۔2020ءنئے سال کی صبح

سال کی آخری شب گزرنے والی ہے‘ ہر سال کی طرح وہ اب بھی یخ بستہ موسم میں کھڑکی کھولے سڑک پر جلتی بجھتی روشنیوں کا نظارہ کر رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فائرنگ کی آواز سے اس کے جسم میں تھرتھراہٹ سی پیدا ہو جاتی۔ زندگی کے یہ شب و روز اس کے لیے ہمیشہ کی طرح ویران تھے مگر آج کی شب اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ شب اس کی زندگی کی آخری شب ہو۔ اپنی بے مقصد زندگی کو کارآمد بنانے کی آخری کوشش گزشتہ سال بھی وہ اپنا احتساب کرتے کرتے تھک گئی تھی مگر زندگی کی ویرانی کم نہ ہوئی‘ وہ کہہ رہی تھی یا اللہ تو نے تو جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تھا مگر یہ انسان تو تیری عبادت سے منہ موڑ کر شیطان کے راستے پر چل نکلے ہیں‘ یا اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے دنیاکی کسی مخلوق چیز کو اپنا مطمع نظر نہیں بنایا‘ میں نے ہمیشہ تجھ سے محبت کی ہے اور تیری کتاب پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے‘ تو جانتا ہے میں اچھی خوراک‘ اچھا لباس اور اچھی چیزوں سے حتیٰ الامکان دور رہتی ہوں‘ تو یہ بھی جانتا ہے کہ میں نے برائیوں سے نفرت اور نیکی سے محبت کی ہے کیوں کہ میںقبر کے گڑھے میں جب کوئی ساتھ نہ دے گا انہی نیکیوں کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ حرام اور زائد خواہشات سے اپنے کو روکے رکھا۔ صرف تیرے فرمان کے خوف سے کہ ’’جو شخص دنیا میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو حرام خواہش سے روکا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا۔‘‘ میں نے اپنی خواہشات کو ہمیشہ تیرے اس حکم کی وجہ سے روکے رکھا۔
میں نے دنیا کو دیکھا کہ ہر شخص کے نزدیک جو چیز زیادہ قیمتی ہوتی ہے وہ اس کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ میں نے تیری ہدایت پر کہ ’’جو کچھ تمہارے پاس دنیا میں ہے ختم ہو جائے گا‘ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ اس فرمان کے مطابق وہ چیز جس کو میرے نفس نے زیادہ پسند کیا اور اس کو اللہ کے پاس بھیج دی تاکہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔
یا اللہ میں نے اپنی زندگی کے بیشتر سال دنیا میں مال‘ عزت‘ بڑائی‘ خاندان‘ نسب اور فخر پر جھگڑتے دیکھا۔ ہر شخص کو انہی چیزوں پر غرور کرکے اپنے آپ کو نمایاں کرتے دیکھا۔ میں نے کوشش کی تیرے ارشاد کے مطابق کہ ’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘ اسی بنا پر میں نے اپنے نفس کو تیرا غلام بنانے کی کوشش کی۔ یا اللہ میں نے زندگی کا بیشتر حصہ لوگوں کے درمیان گزارا۔ سسرال ہو یا میکہ‘ سب کو ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے‘ عیب جوئی‘ بدگمانی کرتے پایا اور سب حسد میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے تھے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اپنے آپ کو بلند اور ارفع ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کی غیبت کرتے تھے۔ میں نے تیرا ارشاد پڑھا کہ ’’دنیوی زندگی میں ہم نے ان کی روزی تقسیم کر رکھی ہے اور اس تقسیم میں ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ (اس کی وجہ سے) ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔ (سب کے سب ایک ہی سطح اور ایک ہی نمونے کے ہو جائیں تو پھر کوئی کسی کا کام کیوں کرے گا‘ کیوں نوکری کرے گا اور اس سے دنیا کا نظام خراب ہی ہو جائے گا۔) میں نے تیرے اس ارشاد کے مطابق سب سے حسد کرنا چھوڑ دیا۔ ساری دنیا سے بے تعلقی اختیار کر لی کیوں کہ جب روزی اللہ ہی کے اختیار میں ہے تو وہ جس کو چاہے جتنا دے‘ ہم جلنے کڑھنے والے کون ہوتے ہیں۔ میری کسی سے کوئی عداوت نہیں کیوں کہ میں نے سمجھ لیا کہ حسد ایک آگ ہے جو بھڑکتی ہے تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو جلاتی ہے۔ میں نے یہ بھی جان لیا کہ کسی کے پاس مال کم یا زیادہ ہونے میں ان کی اپنی کوئی خوبی نہیں‘ یہ تو اللہ کی دین ہے جس کو جتنا چاہے دے۔
