پاکستان اسلامی ریاست کیسے بنے؟۔

481

ہم وضاحت سے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اسلام ایک کلیت ہے جس کے کسی بھی جزو کو اس سے خارج کرنا اس کے دینِ کامل ہونے کی نفی کرتا ہے۔ یہ ایمان‘ عقائد‘ عبادات‘ احکام اور رسوم کا مجموعہ ہے اور اسلام کے مکمل نفاذ کے معنی اسے زندگی کے ان تمام شعبوں میں نافذ کرتا ہے۔ اب زندگی بجائے خود ایک وحدت ہے جس کے اجزائے ترکیبی کو اس کے کُل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اسلام کو سیاست میں اس وقت تک نافذ نہیں کر سکتے جب تک معاش میں اسے نافذ نہ کریں اور معاش میں اسے نافذ نہیں کرسکتے جب تک قانون و اخلاق میں اسے نافذ نہ کریں اور قانون و اخلاق میں اسے نافذ نہیں کرسکتے جب تک تعلیم و تربیت کے شعبوں میں اسے نافذ نہ کریں اور تعلیم و تربیت کے شعبوں میں اسے نافذ نہیں کر سکتے جب تک گھروں اور دلوں میں اسے نافذ نہ کریں۔ یہ سلسلہ ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسلام کا نفاذ لازماً اسے دوسرے شعبوں میں بھی نافذ کرنے کا تقاضا کرتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کا نفاذ زندگی کے تمام شعبوں میں بیک وقت اور بیک حکم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں لازماً کسی ایک جگہ سے آغاز کرنا پڑے گا۔ اب پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کے نفاذ کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کے صحیح جواب کے بغیر ہماری کوششیں ناکام ہو سکتی ہیں بلکہ شاید ایسے نتائج پیدا کریں جو اسلام اور خود ہمارے لیے مفید ثابت نہ ہوں۔
کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ اسلام کے نفاذ کا عمل معاشرے کے بالائی ڈھانچے سے شروع ہو نا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلام کے نفاذ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں چند قوانین بنا دیے جائیں اور پھر قوت کے ذریعے ان قوانین پر عمل کرایا جائے۔ مثال کے طور پر اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو اسلام کے نفاذ کے معنی یہ ہیں کہ قانون میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کی جائے اور اس سزا پر فوراً عمل درآمد شروع کر دیا جائے۔ یہ نقطۂ بنیادی طور پر خارجی اکتساب کو سب کچھ سمجھتا ہے اور اسی کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ یقینا اس نقطۂ نظر میں ایک قوت ہے اور اس بیک جنبشِ قلم مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کو کسی متعین راستے پر چلانے کے لیے یقینا قوانین کی ضرورت ہوتی ہے اور ان قوانین کے لیے ایک قوتِ نافذہ کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ہم اگر اپنے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنا دیں تو معاشرے پر اس کا اثر پڑنا یقینی ہے‘ لیکن ساتھ ہی اس نقطۂ نظر میں ایک خامی بھی ہے۔ معاشرے کی اصلاح اگر صرف قوانین سے ہو جاتی تو اتنے بہت سے قوانین کی موجودگی میں ہمارے معاشرے کو جنت ہونا چاہیے تھا۔ قوانین معاشرے میں خوف تو پیدا کرتے ہیں‘ ترغیب پیدا نہیں کرتے اور انسانی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ صرف قانون سازی سے کبھی معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے برعکس قوانین کی زیادتی اور سختی ہمیشہ ایک ردعمل پیدا کرتی ہے جو معاشرے کے لیے مثبت نہیں ہوتا۔ ایسے قوانین کے خلاف لوگ یا تو بغاوت کر دیتے ہیں یا پھر قانون خود عملاً تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کاغذ پر سارے قوانین موجود رہتے ہیں مگر ان پر عمل کوئی نہیں کرتا یا پھر معاشرے میں چھپ چھپ کر ان کی خلاف ورزی کا رجحان تقویت پا جاتا ہے۔ اس لیے اسلام کے نفاذ کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں قانون سازی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوڑے مارنے کی سزائوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے اس پر معاشرے میں کئی طرح کے ردعمل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں معروضی طور پر ان کاجائزہ لینا چاہیے۔ ان پر ایک ردعمل یہ ہے کہ یہ وحشیانہ اور غیر مہذب سزائیں ہیں۔ ہمیں اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ معاشرے میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو ایسی سزائوں کو حق بجانب نہیں سمجھتا اور ہمیں تسلیم کرنا چاہیے جدید تعلیم اور جدید معاشرے کے جو اثرات ہم میں موجود ہیں‘ اُن کے نقطۂ نظر سے اس رائے کی حمایت میں بہت بڑی قوت موجود ہے۔ کیا یہ قوت ان سزائوں کے خلاف ردعمل نہیں پیدا کرے گی؟ دوسرا ردعمل ان لوگوں کا ہے جو اصولی طور پر ان سزائوں کے خلاف نہیں ہیں‘ لیکن جنہیں ان سزائوں کے طریقۂ کار پر اعتراض ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور بے قوت لوگوں پر ان سزائوںکے عمل سے معاشرے کی اصلاح کے بجائے ضد اور انحراف کا رویہ پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے کیوں کہ عام لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹے مجرموں کو تو یہ سزائیں دی جارہی ہیں لیکن بڑے مجرم چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ مثلاً ایک کانسٹیبل کو تو سو روپے رشوت لینے پر کوڑے مارے جارہے ہیں لیکن لاکھوں روپوں کی رشوت وصول کرنے والے ان سزائوں سے محفوظ ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ معاشرے میں ایک طرح کی ناانصافی کا احساس پیدا ہونا ہے اور ناانصافی کا احساس ہمشہ ایک اجتماعی بے چینی پیدا کرتا ہے۔ تیسرا ردعمل ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک معاشرے سے کچھ لینے سے پہلے اسے کچھ دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام کا نظامِ معاش نافذ ہو اور اس کے فوائد اور برکات کو لوگ ٹھوس طریقے پر اپنی زندگی میں محسوس کر لیں تو پھر اس کی سزائوں کو بھی رضا و رغبت کے ساتھ قبول کرلیں گے‘ لیکن ایک ایسی صورت میں جب معاشرے کو اسلامی قوانین کے مثبت نتائج کا تو کوئی تجربہ نہ ہو‘ اُس وقت تک ان سزائوں سے صرف مایوسی اور تلخی ہی پیدا ہوگی۔ اب ہم ایک چھوٹے سے مسئلے پر اجتماعی ردعمل کی ان تمام شکلوں کو پیش نظر رکھیں تو ان سے چند بنیادی اور اصولی نتائج پیدا ہوتے ہیں‘ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے کے درمیان ہیں۔ اس معاشرے میں کس قسم کے سیاسی‘ معاشی‘ نظریاتی‘ تہذیبی رجحانات موجود ہیں اور وہ زبانی طور پر نہیں حقیقی طور پر اسلام اور اسلامی قوانین کے بارے میں کیا رویہ رکھتے ہیں مثلاً ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ملک میں بیورو کریسی موجود ہے جو تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ملک کی کثیر آبادی سے مختلف ہے۔ اس کے نظریات‘ رجحانات اور محسوسات عام لوگوں سے مختلف ہیں۔ وہ مغربی طرزِ زندگی کی پیداوار اور غالب طور پر ایک ایسی ذہنیت کی مالک ہے جسے پورا معاشرہ شک و شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کی تیس سالہ تاریخ میں اس کا ایک مخصوص کردار ظاہر ہوا ہے اور اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے پوری قوم کے مذہبی‘ تہذیبی‘ روایتی تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اکثریت کے درمیان ایک چھوٹی مگر نہایت طاقت ور اقلیت ہے جو قوم کے اجتماعی مفادات کے خلاف عمل کرتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے بارے میں اس اقلیت کا رویہ کیا ہوگا اور کیا اس کی موجودگی میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی حقیقی عمل شروع ہو سکے گا۔ یہی سوال سرمایہ داروں اور تاجروں کے بارے میں ہے‘ یہی سوال جاگیرداروں اور ان کے گماشتوں کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی لیے ہمیں پورے معاشرے کا تجزیہ کرنا پڑے گا اور اس کے اندر ہر طبقے کے مفاد اور اس کے ساتھ اس کے طرزِ احساس‘ طرزِ خیال اور طرزِ عمل کو دیکھنا پڑے گا۔ دوسری اہم اور اصولی بات جو مذکورہ ردعمل کی روشنی میں سامنے آتی ہے وہ نفاذ کا طریقہ کار ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ عوام کی اکثریت اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کے مذہب دوست طبقات میں اسلامی نظام کے نفاذ کا شدید تقاضا موجود ہے لیکن یہ طبقات بھی اس کا نفاذ پہلے مثبت چیزوں میں چاہتے ہیں مثال کے طور پر معاشرہ گرانی کے بوجھ سے کراہ رہا ہے اور غربت و افلاس نے ہمارے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ اگر پاکستان کو ایسے اسلامی فلاحی معاشرے میں ڈھالنے سے شروع کیا جائے جو عوام کی بنیادی ضروریات کا کفیل ہو تو پوری قوم دوسرے اسلامی قوانین کو بھی خوشی سے قبول کر لے گی لیکن ایک ایسی حالت میں جب قوم نانِ شبینہ کے لیے ترس رہی ہو‘ جب لوگوں کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ نہ ہو اور لوگ نماز پڑھنے کے دوران بھی فکرِ مِعاش سے آزاد نہ ہوں تو اُن پر مزید قوانین کا بوجھ رکھ دینے کے معنی انہیں مشکلات میں مبتلا کر دینے کے مساوی ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ہمیں اسلام کا نفاذ اس کے اوامر سے کرنا ہے‘ نواہی سے نہیں۔ پہلے لوگوں کو اسلام کے مثبت احکام سے فائدہ اٹھانے دیجیے‘ پھر وہ نواہی پر خود ہی عمل پیرا ہو جائیں گے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو تیس سال سے لوٹ کھسوٹ کا شکار رہا ہو‘ جس میں عوام کے لیے کوئی مثبت کام نہ کیا گیا ہو‘ جس میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ہمیشہ پسِ پشت ڈالا گیا ہو اور جو ہر طرح عوام کی پیٹھ پر ایک بوجھ بن گیا ہو‘ صرف نواہی کا ذکر کرنا کسی طرح مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کر سکتا۔
اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں ایک دوسرا نقطۂ نظر اس کا نقطۂ آغاز معاشرے کو بنانے کے بجائے فرد کو بنانا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہر تبدیلی بنیادی طور پر سب سے پہلے افراد میں پیدا ہوتی ہے۔ ہم معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں فرد کو بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مسلمان بننے کے معنی فرد کا مسلمان بننا ہے کیوں کہ ایمان ایک داخلی اور انفرادی معاملہ ہے۔ فرد اگر مسلمان ہے تو اس کی پوری زندگی مسلمان کی زندگی ہوگی۔ اس نقطۂ نظر کے لوگ اپنے نظریے کا ثبوت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے پیش کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حضورؐ نے پہلے افراد کو مسلمان بنایا پھر جب افراد کی زندگی ایمان اور تقویٰ کی زندگی بن گئی تو اس سے لازمی طور پر اسلامی معاشرہ پیدا ہوا ہے اور دنیا میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ یہ نقطۂ نظر بھی اپنی استدلال کی بنا پر بہت قوت رکھتا ہے اور ہمیں اپنے ہر کام کا آغاز کرتے ہوئے اسے مناسب اہمیت دینی چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے اور افراد ہی معاشرے کو بناتے بگاڑتی ہیں۔ اچھے افراد کے معنی ہیں اچھا معاشرہ۔ برے افراد کے معنی ہیں برا معاشرہ۔ چنانچہ ہم اگر معاشرے میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اسے افراد کی زندگی میں نافذ کرنا پڑے گا۔
( جاری ہے)

حصہ