جمیل قریشی اور ان کی یادیں

383

۔2020کا سال غم اور صدموں کا سال بن کر آیا۔ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ،موت کتنے قابل اور ذہین متحرک افراد کو لے اڑی ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ آج جو ہمارے ساتھ موجود ہیں کل وہ دوسرے جہاں کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔ اچانک موت دلوں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ زندگی بھر اہلِ خانہ کے ساتھ روز وشب گزارنے والے اس سانحہ پر دل گرفتہ ہوجاتے ہیں۔ زندگی بھر کا غم جو کہ کلیجہ کاٹ دیتا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی عثمان جو کہ اسی سال کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر 20 جنوری کا داغ رفاقت دے گیا۔ جوان آدمی کی موت سے اہلِ خانہ پر کیا بیتتی ہے یہ ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
عثمان کے بچوں کی کفالت کا ہم سب بہن بھائی مل کر کر رہے ہیں۔ بظاہر کسی چیز کی کوئی کمی نہیں، اسکول‘ ٹیوشن، مدرسے کے ساتھ ساتھ گزر بسر کا بھی انتظام ہے۔ لیکن سب کچھ کے باوجود عثمان کے معصوم بچے اپنے باپ کی شفقت محبت سے محروم ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان بچوں کا عثمان سے بھی زیادہ اگر خیال رکھتے ہیں تو وہ بھی ناکافی ہے کیوں کہ اصل محبت اور خلوص جو کہ باپ کی محبت سے ملتی ہے وہ اس سے محروم ہیں۔
اسی طرح ہمارے دوسرے ساتھیوں کے گھر میں یہ کیفیت ہے۔ شہید مرزا لقمان بیگ کو جب شہید کیا گیا تو ثوبان بیگ چار سال، نعمان دس سال اور فرحان بیگ آٹھ سال کے تھے۔ شہید محمد اسلم مجاہد کی شہادت کے وقت ان کا بڑا بیٹا خرم 20 سال کا اور چھوٹا بیٹا ارسلان 14 سال اور مہد5 سال بیٹی4 سال کی تھی۔ اس طرح ہمارے پیارے ہر دل عزیز دوست ڈاکٹر پرویز محمود کو جب شہید کیا گیا تو اُن کی اکلوتی بیٹی دس سال کی تھی۔ اللہ پاک بڑا رحیم کریم ہے‘ وہ کبھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور وہی کرتا ہے جو اُن کے لیے بہتر ہوں۔ اللہ پاک ہی پیارے بندوں کوصبر دیتا ہے اور صبر ہی ایک بڑی نعمت ہے جس سے وہ اپنے غم کا مقابلہ کرتا ہے ۔
گزشتہ دنوں ہمارے ایک بہت اچھے بزرگ رہنما مربی اور جماعت اسلامی ضلع کورنگی کے رہنما جمیل الدین قریشی دل کا دورہ پڑ جانے سے انتقال فرما گئے۔ جمیل الدین قریشی ایک قابل پڑھے لکھے دیانت دار شخص تھے۔ وہ پوری زندگی رزق حلال کے لیے متحرک رہے۔ پاک لیبیا ہولڈنگ کمپنی جو فنانس کی ایک بڑی کمپنی ہے اس میں جمیل قریشی سینئر نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ چالیس سال تک وہ اس کمپنی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جمیل الدین قریشی نے کلّی طور پر اپنے آپ کو جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا اور بھرپور طریقے سے تحریک کا کام کیا۔ امیر ضلع محمد اسلام صاحب نے انھیں امیر زون لانڈھی مقرر کیا۔ پھر ضلع میں کارکنان کی اور نئے ارکان کی تربیت اور تنظیم کی بہتری کے لیے کام کرتے رہے۔ عصر کی نماز کے بعد ہی دفتر پہنچ جاتے اور رات گئے تک دفتر میں موجود رہتے۔ ان کی باتیں، قہقہے، ہنسی مذاق سب اب ایک خواب ساہوگیا ہے۔ اندازہ نہیں تھا کہ ایک زندہ دل انسان اچانک سب کو روتا چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ دے گا اور ایک ایسے سفر پر روانہ ہوجائے گا جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں رہتی۔
