بس اتنی ہے تمنا

365

بڑھاپے میں مجھے سڑکوں پر نہ گھومنا پڑے

معروف شاعر کیف بھوپالی نے کہا تھا کہ

زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

دوریاں ،مجبوریاں اورتنہائیاں تو زندگی کا حصہ ہیں ہی مگرجب انسان اپنی زندگی میں کسی ایسے موڑ پر آکر کھڑا ہو جائے، جہاں آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں ہر سمت ہی مجبوریاں ہی مجبوریاں ہوں تو زندگی بوجھل محسوس ہونے لگتی ہے، پھر مجبوریوں کے ہاتھوں زندگی لخت لخت ہونے لگتی ہے۔ دوریوں اور تنہائیوں میں سمے بیت ہی جاتے ہیں مگر مجبوریوں میں سمے بیتتے نہیں ، بِتانے پڑتے ہیں اوراس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا پرسکون دریا بسا اوقات اپنے رو میں بہتے بہتے اچانک اپنا رخ ایسی سمت میں موڑ لیتا ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے‘ اسی کا نام زندگی ہے۔
’’کیا زمانہ آگیا ہے‘‘ میں بائیک چلاتے ہوئے اپنی گردن کو جھٹکا دیتے ہوئے یہ جملہ زیر ِ لب بڑبڑایا۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ سے گلشن چورنگی کی جانب جب میں نے اپنا رخ کیا تو سامنے جو منظر میرے آنکھوں سے ٹکرایا وہ یہ تھا کہ ایک منچلا نقاب لگائے آلو‘ پیاز کی ریڑھی لیے تیزی سے گزر رہا تھا۔ یہ منظر مجھے اپنی نظر کا دھوکا محسوس ہوا۔ ایک لمحے کو میں ٹھٹھکا… اچٹتی نگاہ ڈالی اور’’کیا زمانہ آگیا ہے‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ پھر خیال آیا کہ بہت ممکن ہے یہ کوئی منچلا نہ ہو‘ واقعی کوئی عورت ہو… بائیک موڑی اور ریڑھی والے کے پاس پہنچ گیا۔ آواز لگائی تو وہ رک گیا۔
’’کیا چاہیے…؟‘‘ اس نسوانی آواز نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ میری حیرت دور ہو چکی تھی۔ وہ واقعی عورت تھی۔ سیاہ نقاب لگائے کھردرے ہاتھوں‘ سے سلیقے سے پیاز کو ترتیب سے رکھنے میں مصروف تھی۔
میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے کچھ آلو پیاز تو خریدوں گاہی مگر کچھ باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔
’’کون سی بات…کیسی بات…؟‘‘ وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی۔
میں نے کہا زندگی میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو ریڑھی پر آلو پیاز فروخت کرتے دیکھا ہے‘ اس لیے حیرت ہورہی ہے۔ میں اس حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں‘ کچھ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کیوں کر رہی ہیں؟کیا آپ کا شوہر یا بیٹا نہیں ہیں؟
سوال سوال ہی میں، میں نے انہیں آلو اور پیاز چھانٹ کر تولنے کے لیے دے دیے تھے،جنہیں پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ’’ارے کیا بتائوں بیٹا کہ یہ سب کچھ میں کیوں کر رہی ہوں، اب اس عمر میں اس طرح کے کام کوئی شوق میں تو کرتا نہیں۔‘‘
خاتون نے اپنی کتھا سناتے ہوئے کہا ’’بیٹا! میری عمر 54 سال ہے۔ماشاء اللہ میرا شوہر بھی ہے، بیٹے اور بیٹیاں بھی ہیں۔ مگر حال یہ ہے کہ میرا شوہر جو ایک کمپنی میں چوکیداری کا کام کرتا تھا، پہلے وہ شوگر کے مرض مبتلا ہوا اب گردے کا بھی مریض ہے، اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں، ایک انگوٹھا کٹ چکا ہے، اب وہ گھر میں ہی رہتا ہے۔ میرے دو بیٹے ہیں ایک 22 سال کا اور ایک 18سال کا۔ بڑا بیٹا نشے کی لت میں پڑکر بے کار ہوگیا، چھوٹے کو ہم نے پڑھانے کے لیے اسکو ل میں داخل کرایا کہ کچھ پڑھ لکھ لے مگر وہاں وہ عاشقی کے چکر میں پڑ گیا، ہم نے جب اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے ٹائیفون پی کر اپنی جان لینے کی کوشش کی۔‘‘
’’الحمدللہ میری تین بیٹیاں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں۔ گھر کی گاڑی چلانے کے لیے میں یہ آلو پیاز فروخت کر رہی ہوں۔ بیٹا یہ اللہ ہی ہے جو میرا گھر چلا رہا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا کہ ’’آپ رہتی کہاں ہیں؟‘‘
’’اورنگی ٹائون میں…‘‘
’’اورنگی ٹائون میں کہاں؟‘‘میں نے ان سے تفصیل پوچھی۔
’’بنارس میں…‘‘
’’بنارس؟ بنارس میں تو پٹھان رہتے ہیں۔‘‘ میں نے استفسار کیا۔
کہنے لگیں ’’میں کون سی اردو اسپیکنگ ہوں‘ میں بھی تو پٹھان ہوں، یقین نہیں آتا تو پشتو بول کر دکھائوں؟‘‘
’’نہیں، وہ آپ کے لہجے سے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ پختون ہیں۔ آپ اتنی دور سے روز آتی ہیں؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا۔
کہنے لگیں ’’بیٹا اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ کسی سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ تمہاری طرح اور کئی لوگوں نے بھی مجھ سے میری روداد سنی، مگر آج تک کسی نے میری مدد نہیں کی اور نہ ہی میں مدد مانگتی ہوں۔ میری تو صرف یہ خواہش ہے کہ کوئی میرے بیٹے کا علاج کروا دے تاکہ ہماری زندگی بھی بدل سکے اور اس بڑھاپے میں مجھے سڑکوں پر یوں نہ گھومنا پڑے…بس اتنی ہے تمنا۔‘‘
زندگی میں مجبوریوں کے گرداب میں پھنسی ایک عورت کی اس ’’تمنا‘‘ پر غور کرتا ہوامیں نے آلو پیاز کا تھیلا اٹھایا موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور روانہ ہوگیا۔

حصہ