پروفیسر غفور احمد روڈ

208

کسی کام کے سلسلے میںکراچی کے علاقے گلستانِ جوہر جانا ہوا۔ گاڑی سے باہر نظر کی تو سامنے نیلے رنگ کے بورڈ پر سفید رنگ سے ’’پروفیسر غفور احمد روڈ‘‘ لکھا نظر آیا تو آٹھ سال پہلے کا ایک ایک پل یاد آنے لگا۔
26 دسمبر 2012ء کی شام مغرب کی نماز کے بعد میرے والدِ محترم پروفیسر غفور احمد کی طبیعت کی ناسازی کا فون آیا۔ ابا جی کے گھر سے فون آنے کے بعد میں اور میرے خاوند شہاب فوراً ابا جی کے گھر پہنچے۔ قریبی ڈاکٹر نے ابا جی کو دیکھ کر جو بات بتائی وہ دل ماننے کو تیار نہیںتھا۔ پھر قریبی اسپتال لے جایا گیا، وہاں بھی یہی جواب ملا اللہ نے اپنی امانت واپس لے لی۔ اللہ میرے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔
میرے والد کی زندگی الفاظ سے زیادہ عمل پر مبنی تھی۔ یعنی جن باتوں کا وہ الفاظ کے ذریعے اظہار کرتے اُن پر عمل کرنا ان کی عبادت کا خاص حصہ تھا۔ ایک بھرپور سیاسی زندگی گزارنے والے میرے والدِ محترم پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے تھے جن پر یقینی طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر غفور احمد وہ نام ہے جن کا فعال کردار اُن کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ابا جی میں یہ خوبی تھی کہ وہ سیاست میں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کو ہمیشہ مدنظر رکھتے، جب کہ پاکستان کی سیاست کا بیشتر حصہ سیاسی محاذ آرائی، ایک دوسرے پر سنگین الزامات اور نفرت کی سیاست کی بنیاد پر چلا ہے۔
میرے والدِ محترم ایک درویش منش اور حق و صداقت کا پیکر تھے، جو سیاسی شہرت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ایمان داری سے جدوجہد کی علامت تھے، جن پر مجھ سمیت سب ہی فخر کرسکتے ہیں۔ بے شک ابا جی نے اپنی زندگی کے بہت سے ماہ و سال اپنے ملک و قوم کی خدمت میں گزارے، یہ شاہراہ صرف میرے والدِ محترم کے نام نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے نام ہے۔ جماعت کے وہ چار نام جو کراچی میں مقیم تھے اور جنہوں نے کراچی کی بے لوث خدمت کی، ان میں پروفیسر غفور احمد کے ساتھ ساتھ محمود اعظم فاروقی صاحب، عبدالستار افغانی صاحب اور نعمت اللہ خان صاحب کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ چاروں حضرات دنیا سے پردہ کرچکے ہیں لیکن اپنی خدمت و خلوص کے صلے میںآج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
میرے والدِ محترم نے نہ صرف یہ کہ صاف ستھری سیاسی زندگی گزاری بلکہ وہ عام زندگی میں بھی متقی، پرہیزگار اور شفقت کا پیکر تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ غلط صدی میں پیدا ہوگئے تھے، ان کے اعمال قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں جیسے تھے۔
گزشتہ دنوں سیاست کا ایک اور باب ختم ہوا۔ سردار شیر باز مزاری صاحب کے انتقال کی خبر آئی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
مجھے یاد ہے معروف کالم نگار اور دانشور شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا کہ ایک دفعہ سردار شیر باز مزاری کا انٹرویو لے رہے تھے، جب سیاسی رہنمائوںکا ذکر ہوا تو مزاری صاحب نے پروفیسر غفور احمد کے بارے میں اس طرح گفتگو شروع کردی جیسے وہ پروفیسر غفور احمد کے پروپیگنڈہ سیکرٹری ہوں۔ وہ لکھتے ہیں: ہم نے کریدنے کے لیے سوال کیا کہ پروفیسر غفور صاحب میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ تو سردار شیر باز مزاری نے کہا: میں نے ان کے ساتھ اسمبلی میں وقت گزارا ہے اور میں گواہی دیتا ہوںکہ پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور ڈاکٹر نذیر احمد شہید ایسے لوگ تھے جنہیں نہ ڈرایا جا سکتا تھا، نہ خریدا جا سکتا تھا۔ ان لوگوں کے لیے ان کے نظریات ہی سب کچھ تھے۔
مجھے یاد ہے اباجی اپنے انتقال سے دو تین مہینے پہلے طبیعت کی خرابی کے باعث اسپتال میں داخل تھے تو ضعیف العمری کے باوجود سردار شیر باز مزاری صاحب ابا جی کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے اور ان کے سرہانے عقیدت سے کافی دیر تک کھڑے رہے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اباجی کی بھی آنکھیں نم تھیں۔ یقینا دونوں رہنمائوں کی آنکھوں میں یہ آنسو اپنے ملک کی سلامتی کے لیے ہوںگے کہ اللہ اس ملک کی باگ ڈور اچھے ہاتھوں میں دے اور پاکستان کا نام دنیاکے نقشے پر قائم و دائم رہے، آمین۔
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی، میں خیالات کی دنیا سے باہر آئی تو دیکھا کہ پروفیسر غفور احمد روڈ ختم ہوچکی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس روڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی اچھی سیاست ختم ہوچکی ہے۔
میری دعا ہے کہ آج کے سیاست دان اور نئی نسل ان بزرگ ہستیوں سے کچھ سیکھے جنہوں نے ملک و قوم کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں، اور جن کی ایمان داری اور سچے ہونے کی گواہی اُن کے سیاسی مخالفین بھی دیتے ہیں، تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک اچھا اور مضبوط پاکستان دے سکیں، محض شاہراہوں کے نام رکھنے پر اکتفا نہ کیا جائے۔

حصہ