ممتاز مفتی کا انٹرویو

818

’’ہم نے سوچا کہ نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنانا چاہیے تو ہم نے دیکھا کہ دو فرد آپس میں لڑتے بھرتے رہتے ہیں لیکن اندر اصل محبت کا جذبہ ہے۔ اب ہمیں (اپنی کہانی میں) لوگوں کو بتانا ہے کہ بھائیو! یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ اندر سے انہیں محبت کا روگ لگا ہوا ہے‘‘۔
ممتاز مفتی کا افسانے کا فن انوکھا اور کچھ کھردرا سا ہے۔ وہ الگ سے ہیں، ان کی زبان، بات کہنے کا ڈھنگ بھی مختلف ہے، منفرد ہے۔ جو کچھ وہ دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہیں اس کے اندر گہرائی میں اُتر کر دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ آنکھوں پر انہیں اعتبار نہیں، مشاہدہ دھوکا کھا جاتا ہے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ لکھنے والے کو اس کی حقیقت تک پہنچنا چاہیے۔ نفرت کے پیچھے محبت چھپی ہوتی ہے۔ سخاوت اور دریا دلی کے عقب میں دکھاوا ہوتا ہے۔ انسان وہ نہیں جو نظر آتا ہے، وہ ہے جو چھپا ہے۔ ان کی ہر دل عزیزی کا راز ان کے انوکھے پن میں مضمر ہے۔ سیدھی طرح بات نہیں کہتے۔ کچھ نہ کچھ پیچ، آڑھا ترچھا ہوتا ہے، قاری چونک پڑتا ہے۔ یہ بات جو ان کے افسانوں میں ہے، کسی اور افسانہ نگار کے ہاں نہیں ملتی۔ انہیں انسانی نفسیات، انسانی فطرت اور انسان کی شخصیت میں موجود پیچیدگی اور ٹیڑھے پن کو سمجھنے سے قدرتی لگائو ہے۔ زندگی جو سطح پر سیدھے سبھائو دکھتی ہے، اندر سے اتنی ہی مگھم اور اُلجھی ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا، اس کے اندر غوطہ مار کر اُترنا، یہ ہنر کچھ ممتاز مفتی ہی کو آتا ہے۔ وہ بیدی اور غلام عباس کی طرح سوچ سوچ کر نہیں لکھتے، نہ لکھنے کے بعد اور نہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ بس لکھنا کچھ ایسا ہے جیسے گنڈیریاں چوسنا۔ گنڈیری کی سختی کو نرم کرنے کے لیے مضبوط دانتوں تلے دبانا اور چبانا پڑتا ہے، تب کہیں اس کی مٹھاس کا پتا لگتا ہے۔ پتا نہیں ممتاز مفتی کے افسانے مجھے ایسے ہی لگتے ہیں جیسے زندگی کی گنڈیری کو اپنے پکے دانتوں سے انہوں نے خوب چبایا ہو اور وہ میٹھی نہ نکلی ہو۔ کڑوی بھی نہ ہو، بس اس کا مزہ کچھ سمجھ میں آیا، بہت کچھ نہیں بھی آیا۔ وہ اس کا اثر بھی نہیں لیتے، بس لکھتے جاتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بہت لکھا ہے۔ دنیا میں آتے ہوئے فطرت میں ان کے ایک ہی مشقت کی تخم ریزی شاید کی گئی کہ لکھو اور لکھتے ہی جائو اور کہے سنے کی پروا نہ کرو۔ پتھر پڑیں تو سہہ لو، لہو بہے تو نہ سوچو بس لکھے جائو۔ مفتی جی نے یہی کیا۔ حج کا سفرنامہ ’’لبیک‘‘ چھپا تو لوگوں کو، ان کے جذبہ عقیدت کو ٹھیس لگی۔ بھلا اللہ کے مقدس گھر کو اللہ میاں کا کالا کوٹھا بھی کوئی کہتا ہے۔ مگر مفتی جی کو جیسا لگا ویسا ہی لکھا۔ گالیاں پڑیں، طعنے ملے، رسالے کا مدیر خطوں کے انبار سے بوکھلا گیا۔ مگر مفتی جی نے مڑ کر نہ دیکھا۔ کچھ بھروسہ، سہارا قدرت اللہ شہاب کا بھی تھا کہ مصیبت پڑی تو کوئی نہ کوئی کرامت دکھا دیں گے۔ کتاب ’’رام دین‘‘ میں مفتی صاحب کا ایک مضمون پاکستان کی بابت بہت پُراسرار سا ہے، جو پیش گوئیاں اس ملک کے حوالے سے اس میں کی گئی ہیں کہ پڑھنے والا آنکھیں ملنے لگتا ہے، اعتبار ہی نہیں آتا۔ ایک وقت آئے گا جب یہ مملکت خداداد ایسی اہم ایسی ناگزیر اہمیت کی ہوجائے گی کہ بڑے فیصلوں کے لیے عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں اس ملک کا منہ تکیں گی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسا بھی کبھی ہوسکے گا۔ لیکن ممتاز مفتی شیخ چلی کے خواب نہیں دیکھتے۔ کچھ بھیدان کی ذات میں بھی ہے۔ کچھ اوپر کی خبر چپ چاپ رکھتے ہیں، مل کر باہر نکلا تو لگا کہ مفتی جی اپنے کرداروں کی طرح خود بھی اوکھے سے ہیں جو اوپر سے ہیں اندر سے وہ نہیں ہیں۔
