سود

264

حکومتوں کے ملکی قرضے:
اب اُن قرضوں کو لیجیے جو حکومتیں ضروریات اور مصالح کے لیے خود اپنے ملک کے لوگوں سے لیتی ہیں‘ ان میں سے ایک قسم وہ ہے جو غیر نفع آور کاموں کے لیے جاتی ہے اور دوسری قسم وہ جو نفع آور کاموں لگائی جاتی ہے۔
پہلی قسم کے قرضوں پر سود اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہی معنی رکھتا ہے جو اہلِ حاجت افراد کے ذاتی قرضوں پر سود کی نوعیت ہے بلکہ درحقیقت یہ اس سے بھی بدتر چیز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص جس کو ایک معاشرے نے جنم دیا‘ پالا‘ پوسا‘ اس قابل بنایا کہ وہ کچھ کما سکے‘ خطرات سے اس کی حفاظت کی‘ نقصانات سے اس کو بچایا اور معاشرے کے تمدنی و سیاسی اور معاشی نظام نے ان تمام خدمات کا انتظام کیا جن کی بدولت وہ امن سے بیٹھا اپنا کاروبار چلا رہا ہے‘ وہ اسی معاشرے کو ان ضرورتوں کے موقع پر جن میں کسی مالی نفع کا کوئی سوال نہیں ہے اور جن کے پورا ہونے سے سب لوگوں کے ساتھ خود اس شخص کا مفاد بھی وابستہ ہے‘ بلا سود روپیہ قرض دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور خود اپنے مربی معاشرے سے کہتا ہے کہ تو چاہے اس روپے سے نفع کمائے یا نہ کمائے‘ مگر میں تو اپنی رقم کا اتنا معاوضہ سالانہ ضرور لیتا رہوں گا۔
یہ معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب کہ قوم کو جنگ پیش آئے اور سب کے ساتھ خود اس سرمایہ دار فرزندِ قوم کو اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا سوال بھی درپیش ہو۔ ایسے موقع پر جو کچھ بھی قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے وہ کسی کاروبار میں نہیں لگتا بلکہ آگ میں پھونک دیا جاتا ہے اس میں منافع کا کیا سوال؟ اور یہ خرچ اس کام میں ہوتا ہے جس کی کامیابی و ناکامی پر ساری قوم کے ساتھ خود اس شخص کی اپنی موت و زیست کا بھی انحصار ہے اور اس کام میں قوم کے دوسرے لوگ اپنی جانیں‘ وقت اور محنت سب کچھ کھپا رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی یہ سوال نہیں کرتا کہ قومی دفاع کے لیے جو حصہ ادا کر رہا ہوں اس پر کتنا منافع سالانہ مجھ کو ملتا رہے گا‘ مگر پوری قوم میں سے صرف ایک سرمایہ دار ہی ایسا نکلتا ہے جو اپنا مال دینے سے پہلے یہ شرط کرتا ہے کہ مجھے ہر سو روپے پر اتنا منافع ہر سال ملنا چاہیے اور میرا یہ منافع اس وقت تک ملنا جانا چاہیے جب تک ساری قوم مل کر میری دی ہوئی اصل رقم مجھے واپس نہ کر دے خواہ اس میں ایک صدی ہی کیوں نہ لگ جائے اور میرا یہ منافع ان لوگوں کی جیبوں میں سے بھی آنا چاہیے جنہوں نے ملک اور قوم کی اور خود میری حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ پائوں کٹوائے یا اپنے بیٹے‘ باپ‘ بھائی یا شوہر مفت کھو دیے۔ سوال یہ ہے کہ ایک معاشرے میں ایسا طبقہ آیا اس کا مستحق ہے کہ اسے سود کھلا کھلا کر پا لائے یا اس کا کہ اسے اس زہر کی گولیاں کھلائی جائیںجس سے کتے مارے جاتے ہیں؟
