خیرالدین باربروسا

615

خیرالدین پاشا باربروسا دنیا کے مشہور امیر البحروں میں سے تھا۔ حکومت عثمانیہ کی ملازمت سے پہلے وہ عیسائی جہازوں کو لوٹا کرتا تھا۔ اپنی داڑھی میں مہندی لگایا کرتا تھا۔ پرتگالی زبان میں سرخ داڑھی والے کو ’’بربوزا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ترقی زبان میں یہ لفظ ’’باربروسا‘‘ ہو گیا اور اس کے نام کا جزو بن گیا۔ 1533ء میں اسے ترکی بحری بیڑے کا امیرالبحر بنایا گیا۔ امیر البحر بننے کے اگلے ہی سال اس نے تیونس فتح کر لیا۔ 1534ء سے 1546ء تک خیرالدین نے بحیرۂ روم میں متعدد لڑائیوں میں حصہ لیا اور سب میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے الجزائر فتح کرکے اسے سلطنت ِ عثمانیہ میں شامل کر دیا۔ اس زمانے میں عیسائی دنیا کا سب سے مشہور امیر البحر انڈریا ڈوریا تھا جسے باربروسا نے متعدد بار شرم ناک شکست دی۔ اس نے اپنے زمانے میں ترکی کو دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت بنا دیا۔
آج سے کئی سو سال پہلے ملک ترکی اور اسپین کے درمیان سمندر پر ایک بحری قزاق کی حکمرانی تھی۔ وہ لمبا تڑنگا‘ قوی ہیکل‘ شہ زور جوان تھا۔ تجارتی جہازوں والے اس کا نام سن کر تھر تھر کانپنے لگتے۔ ایک دفعہ تجارتی بیڑہ لوٹنے کے بعد ایک ساحلی بستی میں آیا تو اس کی شہرت اس سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں چھپ گئے‘ مائوں نی اپنے بچوں کو سینوں سے چمٹا لیا اور دکان داروں کو اپنی دکانیں بند کرنے کا بھی ہوش نہ رہا۔ گلیاں اور بازار سنسان ہوگئے۔
شہ روز جوان کے پہلو میں ایک بہت وزنی تلوار تھی۔ وہ اور اس کے ساتھی لوگوں کو دہشت زدہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے کہ اچانک ایک بوڑھی عورت ان کا راستہ روک کر کھری ہو گئی۔ ڈاکو اس کمزور سی بڑھیا کا حوصلہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’شرم سے ڈوب مرو شیطان کے چیلو‘ کیا تمہیں کسی کا خوف نہیں۔‘‘ بڑھیا نے گرج کر کہا۔
’’خوف…؟ احمق بڑھیا تو شاید جانتی نہیں کہ میں کون ہوں۔‘‘ ڈاکوئوں کے سردار نے تلوار بے نیام کرتے ہوئے کہا۔
’’خوب جانتی ہوں‘ تو ایک باغی غلام ہے۔‘‘ بڑھیا نے بے خوفی سے کہا۔
’’میں اور غلام؟ کون ہے مجھے غلامی میںجکڑنے والا؟‘‘ سردار اور اس کے ساتھی بڑھیا کے جرأت پر دنگ رہ گئے۔
’’تو باغی ہے اللہ کا اور غلام ہے شیطان کا اور اپنی خواہشات کا۔ کتنا خوب صورت نام ہے تیرا ’’خیرالدین باربروسا‘‘ تو اپنے نام کی لاج بھی نہ رکھ سکا۔ کمزوروں کو لوٹنا تو کوئی دلیری نہیں یہ ظلم ہے۔ ارے ظالم یہی تلوار اگر تو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے استعمال کرتا تو تیری عاقبت سنور جاتی اور دنیا بھی تجھے نیک نام سے یاد کرتی۔‘‘ بوڑھی عورت کے یہ الفاظ تیر بن کر باربروسا کے دل میں اتر گئے۔ اس نے تلوار نیام میں ڈالی اور ساتھیوں سمیت واپس اپنے جہاز پر آگیا۔
بظاہر وہ خاموش کھڑا تھا مگر اس کے اندر ایک طوفان بپا تھا۔ آخر اس نے اپنے اندر کی برائی کو شکست دی اور اپنی باقی زندگی اللہ کی راہ میں صرف کرنے کا تہیہ کر لیا۔ باربروسا نے اپنے ساتھیوں کو خیر باد کہا اور ترکی کی بحری فوج میں شامل ہو گیا۔ بحری جنگ کا وہ ماہر تو تھا ہی جلد ہی سلطنت عثمانیہ (ترکی) کی بحری فوج کا امیر البحر بن گیا۔ اس زمانے میں اسپین پر ایک شر پسند عیسائی بادشاہ حکمران تھا جسے اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ عیسائی ہمیشہ سے اسلام کے دشمن رہے ہیں۔ عیسائی چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح ترکی کی اسلامی حکومت کو ختم کر دیا جائے۔ ان دنوں ترکی کو سلطنت ِعثمانیہ کہا جاتا تھا۔