ان کے انٹرویو کے لیے دارالحکومت کے افسانہ نگار اور بے تکلف دوست عبدالوحید کے ساتھ گیا تھا۔ ملتے ہی کُھل گئے، بے تکلف ہوگئے۔ لگا پہلے کہیں ملے تھے، کہاں، یاد نہ آسکا۔ کرسی پر سمٹے سمٹائے، درازیٔ عمر کا پتا رکھ رکھائو سے نہ مل سکا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے ان کے ساتھ صحبت رہی، بہت کچھ پوچھا، پھر بھی تشنگی رہ گئی۔ کاش یہ پہلی ملاقات اور زیادہ ملاقاتوں کی تمہید بنتی۔ چلتے ہوئے جو مصافحہ کیا، آخری مصافحہ نہ بنتا۔ مگر یہ قلق پچھتاوا بن جاتا اگر ان سے نہ ملتا۔ ان کی گفتگو سننے سے انٹرویو کرنے سے رہ جاتا تو۔ انٹرویو تصویروں کے ساتھ چھپا تو وہ شمارہ عبدالوحید نے انہیں پہنچایا۔ پڑھ کر عبدالوحید سے کہا میرا نام لے کر ’’ونڈر فل بوائے!‘‘ فون پر اس نے بتایا تو نہ کہہ سکا عبدالوحید سے:
’’ایسا نہیں ہے، بات سچی یہ ہے کہ مفتی جی ونڈر فل لیکھ کھ ہیں۔ ان جیسی بات کسی میں نہیں…‘‘
اکتوبر 1995ء کی اٹھائیسویں کو صبح کے ناشتے پر اخبار کھولا تو مفتی جی کی تصویر مسکرا رہی تھی سیاہ حاشیے میں ان کے دنیا سے چلے جانے کی خبر تھی۔ میں نے ناشتے کی پلیٹ کو پرے کردیا۔ کچھ ایسا لگا میرا ملک خالی خالی سا ہوگیا ہو۔ مفتی جی کے سایے سے محرومی کوئی ایسا سانحہ تھا جو اب بھی دل کو اندر سے مضطرب سا کردیتا ہے۔
ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ 12 ستمبر 1905ء کو مشرقی پنجاب کے شہر پٹیالہ میں آنکھ کھولی۔ اسلامیہ کالج لاہور سے 1929ء میں بی اے کیا۔ بارہ برس تک اسکول میں پڑھایا۔ پندرہ برس محکمہ اطلاعات سے وابستہ رہے۔
ان کا پہلا افسانہ ’’جھکی جھکی آنکھیں‘‘ (عنوان ہی سے افسانہ پڑھنے کا جی چاہے) 1932ء میں مولانا صلاح الدین احمد نے ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع کیا۔ پھر تو ممتاز مفتی پر افسانوں کی بارش سی ہونے لگی۔ لکھتے ہی گئے۔ اتنا لکھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ افسانہ، یہ موٹے ضخیم ناول، شخصی خاکے، سفر نامے، مضامین… مجموعوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کتابوں کے اکثر کتابوں کے نام یہ ہیں:
افسانوی مجموعے:
-1 اَن کہی (1940ء) -2 گہما گہمی (1944ء) -3 چُپ (1947ء) -4 اسمارائیں (1952ء) -5 گڑیا گھر (1965ء) -6 روغنی پتلے (1984ء) -7 سمے کا بندھن (1986ء) -8 کہی نہ جائے (1992ء) -9 مفتیانے، افسانوی کلیات (1989ء)
ناول:
-1 علی پور کا ایلی (1962ء) -2 ایلی اور الکھ نگری (1992ء)
شخصی خاکے:
-1پیاز کے چھلکے (1962ء) -2 اوکھے لوگ (1986ء) -3 اور اوکھے لوگ (1991ء)
سفرنامے:
لبیک (1975ء) -2 ہندیاترا (1983ء)
ڈرامہ:
نظام سقّہ (1953ء)
مضامین:
-1 غبارے (1944ء) -2 نظام دین
(بچوں کے لیے بھی کئی کتابیں تصنیف کیں)۔
طاہر مسعود: آپ بہ حیثیت ادیب خود کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
