آرائش

264

خواتین اپنے لباس اور آرائش کی چیزوں کے حوالے سے بہت حساس ہوتی ہیں۔ ایک سوٹ بھی سلوانا ہو تو میچنگ لیس‘ پائپنگ‘ بٹن‘ پیکو اور نہ جانے کون کون سے لوازمات ضروری فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سب ناپسندیدہ نہیں‘ بس زندگی کی ضروریات اور خواہشات کے درمیان توازن بہت ضروری ہے۔پچھلے وقتوں میں لباس کو ایک دوسرے سے مقابلے کا عنوان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ کسی بھی بازار کی کسی بھی دکان سے پسند کرکے کپڑے خرید لیے جاتے تھے‘ نہ ہی نت نئے برانڈز کی اتنی فراوانی تھی کہ انسان بازار پہنچ کر فیصلہ کرنے میں ہلکان ہوجائے۔ لباس کے ذریعے کسی کی حیثیت کا تعین کرنا تو آج کے زمانے کا رواج ہے۔ بس پھر معاشی ذہنیت رکھنے والے اس میدان میں خوب کاروبار چمکانے کے گُر لے کر نازل ہوئے۔ کپڑوںکی دُنیا میں بڑے بڑے نام اور ڈیزائنرز کی چاندی ہوگئی…اچھی بات ہے۔ صنعتی ترقی کی ایک نئی جہت کا در کھلا… مگر ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی مصنوعات کی غیر معمولی تشہیر کی دوڑ میں اقدار کو ہی نگلنا شروع کردیا گیا‘ یہ بات حد درجہ قابل اعتراض ہے۔لباس کے اوّلین مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اشتہارات بنانا کوئی مشکل کام تو نہیں۔ اگر مغربی معاشرے ہماری خواتین کے مشرقی لباس اور طرز زندگی پر معترض ہیں تو ہمارے ڈیزائنرز اور برانڈ میکرز ہمیں انہی مغربی معاشروں جیسے لباس و انداز دکھانے پر کیوں مصر ہیں۔ پاکستان میں رہنے‘ کمانے اور کاروبار بڑھانے والے انڈسٹریلسٹ‘ فیبرک میکرز اور ڈریس ڈیزائنرز مغرب کا فحش طرزِ زندگی اور لباس و آرائش کے طریقے یہاں کیوں متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ مختلف ماڈلز اور اداکاروں کے فحش فوٹو شوٹس کے ذریعے لباس بنانے والے لباس کی بنیادی تعریف سے ہی انحراف کررہے ہیں۔ جس قدر جدت اور لباس کی خوب صورت ترین روایات اور اقسام ہمارے پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں جو کہ مشرقی خواتین کے لیے بہترین ہیں‘ وہ کسی بھی دوسرے معاشرے میں موجود نہیں چاہے وہ جتنا بھی فیشن اور ماڈرن ازم کے نام پر کم لباسی اور عریانیت کا سہارا لیں۔ لباس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ وہ جسم کو مکمل ڈھانپنے والا‘ زیب و زینت سے مزین‘ معاشرے اور ثقافت کا آئینہ دار اور تحفظ فراہم کرنے والا ہو۔ اشرف المخلوق کو لباس کا مکلف بنایا گیا، بے لباسی تو جانوروں کی صفت ہے کہ ان کو اس تکلف سے مبرا رکھاگیا‘ ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور ڈیزائنر طبقے کو ایڈورٹائزمنٹ پالیسیز پر نظرثانی کرنا ہوگی ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی تقلید کرتے کرتے ہم اپنا آپ بھول جائیں ۔

حصہ