محنت ترقی کا زینہ ہے

370

ایک پاکستانی محمد سلیم روزگار کے سلسلے میں جاپان چلا گیا۔ وہاں اُسے ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ قیام کا ابتدائی زمانہ تھا اس لیے اسی ملازمت پر اکتفا کر لیا۔ وقت کی پابندی بھی ضروری تھی اس لیے محمد سلیم مقررہ وقت سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی فیکٹری پہنچ جاتا۔ لیکن اس کا دل دکھتا جب وہ وہاں ایک 75 سے 80 سالہ ایک عورت کو عملے کے ساتھ مل کر صفائی کرتے ہوئے دیکھتا۔ وہ اکثر وبیشتر اس بوڑھی عورت کے بارے میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ اس بے چاری کی اولاد نہ ہو یا ہو بھی تو نا فرمان ہو‘ وہ اپنی ماں کا خیال نہ رکھتی ہو۔ پتا نہیں کیا مجبوری ہے بے چاری کی جو اسے اس عمرِ ناتواں میں پیٹ پالنے کے لیے محنت ومشقت کرنی پڑ رہی ہے۔
اسی خیال کے تحت محمد سلیم نے اس بوڑھی عورت کی مدد کرنے کا سوچا کہ یہاں کام کرنے والے چند لوگ مل کر ماہانہ طور پر اس کی مدد کرتے ہیں تاکہ اس بے چاری کو کچھ آرام مل سکے۔ محمد سلیم نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنے ایک ساتھی ورکر سے کیا جو کئی سال سے اس فیکٹری میں ملازم تھا لیکن اس کا جواب سن کر محمد سلیم ہونق رہ گیا۔
ساتھی ورکر محمد سلیم کی بوڑھی عورت کے ساتھ اظہار ہمدردی سن کر مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’آپ اس عورت کے غم میں اپنا آپ نہ گھولیں۔ یہ بوڑھی خاتون صفائی کرنے والی نہیں بلکہ اس فیکٹری کی مالک ہیں۔ یہ تو صرف اپنی اچھی صحت اور خود کو فٹ رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں۔‘‘
اب آتے ہیں اسی تناظر میں پاکستان کی طرف صرف تین دہائی پہلے تک پاکستان میں اچھی تنخواہ یا اچھی آمدن رکھنے والے اکثر گھرانوں کی خواتین اپنے گھروں کا کام خود کرتی تھیں۔ پھر دیکھا دیکھی گھروں کے کام کام والیوں کے سپرد کرنے شروع کر دیے اور آج حال یہ ہے کہ جس گھر کا مرد 30 یا 40 ہزار ماہانہ کماتا ہے اس گھر میں بھی کپڑے دھونے یا صفائی کرنے کے لیے ملازمہ مقرر ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ دیہات یا شہروں میں بہت سی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری یا کام کرتی ہیں لیکن ایسی عورتوں کا تناسب صرف 5 فیصد ہے باقی 95 فیصد یا تو صرف اپنے گھروں کا کام کاج کرتی ہیں یا پھر ملازمین سے گھروں کا کام کروانے میں ہی تھک جاتی ہیں۔
میں نوکر چاکر رکھنے کے خلاف نہیں لیکن اس بات کے خلاف ضرور ہوں کہ اپنے جسم کو اتنا آرام دے دیں کہ آرام کر کر کے ان سے بیماریاں پھوٹنا شروع ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کا مفہوم بھی ہے اور حکماء کی تحقیق بھی کہ ’’ہر بیماری معدے سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان خوراک تن درست والی کھائے گا اور آرام بیمار والا کرے گا تو پھر جسم تو بیماریوں کی پوٹلی ہی بنے گا۔
ہمارے پیارے مذہب اسلام کی تو تعلیم بھی ہے کہ اگر اونٹ پر سوار شخص کی چھڑی نیچے گر جائے تو سوار پیدل کو یہ نہ کہے کہ میری چھڑی پکڑا دے بلکہ سوار خود اپنی چھڑی اٹھائے۔ اس طرح سستی کو سخت ناپسند کیا گیا۔ ٹانگیں گھسیٹ کر چلتے ہوئے ایک شخص کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈانٹ کر کہا کہ ’’مومن ایسی سستی والی چال نہیں چلتا۔‘‘
تاریخ کی ورق گردانی کر لیں یا حالات حاضرہ کا مشاہدہ۔ جن قوموں نے سستی چھوڑ کر محنت کو اپنایا وہ ترقی کی طرف گامزن ہوئیں اور جنہوں نے محنت سے جی چرایا‘ چھوٹے موٹے کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا وہ ترقی سے دور ہوتی گئیں۔ سوسائٹیز میں صبح صبح اتنی تعداد میں چہل پہل مکین لوگوں کی نہیں ہوتی جتنی کام والیوں کی ہوتی ہے۔ گھروں کے کام کا کیا ہے وہ گھر کی خواتین خود بھی با آسانی کر سکتی ہیں۔ یہ صرف بیمار یا ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری ہے کہ وہ کسی دوسری عورت سے کام کروائے۔ کثیر تعداد میں انڈسٹریاں وکارخانے پاکستان کی ضرورت ہیں۔ اگر گورنمنٹ اور معاشرے کے امیر لوگ انڈسٹریاں لگا لیتے ہیں تو یہی لیبر ان کارخانوں میں تعمیری کاموں کے لیے مہیا ہو جائے گی۔ جس سے ملک کی برآمدات یقینی طور پر بڑھیں گی اور درآمد میں کمی آئے گی۔ پھر ہمیں سوئی ، بٹن، قلم، پنسل اور تسبیح جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے دوسرے ممالک کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ جب روز گار عام ہو گا تو غربت اور جرائم میں بھی کمی ہو گی۔ ہمیں جاپان اور چین کی ترقی کے راہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ پھر ان کی طرح ان شاہ اللہ ترقی اور صحت مند زندگی ہمیں بھی نصیب ہو گی۔

حصہ