ممتاز مفتی: ادیب اسے کہتے ہیں جس میں حس زیادہ ہو۔ اگر آپ بہت حساس ہیں تو زندگی آپ کے لیے مشکل ہوجائے گی۔ ہر حساس آدمی ایک دھار ہے جو خود کو کاٹتا ہے اور جو اس کے قریب رہتا ہے اسے بھی کاٹتا ہے۔ اس کے لیے سمجھوتا کرنا بہت مشکل ہے۔ دنیا میں بیش تر لوگ میڈیا کر (سطحی) ہیں اور بہت خوش رہتے ہیں اور مونچھوں پر تائو دے کر زندگی گزارتے ہیں۔ نہ کوئی لڑائی نہ جھگڑا۔ حساس ہونا اچھی بھلی مصیبت کی بات ہے۔ ادیب، بیوی اور باپ سے لے کر حکومت تک کہیں بھی ایڈجسٹ نہیں ہوپاتا۔ زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔
طاہر مسعود: لیکن ادیب کے لیے حساس ہونا اس وقت بامعنی ہوتا ہے جب ادیب میں اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہو۔
ممتاز مفتی: یہ علیحدہ بات ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ حساسیت کا اظہار تخلیقی ہونا چاہیے۔ میرا کہنا ہے کہ حساسیت بہ ذات خود کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ہاں! مگر یہ کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ جسے شعوری طور پر اختیار کیا جائے یا اس سے علیحدگی حاصل کرلی جائے۔
ممتاز مفتی: آپ ادیب اسی وقت بنیں گے جب آپ حساس ہوں گے۔
طاہر مسعود: باالفاظ دیگر کیا ادب تخلیق کرنا کوئی بدقسمتی کا عمل ہے؟
ممتاز مفتی: نہیں، نہیں، فرض کیجیے آپ ادیب نہیں بنتے پھر بھی حساس ہونا آپ کے لیے مصیبت کا باعث ہوگا اور جب ادیب بن جائیں تو حساسیت کی دھار اور تیز ہوجائے گی۔
طاہر مسعود: عام حساس آدمی کے مقابلے میں ایک ادیب کو کیا یہ سہولت نہیں رہتی کہ وہ اپنے جذبات کا تحریر میں اظہار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہے؟
ممتاز مفتی: زندگی پھر بھی اس کے لیے مشکل رہتی ہے۔ ایک آدمی جو غیر معمولی ذہن، غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کا حامل ہو، اس کے لیے کم از کم پاکستان میں زندگی بسر کرنا بے حد مشکل ہے۔
طاہر مسعود: نئے ادیبوں کے متعلق کیا خیال ہے؟
ممتاز مفتی: وہ بھی حساس بہت زیادہ ہیں۔
طاہر مسعود: کیا ادب میں اس کا اظہار تخلیقی طور پر ہورہا ہے؟
ممتاز مفتی: یہ میں نہیں بتا سکتا، البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ میں اس تخلیقی اظہار سے متفق ہوں یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ زندگی نے شدت اختیار کرلی ہے۔ ممکن ہے آپ کو محسوس نہ ہوتا ہو لیکن مجھے ہوتا ہے۔ میں 1905ء کی پیداوار ہوں۔ میں نے چالیس برس تک پرتعیش زندگی گزاری ہے۔ آج جو ادیب زندگی گزار رہے ہیں وہ نہایت کٹھن کام ہے۔ وہ بہت دکھی لوگ ہیں۔ وہ حساس بھی ہیں لیکن انہیں رستہ نہیں ملتا۔ ان پر مواقع کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ گو ہمارے دور میں بھی اظہار کے اور آگے بڑھنے کے مواقع کم تھے، برٹش راج تھا، ہندو آگے بڑھنے سے روکتا تھا۔ سرکاری ملازمت میں جانا چاہتے تھے، نہیں جاسکتے تھے۔
طاہر مسعود: اور بعد میں تو ترقی پسند نہ ہونے کی صورت میں ادیب بھی نہیں بن سکتے تھے۔
ممتاز مفتی: ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی زندگی اجیرن نہیں تھی۔ آج حالات کے تیز دھارے میں بہہ رہے ہیں۔ ایسے میں رُکنا اور رُ کر دُنیا کے حالات کا جائزہ لینے کا وقت ہی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: جن حالات کا آپ ذکر کررہے ہیں، ان میں ادب کا کیا جواز ہے؟
