تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا

475

جیسے ہی میں ہال نما کمرے میں داخل ہوئی سامنے بیٹھی ہوئی ایک پُر وقار خاتون پر نظر پڑی جن کے چہرے سے نور برس رہا تھا۔ وہ اپنے چاروں طرف بیٹھی خواتین سے مخاطب تھیں۔ میں نے بھی ایک نشست منتخب کی اور بیٹھ گئی۔ میرے سامنے بیٹھی معلمہ یقینا فاطمہ ہی تھی۔
فاطمہ سے میری آخری ملاقات تقریباً پینتیس‘ چھتیس سال قبل ہوئی تھی جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا تھا۔ میں اماں کے ساتھ تعزیت کے لیے اس کے گھر گئی تھی جو اماں کے پڑوس میں ہی تھا۔ جواں سال بیوہ کے چہرے اور آنکھوں سے ہی غم و اَلم جھلک رہا تھا‘ اس کے چاروں طرف اس کے چھوٹے معصوم بچے بیٹھے تھے۔ گود میں تین ماہ کی چھوٹی بیٹی تھی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو بیٹی کے چہرے پر گر رہے تھے۔ یہ میری فاطمہ سے آخری ملاقات تھی کیوں کہ اماں اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوگئی تھیں۔ لیکن اماں اکثر اسے یاد کرکے کہتیں نہ جانے فاطمہ کا گزر بسر کیسے ہوتا ہوگا‘ پانچ بچوں کی تعلیم‘ ان کے اخراجات … وہ اکیلی جان کیسے کر رہی ہوگی یہ سب۔ لیکن آج اسے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ اس کا پُرسکون چہرہ اس کی خوش حالی کی ترجمانی بھی کر رہا تھا۔
درس کے بعد میں اس کے قریب گئی۔ پہلی نظر میں وہ مجھے پہچان نہ سکی میں نے خوش دلی سے کہا ’’یقینا آپ فاطمہ ہیں؟‘‘
’’لیکن آپ…؟‘‘ پھر وہ ایک چیخی ’’حاجرہ خالہ کی بیٹی؟‘‘
’’جی میں ثمینہ ہوں…‘‘ وہ مجھ سے بغل گیر ہوگئی۔
’’فاطمہ آپ یہاں… میرا مطلب یہ سب کیسے ہوا… آپ کا بیان بڑا مستند اور پُر تاثیر تھا۔ یقینا آپ نے اس کی تعلیم لی ہوگی۔ اور آپ کی بیٹیاں اور بیٹا…‘‘ میں نے ایک دم بہت سارے سوال کر دیے۔
’’الحمدللہ سب ٹھیک ہیں‘ سب کی شادی ہو چکی ہے۔ بچیاں الحمدللہ اپنے گھروں میں بالکل خوش ہیں۔‘‘
میں فاطمہ کے مزید حالات جاننا چاہ رہی تھی۔ میرے دل میں بار بار یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ اس نے شاید دوسری شادی کر لی ہوگی‘ اس کا شوہر اس کے بچوں کی کفالت کر رہا ہوگا‘ ورنہ وہ اکیلی جان یہ سب کیسے کر پائی ہوگی۔
…٭…
میری اگلی ملاقات فاطمہ سے فون پر گفتگو تھی۔ اس گفتگو میں ہی میں اس کے حالات جان پائی اور بہت متاثر ہوئی کہ واقعی میرا رب کسی کو بے سہارا نہیں چھوڑتا۔
ثمینہ تمہیںتو معلوم ہے اس وقت میں نہ صرف جوان تھی بلکہ پانچ بچوں کا ساتھ تھا۔ صرف میرے رب کا سہارا تھا جسے میں نے تھام لیا۔ کچھ رشتے داروں نے دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا لیکن یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔ بس میری نگاہیں میرے رب کی طرف تھیں۔ جس مکان میں میری رہائش تھی وہ میرے شوہر کے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ جائداد تھی جسے فوراً خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ مختصر جمع پونجی تھی ایک کمرے کا مکان کرائے پر مل گیا مجھے تھوڑی بہت سلائی آتی تھی لہٰذا کام شروع کر دیا۔ تعلیم میری مکمل نہیں ہوئی تھی کہ شادی ہو گئی تھی صرف انٹر تھی۔ آس پاس کے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانے لگی مجھے پورا یقین تھا کہ دنیاوی سہارے ڈھونڈنے سے بہتر میں اصل مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کروں اور اس سے محبت کروں اور اسی سے طلب کرو۔
