پاکستان اسلامی ریاست کیسے بنے؟۔

302

مثال کے طور پر آپ اپنے پرانے معاشرے کو دیکھیے۔ زندگی کے بعض شعبے اس کی دسترس سے باہر تھے‘ لیکن اپنے دائرہ اثر میں وہ مسلمان فرد پیدا کرنے پر زور دیتا تھا۔ یعنی اس کا طریقۂ کار اجتماعی نہیں انفرادی تھا۔ وہ اپنے کام کا آغاز بچے کی پیدائش سے کرتا تھا‘ بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان دی جاتی تھی۔ یہ گویا نوزائیدہ فرد سے اسلام کا پہلا تعارف ہوتا تھا۔ اس کے بعد عقیقہ‘ ختنہ اور بسم اللہ کی رسوم بچے کو اسلامی تربیت کے ابتدائی مرحلوں سے گزارتی تھیں۔ پھر نماز اور روزہ کشائی کے ذریعے بچے کو اسلامی عبادات سے روشناس کرایا جاتا تھا اور جوں جوں وہ عمر میں بڑھتا جاتا تھا اس کی تعلیم و تربیت میں اسلام کا دخل زیادہ سے زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ گھروں میں اسلام کی باتیں ہوتی تھیں‘ بزرگانِ دین کے قصے بیان ہوتے تھے‘ کہانیوں میں ایک تھا بادشاہ‘ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ خدا کا رسولؐ بادشاہ کا سبق پڑھایا جانا دینیات کے نظام جیسا نہیں تھا جو ایک ذیلی سیارے کے طور پر کسی اجنبی نظامِ شمسی کا حصہ بنا دیا گیا ہو‘ چنانچہ پیدائش کے وقت سے تعلیم مکمل ہونے تک وہ ایک اسلامی معاشرے کا جزو بننے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکا تھا‘ پھر جس معاشرے میں اسے داخل کیا جاتا تو اس کی مجموعی ذہنیت‘ طرز احساس‘ طرز خیال اور طرز عمل میں اسلام کا اثر اوپر سے نیچے تک موجود تھا۔ یہ معاشرہ کسی تہذیبی‘ علمی‘ یا نظریاتی ثنویت کا شکار نہیں تھا۔ یوں بچہ سنِ شعور تک پہنچنے سے پہلے آدھا دین اپنے گھر میں سیکھ جاتا تھا۔ اس کے بعد جب وہ تعلیم کے لیے مکتب میں پہنچتا تو دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا پورا نصاب اس کے لیے تیار ملتا تھا۔
اس وقت جو نصاب اسلامی تعلیم و تربیت کے نظام میں مرکز کی حیثیت رکھتا تھا اس کی حیثیت موجودہ نظام تعلیم کی نہیں تھی‘ چنانچہ فرد جس معاشرے کا حصہ بنتا وہ خود اس کی انفرادیت کی توسیع میں مدد کرتا‘ وہ اسے اپنا ایک مثبت‘ مفید اور فعال رکن بنا لیتا۔ ہمارے نزدیک اسلام کے نفاذ کا یہ فطری طریقہ ہی سب سے مناسب طریقہ تھا‘ لیکن اس طریقۂ کار کی افادیت موجود معاشرے میں کیا ہے اور یا موجودہ معاشرے میں اس کی گنجائش ہے بھی یا نہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے‘ موجودہ معاشرے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم دو دنیائوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ ایک دنیا وہ ہے جو ابھی تک ہمارے دیہات میں وجود رکھتی ہے اور جہاں پرانے معاشرے کی روایات اب بھی موجود ہیں۔ دوسری دنیا شہروں کی دنیا ہے‘ چو طرفہ سے ایسے اثرات کی کھلی زد میں ہے جو اسلام سے براہِ راست متصادم ہیں۔ شہروں کی یہ دنیا ملک کی کثیر دیہی آبادی کو دیکھتے ہوئے اقلیت کی دنیا ہے‘ لیکن یہ اقلیت اتنی طاقت ور اور وسیع تر اثرات کی حامل ہے کہ سارا ملک اس کے کنٹرول میں ہے۔ دیہی اکثریت کے رجحانات ’’حکم ران اور رجحانات‘‘ نہیں ہیں۔ شہری اقلیت معاشرے کی حکمران بھی ہے اور زندگی کے نئے راستوں پر اس کی رہنمابھی۔ پھر اس فنی زنددگی کی ترقی کے ساتھ اس اقلیت کے اثرات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ معاشرے سے ہماری مرادیہی شہری معاشرہ ہے جو صنعت اور تعلیم کی ترقی کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں غالب قوت کی حیثیت سے پھل رہا ہے۔ اس معاشرے کے اثرات سے ہمارے گھروں کا ماحول بالکل بدل گیا ہے۔ اب گھروں میں دین کی باتیں اس طرح نہیں ہوتیں جس طرح پہلے ہوتی تھیں۔ بزرگان دین کی حکایات اور اولیاؒ و انبیاؑ کے قصوںکی جگہ اب فلم ایکٹروں اور کھلاڑیوں کے تذکروں نے لے لی ہے۔ اب بچے پہلے معاشرے کی طرح حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کاذکر سننے کے بجائے اداکارئوں کا ذکر سنتے ہیں اور حضرت خالدؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عمرؓ کے حالاتِ زندگی سے واقف ہونے کے بجائے کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں سے روشناس ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں ہمیں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کی بنیاد اسلامی تصورات پر نہیں ہے۔ اب بچے وہاں جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسلامی معاشرے کے تقاضوں سے چنداں نسبت نہیں رکھتا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمیں جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ ہمیں مسلمان فرد بننے میں مدد دینے کے بجائے ابتدا ہی سے ایسے مسائل میں الجھاتا ہے جو مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات یا کم از کم بے توجہی اور لاپروائی کے اثرات پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر ان ادروں سے ہم جو کچھ سیکھ کر نکلتے ہیں وہ ہمیں ایک نیم مشرقی‘ نیم مغربی‘ نیم اسلامی‘ نیم غیر اسلامی قسم کا فرد بناتا ہے جس کے ذہن میں انتشار اور دھند کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر جب یہ فرد تعلیم کے مرحلوں سے گزر کر معاشرے کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو جو معاشرہ اسے ملتا ہے وہ ایک چوں چوں کے مربّے سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ ہزار دو ہزار تضادات فرد کے راستے میں بھیانک سوال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی شخصیت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں‘ پھر یا تو وہ پیسہ بنانے یا معاشرے کی دوسری ترغیبات کا شکار ہو کر ایک ایسا فرد بن جاتا ہے جو اسلام‘ اخلاق اور کردار کے سارے تقاضوں سے بے نیاز ہے یا پھر داخلی اور خارجی تضادات کی پیکار میں مبتلا ہو کر ناکام ہو جاتا ہے اور باقی دن مایوسی اور ناکامی میں گزارتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ تبدیلیاں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں اور ان تبدیلیوں کو پوری طرح سمجھے بغیر ہم نہ اس معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں نہ فرد کو نئے اسلامی معاشرے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔
موجودہ معاشرے کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کانقطۂ آغاز فرد کو بنانے کے نظریے پر کئی اعتراض کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ افراد کو تبدیل کرنا ایک طویل اور مسلسل عمل کا تقاضا کرتا ہے‘ جب کہ زمانے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ آپ جتنے عرصے میں چند افراد کو مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے تیار کریں گے‘ اتنے عرصے میں زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے گا اور نئے حوادث و واقعات آپ کے عمل کو کچھ سے کچھ بنا دیں گے۔ ایک دوسرا اعتراض یہ ہے کہ افراد کی تبدیلی عملاً کبھی اتنی قوت حاصل نہیں کر پاتی کہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہو سکے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ موجودہ معاشرہ اتنا وسیع اور پیچیدہ ہوگیا ہے کہ افراد کی تبدیلیاں آسان نہیں رہیں۔ آج کل فرد کو بدلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی مشین میں لگے ہوئے پرزے کے عمل کو مشین کے اندر رہتے ہوئے بدلنے کی کوشش کی جائے۔