ممتاز مفتی: ادب تو ختم ہوچکا ہے۔ ادب رہا کہاں ہے۔ جو لوگ ادب تخلیق کررہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں ادب کا رنگ مختلف ہونا چاہیے، چلیے ہوگیا لیکن ان ادیبوں میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بات کہہ سکیں۔ وہ ماحول کے گٹھن کی بات ضرور کریں گے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ گٹھن کس کی وجہ سے ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ جو دیانت داری تھی وہ بھی ہاتھ سے گئی۔
طاہر مسعود: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نئے ادیب خوف زدہ ہیں؟
ممتاز مفتی: ان میں اتنی جرأت ہی نہیں ہے نہ ان کے معاشی حالات انہیں کھل کر بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
طاہر مسعود: اس حوالے سے میں علامتی افسانوں کا ذکر کروں گا جن سے آپ ناراض رہتے ہیں اور اس کے شدید مخالف ہیں؟
ممتاز مفتی: میں علامتی افسانوں کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ میں اسے سمجھتا ہی نہیں… علامت اچھی چیز ہے لیکن علامت ایسی ہونی چاہیے جسے لوگ سمجھیں۔ علامت کو ذاتی نہیں، اجتماعی ہونا چاہیے اور اس سے صرف ادیب ہی کو نہیں، عوام کو بھی واقف ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: اس میں بڑے پیچیدہ مسائل درپیش آئیں گے۔ آپ نے لفظ عوام استعمال کیا۔ عوام میں مختلف طبقات ہیں۔ ان کی ذہنی سطحیں بھی یکساں نہیں ہیں۔ لکھنے والے کے سامنے یہ مسئلہ آتا ہے کہ وہ کس طبقے کو مدنظر رکھ کر لکھے۔ ایک پٹواری، ایک کلرک، ایک طالب علم، ایک گھریلو عورت یا ایک دانش ور اس کا مخاطب کون ہو؟
ممتاز مفتی: میں آپ کا سوال سمجھ گیا۔ میں نے دس بارہ کتابیں لکھی ہیں۔ میرے ذہن میں عوامی کتاب کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ہم جب نئے نئے ادب میں داخل ہوئے تھے تو سوچتے تھے کہ کوئی نئی بات لکھیں، ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے۔ ہر دور کے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ صرف ہم ہی کررہے ہیں۔ اس زمانے میں نفسیات کا مضمون نیا نیا متعارف ہوا تھا، ہم نے سوچا کہ نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنانا چاہیے تو ہم نے دیکھا کہ دو فرد آپس میں محبت کرتے ہیں لیکن ان کے بظاہر جذبات اس کے برعکس ہیں اور وہ آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں لیکن اندر کا اصل جذبہ محبت کا ہے۔ اب ہمیں لوگوں کو بتانا ہے کہ بھائیو! یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ اندر سے انہیں محبت کا روگ لگا ہوا ہے لیکن یہ بات افسانہ نگار، براہ راست نہیں کہہ سکتا… خیر کہانیوں میں یہ سلسلہ کچھ دنوں تک چلا۔ پھر ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہم نے علامتی اور استعاراتی موضوعات کو ہاتھ لگایا، لیکن یہ افسانے ایسے ہوتے تھے کہ پڑھنے والے پر ان کا ابلاغ آسانی سے ہوجاتا تھا پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
طاہر مسعود: ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے مقالے میں اردو افسانے میں علامت نگاری کے رجحان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایوب خان کے مارشل لا میں جب آزادی اظہار رائے پر پہرے بٹھائے گئے تو افسانہ نگاروں میں علامتی کہانیاں لکھنے کا رواج عام ہونے لگا۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں؟
ممتاز مفتی: علامتی افسانہ ایوب خان کے دور میں نہیں، اس کے بعد اُبھرا ہے۔ ممکن ہے وجہ وہی ہو، آپ آج بیج ڈالتے ہیں، پودا بعد میں نکلتا ہے۔
