ڈکیتی

223

’’سلیم صاحب کے گھر ڈکیتی ہوئی ہے۔‘‘ گھر میں قدم رکھتے ہی شیخ صاحب کے کانوں میں سب کی آواز گونجی اور وہ الٹے قدموں سلیم صاحب کے گھر کی طرف بڑھ گئے۔
سلیم صاحب لوگوں کے جھرمٹ میں آزردہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔
’’وہ کتنے تھے؟‘‘ محلے کے سب سے خاموش طبع شخص ارسلان صاحب نے اچانک ہی پوچھا۔
’’چار جناب! دو تو گھر کے مین گیٹ پر اور دو اندر کارروائی کر رہے تھے۔‘‘
’’کیا سب کچھ لے گئے۔‘‘ دوسرا سوال ہوا۔
’’ہاں سب ہی کچھ لے گئے بیٹی کی شادی کے لیے جوڑ جوڑ کر زیور بنایا تھا۔ بیگم کا بھی کوئی زیور نہ چھوڑا‘ بڑے بھائی کی کچھ نقدی امانتاً رکھی تھی۔ وہ بھی لے گئے۔‘‘ سلیم صاحب کی آنکھوں میں آنسو ڈولنے لگے۔
’’صبر کریں سلیم صاحب! صبر کریں۔‘‘
’’لیکن مسئلہ صبر کا نہیں ہے آخر ہم کب تک اس طرح بزدلی سے ان چوروں کا نشانہ بنتے رہیں گے مہینے بھر میں ہمارے محلے کی یہ تیسری ڈکیتی ہے۔ پہلے عمر خان کے گھر ہوئی پھر ضامن صاحب کے گھر اور اب یہ تیسرا گھر ہے۔‘‘ ذکی پرجوش انداز میں بولا۔
’’بیٹا! اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ٹی ٹی کے آگے سب ہی بے بس ہیں۔‘‘ شیخ صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’انکل! زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے بس ذرا دلیر بن جائیں تو پھر ہم سب کے گھر محفوظ ہو جائیں گے۔‘‘ غرض چہ میگوئیاں جاری تھیں اور پھر رات میں شیخ صاحب نے فیصلہ کیا کہ ان کے گھر محلے کے تمام با اثر لوگوں کو جمع کیا جائے تاکہ ان ڈکیتیوں کے سدباب کے لیے کوئی قدم اٹھایا جاسکے۔‘‘
شام کا وقت تھا اور وقت سے کچھ پہلے ہی محلے کی تمام با اثر شخصیات شیخ صاحب کے مہمان خانے میں موجود تھیں۔ کمرے کے درمیان میں بزرگوں کی نشست تھی جب کہ کونے میں تپاہی پر نوجوان بیٹھے تدبیروں کے جال بُن رہے تھے۔
’’سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اور اس سائنسی دور میں بہت سی چیزیں ہماری دسترس میں ہیں کیوں نہ ہم سب اپنے گھروں میں سیکیورٹی سسٹم لگوا لیں۔‘‘ نجم نے کہا۔
’’لیکن جناب یہ سسٹم نہ صرف مہنگا ہے بلکہ یہ تو بنا ہی امیروں کے لیے ہے ہم نے اگر اس سسٹم کو لگوایا تو ہوا کھائیں گے اور پانی پئیں گے کیوں کہ اپنی تو دال چٹنی ہی مشکل سے چلتی ہے کجا کہ ہم سسٹم وغیرہ کے چکروں میں الجھیں۔‘‘
’’بالکل صحیح فرمایا آپ نے بات ایسی کریں جو ممکن ہو۔‘‘
’’میرے ذہن میں ایک تدبیر ہے۔‘‘ ذکی نے کچھ دیر سوچ بچار کے بعد اپنی زبان کھولی۔
ذکی ایک سمجھ دار اور سلجھا ہوا لڑکا تھا‘ فرسٹ ایئر پری انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ رمضان الیکٹریشن کی دکان پر بیٹھا اس سے چھوٹے موٹے کام سیکھتا رہتا تھا۔ اب جو اس نے نئی تدبیر ان سب کے سامنے رکھی تو جیسے سب نے ہی ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
…٭…
پندرہ دن عافیت کے گزرے اور پھر ایک شام وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ذکی کالج سے لوٹا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے گھر کے باہر انجانی موٹر سائیکل اور اس پر دو نوجوان براجمان گویا اس کے ہی منتظر تھے۔
’آیئے آیئے…!‘‘ دونوںنے گویا گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور پھر ایک ہی جست میں اسے دروازے کے اندر کر دیا۔ دروازے کی کنڈی چڑھا دی گئی اور اب ٹی ٹی اس کی پیشانی کے دائیں طرف تھی اور وہ ان کی تقلید میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اندر کمرے میں سب لوگ تھے‘ امی جان‘ ابا جی‘ آپا‘ ننھی فاریہ اور گڈو میاں سب کے سب سہمے ہوئے ان کی بات مان رہے تھے۔
