فیض احمد فیض کا انٹرویو

1480

ہماری تمنا تھی کہ ہم شاعری میں درجہ کمال کو پہنچتے

قسط نمبر 1۔
فیض احمد فیض ہمارے عہد میں شاعری کی ایک ایسی شمع ہیں جس کی روشنی اقبال جیسے عظیم شاعر کی انقلابی، مجاہدانہ اور مومنانہ شاعری کے بعد پھیلی اور سچی بات یہ ہے کہ اس شاعری نے جوش کی شاعری کا چراغ تو ان کی زندگی ہی میں گل کردیا لیکن چوں کہ فیض کے خیالات اور احساسات و جذبات جو تھے وہ مصور پاکستان کے دیکھے ہوئے خواب یعنی یہ خواب جب حقیقت بنا تو عام پڑھے لکھے اردوداں طبقے کے اندرونی احساسات و کیفیات کی ترجمانی کرتے تھے اس لئے کیا شبہ ہے کہ ان کی شاعری میں عام اردو داں طبقے کے قاری کے لئے اقبال کی شاعری سے اپنے زمانے کے لحاظ سے زیادہ کشش اور کھنچائو پیدا ہوگیا۔ گوکہ اقبال کی شاعری سے فیض کے کلام کا موازنہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے مولانا روم کے مقام شاعری کا مقابلہ احمد فراز کے شعری مقام سے کیا جائے لیکن اس مقابلے بازی سے قطع نظر فراز کی شاعری بھی نظر انداز کی جانے والی ہرگز نہیں، نہ شاعر کی حیثیت سے اور بعض ناگوار معاملات سے قطع نظر کرلیا جائے تو نہ اپنے شعری معتقدات کو عملی صورت دینے کے اعتبار سے… جو بات فیض کو ماضی اور حال کے شعرا سے علیحدہ کرتی ہے وہ ان کی ذات میں اجتماع ضدین کی موجودگی ہے۔ فیض نے اقبال ہی کے شہر سیالکوٹ میں جنم لیا۔ دونوں شعرا نے ایک ہی استاد مولوی میر حسن سے عربی اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی البتہ فیض کو اقبال پر ایک سبقت تو بہرحال ملی ہوئی تھی کہ انہوں نے وقت لگا کر قرآن مجید حفظ کرلیا تھا… اقبال ساری زندگی روزانہ صبح قرآن حکیم سے روحانی طور پر آنسوئوں اور خشیت الٰہی میں ڈوب کر فیض یاب ہوتے رہے۔ فیض سے یہ نہ ہوسکا انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک ایسا ادبی حلقہ ادبی سرگرمیوں اور وقت گزاری کے لئے چنا جو انگریزی تعلیم یافتہ اور نظریاتی اعتبار سے لبرل، سیکولر اور اشتراکی تھا یعنی ایک قسم سے مختلف نظریات کا ملغوبہ۔ اس میں ڈاکٹر رشید جہاں بھی تھیں اور وہ سب لوگ جو اپنے زمانے ہی میں مشاہیر کا درجہ پاچکے تھے۔ جن کا فرداً فرداً نام لینا ضروری نہیں۔
کہتے ہیں فیض کی فکری اور نظریاتی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ڈاکٹر رشید جہاں نے لیا جو ترقی پسندانہ ذہن رکھتی تھیں۔ ذہین بھی تھیں اور حسین و جمیل بھی۔ اس میں کیا شبہ کہ اقبال اور ان کے حلقے میں جو قوی شخصیات تھیں مثلاً محمد الدین فوق، نذیر نیازی، عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، چراغ حسن حسرت یہ بھی دانش ور لوگ تھے اور اپنے علم فضل کے لحاظ سے فیض کے حلقے سے کہیں زیادہ بلند مرتبت تھے۔ مگر ان حضرات علم فضل نے ادبی گروہ بندی کی بھی پروانہ کیا۔ وہ شاعری اور ادب کو نظریاتی بھیڑوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ چراغ حسن حسرت شاعری کا نہایت عمدہ امکان (Potencial) رکھتے تھے مگر کالم نویسی اور اخباری زندگی انھیں کھا گئی اور ان کے موجود شعری امکان کو ابھرنے نہ دیا۔
