دسمبر: یخ بستہ موسم اور دل گرفتہ ستم کا مہینہ

200

(بنت ِ پروفیسر عبدالغفور احمد)
دسمبر کے آخری عشرے میں بیٹھی میں سوچوں کے گہرے پانیوںمیں غوطہ زن اور یادوں کے بلند آسمانوں میں محو پرواز ہوں۔ لبوں پر شکرِ مسلسل اور آنکھوں میں جوئے خوں رواں ہے۔ دل کی دھرکن اور تیز اور قلم کی رفتار سست ہے۔ عمرِ گزشتہ کی یادیں لمحہ لمحہ اور محبتوں کی دریا قطرہ قطرہ میرے وجود کو روشن اور سیراب کر رہے ہیں۔ دسمبر سال کا آخری مہینہ‘ اس کے ساتھ ہی رواں سال کا باب مکمل ہو کے بند ہو جائے گا۔ اس ماہ کی 26 تاریخ کو آج سے 8 سال قبل میری زندگی کا سب سے اہم باب بھی مکمل ہوکے بند ہو گیا تھا۔ میرے اس روشن باب کا عنوان تھا ’’باپ‘‘ باپ کہ جس کا باب بیٹی کے لیے کبھی بند نہیں ہوتا مگر باپ اپنی تمام تر ذمے داریاں پوری کرکے اس باب کو شان دار طریقے سے مکمل کرکے بند کر دیتا ہے۔ ’’باپ‘‘ وہ کوزہ ہے جس میں سات سمندر سمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نسبت‘ عزت‘ سخاوت‘ حفاظت‘ محبت‘ شفقت اور تربیت۔ اولاد کے لیے ہر سمندر کا ایک ایک قطرہ آبِ حیات اور ایک ایک بوند سرمایہ حیات۔
میرا باپ‘ میرے ابا جی میرے لیے باعثِ افتخار‘ نسبت، قابل فخر عزت، بے نظیر سخاوت‘ مکمل حفاظت، بے لوث محبت‘ مجسم شفقت اور اعلیٰ ترین تربیت کا انمول نمونہ تھے۔ ابا جی کے حوالے سے ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے سینہ پھٹ جاتا ہے اور آنکھوں سے خون ٹپکنے لگتا ہے۔ غم و اندوہ کی اس انتہائی کیفیت میں ایک ابرِ کرم مجھ پہ سایہ فگن ہو کے پیار کی شبنم سے سینہ کی آگ اور آنکھوں کی جلن کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ یہ ابرِ کرم وہی تو ہے ہے جس نے میری پہلی سانس سے اپنی آخری سانس تک میری ذت کی پدرانہ شفقت اور دوستانہ رفاقت سے آبیاری کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابا جی میری زندگی کی ابتدائی ایام میں میری معمولی بیماری پہ کس شفقت سے مجھے حوصلہ دیتے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی غیر معمولی بیماری پہ کس ہمت سے مجھے تسلی دیتے۔ دونوں موقع پر ان کا واحد مقصد میرے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہوتا۔ ابا جی نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی اولاد کو لامحدود آسائشیں فراہم کیں اور اس کی واحد وجہ ان کی وہ تربیت تھی جس نے ان کی اولاد میں دنیاوی آسائشوں کی چاہت پیدا ہی نہیں ہونے دی۔ ابا جی قناعت کا بے مث استعارہ تھے اور اپنی اس دولت سے انہوں نے اپنی زندگی کے ستاروں کو رخشندہ بنا دیا۔ صبر‘ تحمل‘ برداشت‘ صلۂ رحمی‘ ایثار‘ ہمددی‘ اخوت‘ محبت‘ چاہت ابا جی کی زندگی کے عناصر تھے۔ انہوں نے اپنے ترکہ میں یہی کچھ چھوڑا اور اپنی اولادکو مالا مال کر دیا۔ آج اسی سرمائے کے سہارے ان کی اولاد آسودہ حال ہے۔
ابا جی کی زندگی جہدِ مسلسل اور جہاد مکمل سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو رہے۔ آپ نے اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی بہتری کے لیے تمام عمر جدوجہد کی اور معاشرے میں سرگرم طاغوتی قوتوں کے خلاف تاحیات سرگرم جہاد رہے۔ آپ نے تمام عمر بھرپور سیاست کی مگر اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اقتدار کے ایوانوں سے زنداں کے سلاخوں تک نہ آپ کی زبان پھسلی نہ آپ کے قدم پھسلے۔ نہ دولت کی چکا چوند سے آپ کی آنکھیں چندھائیں‘ نہ دہشت کی بربریت سے آپ کے ڈگمگائے‘ نہ انتخابی سیاست میں ناکامی پہ دل بوجھل ہوا نہ انتظامی سیاست کی نیرنگی آنکھوں سے مقصد کو اوجھل کر سکی۔ عملی سیاست میں جس مقصد کے حصول کو اپنی منزل بنا کے سفر شروع کیا تھا آخری وقت تک اسی راہ پہ گامزن رہے۔ قومی اسمبلی سے سینیٹ تک اپنے نکتہ ٔ نظر کو پورے اعتماد اور بھرپور قوت کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ کی اُن کی آواز کو سنا بھی گیا اور سمجھا بھی گیا۔ آئی جے آئی کا اتہاد ہو یا پی این اے کی تحریک کلیدی ذمہ داریوں کا بوجھ ابا جی کے کندھوں پہ ہی ڈالا گیا۔ آپ نے اپنی ہر ذمے داری کو احسن طریقے سے پورا کیا۔ بزم سیاست میں جماعت اسلامی کا کٹر سے کٹر دشمن بھی ابا جی کا صدقِ دل سے احترام کرتا تھا‘ کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ابا جی نے ملک کی سیاست میں جو مقامِ عزت حاصل کیا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ دورِ حاضر کے سیاسی قائدین سے میری درخواست ہے کہ وہ شوق سے میرے ابا جی کے افکار نہ اپنائیں مگر کم از کم ان کے کردار کو ہی اپنا لیں۔
ابا جی جتنے سرگرم ملکی معاملات میں تھے‘ اتنے ہی متحرک گھریلو ریاست میں بھی تھے۔ بظاہر اس ریاست کی حکمران امی تھی‘ مگر امی جس آئین کے تحت حکمرانی کرتی تھیں اس کا نام تھا ’’عبدالغفور احمد۔‘‘ بچوں کی تعلیم و تربیت سے شادی بیاہ تک ہر معاملے میں ابا جی مکمل دل چسپی اور بھرپور حصہ لیتے۔ ان کا اصول تھا کہ کسی کے کام میں دخل اندازی نہیں کرو اور اپنی ذمے داری کسی دوسرے پر نہیں ڈالو۔ میرے خیال میں ہمارے گھر کا پُرسکون ماحول اسی وجہ سے تھا کہ ابا جی اندرونی معاملات میں امی کو مکمل آزادی دی ہوئی تھی اور بیرونی ذمے داریوں سے امی کو مکمل آزاد کیا ہوا تھا۔ میں نے کبھی امی اور ابا جی کو روایتی میاں بیوی کی طرح لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ ہمارے گھر میں کبھی چیخ و پکار نہیں سنی گئی۔ ابا جی نے کبھی بھی نہ بیٹوں کو مارا نہ کبھی بیٹیوں کو ڈانٹا۔ بچوں کی تربیت اس طرح کی کہ نہ تو احساسِ محرومی ہوا نہ احساسِ برتری۔ ایک کاروباری ادارے میں ابا جی اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ گھر میں الحمدللہ ضرورت کی ہر چیز میسر تھے۔ پورے محلے میں ایک دو ہی گھروں میں گاڑی ہوا کرتی تھی ان میں سے ایک گھر ہمارا بھی تھا۔ ہم اسکول اپنی گاڑی سے جاتے تھے مگر کبھی احساس نہیں ہوا کہ صرف ہمارے پاس گاڑی ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم اسکول کالج پیدل جاتے تھے۔ اُس وقت بھی احساس نہیں ہوا کہ ہمارے پاس اب گاڑی نہیں ہے۔ اباجی قومی اسمبلی کے رکن بنے‘ وفاقی وزیر رہے‘ مشیر رہے مگر ہمارے معاملات اور رہن سہن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیوں کہ ہم نے نہ تو کبھی خود رکن قومی اسمبلی کی اولاد سمجھا اور نہ ہی وفاقی وزیر کی کیوں کہ ہم ایک بااصول‘ باکردار‘ محنتی اور ایماندار شخص کی اولاد ہیں اور آج بھی ہمیں اپنے والد کی ان اوصاف پر فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہم آج بھی زندگی انہی کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کے مطابق گزار رہے ہیں‘ ہم اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہیں مگر ابا جی ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ ہم آپ کی اولاد تو بن گئے مگر آپ جیسے نہیں بن سکے۔

حصہ