کیا سقوط ڈھاکا سے سبق لیا گیا؟۔

367

۔16 دسمبر1971ء سقوطِ ڈھاکا کا دن تاریخِ پاکستان کا وہ رستا ہوا ناسور ہے جو ہر سال مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کو دولخت ہوئے آج 49 سال ہوچکے ہیں، لیکن آج تک حکومتِ پاکستان نے نہ ہی اس سانحے کے وائٹ پیپر جاری کیے اور نہ ہی سنجیدگی سے اس کے ذمے داروں کی نشاندہی کی۔
یہ سچ ہے کہ ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کی سازش بہت پہلے ہی رچائی جا چکی تھی۔ 1970ئکے عام انتخابات میں صرف اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی سرحد دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے بہت پہلے دلوں میں تقسیم ہوچکی تھی… قومی زبان کے تنازعے کو بنیاد بناکر پاکستان دشمن ممالک نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دل میں بدگمانی کا بیج بو دیا۔
اسی دوران قائداعظم نے 1948ء میں ’’اردو‘‘ کو قومی زبان کا درجہ دے دیا۔ اردو کے رائج ہونے سے بنگالی بولنے والے پڑھے لکھے افراد بھی سرکاری نوکریوں کے لیے نااہل ہوگئے… اس طرح بیوروکریسی اور دیگر نوکریوں پر مغربی پاکستان کے اردو بولنے والے افراد کی تعداد مشرقی پاکستان کی نسبت غیر متوازن حد تک زیادہ ہوگئی۔ اس صورتِ حال میں مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پاکستانی فوج نے ’’مارشل فارمولا‘‘ کے تحت فوج میں بھرتی کا اصول اپنایا۔ اس فارمولے کے تحت فوج میں بلند قد کاٹھ اور جسامت کے حامل افراد کو اہل قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے قد اور دبلی جسامت کے مشرقی پاکستان کے بنگالی شہری کلی طور پر فوج کی نوکری کے لیے نا اہل ہوگئے۔
56 فی صد آبادی والے مشرقی پاکستان کے گنتی کے چند افراد ہی پاکستانی فوج میں بھرتی ہوئے۔ اس کے بعد ’’پیریٹی‘‘ یا برابری کے خودساختہ قاعدے کے تحت مشرقی پاکستان کے چھ فی صد زائد آبادی والے حصے کو مغربی پاکستان کے برابر قرار دیا۔
ان سب مایوس کن حالات اور نااتفاقی نے بھارت کو موقع فراہم کیا اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بھی اس جھگڑے میں کود پڑی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کا مالی اور فوجی ہر طرح سے بھرپور ساتھ دیا، اور’’را‘‘ کے ایجنٹس کے ذریعے پاکستان کو توڑنے کی راہ ہموار کی۔
حکمرانوں کے تسلسل سے جاری غلط فیصلے، مفاد پرست سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسّا کشی اور کینہ پرور دشمن بھارت… ان سب محرکات نے مل جل کر حالات کو تیزی سے سقوطِ ڈھاکا کی جانب دھکیل دیا۔
اگر دور اندیشی سے کام لے کر معاملات کو سدھارنے کی سنجیدگی اور خلوصِ دل سے کوشش کی جاتی تو شاید ہم اپنے ایک بازو سے محروم نہ ہوتے۔
لیکن دسمبر 1970ء میں ہونے والے پاکستان کے پہلے عوامی الیکشن نے سانحۂ ڈھاکا کے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا۔
مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی پارٹی کو شاندار کامیابی ملی اور جنرل یحییٰ نے مجیب الرحمن کے آئندہ ملک کا وزیراعظم بننے کا اعلان بھی کردیا۔ 9 مارچ1971ء کو ڈھاکا میں جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ اس خبر کو سن کر مشرقی پاکستان میں جشن منائے جارہے تھے، مگرذوالفقار علی بھٹو جو دوسری بڑی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے، انہوں نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بھٹو اور مجیب الرحمن دونوں بے انتہا ہٹ دھرم اور اقتدار کے بھوکے سیاست دان تھے۔ دونوں نے مفاہمت کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔
فوجی قیادت نے بھی اس موقع پر دانش مندی سے کام نہ لیا اور انتقالِ اقتدار کا فیصلہ بروقت نہ کرپائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یحییٰ خان بھی اپنی زبان سے مکر گئے اور جنرل اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کردیا۔