ادھر اس ادبی گروہ نے جس سے فیض اٹوٹ طریقے سے وابستہ ہو گئے تھے، پہلے ہی ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا آغاز ’’انگارے‘‘ جس میں احمد علی سمیت چار افسانہ نگاروں نے اپنے بے باک و بے حجاب افسانوں سے ادب کو ایک نئی جہت سے آشنا کردیا تھا۔ یعنی ادب کو زندگی کا ترجمان بنانا اور پرانے رسوم و رواج کی جکڑ بندی کو پوری جرأت سے توڑ دینے کی کوشش اس سے قبل اردو ادب میں رومانویت کی تحریک چل چکی تھی جس کے سب سے بڑے نمائندے سجاد حیدر یلدرم (والد قرۃ العین حیدر) تھے۔ تو جب زندگی کی ترجمانی کا فریضہ ترقی پسند تحریک اور بعدازاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے ذریعے ادب کو سونپ دیا گیا تو ادبا و شعرا نے ادب کو دو نظریاتی فرقوں میں بانٹ دیا یعنی ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی والے دو بڑے ادبی فرقے۔ اب یہ قصہ بعد کا ہے کہ ادب برائے ادب والے جو خود اسی تحریک سے متاثر رہے تھے بعد میں منٹو، حسن عسکری اور راشد و میراجی کی شکل میں ادب برائے ادب کے ترجمان بنے اور رفتہ رفتہ وہی چھا گئے۔ اور قیام پاکستان یا بٹوارے کے بعد ترقی پسندوں کی تنظیم پاکستان میں پابندی کا شکار ہوئی جس کی وجہ راولپنڈی سازش کیس بنی۔ یہ الگ بات کہ اس سازش میں سزا کاٹنے والے ایک ’’باغی رکن‘‘ ظفر اللہ پوشنی نے جیل کی روداد جو انھوں نے ’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘‘ کے عنوان سے بہت پہلے لکھی تھی، اس کے نئے ایڈیشن میں روسی استعمار کی ناکامی کا برملا اعتراف ہی نہیں کیا سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں اور اس کی برکتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اپنے ملک کی مذہبی تنگ نظری اور انتہا پسندی سے ان کا شکوہ بدستور ہے۔
جہاں تک معاملہ فیض کا ہے وہ مزاج نرم خو، دردمند دل اور حسن اخلاق وحسن معاملہ سے آراستہ شخصیت رکھتے تھے۔ ان میں ایک قسم کی درویشی اور صوفیانہ بے نیازی بھی تھی حیرت کی بات ہے کہ اس پہلو کی طرف سب سے پہلے کسی نے اشارہ کیا تو اشفاق احمد نے جنھوں نے افسانہ نگاری سے زیادہ ’’زاویہ‘‘ کے درویشانہ مکالموں سے شہرت پائی ہے۔ انھوں نے فیض کے مجموعہ کلام کے دیباچے میں لکھا کہ اگر فیض رسالت مابؐ کے عہد مبارک میں ہوتے اور کسی مہا جر کو کسی بخیل و تنگ دل یہودی سود خور سے گردن چھڑانی ہوتی آپ ﷺفرماتے کہ فیض کو بھیجو اور پھر اشفاق صاحب نے ’’کیوں بھیجو‘‘ کے جواب میں وہی صفات گنوائی ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اشفاق احمد کی بیان کردہ صفات میں ان مکروہات ومحرمات کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا جن میں فیض صاحب ساری زندگی مبتلا رہے۔ اس کے باوجود اتنا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فیض پر بہت لکھا گیا نقاد نے فیض کے صوفیانہ پہلو کو ان کے کلام میں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فیض کو ’’غم جاناں اور غم دوراں‘‘ کا شاعر کہہ کر اس کے شاعرانہ مرتبے کو پہچانا ہی نہ جا سکا… ذیل کے چند اشعار ایک غزل کے درج ہیں ذرا ان پر غور کیجیے، کیا یہ اشعار ہمارے تصوف وطریقت کے تسلسل میں نہیں؟ اور کیا اپنی جمالیات اور شعری حسن کے اعتبار سے صوفیانہ شاعری میں ایک بالکل علیحدہ اور منفرد آواز نہیں؟