وضاحت کے لیے ایک مثال پر غور کیجیے۔ آپ اپنے قول اور عمل کی بہترین کوششوں سے ایک فرد کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن معاشرے کے وسائل ابلاغ جتنے قوی ہیں آپ کے نہیں ہیں۔ آپ کی مہینہ بھر کی کوشش ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام سے غارت ہو سکتی ہے۔ یہ اعتراضات اہم اور وقیع ہیں اور ہمیں اپنے کام کا آغاز کرنے سے پہلے انہیں بھی پوری طرح جانچ پرکھ لینا چاہیے۔
معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کا آغاز اجتماعی طور پر ہو یا انفرادی طور پر‘ ہم ابتدا قانون سازی سے کریں یا فرد سازی سے‘ تبدیلی کا عمل پہلے خارج میں کیا جائے یا پہلے داخلی تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ اوپر ہم نے مختصر طور پر دونوں نقطہ ہائے نظر بیان کر دیے ہیں اور ان کی خوبیاں اور کمزوریاں بھی واضح کر دی ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہمارے لیے بہترین لائحہ عمل کیا ہوگا اور کون سے طریقۂ کار کو اختیار کرکے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ معاشرہ بطور ایک مجرد اکائی کے صرف ذہنوں میں وجود رکھتا ہے‘ ورنہ ٹھوس معنوں میں معاشرہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے فراد پر مشتمل ہوتا ہے جو قانونِ وراثت‘ ماحول اور روایات کے تحت خصوصی طرز عمل‘ طرزِ احساس اور طرزِ خیال کے حامل ہوتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے میں ہمیشہ دو اصول ایک دوسرے کی مطابقت میں کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک اصول کے تحت معاشرے میں وہ ہم آہنگی‘ یکسانیت اور اتحاد پیدا ہوتا ہے جو اس معاشرے کے افراد اور طبقات کو یکجا رکھتا ہے۔ ہم اس اصول کو اصولِ وحدت کہتے ہیں اس کے مقابلے پر ایک دوسرا اصول معاشرے میں تنوع‘ اختلاف اور تضادات کا حامل ہوتا ہے جو اس معاشرے کے مختلف طبقات کے رجحانات اور روّیوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرتا ہے اور ان میں وہ رنگا رنگی پیدا کرتا ہے جس کے بغیر معاشرے کی ترقی اور نشوونما ممکن نہیں ہوتی۔ اس اصول کو ہم اصولِ کثرت کہتے ہیں۔ اب اس اعتبار سے پاکستانی معاشرے میں جو اصولِ وحدت کار فرما ہے اس کے دو بڑے مظہر مذہب اور سیاست یا مملکت ہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر سے پاکستان کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے اور اسلام ان کے درمیان وہ قدرِ مشترک ہے جو صوبوں اور علاقوں کی علیحدہ علیحدہ وحدتوں کے باوجود انہیں ایک لڑی میں پروتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں مذہبی اقلیتیں بھی موجود ہیں جو اس وحدت کے تحت نہیں آتیں تاہم وحدت کا دوسرا اصول ان پر منطبق ہوتا ہے یعنی وہ پاکستان کی ریاست کے باشندے ہونے کی وجہ سے پاکستانیت کے رشتے میں اکثریت کے ساتھ وابستہ ہیں اس کے مقابلے میں اصولِ کثرت کی روشنی میں پاکستانی معاشرہ کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔
مثلاً پاکستانی معاشرے کی ایک تقسیم صوبوں اور علاقوں کے اعتبار سے وجود میں آتی ہے یہ پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور سرحد کے ان باشندوں پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے علاقوں کی جغرافیائی تاریخی‘ تمدنی اور لسانی روایات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک گل دستے کے مختلف پھولوں کی طرح جدا جدا رنگ و بُو رکھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی دوسری تقسیم معاشی اعتبار سے کی جاسکتی ہے۔ اس تقسیم کے نقطۂ نظر سے پاکستانی معاشرہ کسان‘ مزدور‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ متوسط طبقہ اور نوکری شاہی پر مشتمل ہے۔ ان طبقات میں ان کے مفادات‘ رجحانات اور طرزعمل‘ طرز احساس اور طرز خیال کے اعتبار سے بڑا اختلاف اور فرق و امتیاز پایا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کا منصوبہ اس تمام صورت حال کے گہرے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم جب تک اپنے معاشرے کے جغرافیائی‘ تاریخی‘ تمدنی‘ لسانی‘ معاشی‘ سیاسی اور مذہبی ساخت کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک اس کی تعمیر نو کا آغاز ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اب ایک اور زاویے سے اس معاشرے کی ایک اور تقسیم وجود میں آتی ہے۔ ہر معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی بوڑھوں‘ جوانوں‘ بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔ معاشرے کی تعمیر نو کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو پوری طرح سمجھ لیا جائے کہ ہمارے منصوبے کے دو رخ ہوں گے۔ ایک رخ کا تعلق اُن لوگوں سے ہوگا جو اپنے کردار اور شخصیت کے اعتبار سے پختہ ہو چکے ہیں اور جو کچھ بننا اور بگڑنا تھا بن یا بگڑ چکے ہیں۔ دوسرے رخ کا تعلق ان افراد سے ہوگا جو ابھی بننے کے مرحلے میں ہیں اور جنہیں نئے معاشرتی روّیوں میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا ایک رشتہ معاشرے کے موجود لوگوںسے ہوگا اور دوسرا رشتہ اُن لوگوں سے ہوگا جو معاشرے میں ابھی داخل ہو رہے ہیں یا آئندہ داخل ہوں گے۔ اس بات کو میں ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے ہم اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک نئے انداز میں آغاز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تعلیم اور تربیت معاشرے کے پختہ افراد کے لیے اتنی سود مند اور کارگر نہیں ہوگی جتنی معاشرے کے ان افراد کے لیے جو ابھی اپنے معاشرتی کردار اور روّیوں میں پختہ نہیں ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم موجودہ لوگوں کے لیے کس قسم کا عمل تجویز کرتے ہیں اور نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا نظامِ تعلیم و تربیت بناتے ہیں۔
ہم آج جو کچھ بھی کریں گے اس کا پھل ہمیں آج ہی نہیں ملے گا۔ ہمارا آج کا عمل ہمارے کل کی صورت گری میں زیادہ مؤثر ثابت ہوگا اور اگر ہم نے اس منصوبے کو فوری نتائج تک محدود رکھا تو اس سے ہمیں اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا فائدہ ہمیں دُوررس نتائج کی حامل منصوبہ بندی سے حاصل ہوگا۔ معاشرے میں یقینا بہت سی چیزیں فوری طور پر کرنے کی ہیں‘ لیکن دُوررس منصوبہ بندی اس سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔ ہم آج منصوبہ بنا کر اور اُس پر عمل کرکے ہی یہ امید کر سکیں گے کہ آئندہ نسل پورے طور پر ہمارے مقاصد کے مطابق ہوگی۔ اب اس پوری بحث کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دہری کارروائی کرنا پڑے گی۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک طرف اجتماعی طریقۂ کار کو اپنائیں اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف اس کے مساوی یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ہم انفرادی طریقۂ کار کے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں قوانین بھی بنانے چاہئیں‘ ادارے بھی تشکیل دینے چاہئیں‘ ترغیب اور تخویف کے ذرائع بھی استعمال کرنے چاہئیں اور اس کے ساتھ افراد میں ایسے تمام ذرائع استعمال کرکے ان تبدیلیوں کو بروئے کار لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جن کے بغیر اجتماعی طریقۂ کار کا زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتا۔
(اختتام)

حصہ