رہے دوسری قسم کے قرضے تو ان کی نوعیت اُن قرضوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو عام افراد اور ارادے کاروباری اغراض کے لیے لیتے ہیں لہٰذا ان پر بھی وہ سب اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو اوپر ہم نے کاروباری قرضوں کے سود پر کیے ہیں۔ عموماً حکومتیں نفع اور کاموںپر لگانے کے لیے لمبی مدت کے قرضے لیتی ہیں۔ مگر کوئی حکومت بھی ایک مقرر شرح سود پر قرض لیتے وقت یہ نہیں جانتی کہ آئندہ بیس تیس سال کے دوران میں ملک کے اندرونی حالات اور دنیا کے بین الاقوامی معاملات کیا رنگ اختیار کریں گے اور ان میں اس کام کی نفع آور کا کیا حال رہیگا جس پر خرچ کرنے کے لیے وہ یہ سودی قرض لے رہی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کے اندازے غلط نکلتے ہیں اور وہ کام شرحِ سود کے برابر نفع نہیں دیتا کجا کہ اس سے زیادہ۔ یہ اُن بڑے اسباب میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے حکومتیں مالی مشکلات میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان کے لیے پچھلے ہی قرضوں کے اصل و سود ادا کرنے مشکل ہو جاتے ہیںکجا کہ وہ مزید نفع آور تجاویز پر مزید سرمایہ لگا سکیں۔
علاوہ بریں یہاں بھی وہی صورت پیش آتی ہے جس کی طرف ہم پہلے کئی بار اشارہ کر چکے ہیں کہ بازار کی شرح سود ایک ایسی حد مقرر کر دیتی ہے جس سے کم نفع دینے والے کسی کام پر سرمایہ نہیں لگایا جاسکتا خواہ وہ کام پبلک کے لیے کتنا ہی ضروری اور مفید ہو۔ غیر آباد علاقوں کی آبادی‘ بنجر زمینوںکی درستی‘ خشک علاقوں میں آب پاشی کے انتظامات‘ دیہات میں سڑکوں اور روشنی اور حفظانِ صحت کا بندوبست‘ کم تنخواہیں پانے والے ملازموں کے لیے صحت بخش مکانات کی تعمیر اور ایسے ہی دوسرے کام اپنی جگہ چاہے کتنے ہی ضروری ہوں‘ اور ان کے نہ ہونے سے چاہے ملک اور قوم کا کتنا ہی نقصان ہو‘ مگر کوئی حکومت ان پر روپیہ صرف نہیں کر سکتی جب تک کہ ان سے اتنا نفع حاصل ہونے کی توقع نہ ہو جو رائج الوقت شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ ہو سکے۔
پھر اس قسم کے جن کاموں پر سودی قرض لے کر سرمایہ لگایا جاتا ہے ان کے معاملے میں بھی حقیقی صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ حکومت اس کے سود کا بار عام باشندوں پر ڈال دیتی ہے۔ ٹیکسوں کے ذریعے سے ہر ہر شخص کی جیب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ سود نکالا جاتا ہے اور سال کے سال لاکھوںروپے کی رقمیں جمع کر کرکے سرمایہ داروں کو مدت ہائے دراز تک پہنچائی جاتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ آج 5 کروڑ سرمایہ سے آب پاشی کی ایک بڑی اسکیم عمل میں لائی جاتی ہے اوریہ سرمایہ فیصد سالانہ شرح پر حاصل کیا جاتا ہے اس حساب سے حکومت کو بر سال 30 لاکھ روپے سود ادا کرنا ہوگا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حکومت اتنی بڑی رقم کہیں سے زمین کو کھود کر نہیں نکالے گی بلکہ اس کا بار ان زمینداروں پر ڈالے گی جو آب پاشی کے اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہر زمین دار پر جو آبیانہ لگایا جائے گا اس میں ایک حصہ لازماً اس سود کی مد کا بھی ہوگا اور زمین دار خود بھی یہ سود اپنی گرہ سے نہیں دے گا بلکہ وہ اس کا بار غلّے کی قیمت پر ڈالے گا۔ اس طرح یہ سود بالواسطہ ہر اس شخص سے وصول کیا جائے گا جو اس غلّے کی روٹی کھائے گا۔ ایک ایک غریب اور فاقہ کش آدمی کی روٹی میں سے لازماً ایک ایک ٹکڑا توڑا جائے گا اور ان سرمایہ داروں کے پیٹ میں ڈالا جائے گا جنہوں نے 30 لاکھ روپیہ سالانہ سود پر اس منصوبے کے لیے قرض دیا تھا۔ اگر حکومت کو یہ قرض ادا کرتے کرتے 50 برس لگ جائیں تو وہ غریبوں سے چندہ جمع کرکے امیروںکی مدد کا یہ فریضہ نصف صدی تک برابر انجام دیتی چلی جائے گی اور اس سارے معاملے میں خود اس کی حیثیت مہاجن کے ’’منیم جی‘‘ سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ ہوگی۔
