بے لگام ٹی وی چینلز کے لیے قانون سازی ضروری ہے

315

موضوعِ تحریر کوئی نیا نہیں، اس موضوع پر بہت سے قلم کار قلم اٹھا چکے ہیں اور مسلسل اس پر کام بھی ہورہا ہے۔ آج میری تحریر کا موضوع بھی یہی ہے… جی ہاں! یہ موضوع ہی ایسا ہے جس نے ہر قلم کار کو جھنجھوڑا ہوا ہے۔
معاشرے میں پھیلی بے حیائی، جرائم، خاندانوں اور اداروں میں سازشیں، توڑ جوڑ، فتنے، دھوکا، جھوٹ، زنا اور اسی قسم کی منفی سرگرمیاں جنہوں نے ہمیں اسلامی معاشرے سے بہت دور کردیا ہے، جس میں میڈیا اور پاکستان کے چینلز کی نشریات کا بڑا ہاتھ ہے، ان تمام مذکورہ بالا برائیوں نے ہمیں اس قدر اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے کہ ہم انہیں برا بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ یعنی موجودہ زمانے میں ان تمام برائیوں کے ہم عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ان برائیوں کا براہِ راست اثر ہمارے مشترکہ خاندانی نظام اور نئی نسل پر پڑ رہا ہے۔ صبح سے رات تک جو نشریات ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں اُن میں سے زیادہ تر ہمارے اسلامی معاشرتی نظام کے برخلاف ہیں۔ چاہے وہ مارننگ شو (صبح کی نشریات) ہوں یا حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ… خبرنامہ ہو یا ڈرامے وغیرہ… ان سب کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سب جھوٹ و فریب ہیں۔ آج مختلف چینلز پر جو ڈرامے دکھائے جارہے ہیں کیا وہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کررہے ہیں؟ یا وہ نت نئے فتنوں اور سازشوں کی آگہی دے رہے ہیں؟ جب کہ ڈرامے کسی بھی ملک کی ثقافت اور رہن سہن کی عکاسی کا ذریعہ ہوتے ہیں، جب کہ ہمارے ڈرامے ہندوانہ اور یہود و نصاریٰ اور کفار کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اُن کے رسوم و رواج و ثقافت کو بھی دھڑلے اپناتے جارہے ہیں۔ بلیک فرائیڈے، ہولی، کرسمس وغیرہ کی رسومات ہمارے کلچر میں شامل کرکے یہ ثبوت دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم تعصب سے دور ہیں۔ آپ ایمان داری سے یہ سوچیں اور بتائیں کہ کیا دینِِ اسلام میں اس چیز کی گنجائش ہے؟ ہمیں تو اُن کے لباس، طریقے اور دوستی سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، پھر ان ’’بولڈ‘‘ پروگراموں کی وجہ سے جو بے حیائی ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
بدقسمتی سے ہماری نئی نسل ان نشریات میں آنے والے اداکاروں، میزبانوں کو رول ماڈل تصور کرکے نہ صرف اُن کا انداز بلکہ اُن کے لباس کو بھی اپنانے کی کوشش کرتی ہے۔ کل تک جو چادر (دوپٹہ) مسلم خواتین کے تقدس اور پاکیزگی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اس کا نام و نشان تک مٹایا جارہا ہے۔ ان پروگراموں میں چند خواتین کو برائے نام ہی دوپٹہ لینے کی ’’زحمت‘‘ اٹھانی پڑ رہی ہے۔ پھر یہ لہو و لعب جو ان پروگراموں میں دکھایا جارہا ہے، سب سے زیادہ اس فتنے سے نئی نسل متاثر ہورہی ہے۔ نئی نسل نہ صرف بے حیائی میں غرق ہوتی جارہی ہے بلکہ ان میں ’’خوب سے خوب تر‘‘ کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے۔ ان کے مطالبے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ نہ صرف لڑکے شادی کے لیے مطالبات سامنے رکھتے ہیں بلکہ لڑکیاں بھی ان سے کچھ پیچھے نہیں، وہ کچھ زیادہ ہی پھیلتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی شادی کی عمر بھی نکل جاتی ہے، بلکہ اب تو معاشرے میں یہ نعرے بھی لگنے شروع ہوگئے ہیں ’’شادی آزادی میں رکاوٹ ہے… میرا جسم میری مرضی…‘‘ استغفراللہ، کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جو احکاماتِ الٰہی ہم تک پہنچائے تھے، اور اُس وقت معاشرے میں پھیلی ہوئی ظلمت و جہالت کی گھٹائوں کو ختم کرکے پاکیزہ ماحول کی بنیاد رکھی، اس کو فراموش کرکے کہیں ہم اسی جہالت کی طرف تو دوبارہ نہیں جارہے ہیں!
ان نشریات سے نت نئے جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے، بے حیائی کو بے حیائی نہ سمجھ کر جس طرح اس کی تشہیر کی جارہی ہے اس سے ’’زنا‘‘ بھی پھیلتا جارہا ہے، آئے دن زنا کے نت نئے طریقوں پر مبنی واقعات سامنے آرہے ہیں، جسے سن کر انسان کانپ کر رہ جاتا ہے، دل لرز جاتا ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے!