اب مجھے غصہ بھی نہیں آتا۔ میں نے اپنے غصے اور چڑچڑے پن کو تیرے اس فرمان پر ختم کیا کہ ’’شیطان بے شک تمہارا دشمن ہے پس اس کے ساتھ دشمنی ہی رکھو (اس کو دوست نہ بنائو) پس میں نے خود اپنی دشمنی کے لیے اسی کو چن لیا۔ اب میں اس سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں نے خود بھی ساری زندگی روٹی کی طلب کی‘ اسی کی وجہ سے زندگی میں بھاگ دوڑ رہی‘ نوکری میں بے شمار مسائل کا سامنا کرتی رہی مگر میں نے جب تیرا یہ فرمان پڑھا ’’اور کوئی جاندار زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو۔‘‘ میں نے اپنا احتساب کیا تو دیکھا کہ میں بھی تو انہی زمین پر چلنے والوں میں سے ایک ہوں‘ جن کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ پس میں نے اپنے آپ کو اس بے جا کوشش سے الگ کر لیا جس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے اوقات میں مشغول رہتی تھی۔ اب میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں ان چیزوں میں مشغول رہوں جو میرے مالک نے میرے لیے مقرر کیے ہیں۔ میں کیوں ان چیزوں میں اپنا وقت اور طاقت ضائع کروں جو میرے ذمے نہیں۔ میرے مالک میں جب اپنا کڑا احتساب کرتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ ساری مخلوق کا اعتماد اور بھروسہ کسی خاص ایسی چیز پر ہے جو خود مخلوق پر ہے خالق پر اعتماد کم ہے۔ کوئی اپنی صلاحیت پر بھروسہ کرتا ہے‘ کوئی اپنی جائداد اور تجارت پر بھروسہ کرتا ہے اور کوئی اپنی صحت اور تن درستی پر۔ مگر جب میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئی اور اللہ کے اس فرمان کو پڑھا کہ ’’جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘ تو میں نے اس پر ہر اس چیز پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا جو اللہ تعالیٰ کی عنایات سے مجھے حاصل ہوئی تھیں اور جن پر میں بڑے بول بولتی تھی۔ یہ زندگی بھی تیری امانت ہے‘ جسم و جان کی طاقت‘ روپیہ پیسہ‘ مال و اسباب بھی تیرا ہی عطا کیا ہوا ہے۔ پھر ان پر بھروسہ کرکے تیری عبادت سے منہ موڑنا میری ناشکری ہے۔ یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یا اللہ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم تیرے عبادت گزار بنیں اور تیرے رسولؐ کی سیرت پر عمل کرسکیں۔ ہمیں ویسا ہی بنا دے جیسا کہ تو ہمیں بنانا چاہتا ہے‘ ہمیں اپنے فرماں برداروں میں شامل کر‘ ہمیں دنیا کی ہوس اور حرص سے محفوظ رکھ‘ ہم سب ایک مضبوط اور متحد قوم بن سکیں‘ ہمیں اعتدال پسند میانہ رو بنا دے‘ ہمیں اخلاقی برائیوں سے محفوظ کر‘ ہمیں ہر دن اپنی اطاعت پر قائم رکھ‘ ہمیں بروں کی برائی سے محفوظ کر دے‘ ہماری دعائوں کو قبول فرما۔
وہ کھڑکی میں کھڑی سسک رہی تھی۔ شب کا آخری پہر گزرنے والا تھا‘ وہی پہر جب اللہ اپنے بندوں کو پکارتا ہے ’’کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے‘‘ اس نے کھڑکی بند کرکے پردہ برابر کیا اور وضو کے لیے غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔ تہجد پڑھ کر اپنے مالک سے پاکستان کے لیے‘ امت مسلمہ کے لیے دعائیں کرتی رہی۔ شاید ان گناہ گار ہونٹوں سے کوئی دعا مغفرت کا سبب بن جائے۔ مانگنا بندے کا کام ہے قبول کرنا نہ کرنا معبود کا کام ہے۔ اس نے اپنا سر سجدے میں جھکا دیا۔ میرے معبود میری بے چینی دور کر دے‘ میری ویرانی کم کر دے‘ میں نے گناہوں میں زندگی بسر کی ہے شاید تیری رحمت میرے گناہوں سے بہت بڑی ہے‘ مجھے اور میری قوم کو معاف فرما دے۔ انہیں ایسا صالح رہبر عطا فرما جو تیری اطاعت خود بھی کرے اور قوم کو اطاعت پر مامور کر دے۔ یا اللہ کاش ایسا ہو جائے… کاش۔