یہ عمل اجتماعی معیشت میں دولت کے بہائو کو ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے حالانکہ جماعت کی فلاح کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مال داروں سے ناداروں کی طرف جاری ہو۔ یہ خرابی صرف اسی سود میں نہیں جو حکومتیں نفع آور قرضوں پر ادا کرتی ہیں بلکہ ان سارے سودی معاملات میں ہے جو تمام کاروباری آدمی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی تاجر یا صناع یا زمیندار اپنی گرہ سے وہ سود ادا نہیں کرتا جو اسے سرمایہ دار کو دینا ہوتا ہے‘ وہ سب اس بار کو اپنے اپنے مال کی قیمتوں پر ڈالتے ہیں اور اس طرح عام لوگوں سے پیسہ پیسہ چند اکٹھا کرکے لکھ پتیوں اور کروڑ پتیوں کی جھولی میں پھینکتے رہتے ہیں۔ اس اوندھے نظام میں سب سے زیادہ ’’مدد‘‘ کا مستحق ملک کا سب سے بڑا دولت مند ساہوکار ہے اور اس کی مدد کا فرض سب سے بڑھ کر جس شخص پر عائد ہوتا ہے وہ ملک کا وہ باشندہ ہے جو دن بھر اپنا خون پسینہ ایک کرکے ڈیڑھ روپیہ کما کر لائے اور پھر بھی اپنے نیم فاقہ کش بال بچوں کے لیے چٹنی اور روٹی کا انتظام کرنا اس پر حرام ہو۔ جب تک کہ پہلے وہ اس چٹنی اور روٹی میں سے اپنے ملک کے سب سے بڑے ’’قابلِ رحم‘‘ کروڑ پتی کا ’’حق‘‘ نہ نکال دے۔
حکومتوںکے بیرونی قرضے:
آخری مد اُن قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے ملک سے باہر کے ساہو کاروں سے لیتی ہیں۔ اس قسم کے قرضے بالعموم بہت بڑی بڑی رقموں کے لیے ہوتے ہیں جن کی مقدار کروڑوںسے گزر کر بسا اوقات اربوں اور کھربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ حکومتیں ایسے قرض زیادہ تر اُن حالات میں لیتی ہیںجب اُن کے ملک پر غیر معمولی مشکلات اور مصائب کا ہجوم ہوتا ہے اور خود ملک کے مالی ذرائع ان سے عہدہ براں ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتے اور کبھی وہ اس لالچ میں بھی اس تدبیر کی طرف رجوع کرتی ہیں کہ بڑا سرمایہ لے کر تعمیری کاموں پر لگانے سے ان کے وسائل جلدی ترقی کر جائیں گے۔ ان قرضوں کی شرح سود 7-6 فیصدی سے لے کر 10-9 فیصدی تک ہوتی ہے اور اس شرح پر اربوں روپے کا سالان سود ہی کروڑوں روپے ہوتا ہے۔ بین الاقوامی بازار زر کے سیٹھ اور ساہو کار اپنی اپنی حکومتوںکو بیچ میں ڈال کر ان کی وساطت سے یہ سرمایہ قرض دیتے ہیں اور اس کے لیے ضمانت کے طور پر قرض لینے والی حکومت کے محاصل میں کسی محصول مثلاً چنگی‘ تمباکو‘ شکر‘ نمک یا کسی اور مد کی آمدنی کو رہن رکھ لیتے ہیں۔
اس نوعیت کے سودی قرضے ان تمام خرابیوں کے حامل ہوتے ہیںجن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ شخصی حاجات کے قرض اور کاروباری قرض اور حکومتوں کے اندرونی قرض کوئی نقصان ایسا نہیں رکھتے جو ان بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے کے طریقے میں نہ ہو اسی لیے ان خرابیوں اور نقصانات کا تو اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں‘ مگر قرض کی یہ قسم ان سب کے ساتھ ایک اور خرابی بھی اپنے اندر رکھتی ہے جو ان سب سے زیادہ خوف ناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان قرضوں کی بدلت پوری پوری قوم کی مالی حیثیت خراب اور معاشی حالت تباہ ہو جاتی ہے جس کا نہایت برا اثر ساری دنیا کی معاشی حالت پر پڑتا ہے۔ پھر ان کی بدولت قوموں میں عداوت اور دشمنی کے بیج پڑتے ہیں اور آخر کار انہی کی بدولت آفت رسیدہ قوموں کے نوجوان دل برداشتہ ہو کر انتہا پسندانہ سیاسی و تمدنی اور معاشی فلسفوں کو قبول کرنے لگتے ہیں اور اپنے قومی مصائب کا حل ایک خونی انقلاب یا ایک تباہی خیز جنگ میں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس قوم کے مالی ذرائع پہلے ہی اپنی مشکلات یا اپنی ضرورتوں کو رفع کرنے کے لیے کافی نہ تھے‘ وہ آخر کس طرح اس قابل ہو سکتی ہے کہ ہر سال پچاس ساٹھ لاکھ یا کروڑ دو کروڑ روپیہ تو صرف سود میں ادا کرے اور پھر اس کی علاوہ اصل قرض کی اقساط بھی دیتی رہے؟ خصوصاً جب کہ اس کے ذرائع آمدنی میں سے کسی ایک بڑے اور زیادہ نفع بخش ذریعے کو تاک کر آپ نے پہلے ہی مکفول کر لیا ہو اور اس کی چادر پہلے سے بھی زیادہ تنگ ہو کر رہ گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم کوئی بڑی رقمِ اس طور پر سودی قرض لے لیتی ہے‘ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کی وہ مشکلات رفع ہو جائیں جن سے نکلنے کے لیے اس نے یہ قرض لیا تھا۔ اس کے برعکس اکثر یہی قرض اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کا موجب ہو جاتا ہے۔ قرض کی اقساط اور سود ادا کرنے کے لیے اسے اپنے افراد پر بہت زیادہ ٹیکس لگانا پڑتا ہے اور مصارف میں بہت زیادہ کمی کر دینی ہوتی ہے۔ اس سے ایک طرف قوم کے عوام میں بے چینی بڑھتی ہے کیوں کہ جتنا وہ خرچ کرتے ہیں اس کا بدل ان کو اس خرچ کے ہم وزن نہیں ملتا اور دوسری طرف اپنے ملک کے لوگوں پر اس قدر زیادہ بار ڈال کر بھی حکومت کے لیے قرض کی اقساط اور سود باقاعدہ ادا کرتے رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر جب قرض دار ملک کی طرف سے ادائیگی میں مسلسل کوتاہی صادر ہونے لگتی ہے تو بیرونی قرض خواہ اس پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بے ایمان ملک ہے‘ ہمارا روپیہ کھا جانا چاہتا ہے۔ ان کے اشاروں پر ان کے قومی اخبارات اس غریب ملک پر چوٹیں کرنے لگتے ہیں پھر ان کی حکومت بیچ میں دخل انداز ہوتی ہے اور اپنے سرمایہ داروں کے حق میں اس پر صرف سیاسی دبائو ہی ڈالنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ قرض دار ملک کی حکومت اس پھندے سے نکلنے کے لیے کوشش کرتی ہے کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ اور مصارف میں مزید تخفیف کرکے کسی طرح جلدی سے جلدی اس سے چھٹکارا پا جائے۔ مگر اس کا اثر باشندگان ملک پر یہ پڑتا ہے کہ پیہم اور روز افزوں مالی بار اور معاشی تکلیفیں اٹھاتے اٹھاتے ان کے مزاج میں تلخی آجاتی ہے‘ بیرونی قرض خواہ کی چوٹوں اور سیاسی دبائو پر وہ اور زیادہ چڑ جاتے ہیں‘ اپنے ملک کے اعتدال پسند مدبروں پر ان کا غصہ بھڑک اٹھتا ہے اور معاملہ فہم لوگوںکو چھوڑ کر وہ انتہا پسند جواریوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو سارے قرضوں سے بیک جنبش زبان بری الذمہ ہو کر خم ٹھونک میدان میں آکھڑے ہوتے ہیں اور للکار کر کہتے ہیں کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اپنے مطالبات منوا لے۔
(جاری ہے)