طاہر مسعود: اردو کے دو اہم افسانہ نگار انتظار حسین اور انور سجاد، دونوں کے افسانوں میں علامت کو برتنے کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ آپ ان میں سے خود کو کس سے زیادہ نزدیک محسوس کرتے ہیں؟
ممتاز مفتی: میں انتظار حسین کے قریب ہوں کیوں کہ ان کی بات میری سمجھ میں آتی ہے۔ انور سجاد کے ہاں معاملہ کسی اور رنگ کا ہے۔ وہ میرا دوست ہے لیکن وہ کبھی میرے پلے نہیں پڑا۔ ہم تو پرانے دور کے لوگ ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ کہانی پڑھنے والا کہے کہ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ’’پھر کیا ہوگا‘‘؟
طاہر مسعود: غالباً آپ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کہانی کا ابلاغ نہیں ہوتا تو وہ کہانی نہیں ہے؟
ممتاز مفتی: میں یہ کہنے والا کون ہوں… میں تو اپنی رائے بتا سکتا ہوں جو غلط بھی ہوسکتی ہے۔
طاہر مسعود: جدید علامتی افسانہ نگار اپنا رشتہ فرانس اور جرمنی کے بعض علامتی افسانہ نگاروں سے جوڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ کافکا اور کامیو جیسے افسانہ نگاروں کے زیر اثر ہیں۔
ممتاز مفتی: میں کافکا سے جتنا متاثر ہوں، اتنا تو کوئی ہے بھی نہیں۔ وہ تو میرا پیر ہے۔ اس کے علاوہ دوستو فیسکی وغیرہ، لیکن ان کے ہاں تو استعارے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
طاہر مسعود: کافکا کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی بعض کہانیوں میں ذاتی سمبل کا استعمال کیا ہے؟
ممتاز مفتی: کافکا نے ’’دی کیسل‘‘ میں آنے والی دنیا کی خوب صورت سی تصویر کھینچی ہے۔ اس نے آج کل جیسے سمبل استعمال نہیں کیے ہیں۔
طاہر مسعود: اس کی کہانیوں کا ابلاغ ہوتا ہے؟
ممتاز مفتی: جی ہاں، کافکا نے تو مجھے لکھنا سکھایا ہے۔
طاہر مسعود: نئی کہانیوں میں ابلاغ کا مسئلہ جتنا پیچیدہ ہوگیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ کہانیاں subjective ہونے کی وجہ سے کمیونیکیٹ نہیں ہوپاتیں اور ہمارے ہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، بیانیہ کہانی کی روایت سے رشتہ منقطع کرنے کے بعد سے۔
ممتاز مفتی: (بات کاٹ کر) انہوں نے یہ سوچا کہ ہم کوئی نئی چیز چلائیں گے۔ یہ پرانے لوگ ہیں، ہم انہیں صاف تو نہیں کرسکتے۔ کرشن چندر کیا کرتا ہے بس روتا ہے لہٰذا ہمیں کسی نئے دکھ کو تلاش کرنا چاہیے۔ ہم نے اپنے زمانے میں نئے دکھ دریافت کیے تھے۔ اب وہ کررہے ہیں۔
طاہر مسعود: ایسے قارئین جو کافکا سے لے کر گبریل گارسیا مارکیز تک کو پڑھتے ہیں اور انہیں سمجھتے بھی ہیں لیکن ہمارے نئے ادیب جو اسی معاشرے میں رہتے ہیں اور یہیں کی کہانیاں لکھتے ہیں ان کی تحریریں قارئین کی فہم سے بالاتر ہوتی ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے؟
ممتاز مفتی: نیا رائٹر نئے پن میں کنفیوژ ہوگیا ہے۔ وہ فیشن میں مارا گیا ہے۔
طاہر مسعود: اس فیشن کا کوئی علاج ہے؟
ممتاز مفتی: واپسی۔ وہ واپس آرہے ہیں، وہ جس رجحان کا شکار ہوئے تھے اب اس سے مایوس ہوچکے ہیں۔
طاہر مسعود: گویا نئے ادیبوں نے ندرت کو تکرار پر ترجیح دی تھی؟