اپنی دولت اور طاقت کے نشے میں اسپین کے عیسائی بادشاہ نے ترکی کے سلطان سلیمان کو پیغام بھیجا کہ ہماری اطاعت قبول کرو‘ ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ سلیمان یہ سن کر غضب ناک ہو گیا اس کی طرف سے باربروسا نے مختصر سا جواب دیا ’’جائو اپنے مغرور بادشاہ سے کہہ دو ہم کھلے سمندر میں اس کا انتظار کریں گے۔‘‘ عیسائی پیام بر منہ توڑ جواب لے کر واپس چلا گیا۔ سلطان سلیمان نے دربار برخواست کیا اور باربروسا کے ساتھ قلعے کی فصیل پر آگیا اور عیسائی سفیر کے واپس جاتے ہوئے جہاز کی جانب اشارہ کرکے مخاطب ہوا ’’اسی سمندر میں اسلام کی فتح اور مشرکوں کو عبرت ناک شکست ہوگی۔‘‘
’’ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ باربروسا نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
اس دو ٹوک جواب سے اسپین کے بادشاہ کو بھرے دربار میں ذلت اٹھانا پڑی۔ وہ غصے سے آگ بگوالہ ہو گیا اور اپنے ہواس کھو بیٹھا۔ کوئی مناسب منصوبہ بندی کیے بغیر اس نے ایک بہت بڑا بحری بیڑہ ترکی کی جانب روانہ کر دیا تاکہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکے۔
باربروسا سمندری جنگوں کا ماہر تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ دشمن پر کب اور کہاں سے کاری ضرب لگائی جائے۔
عیسائی بحری بیڑے کے روانہ ہونے کی اطلاع پاتے ہی باربروسا نے اپنے چھوٹے اور تیزی سے حرکت کرنے والے جہازوں کا ایک منظم بیڑہ سمندری گزرگاہ خلیج باسفورس کے دہانے پر پہنچا دیا اور انہیں آس پاس دور دور تک پھیلی ہوئی چٹانوں میں یوں چھپا دیا کہ دشمن کو اس کی جھلک بھی دکھائی نہ دے۔ بالکل اسی طرح جیسے شکاری وحشی درندے کو گھیر کر اس جگہ لاتے ہیں جہاں اسے با آسانی ہلاک کیا جاسکے۔
اسپین کے بڑے بڑے جہاز مست ہاتھیوں کی طرح بڑھتے چلے آرہے تھے۔ ہر اوّل دستے کی جنگی جہازوں کو دور دور تک کہیں بھی مزاحمت کے آثار نظر نہ آئے۔ سورج غروب ہو رہا تھا‘ آسمان پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔ عیسائی خوش تھے۔ سمجھ رہے تھے کہ شاید مسلمانوں میں مقابلے کی ہمت نہیں‘ اسی لیے ڈر کے بھگ گئے ہیں۔ اچانک جلتے ہوئے تیروں اور آتش پتھروں کی بارش شروع ہوگئی۔
’’یہ کیا ہو گیا؟‘‘ عیسائی بیڑے کا سردار گھبرا کر عرشے پر آگیا۔ آسمان آگ کے گولوں اور تیروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ چٹانوں کے پیچھے سے نکل کر‘ باربروسا عقاب کی سی تیزی سے دشمن کے سب سے بڑے جہاز پر جھپٹ پڑا‘ جس کے مستول پر اسپین کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ باربروسا دشمن کے تیروں اور نیزوں کی بوچھاڑ سے بچتا ہوا ناقابل یقین تیزی سے عیسائی امیر البحر کے سامنے پہنچ گیا۔ عیسائی سردار نے جان بچانے کے لیے تلوار سونت لی‘ باربروسا نے اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر تلوار کے دو جچے تلے وار کرکے اسے جہنم واصل کر دیا اور مستول میں آگ لگا دی۔ اسپین کا پرچم مستول سمیت جل کر راکھ ہو گیا۔ اس کے بعد دشمن کے پائوں اکھڑ گئے اس کے آدھے سے زیادہ جہاز یا تو سمندر میں غرق ہو چکے تھے یا آگ میں جل رہے تھے۔ فاتح باربروسا اپنے بہادروں سمیت اللہ کے حضور سجدے میں گر گیا۔
(جاری ہے)

حصہ