البدر

267

ایسا کچھ وہ میرے پروگرام میں بھی بتا رہے تھے کہ ایک واقعے پر پورا ماحول افسردہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اُن دنوں میرے آرمی یونٹ کا دفتر، جو ’’جمال پور‘‘ ضلع کے ایک قصبے شیرپور میں واقع تھا، وہاں ایک لڑکا آیا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ’’میرے بڑے بھائی کو گرفتار کرلو، وہ مکتی باہنی میں شامل ہوکر بھارت سے ٹریننگ لے کر آیا ہے اور وہاں جاتا آتا رہتا ہے، وہ پاکستان کے حامی لوگوں کو قتل کرتا پھررہا ہے‘‘۔
انہوں نے لڑکے سے کہا: ’’تمہیں معلوم ہے اس جرم کی آخرکار سزا موت بھی ہوسکتی ہے، اور کیا تمہیں یا تمہارے ماں باپ کو اس بات کا اندازہ ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میرے والد فوت ہوچکے ہیں، لیکن میری ماں اور مجھے دکھ تو یقینا ہوگا، لیکن ایسے بھائی کا مر جانا ہی اچھا ہے جو میرے کروڑوں بھائیوں کے ساتھ غداری کررہا ہو۔‘‘ پھر کہنے لگا: ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرکے لے آئوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارے ساتھی کون ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’میرے ساتھی ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ (اسلامی جمعیت طلبہ)کے لڑکے ہیں۔‘‘
میں نے اسے کہا کہ تم ایسا مت کرو، میں خود اسے بلوا لوں گا‘‘۔ اور دو دن کے اندر ہی ہم نے اس کے بھائی کو اُس وقت گرفتار کروا لیا جب وہ بھارت کے بارڈر سے مشرقی پاکستان میں داخل ہورہا تھا۔ تین دن تک اسے کیمپ میں رکھا اور سمجھایا تو بات اس کی بھی سمجھ میں آگئی۔ لیکن میرے ذہن میں ایک بات اٹک کر رہ گئی کہ اس لڑکے کے ساتھی کس بلا کے ہوں گے کہ جو اپنے سگے بھائی کو بھی گرفتار کروانے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
ریٹائرڈ میجر ریاض حسین ملک اس کے بعد بیان کرنے لگے کہ میں ان لڑکوں سے جا کر ملا تو مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان میں سے ہر نوجوان، ایمان کی حلاوت اور جذبے سے اس قدر مالامال ہے کہ وہ اس دور کے لوگ ہی معلوم نہیں ہوتے۔ اسی دوران میجر صاحب کو خیال آیا کہ کیوں ناں ان نوجوانوں کی ایک فورس تخلیق کی جائے جو بھارت کی تیارکردہ ’’مکتی باہنی‘‘ کا مقابلہ کرسکے۔ میجر صاحب نے اس سے کہا کہ وہ اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر اسکول کے احاطے میں آجائے۔
وہ لڑکا شام کو اسلامی چھاترو شنگھو کے بے شمار نوجوانوں کو لے کر وہاں آگیا۔ یہ لڑکے بہت زیادہ تھے اور اس قصبے کے لیے ہمیں کم لڑکوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے میجر صاحب نے مضبوط جسم اور قد کاٹھ کے لڑکوں کو ایک طرف کرنا شروع کیا اور کمزور جسامت اور چھوٹے قد کے لڑکوں کو اس فورس سے علیحدہ کردیا۔ اس دوران وہ جب ایک چھوٹے سے قد کے لڑکے کے پاس گئے اور اسے علیحدہ ہونے کو کہا تو اُس نے انکار کردیا۔
میجر صاحب نے کہا کہ ’’تمہارا قد بہت چھوٹا ہے، اس لیے تم فورس میں شامل نہیں ہوسکتے‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ اپنی ایڑیاں اٹھاکر پنجوں پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ ’’اب تو قد پورا ہوگیا‘‘۔
واقعے کے بیان کے وقت کا یہ وہ لمحہ تھا جب پروگرام میں موجود ہر شخص کی آنکھ نم تھی اور یہ آنسو غم کے نہیں تھے، بلکہ اُمتِ مسلمہ کی اس روایت کے تسلسل میں تشکر کے تھے، جس کی بنیاد میدانِ بدر میں دو چھوٹے بچوں ’’معاذ‘‘ اور ’’معوذ‘‘ نے رکھی تھی۔