قیام پاکستان کی جدوجہد اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھرپور حصہ لینے والے بنگالی 1971ء میں پاکستان کے خلاف بغاوت پر اترآئے۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی مایوسی اور صبر انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ انہیں یقین ہوچکا تھا کہ مغربی پاکستان کبھی بھی انہیں اقتدار نہیں دے گا۔
۔23 مارچ 1971ء کے دن ڈھاکا میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرا کر آزادی کا اعلان کردیا گیا، اور یوں یوم پاکستان کو ’’یوم سیاہ ‘‘ کے طور پر منایا گیا۔ بے شمار افراد شہید ہوئے۔ باغی بنگالی فوج بھارتی مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ظلم کی انتہا تک پہنچ گئی۔ متحدہ پاکستان کے حامیوں اور بہار کے مہاجرین پر مکتی باہنی نے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے۔ اردو بولنے والوں کو چُن چُن کر قتل کیا جانے لگا۔ غیر بنگالی آبادی کو زندہ جلایا گیا، لاٹھی اور ڈنڈوں سے مار مارکر قتل کردیا گیا۔ بچوں کو مائوں کے سینوں پر لٹاکر ذبح کیا گیا… عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ الغرض وہ وہ مظالم ڈھائے گئے کہ انسانیت بھی شرما گئی۔
بالآخر 16 دسمبر 1971ء کی شام پاکستانی فوج کے جنرل نیازی نے ہائی کمان سے مشاورت کیے بغیر بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے خاموشی سے ہتھیار ڈال دیے۔ یوں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم ہونے کے صرف چوبیس سال بعد دولخت ہوگئی۔ دشمن ملک بھارت میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سفاکانہ بیان دیا۔ انہوں نے کہا:
’’آج ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے… اور نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘
سقوطِ ڈھاکا کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستانی فوج پر گھنائونے الزامات کی بوچھاڑکردی۔ انہوں نے پاک فوج پر تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل اور تین لاکھ خواتین کی آبروریزی کا سنگین الزام لگایا۔
ان مبالغہ آمیز اعداد و شمار کا حقیقت سے دوردور تک تعلق نہیں۔ پاکستانی فوج کا ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘جنگ نہیں تھی بلکہ مختلف مقامات پر جھڑپوں کی صورت میں کارروائی کی گئی۔ اس میں فوجی ٹینک، میزائل اور بم استعمال نہیں کیے گئے۔ ایسی صورتِ حال میں اتنی بڑی تعداد میں عوام کو قتل کرنے کا الزام مضحکہ خیز ہے۔
دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لیے حکومتِ پاکستان کو 1971ء میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار اور سقوطِ ڈھاکا کے حقیقی اسباب معلوم کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ سے ’’غیر جانب دار کمیشن‘‘ بلانے کی درخواست بھی کی جاسکتی ہے۔ ہماری خاموشی ہماری خارجہ پالیسی میں مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے۔
یہ پاک وطن لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا ہے۔ قائداعظم نے واضح طور پر پاکستانی آئین کو قرآن و سنت کے مطابق وضع کرنے کی ہدایات دی تھیں۔ آج 73 سال گزرنے اور آدھا پاکستان گنوا دینے کے بعد بھی ہم قائداعظم کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کر پائے۔
سقوطِ ڈھاکا ہمیں بے شمار سبق سکھا گیا ہے۔ آج بھی ملک میں ہم بے چینی اور انتشار کی فضا دیکھ رہے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکا کے حالات و واقعات کو یاد رکھتے ہوئے ملک میں موجود سیاسی اور فوجی قیادت کو سنجیدگی کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ ہم اب کسی بھی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اللہ پاک ہمارے پیارے وطن کو سدا قائم و دائم رکھے اور اسے اسلام کا مضبوط قلعہ بنائے، آمین۔

حصہ