سوچتا ہوں۔۔۔۔۔

345

میں ساری زندگی یہی سوچتا رہا کہ ہرماہ کچھ نہ کچھ پیسے بچاکر ایک چھوٹا سا گھر بناؤں گا۔ گھر والوں نے شادی کردی تو سوچا چلو ماہانہ کمیٹی ڈال کر اپنے بچوں کے لیے ہی ایک خوبصورت سا مکان بنالوں گا، ایسا گھر جس کے باہر ایک چھوٹا سا لان ہو، جہاں میرے بچے کھیلا کریں گے، جب شام کو دفتر سے لوٹا کروں گا تو کیاریوں میں لگے پھولوں کے درمیان کھیلتے بچوں کو دیکھ کر دن بھر کی ساری تھکن دور ہوجایا کرے گی، میرے گھر کی بالائی منزل پر لگی تختی پر لکھا ’’راحت کدہ‘‘ میرے خوابوں کی تعبیر ہوگا۔ لیکن یہ خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ ہرماہ گھر کے اخراجات اور کرائے کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کے بعد کچھ نہ بچتا، آنکھ جھپکتے مہینہ گزر جاتا اور مالک مکان کرائے کی وصولی کے لیے دروازے پر کھڑا ہوتا۔
شروع شروع میں مکانات سستے ہوا کرتے تھے، سوچا گھر کے اخراجات میں تھوڑی سی کمی کرکے کچھ بچا لیا کروں گا، شاید اس طرح سے ہی کوئی بندوبست ہوجائے۔ لیکن ہر مرتبہ مکان بدلنے پر بھاری رقم ایڈوانس کی صورت میں ادا کرنا پڑتی اور کرایہ بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا۔ یوں ہر آنے والے دن کے ساتھ مالی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ اسی دائرے میں گھومتے گھومتے کب عمر ڈھل گئی خبر تک نہ ہوئی۔ اس دوران لاکھوں روپے کرائے کی مد میں چلے گئے۔ ظاہر ہے جب تیس، پینتیس برسوں میں کرایے کی مد میں لاکھوں روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہو تو گھر تو ایک طرف… سر چھپانے کے لیے کسی جھگی کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔


خیر، گھر بنانے کی خواہش میں زندگی گزرتی رہی، پھر وہ دن آیا جب میرے ایک دوست نے ایک ایسی زمین پر مکان بنانے کا مشورہ دیا جو سرکاری ملکیت تھی، جہاں کے ڈی اے افسران کو تین چار لاکھ روپے دے کر پلاٹ خریدا جا سکتا تھا۔ پہلے پہل تو میں اُس کی جانب سے دی جانے والی آفر پر راضی نہ ہوا، لیکن پھر اس علاقے میں تیزی سے ہوتی تعمیرات دیکھ کر میں نے بھی اس جگہ دو کمروں کے مکان کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا۔ میرا خیال تھا کہ ایک تو اس طرح گھر بنانے کا خواب پورا ہوجائے گا، دوسرے یہ کہ ہر ماہ کرائے کی مد میں جانے والی ایک خطیر رقم بھی بچ جائے گی۔ بس انہی سوچوں میں گم، رشتے داروں سے قرض پکڑ کر اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا، اور مکان کی تعمیر مکمل ہوتے ہی خوشی خوشی اس میں جا بسا۔ میں بہت خوش تھا، میرے اہلِ خانہ کی خوشی بھی قابلِ دید تھی۔ بچوں نے بڑی محنت اور محبت سے گھر کو سجانا شروع کردیا۔ بڑے بیٹے نے تو گھر کے باہر پودے بھی لگائے۔
مکان بنانے کے بعد میں اپنی زندگی میں خاصی تبدیلی محسوس کررہا تھا، گویا جیسے کندھوں سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔ میں اس اقدام کے بعد بہت مطمئن تھا۔ کہتے ہیں خوشیاں ہر کسی کو راس نہیں آتیں، یہ بھی محلات میں رہنے والوں کے در پر سجدہ ریز ہوا کرتی ہیں۔ بس یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا، ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ دن میں ساری زندگی نہیں بھول سکتا جب حکومت کی جانب سے جاری کردہ کاغذ کا ایک بے جان ٹکڑا میرے خاندان کی خوشیوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوا، محکمہ تجاوزات کا نوٹس موصول ہونے کے کچھ دن بعد ادارہ برائے غیر قانونی تعمیرات نے میرے گھر، میری جنت کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرڈالا۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کے نتیجے میں ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی، یہ سب کچھ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر کیا گیا۔ لوگ روتے رہے، چلاّتے رہے، جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے رہے، لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ سارے مکین کے ڈی اے افسران سے خریدی گئی زمین کے حلف نامے اور تحریری ثبوت تک دکھاتے رہے، لوگ اپنے گھروں کی چھت بچانے کے لیے سرکاری واجبات دینے کو بھی تیار تھے، مگر کارروائی نہ روکی گئی۔ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اس ظلم کے بعد میں جہاں سے چلا تھا وہیں آن پہنچا۔
اتنا کچھ ہوجانے کے بعد اب سوچتا ہوں میں نے جتنی عمر گزارنی تھی گزار لی، نوکری سے ریٹائر ہونے والا ہوں، ریٹائرمنٹ پر جو تھوڑی بہت رقم ملے گی اُس سے بچی کی شادی کروں گا۔ بچوں کی تعلیم وترتیب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کی قسمت میں اپنا گھر ہوگا تو بنالیں گے، ورنہ میری طرح ہی دربدر ہوتے رہیں گے۔ اپنے بارے میں اب تو یہاں تک سوچتا ہوں کہ اتنے پیسے رکھ چھوڑوں جو میری تدفین پر کام آسکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ورثا کو یہ رقم بھی ماہانہ کرایے کی صورت میں ہی ادا کرنی پڑے۔ سوچتا ہوں ایک طرف میں ہوں جو ساری زندگی ایک گھر بنانے کی جستجو کرتا رہا، اور اس تمنا میں غیر قانونی زمین پر تعمیرات کرکے قرض دار ہوگیا، جبکہ دوسری جانب ہمارے وزیراعظم عمران خان ہیں جن کے سوچے سمجھے بغیر ہی سارے کام ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے انہوں نے کہا تھاکہ میرے بہنوئی کے پلاٹ پر قبضہ ہوگیا، جسے خالی کروانے کے لیے میں نے ایک نڈر اور دلیر افسر کو سی سی پی او لاہور تعینات کیا، جس نے فوری طور پر نہ صرف قبضہ خالی کروایا بلکہ قبضہ مافیا کو گرفتار بھی کرلیا۔ یہ خان صاحب کا ذاتی مسئلہ تھا جو انہوں نے اپنے لامحدود اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حل کرلیا۔ انہوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا، قبضہ مافیا سے جگہ خالی کروانا بچوں کا کھیل نہیں، اس کے لیے دبنگ افسران کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں سے ایک سی سی پی او لاہور ہیں۔ یہی کچھ ہمیں بنی گالا میں بھی نظر آتا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے، بلکہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ خان صاحب کے گھر گرائونڈ فلور پر 11ہزار 371 فٹ تعمیرات کی گئی تھیں جن کے لیے سی ڈی اے کی منظوری نہیں لی گئی تھی، اس پر 12 لاکھ 6 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا جو انہوں نے نیشنل بینک کے پے آرڈر کے ذریعے 3 مارچ 2020ء کو ادا کردیا تھا، جس کے بعد سی ڈی اے کی طرف سے 106 روپے مربع فٹ کے حساب سے گیارہ ہزار تین سو مربع فٹ ایریا پر تعمیر کی منظوری دے دی گئی۔ یہ منظوری نئے بلڈنگ قواعد ’اسلام آباد کیپٹل ریزیڈینشل سیکٹر زونگ لاز‘ کے تحت دی گئی۔ یہاں بھی ہمیں کسی دبنگ افسر کی موجودگی دکھائی دیتی ہے، جو ایسا صاحبِ اختیار نظر آتا ہے جو سی سی پی او لاہور سے کم نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اس مسئلے کا تعلق بھی خان صاحب کی ذات سے تھا، تبھی تو وفاقی کابینہ نے نئے بلڈنگ قواعد 2020 کی منظوری پلک جھپکتے ہی دے دی۔ اب سوچتا ہوں کہ وزیراعظم کے مسائل تو اقتدار ملنے کے بعد فوری حل ہورہے ہیں، مجھ جیسا غریب شخص کہاں جائے؟ وہ جن کی جھگیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا کس کے در پر فریاد کریں؟ نالوں کے ساتھ کچی دکانیں لگاکر روزگار کمانے والے کس کے سامنے رونا روئیں؟ یہ غریب کس سے انصاف مانگیں، کسے مسیحا سمجھیں؟ ناجائز تجاوزات کے خاتمے کا نعرہ لگا کر جس طرح غریبوں کے گھروں اور دکانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا جبکہ خان صاحب کے بنی گالا محل کے تین سو کنال پر کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات کو جائز قرار دیا گیا، صاف بتارہا ہے کہ سب قاعدے اور قانون طاقت وروں کے گھروں کی لونڈی ہوا کرتے ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حکمران طبقہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتا ہے، اسے عوام کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ نظام کی تبدیلی کا جعلی نعرہ لگانے والوں اور سیاسی چہرے بدل کر اقتدار میں آنے والوں کا ایک ہی ایجنڈا ہوا کرتا ہے جو اُن کی ذات سے شروع ہوکر اُن ہی کی ذات پر ختم ہوتا ہے۔ سوچتا ہوں ملک میں یہ نظام کب تک چلے گا؟ طبقۂ اشرافیہ کب تک پیسے کے بل پر عوام کا خون چوستا رہے گا؟ سوچتا ہوں ستّر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک میں رائج طبقاتی نظام کو ختم کرنے میں کون رکاوٹ ہے؟ آخر غریبوں کو کب تک ذلیل و خوار کیا جاتا رہے گا؟ وہ کون ہوگا جو عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی مخلصانہ کوشش و عمل کرے گا؟ صرف اپنے پروٹوکول اور ذاتی مفادات کے لیے گرداں نظر آتے حکمرانوں سے کب نجات ملے گی؟
nn

حصہ