’’جلد از جلد گھر میں رکھا سارا زیور‘ نقدی سب کچھ ہمارے حوالے کردیں ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’ہاں ہاں سب کچھ دے دیتے ہیں لیکن تم کسی کی بھی جان پر ظلم نہ کرنا۔‘‘ امی جان کی آنکھوں میں خوف سمایا ہوا تھا۔
’’اگر ہم سے کوئی چالاکی نہ کی اور سب کچھ شرافت سے دے دیا تو ہم بھی کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔‘‘ درمیانے قد کے گہری رنگت والے شخص نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر امی سیف کی طرف بڑھیں۔
’’امی آپ بیٹھیں میں چابیاں دے دیتا ہوں۔‘‘ ذکی نے چونک کر کہا۔
’’اے لڑکے! کوئی چالاکی دکھائی تو یاد رکھنا موت تم سے چند قدم کے فاصلے پر ہوگی۔‘‘ لمبے قد والے نے دھاڑ کر کہا۔ ان سب کی آواز گو کہ دھاڑتی ہوئی تھی اور وہ پکے اور اپنے فن میں طاق محسوس ہوتے تھے۔
ذکی اٹھا اور الماری کی طرف بڑھا چابیوں کا گچھا اس نے امی کے ہاتھ سے پہلے ہی وصول کر لیا تھا۔ سیف کا لاک گھماتے ہوئے اس نے سیف میں لگے خفیہ بٹن جو سیف کے لاک میں انتہائی دیدہ ریزی سے لگائے گئے تھے جلد ہی دبا دیے یہ سب کچھ اس قدر اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ڈاکو اس خفیہ کارروائی کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ وہ زیور ہاتھ میں لیے چمک دار سونے کے نشے میں گم تھے اور ایک دفعہ پھر پورے گھر کی تلاشی لے رہے تھے۔
ادھر ذکی کا بجایا ہوا بٹن پہلے حشمت صاحب پھر ارسلان صاحب اور پھر یکے بعد دیگرے محلے کے دس گھروذں میں خطرے کی گھنٹی کی صورت میں بج رہا تھا اور پھر چند ہی لمحوں میں انسپکٹر جمیل جیسے فرش شناس کے گھر اطلاع ارسلان صاحب نے دے دی تھی کہ ذکی کے گھر سے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔
ڈاکوئوں نے نقدی اور زیورات اپنی خفیہ جیبوں میں محفوظ کیے۔ ’’دس منٹ تک کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے یاد رہے کہ یہ ٹی ٹی آپ کے شور سے زیادہ شور مچاتی ہے۔‘‘ انہوں نے چیزیں سمیٹتے ہوئے ایک الوداعی نظر ڈالی اور انتہائی اطمینان سے باہر کی طرف دوڑے۔ باہر سفید گاڑی اور ایک بائیک میں ان کے ساتھی بیٹھے ان کے منتظر تھے مگر یہ کیا… وہ سب اس وقت کسی کی نظروں میں تھے اور پھر ایک تیز رفتار گولی نے ان کی گاڑی کے ٹائر کو برسٹ کیا اور اب اسکوٹر کا ٹائر بھی برسٹ ہوچکا تھا۔
جواب میں ڈاکوئوں کی فائرنگ سے پورا محلہ گونج رہا تھا ادھر انسپکٹر جمیل اور ان کے جوانوں نے انتہائی مہارت کے کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ جائے وقوع پر دو ڈاکو دم توڑ گئے جب کہ دو کو انسپکٹر جمیل نے ہتھکڑیاں لگا کر اپنے قابو میں کر لیا۔محلے کے افراد جو پہلے سے پلاننگ کے تحت گھر میں موجود تھے تاکہ کوئی بچہ یا بڑا فائرنگ کی زد میں نہ آسکے اور اب جوق در جوق باہر نکل کر انسپکٹر کے ہاتھ چوم رہے تھے۔’’اگرآپ جیسے فرض شناس لوگ قوم کو نصیب ہو جائیں تو اب ہم سب کے گھر محفوظ ہیں۔ ہماری جان و مال سب محفوظ ہیں۔‘‘ ذکی کے ابا جان نے لرزتی ہوئی پرجوش انداز میں انسپکٹر جمیل کی محنت کو سراہا۔
’’مگر میری نظر میں تو سب سے زیادہ قابل ستائش یہ انتہائی سستا اطلاعاتی نظام ہے جس کسی نے بھی اپنی عقل سے اسے بنایا اور آج اس کا کامیاب تجربہ کیا وہ نوجوان یقینا قابل تعریف ہے۔‘‘
سب نے ہی یکایک سر اٹھا کر ذکی کو دیکھا۔ ذکی سر جھکائے کھڑا تھا اور لوگ پرجوش انداز میں اسے مبارک باد دے رہے تھے۔

حصہ