ممتاز مفتی: جی ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انہوں نے ندرت کو ترجیح دی۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آج ہی لکھیں اور آج ہی مشہور ہوجائیں۔ مشہور ہونے کے لیے محنت درکار ہے۔ میں نے منٹو کو دیکھا تھا کہ وہ روسی کہانیوں کا ترجمہ کیا کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ ’’منٹو یار! یہ تم کیا ترجمہ کرتے رہتے ہو، خود لکھا کرو‘‘۔ وہ جواب دیتا تھا : ’’برتن ابھی بھرا نہیں تو چھلکے کیسے‘‘۔
طاہر مسعود: یعنی نئے لکھنے والوں کا برتن ابھی بھرا نہیں ہے؟
ممتاز مفتی: جی ہاں! ان کا برتن ابھی بھرا نہیں اور وہ چھلکنا چاہتے ہیں۔ برتن بھرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ بس انسان کو ذرا بالغ ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک دن میرا بیٹا آیا اور کہنے لگا: ’’بابا! آپ کہانیاں لکھنا بند کردیں کیوں کہ آپ نئی نسل کو نہیں جانتے۔ آپ اپنے زمانے کی نسل کو جانتے ہیں اور انہیں جعلی طریقے سے ہمارے دور میں لارہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ یا تو آپ ہماری نسل کو جانیں ورنہ نہ لکھیں‘‘۔ اب بتائیے یہ کیا بات ہوئی کہ میں یوتھ کے بارے میں کچھ نہ لکھوں اور صرف بوڑھوں کی کہانیاں لکھتا رہوں۔ یہ تو بکواس ہے۔ اگر میں آپ سے ہمدردی نہیں رکھتا تو آپ کو کیسے لکھ سکتا ہوں، اگر میں ان کے دکھوں کو نہیں سمجھتا اور انہیں تحقیر کی نظروں سے دیکھتا ہوں تو میرا ادب میں کوئی مقام نہیں ہے۔ میرے بیٹے نے یہ بات ٹھیک کی۔ وہ اس زمانے میں گورڈن کالج میں لیکچرار تھا۔ اس نے کہا، آپ کو پتا ہے آج کل بیٹا اپنے باپ کو ’’دی اولڈ باسٹرڈ‘‘ یا ’’دی اولڈ مین‘‘ کہتا ہے۔ ساری زندگی کا ڈھانچا تبدیل ہوگیا ہے۔ ممکن ہے آپ اس رویے کی حوصلہ افزائی نہ کریں کہ آپ ایک روایتی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تعلق اور رشتے باقی ہیں لیکن آپ اسلام آباد کے سیکریٹریوں کے گھر جائیں تو وہاں ایسے بچوں کی کافی تعداد ملے گی جو اپنے باپ کو باسٹرڈ کہتے ہیں۔
طاہر مسعود: ہاں مگر یہ ایک چھوٹی سی حقیر اقلیت کا مسئلہ ہے۔
ممتاز مفتی: آپ اسے حقیر سمجھتے ہیں۔ میں اسے حقیر نہیں سمجھتا اگرچہ وہ واقعتاً حقیر ہیں لیکن اس وقت وہی طبقہ حکومت کررہا ہے۔ آپ کی بات ماحول میں نہیں پھیل رہی، ان کی بات پھیل رہی ہے۔
طاہر مسعود: ان حالات میں ایک افسانہ نگار کیا کردار ادا کرسکتا ہے، اسے کیا کرنا چاہیے؟
ممتاز مفتی: کچھ بھی نہیں، بس ہم دیکھتے ہیں اور روتے ہیں۔ ہمارے لکھنے کا کیا ہے؟ اس سے پیسہ ملتا ہے نہ شہرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لکھنا تو افیون کھانے کے مترادف ہے، جیسے ایک افیونی ہے کہ چلو جی آج ایک گولی اور کھالو۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ میرے ذہن میں جو خیال ہے اس کے لکھنے سے معاشرے پر کوئی اثر پڑے گا تو یہ خام خیالی ہے۔
طاہر مسعود: آپ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے برصغیر میں پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو اسی حوالے سے بڑا مرتبہ ملا ہے۔ جب آپ اتنے مایوس ہیں تو نئے لکھنے والوں سے کیا توقعات رکھی جائیں؟