جمیل الدین قریشی کا لانڈھی میں بہت بڑا حلقۂ احباب تھا۔ شہید مرزا لقمان بیگ، شہید محمد اسلم مجاہد، عبدالجمیل خان، محمد اسلام، یونس خان، صغیرالدین خان، نصیرالدین، سلطان احمد نجمی، عبدالسلام مرحوم، تسنیم صدیقی مرحوم، انجینئر عبدالقیوم مرحوم، عبدالستار شیخ مرحوم، شاہد انصاری، عاشق علی خان، عارف رحمن، اسلم شیخ، نثاراحمد ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور وہ ان سب سے متعلقہ شعبوں ودیگر امور پر مشاورت وگفتگو بھی کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ بھی ان کی بڑی نیاز مندی تھی۔ حافظ صاحب ان کی بڑی عزت واحترام کیا کرتے تھے۔ دفتر جماعت میں معاون دفتر قطب بھائی، ڈرائیور فاروق، بابر، سلمان، معاون دفتر سعد اور کمپیوٹر آپریٹر حنظلہ کے ساتھ بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ انھوں نے اپنے قریبی دوست نصیرالدین صاحب کے صاحب زادوں انیس نصیر اور اکرم نصیر اور ایک اور تحریکی دوست سابق نائب امیر ضلع سلطان نجمی صاحب کے صاحبزادے سلمان نجمی کے ساتھ اپنی بیٹیوںکے رشتے بھی کیے اوریہ تحریکی دوستیاںرشتے داری میں بدل ڈالی اور ان دونوں خاندانوں نے بھی تحریک کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کیا۔
جمیل الدین قریشی جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ مسجد قریشاں کے سیکرٹری اور نصیرالدین مسجد کے صدر منتخب ہوئے۔ جمیل قریشی اور نصیر الدین صاحب کا پورا خاندان اس مسجد کے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں معتکفین کی خدمت کرنا ان کا شعار ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ ان کے خاندان کا ایک ایک فرد عصرکی نماز، افطار اور سحری تک مسجد میں موجود رہتا۔ افطاری، تراویح، تراویح کے بعد کھانا‘ درس و تدریس کے پروگرامات اور پھر سحری ایسے ذوق اور شوق کے ساتھ کیے جاتے ہیں کہ بہار مدینہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
یہ سب جمیل الدین قریشی کی تربیت خلوص ہی تھا کہ آج یہ دونوں خاندان مسجد اور ان کے نمازیوں کی خدمت کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ شہید مرزا لقمان بیگ کی شہادت کے وقت مسجد قریشاں میں کچھ بیرونی عناصر نے شرپسندی کرنے کی کوشش کی لیکن جمیل الدین قریشی نے شہید محمد اسلم مجاہد کی مدد سے اسے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد بھرپور طریقے سے مسجد کمیٹی کو سرگرم کیا گیا اور تاحال کمیٹی ان کی اور نصیرالدین صاحب کی سربراہی میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ ان شا اللہ جمیل الدین قریشی کے ہاتھوں کا لگا پودا اور زیادہ تر و تازہ ہوگا۔ جمیل الدین قریشی نے کبھی کسی عہدے کی طلب نہیں کی وہ خود کو جماعت اسلامی کا خادم کہلانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے متعدد مرتبہ امیر ضلع عبدالجمیل خان کو کہا کہ آپ کو مجھ سے جو کام لینا ہے لیں‘ میں چوبیس گھنٹے حاضر ہوں اور میں جماعت اسلامی کا خادم ہوں لیکن مجھے تنظیمی طور پر کوئی عہدہ نہ دیں اور آخری دم تک شعبہ تنظیم اور تربیت کے لیے کام کر تے رہے‘ انتقال سے ایک روز قبل نئی تنظیم میں بھی ان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ حسب معمول دفتر آئے، جسارت اخبار کا مطالعہ کیا، شکیل بھائی ناظم روزگار سے طویل نشست کی‘ بعد میں امیر ضلع سے نئے تنظیمی سیٹ اَپ پر مشاورت کی۔ کس کوخبر تھی کہ یہ گوہرِ نایاب اب چند گھنٹوں کا ہی مہمان ہے۔
