ہم کیوں مسلمان ہوئے:ابراہیم کو آن (ملائیشیا)۔

469

میں نے ساٹھ سال کی عمر تک ایک پروٹسٹنٹ عیسائی کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اس دوران میں تقریباً تین سال تک کوالالمپور (ملائیشیا) کے چرچ میں پادری کی خدمات بھی انجام دیں‘ مگر بلاآخر اسلام کی آغوش میں آگیا۔ آج میں تشکر بھری مسرت کے ساتھ وہ وجوہات بیان کروں گا جو میرے قبولِ اسلام پر منتج ہوئیں۔
میں 3 فروری 1907ء کو پید اہوا۔ میرے والدین بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ چھ برس کی عمر میں مجھے ایک چینی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ جہاں میں نے کنفیوشس مذہب کی ایک بنیادی کتاب ’’چہار کتب‘‘ اور دیگر کئی کتابیں پڑھیں۔ جن کے زیر اثر میں کنفیوشس مت کے ایک خدا کے عقیدے کا قائل ہو گیا۔
میری عمر نو برس کی تھی جب کہ میں کوالالپور کے ’’وکٹوریہ انسٹیٹوٹ‘‘ میں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ اس سے میں نے بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا ور مذہب عیسوی اختیار کر لیا۔ میری عمر اس وقت سولہ‘ سترہ برس کے لگ بھگ تھی۔
ستمبر 1923ء میں جب میں کوالالیپس کے چرچ میں پادری بن کر جانے ہی والا تھا‘ میرے ایک ہندوستانی دوست کے۔کے محمد نے مجھے قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے کا ایک نسخہ دیا۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا اور اس کے موضوعات کے حُسن سے بے حد متاثر ہوا۔ اگرچہ اس تاثر کی شدت اتنی زیادہ نہ تھی کہ میں اسلام قبول کر لیتا۔
کوالالیپس میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا اور میرا ذہن یہ محسوس کرکے جھنجھنااٹھا کہ پروٹسٹنٹ چرچ کی کتنی شاخیں ہیں اور ’’مذہبی عقائد‘‘ کی بنا پر ہر شاخ دوسری سے برسرِ پیکار رہتی ہے۔ آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں میں بُعد و اختلاف کی شدت کا کیا عالم ہے اور ان کے مذہبی عقائد باہم دگر کتنے مختلف ہیں۔ اس کیفیت نے مجھے سخت پریشان کیا اور گھبرا کر میں نے قرآن کا سہارا لیا۔ جن آیتوں نے میری رہنمائی فرمائی وہ یہ ہیں:۔
’’اس نے آپ پر (اے نبیؐ) یہ کتاب نازل کی جو حق لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے۔‘‘ (آل عمران:3)۔
’’اے نبیؐ کہہ دیجیے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں۔ اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے۔ ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحق‘ یعقوب اور اولادِ یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں۔‘‘ (آل عمران :84)۔
قرآن مسلسل اور گہرے مطالعے نے مجھے حقیقت کے قریب کر دیا اور عیسائیت کے عقائد کا کھوکھلا پن مجھ پر واضح ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر عقیدۂ تثلیث وہ گورکھ دھندہ ہے جسے ہر عیسائی سمجھے بغیر اختیار کرتا ہے حالانکہ دنیا میں کوئی ایسی کتاب ہے ہی نہیں جس میں اس پیچیدہ مسئلے کی وضاحت یا تعلیم موجود ہو۔اس کے مقابلے میں اسلام توحید کا صاف ستھرا اور عقلی و منطقی عقیدہ رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کبریائی میں کوئی شریک نہیں۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ذات و صفات میں وہ یکتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری رسول اور نبیؐ ہیں۔ میرے نزدیک اسلام اور عیسائیت میں یہی بنائے امتیاز ہے۔
مجھے پروفیسر خورشید احمد کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے (جو انہوں نے اسلام کا تعارف کراتے ہوئے ایک طویل مضمون میں رقم کی) کہ ’’دنیا میں بہت سے مذاہب اور نظریات کے بظاہر روشن اور پرشکوہ یک رخہ پن نے بڑا غضب ڈھایا‘ کچھ نے زندگی کے روحانی پہلوئوں پر اتنا زور دیا کہ مادّی اور دنیاوی امور کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ ان مذاہب اور نظریات نے دنیا کو ایک واہمہ‘ فریبِ نظر اور زنجیر پا کر دیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں بعض دیگر فلاسفہ نے زندگی کی روحانی اور اخلاقی قدروں کی نفی کی اور انہیں خیالی اور فرضی قرار دیا۔ ظاہر ہے یہ دونوںنقطہ ہائے نظر انتہا پسندانہ تھے اور اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئے تھے۔ انہوں نے انسانیت کے امن و سکون‘ قناعت پسندی اور آسودگی کو غارت کر دیا۔ عدم توازن کی یہ کیفیت آج بھی برقرار ہے۔‘‘