ممتاز مفتی: وہ موثر نہیں ہیں، وہ پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ میں نے اتنی کتابیں لکھی ہیں، ان میں صرف ایک کتاب ’’لبیک‘‘ کا اثر ہوا۔ یہ واقعی ایک عوامی کتاب تھی۔ مجھے کم از کم اڑھائی ہزار جذبات سے بھرپور خطوط ملے، حالاں کہ اس میں مجھ سے ایک غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ اس میں مجھے قدرت اللہ شہاب کو نہیں لانا چاہیے تھا۔ وہ کتاب شہاب صاحب کے ذکر کے بغیر بھی چل سکتی تھی۔ شہاب صاحب کے تعلق سے چند پراسرار واقعات پیش آئے، جسے میں نے لکھ دیا۔ میں تو سمجھتا رہا کہ میں سچی باتیں لکھ رہا ہوں، حالاں کہ مجھے ساری سچی باتیں نہیں لکھنی چاہئیں تھیں۔ لوگوں کے دل میں شک پیدا ہوگیا کہ یہ ضرور بدمعاشی کررہا ہے۔ میں شہاب صاحب کو نہ لاتا تو کتاب زیادہ پر اثر ثابت ہوتی اور اسے انٹی لیکچوئلز بھی تسلیم کرتے۔ ’’لبیک‘‘ کو انٹی لیکچوئلز نے صرف اس لیے تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ان میں درج بعض واقعات کو ان کی عقل ماننے سے منکر تھی۔ (رک کر) ایک تو میں ناقدوں کے سخت خلاف ہوں۔ مثلاً عبادت بریلوی صاحب تشریف لائے، پوچھا، ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’کہانیاں لکھتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’واہ واہ کیا کمال کرتے ہو‘‘۔ انہوں نے ایک کو کمال کہا، دوسرے کو کہااور مان لیے گئے کہ بڑے نقاد ہیں۔ ہمارے ہاں تنقید نہیں ہے۔ ہم مغرب کے معیارات مستعار لیتے ہیں اور انہیں اپنے ادب پر لاگو کردیتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں ساری باتیں مغرب کے حوالے سے ہوتی ہیں، اپنی بات تو کوئی ہوتی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: یہ آپ کن دلائل کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تنقید نہیں لکھی گئی جب کہ فراق گورکھ پوری اور محمد حسن عسکری جیسے اہم نام ہمارے پاس موجود ہیں؟
ممتاز مفتی: میں سب کی بات نہیں کررہا ہوں۔ عام طور پر رجحان یہ ہے کہ ہانڈی آپ نے پکائی۔ میں نے چکھا اور کہا کہ نمک زیادہ ہے۔ یہ تو کوئی تنقید نہیں ہے۔ نقادوں کو بھی تخلیقی کام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ، مانا کہ بڑے استاد ہیں اور انہوں نے بڑے بڑے عالم پیدا کیے ہیں، لیکن میں انہیں تسلیم نہیں کروں گا، تاوقتے کہ وہ کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام نہ دے دیں۔
طاہر مسعود: کیا تنقید خود تخلیقی عمل نہیں ہے؟
ممتاز مفتی: تنقید تخلیقی ہوسکتی ہے۔ ہم نے بھی اپنے دور میں ’’تخلیقی تنقید‘‘ کا مضمون پڑھا تھا، اور ہم جانتے ہیں کہ بڑے نقاد نے تخلیقات بھی پیش کی ہیں۔ عالم نے ہمیشہ ادیب کو مارا ہے۔ کسی نے کہا تھا Masters are monsters جب آپ اسپیشلسٹ ہوگئے تو آپ محدود ہوگئے۔ ہمیں ایسا آدمی نہیں چاہیے۔ ہمیں سمندر چاہیے۔ علم سے کبھی دنیا پر اثر نہیں پڑا۔ ادیب علم کو جذبات کی شکل دیتا ہے۔ گیس کو پانی بناتا ہے پھر چھلکاتا ہے۔ وہ دل کو اپیل کرتا ہے سرکو نہیں۔ عالم تو پتھر ہوتا ہے۔ ایک عالم ہمیشہ کرسی پر بیٹھ کر بات کرے گا کیوں کہ اسے اپنے علم کا زعم ہوگا لیکن ادیب آپ کے ساتھ کھڑے ہو کر بات کرے گا۔
طاہر مسعود: ادیب، علم کے بغیر ادیب بن سکتا ہے؟
ممتاز مفتی: یقیناً، علم کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں۔
طاہر مسعود: علم سے مراد جاننے کے ہیں، ادیب چیزوں کو جانے اور سمجھے بغیر بھلا کیسے ادیب بن سکتا ہے؟
ممتاز مفتی: علم کا مطلب ہے، مطلع ہونا یعنی آپ باخبر ہیں لیکن ایسا علم آپ کے دل کو وسعت نہیں دیتا۔
طاہر مسعود: فرض کیجیے میں ناول نگار ہوں اور سمندری زندگی پر ایک ناول لکھنا چاہتا ہوں لیکن سمندر اور سمندر پر سفر کرنے والے جہاز کے متعلق میرا علم صفر ہے یا ناقص ہے تو کیا میں ناول لکھ سکتا ہوں؟