جمیل الدین قریشی نے پوری زندگی رزق حلال کمایا اور بڑی فراخ دلی سے تحریک پر خرچ بھی کیا۔ لانڈھی کورنگی کے کئی گھرانوں کی وہ کفالت کرتے تھے‘ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری‘ اپنے بچوں کی بہترین تربیت بھی کی اور انھیں تمام آسائشیں بھی فراہم کیں۔ تمام لڑکوں کے لیے الگ الگ مکانات خرید کردیے۔
کورنگی 33D میں ضمنی انتخاب ہو رہا تھا‘ اس وقت ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا انہوں نے 33Dجیسے ایم کیو ایم کے گڑھ میں ان کے سیکٹر آفس کے پاس بلاخوف و خطر جلسے کیے۔ وہ ضمنی انتخاب انجینئر عبدالقیوم نے بھاری اکثریت کے ساتھ جیت لیا۔ اس میں شہید اسلم مجاہد، عبدالجمیل کے ساتھ ساتھ جمیل قریشی کی محنتوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ شہید محمد اسلم مجاہد کے کی NA-255 کی انتخابی مہم میں بھی جمیل قریشی نے بہت کام کیا اور گلی گلی کارنر مٹینگ کی اور بھرپور مہم چلائی۔ ان کی اردو بہت اچھی تھی‘ معیاری گفتگو کرتے، تقریر میںاشعار اور ضرب المثل کا استعمال کرتے۔ ان کی گفتگو سے لوگ محظوظ ہوتے تھے، انھیں جلسوں کو گرمانے کا ہنر آتا تھا، وہ طنزیہ اور دل چسپ گفتگو کرنے کا ہنر جانتے تھے۔
جمیل قریشی پروگرام آرگنائز کرنے کے بھی بڑے ماہر مانے جاتے تھے اور بلاشبہ ان کا شمار بہترین منتظم میں ہوتا تھا۔ انھیں جب لانڈھی کا امیر بنایا گیا انھوں نے لانڈھی سے خوف اور دہشت کی فضا کو ختم کیا۔ شہید محمد اسلم مجاہد کی شہادت کے بعد لانڈھی میں تحریک کا کام کرنا آسان نہیں تھا لیکن جمیل قریشی نے مسلسل پروگرامات کر کے کارکنان کو حوصلہ دیا۔ ان کا آخری خطاب حقوق کراچی کنونشن لانڈھی میں ہوا جہاں انھوں نے کراچی کے عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں پر بھرپور آواز اٹھائی۔ ابھی میں مرحوم جمیل الدین قریشی پر مضمون لکھ رہا تھاکہ ماسٹر ماجد غنی اور کورنگی وسطی کے رکن مشتاق احمد خان کے انتقال کی خبر بھی آگئی۔ ماسٹر ماجد غنی جو کہ چلتا پھرتا جماعت اسلامی تھا‘ لانڈھی کورنگی کی ایک ایک دکان پر جماعت اسلامی کے لیے چندہ جمع کرتا اور ہر ماہ جماعت اسلامی کے بیت المال میں ہزاروں روپے جمع کراتا، کورنگی‘ لانڈھی کا ہر دکان دار انھیں جانتا اور دل سے محبت کرتا اور انھیں بلا کر جماعت اسلامی کے لیے فنڈ دیتا۔ آج دل گرفتہ ہے، اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ جمیل قریشی کے انتقال کے بعد ہی ماسٹر ماجد غنی، مشتاق احمد خان کی وفات نے غم زدہ کر دیا۔ جمیل قریشی ہنستے مسکراتے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کے اہل خانہ نے دوپہر کے کھانے کے لیے دستر خوان سجایا لیکن کسے خبر تھی کہ ان کا دستر خوان تو جنت میں سجا ہوا ہے۔ وقتِ مقررہ پر جمیل قریشی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ اے اللہ تو اپنے اس بندے سے راضی ہوجا جس نے اپنی پوری زندگی تیرے دین کی جدوجہد اور اسلامی انقلاب کو برپا کرنے میں لگا دی‘ آمین۔

حصہ