مجھے والد کی طرف سے کچھ دینی تعلیم مل چکی تھی جس کے اثرات مجھ میں موجود تھے۔ اپنی ادھوری تعلیم کی طرف بھی توجہ دی یقین کریں میرے رب نے مجھے بے آسرا نہیں چھوڑا۔ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے‘ چھوٹی بچی ڈھائی سال کی ہوئی تو اسکول جانے لگی تو میں نے بھی ملازمت شروع کر دی۔ شام میں سلائی کڑھائی کا کام صبح میں ملازمت… سارے کام ایمان داری‘ خلوص سے انجام دے رہی تھی صرف اپنے رب کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ہر تکلیف اور پریشانی پر صبر و تحمل اور شکر ادا کرتی۔ اس طرح اللہ نے نہ صرف رزق میں برکت دی بلکہ وقت میں بھی (ہنستے ہوئے) شام میں دینی مدرسہ بھی جوائن کیا۔ بچیاں میرے ساتھ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے بھی مستفید ہوتی جا رہی تھیں۔ یقین کریں میرے اللہ نے اتنی آسانیاں‘ خوشیاں اور اطمینان قلب سے نوازا کہ سب کچھ آسان ہوتا گیا۔ الحمدللہ ملازمت میں ترقی ہوتی گئی۔ افسران بھی میرے کام سے خوش تھے یقین کرو میری بہن اللہ نے مجھے سہارا دیا تو مجھے کسی اور کی مدد کی تمنا و طلب ہی نہیں رہی۔ بچیوں کی اچھے گھروں میں شادیاں ہوگئیں۔ گھر میں بہو آگئی۔
ملازمت کے دوران گھروں میں بچوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسہ بھی شروع کر دیا۔ خواتین کے لیے درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اتنا سکون اور اطمینان نصیب ہوا کہ کسی اور چیز کی طلب ہی نہ رہی۔ میرا اللہ ہی میرے ساتھ ہے۔
…٭…
فاطمہ سے میری اب اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اسے دیکھ کر ہم سب کو اس بات پر پختہ یقین ہے کہ واقعی میرا رب ہی سب کچھ ہے‘ وہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
…٭…
اللہ کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے‘ وہ ہماری محبت کو دھتکارتا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیں مزید اپنے قریب کر لیتا ہے جیسا کہ سورۃ آل عمران میں میرے اللہ کا بیان ہے کہ ’’اے نبیؐ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الزمر میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔‘‘بے شک زمانے کا سہارا تو محض ایک وقتی اور ظاہری سہارا ہے حقیقت میں بندے کا اصل سہارا تو میرا رب ہی ہے۔ جب اس کا بندہ دل سے اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے کہ اس ذات باری تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی اس کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا تو باری تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا‘ اس کو اپنی رحمتوں کے سائے میں ڈھانپ لیتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الطلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔‘‘
…٭…
یہ حقیقت ہے کہ بندے کا اپنے رب پر کامل بھروسہ ہونا ضروری ہے میرے سامنے صرف فاطمہ کا واقعہ ہی گواہ نہیں بلکہ آس پاس ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں زندگی میں بڑے دھچکے لگے‘ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ مزید اس کے قریب ہو گئے رب اللعالمین جو ستر مائوں سے بھی زیادہ مہربان اور محبت کرنے والا ہے‘ وہ کیسے اپنے بندے کو بے یار و مددگار تڑپنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔ بندے کا صبر‘ شکر اور ذکر الٰہی میرے رب کو پسند ہے میرا رب بندے کی انہی خوبیوں کو قبول فرماتا ہے اور اس کو نوازتا ہے لہٰذا سکھ دکھ میں بندے کو اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے‘ اسی کی بارگاہ میں سر بہ سجود اپنی مشکلات و پریشانیوں کو دور کرنے کی فریاد پیش کرنی چاہیے‘ بے شک وہ مایوس نہیں کرے گا یہ میرا ایمان ہے‘ میرا یقین ہے بلکہ آپ سب کا ایمان و یقین بھی ہے الحمدللہ۔

حصہ