بے حیائی کی تشہیر کرنے والے خدا کے عذاب سے غافل ہیں۔ میرا رب تو ’’حیا‘‘ کو پسند فرماتا ہے، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے ’’بے شک اللہ فحش گو اور منہ پھٹ شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابودائود)
اکثر چینلز پر خواتین کو غیر مردوں سے بغل گیر ہوتے دکھایا جاتا ہے، جب کہ میرے رب نے قرآن پاک کی سورہ احزاب میں فرمایا ہے ’’اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں کو) بنائو سنگھار دکھاتی نہ پھرو جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا۔‘‘
اماں عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غیر محرم کا ہاتھ نہ چھوا، آپؐ نے خواتین سے بیعت ہمیشہ زبانی ہی لی۔‘‘ (صحیح مسلم)۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اللہ کے ہر حکم کو ہم تک واضح انداز میں پیش کیا ہے تاکہ معاشرے میں استحکام اور پاکیزگی پروان چڑھے، جس میں عورت کی پاکیزگی اہمیت کی حامل ہے۔ نہ صرف قرآن پاک، بلکہ احادیثِ مبارکہ سے بھی اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
جیسا کہ سورہ احزاب کی دوسری آیت میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ’’اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی اجنبی مرد سے نزاکت کے ساتھ بات مت کرو کہ کبھی کوئی ایسا شخص بے جا لالچ نہ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور وہ بات کہو جو بھلائی والی ہو۔‘‘
جس طرح آج ہمارے مختلف چینلز اپنے ڈراموں میں فریب، دھوکا دہی، سازشوں، بے حیائی اور فتنوں کی تشہیر کررہے ہیں اس کا براہِ راست اثر خاندانی رشتوں پر بھی پڑا ہے۔ ان ڈراموں میں اکثر کردار خاندان کے کسی نہ کسی کردار کو اپنی سازشوں کا نشانہ بناتے دکھائے جاتے ہیں، جس کا اثر ہماری حقیقی زندگیوں میں بھی نظر آنا شروع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ، طلاق، فساد، لڑائی جھگڑے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام کی روایت اسی لیے کم ہوتی جارہی ہے، بلکہ میں معذرت کے ساتھ یہ بات کہوں گی کہ اب شادی سے پہلے ہی لڑکیوں کا یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ سسرال میں نہیں رہ سکتیں، انہیں الگ گھر ملنا چاہیے۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ ہم سب مشترکہ خاندانی نظام سے بھی بہ خوبی واقف ہیں جس کے بے شمار فوائد ہیں۔
ایک اور چیز… چینلز پر دکھائے جانے والے ’’ٹاک شوز‘‘ سے ہمارے معاشرے میں انتشار کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ جھوٹ، الزام تراشی، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، سرِعام گندی زبان کا استعمال… کیا یہ سب معاشرے کو آلودہ نہیں کررہے ہیں؟
میرے رب نے تو سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے کہ ’’میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو۔‘‘
میرے رب نے تو خبر دینے والے کو بغیر تحقیق کے بات آگے پہنچانے سے بھی روکا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو (اس خبر کی) تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی گروہ کو نقصان پہنچا بیٹھو کہ پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے۔‘‘
اللہ اور رسولؐ نے ایک ایک بات کو واضح کرکے اس لیے ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ ہمارا اسلامی معاشرہ پروان چڑھ سکے۔ پھر آج ہم کیوں ان تعلیمات کو فراموش کرکے ملک و عوام الناس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں؟
میں ان سطور کے ذریعے پاکستان کے تمام چینلز، اینکرز، ڈراما نویسوں، متعلقہ افراد اور حکومت سے گزارش کرتی ہوں کہ خدارا ہماری نئی نسل کو اس تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائیں، اور بے ہودہ نشریات کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل مرتب کریں، تاکہ اسلامی معاشرے کو ہم پروان چڑھا سکیں۔ جس طرح بارشوں اور ندی نالوں کے بے قابو پانی سے بستیوں کو بچانے کے لیے بند باندھے جاتے ہیں اسی طرح ہم عوام کے ذہنوں کو پاکیزگی بخشنے کے لیے ان چینلز اور ان کی نشریات پر بھی ایسے قوانین و ضوابط لاگو کیے جائیں جو ہماری قوم کو برائیوں سے بچا سکیں۔

حصہ