بدر کے معرکے کی کسمپرسی کا بھی کیا عالم ہوگا۔ سید الانبیاؐ کی چودہ برس کی محنتوں کا ثمر، کُل تین سو تیرہ ’’نفوسِ قدسیہ‘‘ صحابہ کرامؓ جب اس ریتیلے ٹیلوں والے میدان میں جمع ہوئے تھے۔ ان تین سو تیرہ کا کُل سامانِ حرب دو گھوڑے، چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ یعنی صرف آٹھ صحابہ کرامؓ ایسے تھے جن کو لڑائی کے لیے ہتھیار میسر تھے، جبکہ باقی 305 میں کوئی پتھر تیز کرکے لایا تھا اور کسی کے ہاتھ میں کھجور یا کسی اور درخت کی لکڑی سے بنایا گیا ڈنڈا تھا۔
یہ تین سو تیرہ وہ تھے جو اس دن کائنات کی تاریخ بدلنے والے تھے۔ ایمان کا عالم یہ تھا کہ مسجد نبویؐ سے میدانِ بدر کی جانب روانگی سے قبل ہر کسی کو معلوم تھا کہ کفار کا لشکر ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور ہر کسی کے پاس اسلحہ موجود ہے، لیکن کسی ایک نے بھی سید الانبیاؐ کے سامنے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ہم ایک ایسی جنگ کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں جس میں دنیاوی اسباب کے اعتبار سے صرف شکست ہی شکست نظر آتی ہے۔
حفیظ جالندھری کے ’’شاہنامہ اسلام‘‘ نے اس کی کیا خوب منظرکشی کی ہے:
نہ تیغ و تیر پر تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا انہیں اک سیدھی سادی کملیؐ والے پر
تھے ان کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دُنیا بھر کی تقدیریں
دنیا کی تقدیر بدلنے والے اس قافلے میں دونوجوان ’’معاذ‘‘ اور ’’معوذ‘‘ بھی تھے کہ جنہیں رسول اکرمؐ نے بچہ سمجھتے ہوئے ساتھ لے جانے سے انکار کردیا تو وہ دونوں آقا ؐ کے سامنے ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے ’’اب تو ہمارا قد بڑا ہو گیا ہے‘‘۔
میرے اللہ نے ان کے اس جذبے کی ایسی لاج رکھی کہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن، جسے رسول اللہ ؐ نے تمام اُمتوں کے فرعونوں سے بڑا فرعون کہا ’’ابوجہل‘‘ ان دونوں کم سن جنگجوئوں ’’معاذ‘‘ اور ’’معوذ‘‘ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔
چودہ سو سال بعد جب اس بنگالی لڑکے نے جمال پور کی آرمی یونٹ میں پنجوں پر کھڑے ہو کر اپنا قد بلند کیا تو بہ قول میجر ریاض حسین ملک میرے دماغ میں ’’میدانِ بدر‘‘ گھوم گیا اور ایک ہی لمحے میں اس تنظیم کا نام ’’البدر‘‘ رکھ دیا گیا۔
ان سرفروشوں اور صاحبانِ ایمان ’’البدر‘‘ کے مجاہدوں اور شہیدوں کی داستان ’’سلیم منصور خالد‘‘ نے ’’البدر‘‘ کے نام سے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب میں تحریر کی ہے۔ وہ بھی اس لمحے نم آنکھوں کے ساتھ اس پروگرام میں موجود تھے۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کو پچاس سال بیت چکے ہیں، لیکن ہم، ہمارا میڈیا، ہماری سیاست اور حکومت ’’البدر‘‘ کے ان مجاہدین کو فراموش کرچکے ہیں۔ برطانیہ کا وزیر اعظم آج بھی جنگ ِ عظیم اوّل میں ان کے لیے لڑنے والے گوجر خان کے سپاہی کی قبر پر پھول چڑھاتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں تاجِ برطانیہ کے لیے جان دینے والوں کی عزت و تکریم قائم رہے۔ جو قومیں اپنے لیے قربانی دینے والوں کو بھول جاتی ہیں، تاریخ بھی ان قوموں کو فراموش کر دیا کرتی ہے۔
nn

حصہ