میں فرانسیسی سائنس دان ڈاکٹر ڈی بروگبی سے بھی متفق ہوں کہ ’’جدید مادّہ پرستانہ تہذیب میں انتہا پسندی اور عدم توازن کی جو کیفیت کار فرما ہے‘ وہ غیر معمولی طور پر خطرناک ہے اور اگر روحانی قدروں کے فروغ کے لیے کوئی متوازی تحریک نہ چلی تو دنیا درد ناک تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔‘‘
لارڈ رسل کے بقول عیسائیت نے ایک انتہا کی طرف جھک کر فاش غلطی کی جب کہ تہذیبِ جدید نے سارا وزن دوسرے پلڑے میں ڈال کر ظلم کیا۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’ہم نے زندگی کے ظاہری ڈھانچے کو بے حد خوب صورتی اور سلیقے سے سجایا ہے مگر باطن کی بنیادی اور ضروری احتیاجات کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ ہم نے ایک حسین و جمیل پیالہ بنایا ہے‘ اس کی آرائش بھی خوب کی ہے اور اس کے بیرونی حصے کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھا ہے‘ لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اس کے اندر خوش ذائقہ زہر بھرا ہوا ہے۔ ہم نے علم کی ساری صلاحیتوں اور عمل کی ساری قوتوں کو محض جسمانی عیش و آرام مہیا کرنے کے لیے استعمال کیا‘ لیکن روح کے تقاضوں کی پروا نہ کی اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔‘‘
اس درد ناک کیفیت کے برعکس اسلام زندگی گزارنے کا ایک درمیانہ اور متوازن لائحۂ عمل دیتا ہے۔ اسلام مادّیت اور روحانیت میں توازن پیدا کرتا ہے اور دونوں میں سے کسی کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اسلام کا مطلب ہے اطاعت‘ اللہ کی اطاعت اور اس کے قوانین و احکامات کی پابندی۔ اس کی مخلوقات کی خیر خواہی اور معاشرے کی اصلاح و بہبود کی فکر۔
عیسائیت‘ تہذیبِ حاضر اور اسلام کے تقابلی مطالعے نے مجھے یکسو کر دیا۔ میں نے دل کی انتہائی گہرائیوں سے اسلام قبول کر لیا اور سچے مسلمان کی طرح اسلامی قوانین کی پیروی قبول کرلی۔ اسلام نے مجھے یہ سکھایا کہ میں غریبوں اور ضرورت مندوں کی ضروریات اور مشکلات کو سمجھوں اور ان کی مدد کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کروں۔ میں اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ‘ جو کچھ اللہ نے مجھے عنایت فرمایا ہے میں اس پر قانع ہوں اور اس کے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘ جو وہ شب و روز ہم پر نازل کرتا ہے۔ ہمیں اس پُر آشوب دور میں صرف اللہ کی مدد درکار ہے۔ ہم اس سے تحمل‘ حلم اور محبت کی بھیک مانگتے ہیں تاکہ ایک پُرامن دنیا کی تخلیق کی جاسکے۔
ہاں اس امر کا بھی اظہار کرتا چلوں کہ قرآن میں کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جن کی تصدیق بائبل بھی کرتی ہے۔ مثلاً اطاعتِ خداوندی‘ اخوت و مساوات‘ زندگی کے بعد موت اور روزِ حشر پر ایمان۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ صحیح معنوں میں حضرت عیسیٰ ؑ پر میں اب ایمان لایا ہوں‘ بمقابلہ اس دور کے جب میں نام نہاد ’’عیسائی‘‘ تھا۔
مختصراً اسلام کی جن تعلیمات نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا وہ ہیں:۔
-1 اسلام عیسائیت کے مقابلے میں کہیں بھی زیادہ عقلی‘ عملی‘ قابل فہم‘ منطقی اور سادہ مذہب ہے۔
-2 اسلامی عبادات اللہ سے براہِ راست تعلق جوڑتی ہے۔
-3اسلام میں خدا کا تصور بڑا ہی باوقار اور پُرشکوہ ہے۔
-4 اسلامی عبادات میں زندگی اور تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ عیسوی طرزِ عبادت کی طرح ادھورا پن نہیں ہے۔
-5 قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمان گزشتہ ساری کتابوں کو مقدس اور الہامی مانتے ہیں۔ اگرچہ وہ تحریف کی نذر ہو چکی ہیں۔ قرآن ہر قسم کی ترمیم و تبدیلی سے محفوظ ہے اور پہلی کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتا ہے۔

حصہ