جوں جوں آدمی اوپر کی طرف جاتا ہے‘ بالوںکا نگ کھلتا جاتا ہے اور جلد زرد ہونے لگتی ہے۔ خطِ استوا کی طرف بڑھتے جائیے تو جلد کا رنگ بھورا اور سیاہ ہونے لگتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ آفتاب کی شعاعوں کو جذب کرنے کا ہے۔ برف موت کی علامت ہے اور سورج زندگی کی۔ میھے آفتاب سے محبت ہے‘ برف سے میں دور بھاگتا ہوں۔ صدف کا رنگ بھورا ہوتا ہے مگر اس کے اندر سے سفید چمکتا ہوا موتی برآمد ہوتا ہے۔ میرے نزدیک روح کی وہی حیثیت ہے جو موتی کی ہے۔ مین سیاہ اور بھوفے رنگ کے انسانوں کی تصویروں سے بہ تلطف اندوز ہوتا ہوں۔ اگر میری جلد کی رنگت بھی سیاہ ہوتی تو میں بہت خوش ہوتا۔ یہ رنگ انسان کے لیے زیادہ موزوں ہے‘ اگر ایک مرتبہ مجھے مشرقِ وسطیٰ کے گرم ملکوں کی طرف جانے کا موقع مل گیا تو شاید میری رنگت بھی بھوری ہو جائے گی۔ بھوری بھوری جلدوں پر سفید پگڑیاں کتنی خوش نما لگتی ہیں۔ جب میں حاجی بن گیا تو میری بھی ایسی صورت بن جائے گی اور وہ کتنا اچھا وقت ہوگا۔

حصہ