دسمبر کا درد

208

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
یخ بستہ ہوائیں، برف ہوتے جذبات، رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کو منجمد کرنے والی فضا، عجب اک وحشت کا سماں… سرما کی طویل راتیں کاٹے نہیں کٹتیں۔
جونہی دسمبر شروع ہوتا ہے میرے اندر کی برف پگھلنے لگتی ہے۔ باہر کی سرد ہوا روح میں حرارت سی جگا دیتی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ، دل کی دھڑکن کو تیز کرنے والے اور دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح برسنے والے دو ہی الفاظ ہیں، جن کے پس منظر میں طویل داستانیں ہیں بے حسی اور بے غیرتی کی، غداری اور بے ایمانی کی، بک جانے اور بیچ ڈالنے کی… اور ہاں سچ اور وفاداری کی بھی، لگن اور ایمان داری کی بھی۔
یہ داستانیں بھی یہیں بکھری ہوئی ہیں
شہیدِ وفا بھی بہت، اور آنکھوں سے لہو بہاتے غازی بھی بہت
پھر بھی شکست ہمارا مقدر ٹھیری، آخر کیوں؟
ہمارے حصے میں صرف ہجر کی راکھ ہی بچی، کیوں؟
ہم ساری قوتِ ایمانی، جوشِ جوانی، وعدۂ وفا اور عزم و ہمت سمیت قیدی بنا لیے گئے۔ وہ زخم زخم تاریخ کیلنڈر کا حصہ یوں بنی ہے کہ کانٹا بن کر چبھتی رہتی ہے۔
اب یہ کیسا موسم ہے کہ درد کچھ اور بڑھا جاتا ہے؟ کربلا کا میدان ہو یا ڈھاکہ کا ریس کورس گراؤنڈ… جنگ وہی ہے جو ازل سے جاری ہے۔ منظر اور کردار بدلتے ہیں، باہر وہی رات کا سناٹا ہے، منجمد فضا ہے، اندر اک طوفان ہے، بے چینی ہے، کشمکش ہے۔
اپنوں کے لگائے زخم کتنے گہرے ہوتے ہیں کہ بھرتے نہیں، ان سے قطرہ قطرہ لہو رستا ہی رہتا ہے۔ یہ جنگ تو پرانی ہے، یہ دو افراد اور دو ملکوں یا دو اقوام کی جنگ نہیں، یہ دو نظریات کی جنگ ہے، یہ حق و باطل کی جنگ ہے، یہ طاغوتی نظام اور بندگانِ خدا کی کشمکش ہے، یہ اس کردار کی بلندی کی گواہی ہے جس کی انتہا حسینؓ اور ابتدا اسماعیلؑ۔
16 دسمبر 2014ء
سرخی کچھ اور نمایاں ہوجاتی ہے۔ ہمارے معصوم خون میں نہلائے گئے، قیامت سی قیامت تھی، ظلم ہی ظلم۔ ہمیں ان 80 معصوم جگر گوشوں کا بہتا لہو بھی یاد ہے جنہیں مدرسے میں قرآن پڑھتے ہوئے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا… ہم نہیں بھولے۔
کیسی لہو رنگ تاریخ کے وارث ہیں ہم… پاکستانی ہونے کی حیثیت سے نہیں، امتی ہونے کی حیثیت سے بھی۔ ہمارے معصوم جگر گوشوں کے لاشے کبھی ارضِ فلسطین پہ، کبھی شام، کبھی کشمیر اور کبھی پشاور میں تڑپتے رہتے ہیں، گھاؤ لگتے رہتے ہیں، اور ہم محض آہیں اور سسکیاں بھرتے رہتے ہیں۔
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
اب سمجھ میں آتے ہیں وہ محبوبِ خدا محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو اور امتی امتی کی پکار۔ کتنا کچھ کھو چکے ہم؟ آج سازشو ں کو نہ پہچانا تو بہت کچھ اور لٹا بیٹھیں گے۔
آنکھوں پہ چھائی دھند چھٹے تو دیکھو،
کچھ راہیں تو متعین ہیں
کیسا واضح منظر سامنے ہے کہ حقیقی منزل کا پتا تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہمیں سمجھا گئے تھے، قرآن ہاتھوں میں تھما گئے تھے، خود چل کے دکھا گئے تھے۔ نشانِ راہ ہم نے اپنی غفلت سے کھو دی۔
تو سیدھی راہ کو کھوجنا، تلاشنا اب ہماری ذمہ داری ہے، اور اب منزل کے لیے تیز تر گامزن ہونا ہے۔
اس سچی اور حسین منزل کے راہی تو بنیں، پھر خواہ دورانِ سفر ہی جان جائے، منزل تک پہنچ بھی نہ پائیں، وہ سفر خود اک شہادت بنے گا ہماری نجات کے لیے:
اخروی اور ہمیشگی کی نجات کے لیے
آؤ ہم تم چلیں
اس حسیں راہ پر
جس کے آخر میں ہے
ترے رب کی رضا
میرے رب کی رضا

حصہ