ممتاز مفتی: آپ لکھنے کے لیے صرف اتنا سا علم حاصل کریں گے کہ آپ کا کام حقیقت پر مبنی محسوس ہو، مثلاً معاشیات ہے۔ معاشیات کے موضوع پر آپ کو عبور حاصل ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ غریبوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو بھی سمجھتے ہیں۔
طاہر مسعود: یعنی علم کو ادب بنادینا، ادب کا کمال ہے جیسے قرۃ العین حیدر نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ کیا وہ تاریخ کے مطالعے کے بغیر ’’آگ کا دریا‘‘ لکھ سکتی تھیں؟
ممتاز مفتی: دیکھیے نا! آپ کچھ مشاہدہ کتابوں سے اور زیادہ مشاہدہ زندگی سے حاصل کرتے ہیں تا کہ اپنی بات کو بنا سنوار کر پیش کرسکیں۔
طاہر مسعود: اچھا، اب ایک دوسرے موضوع کی طرف آئیے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ہماری موجودہ زندگی کو قوت و شدت کے ساتھ اس کے تنوع کو سمیٹ کر لکھنے کے لیے ناول کی صنف مناسب اور موزوں ہے۔ افسانے میں زندگی کی صرف جھلکیاں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس حوالے سے میں پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے صرف ایک ہی ناول لکھنے پر اکتفا کیوں کیا؟ اس صنف پر عمومی توجہ کیوں نہیں کی؟
ممتاز مفتی: پرانے لکھنے والے ماسٹرز کی ایک کہانی نے مجھ پر کئی کئی ناولوں سے زیادہ اثر کیا ہے۔ رہا سوال اس صنف پر میرے توجہ کرنے کا تو دراصل ہمارے ہاں بہت مہذب ناول لکھے گئے ہیں۔ تہذیب میں آپ کے جذبات مخمل میں لپٹ جاتے ہیں۔ ایک عام دہقان جب اپنی بات کا اظہار کرتا ہے تو نہایت برملا طریقے سے، پنجابی منہ پھٹ زبان ہے۔ اس لیے کہ اس پر تہذیب کے غلاف نہیں چڑھے، اردو پر یہ غلاف چڑھ چکا ہے۔ اس وجہ سے اردو میں زندگی Crude طریقے سے نہیں آپاتی۔ پنجابی میں نہ تو افسانہ ہے نہ ناول، بس شاعری ہی شاعری ہے جسے لیے جھومتے رہتے ہیں۔ میں نے سوچا کوئی ایسی چیز لکھوں جو بالکل Crude ہو۔ سب سے زیادہ مجھے انسان کے بارے میں تصورات نے متاثر کیا ہے۔ تصورات یہ ہیں کہ ایک انسان بڑا سخی ہے، نیک ہے، دوسرا آدمی بدمعاش ہے اور یوں ہم نے انسانوں کے بارے میں سیدھی سادی تعریف کر رکھی ہے۔ اس سے مجھے اختلاف رہا ہے۔ کافکا اور دوستو فیسکی نے مجھے انسانی شخصیت کے متعلق بتایا کہ یہ بے حد عجیب ہے۔ ایک شخص رفاہی ہسپتال کے لیے دس ہزار روپے کا چندہ دے کر گھر آتا ہے اور اس کی بیوی اسے بتاتی ہے کہ اس کی پرانی قمیص بھنگن کو دے دی گئی ہے۔ صرف اس بات پر وہ شخص چراغ پا ہوجاتا ہے اور اپنی بیوی سے لڑ پڑتا ہے کہ اس نے کتنا نقصان کردیا۔ انسانی شخصیت میں بڑا تضاد ہے او سارا حسن تضاد ہی میں ہے۔ ایک افسانہ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ایک شخص ساری عمر عبادت کرتا رہا۔ جب مرنے لگا تو اس نے پادری کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ ساٹھ سال سے عبادت کررہا ہے لیکن وہ اب تک خدا کے وجود پر صدق دل سے ایمان نہیں لاسکا۔ شخصیت کے تضاد نے ہمیشہ مجھے متاثر کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ ایک ایسی کتاب لکھوں جس میں کوئی جھوٹ نہ بولوں، تب میں نے ’’علی پور کا ایلی‘‘ لکھا۔ یہ میری زپنی زندگی کی کہانی تھی۔ اس زمانے میں مجھ میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اسے اپنی آپ بیتی لکھتا، لہٰذا اسے میں نے ناول کی صورت دی۔ ایلی کے کردار میں بے پناہ تضادات ہیں اور وہ ’’ایڈیٹ‘‘ سے بھی بدتر کردار ہے۔ (جاری پے)

حصہ