کیوں داد غم، ہمی نے طلب کی برا کیا
ہم سے جہاں میں کشتہ غم اور کیا نہ تھے
گر فکر زخم کی تو خطا وار ہیں کہ ہم
کیوں محو مدح خوبی تیغ ادانہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوانہ تھے
لب پر ہے تلخی مے ایام، ورنہ فیضؔ
ہم تلخی کلام پر مائل ذرا نہ تھے

اب ان اشعار کی صوفیانہ تشریح وہی کر سکتا ہے جسے تصوف کے اسرار و رموز سے واقفیت ہو جسے تصوف و طریقت اور شریعت کا فرق ہی معلوم نہ ہو اور جو سلوک کے راستے میں سالک کن کٹھنائیوں سے گزرتا ہے اور خود اس پر کیا گزرتی ہے، اس سے لاعلم ہو اسے تو دیوان حافظ اور مولانا روم کی اولین اشعار بھی ناقابل فہم معلوم ہوں گے۔ اسی طرح فیض کی شاعری میں صوفیانہ اور درویشانہ عناصر اور راہ سلوک میں سالک پر گزرنے والی کیفیات کو بھی وہی لوگ مجھ سکتے ہیں جو جانتے ہوں کہ خود ملامتی اور اپنی ذات کی نفی کے اس دین میں کیا معنی ہیں۔
ٹھیٹھہ ملائیت والے اذہان کو فیض کو ’’صبح آزادی‘‘ والی نظم پر بہت اعتراضات رہے عالم میں یہ ’’داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر‘‘ کا مصرعہ تو ان کے لیے طعنہ بن گیا جس کا شکوہ آہستگی سے اک ذرا دکھ کے ساتھ فیض نے زیرنظر انٹرویو میں کیا ہے۔ یہ کٹھ ملائیت ذہنیت وہی ہے جو شریعت اور قانون سے بھی ادنیٰ سی واقفیت نہیں رکھتی جو قرآن حکیم کے اس صریح حکم سے بھی واقف نہیں کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور یہ کٹھ ملا ذہن یہ بھی نہیں جانتا کہ رسول مقبولؐ نے خانہ کعبہ کے تقدس پر انسانی جان کو ترجیح دی ہے۔ بٹوارے یا قیام پاکستان کے موقع پر جو کچھ انسانیت اور انسانوں پر بیتی اسے دیکھ کے تو خود قائد اعظم ایسے مضطراب اور دل گرفتہ ہوئے کہ بے تابی سے چیخ پڑے۔ ’’یہ میں نے کیا کردیا؟‘‘ یہ فقرہ ان کی زبان سے تب نکلا جب وزیر آباد کاری برائے مہاجرین میاں افتخار الدین ، مظہر علی خان (ایڈیٹر پاکستان ٹائمز ) کے ہمراہ قائد اعظم کو سرحدوں پر بے خانماں برباد مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کے چشم دید مشاہدے کی نیت سے بہ ذریعہ ہیلی کا پڑ فضا میں لے جایا گیا اور جو کچھ دیکھا قائد نے اس پہ وہ برافروگی سے اس کے علاوہ کہی بھی کیا سکتے تھے؟
اب رہا معاملہ فیض کی اشتراکیت کا اور اسلام سے ان کے ربط ضبط تعلق کا تو یہ معاملہ بھی ایسا ہے کہ جس پر اردو ادب کے نقادوں کی نظر اور نقطہ نظر پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے نظر اور نقطہ نظر کا فرق بیان کر کے اپنے مؤقف کا اظہار کیا جائے تو شاید بات واضح کرنے میں آسانی ہو۔ آل احمد سرور نے اپنی کتاب ’’نظر اور نظریے‘‘ میں نظر کو بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔ دینی اصطلاح میں اسے فراست مومن کہا گیا ہے۔ اس ناچیز کے خیال میں فیض کو حفظ قرآن، اسلامی تاریخ سے گہری واقفیت اور مزاج کی درویشی سے وہ فراست مومن تو حاصل نہ ہوسکی تھی کہ تمام عمدہ اوصاف کے باوجود انھوں نے روس کی افغانستان میں مداخلت اور مظالم کے خلاف بھی آواز بلند نہ کی حالاں کہ لینن امن انعام وصول کرنے کے بعد انھوں نے ماسکو میں جو خطاب کیا تھا اس میں امن کو گندم کے کھیت، سفیدے کے درخت، بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کے قلم اور مصور کے موئے قلم سے تشبیہ دی تھی تو امن اور آزادی کا ترانہ جس ملک میں انھوں نے گایا، اس ملک کے استحصالی اور توسیع پسندانہ کردار پر انھوں نے کوئی آواز کیوں نہ اٹھائی، تو جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ساری زندگی سرمایہ دارانہ معیشت کے خلاف غریبی اور بھوک کے خلاف نظمیں لکھیں، اٹھو ماٹی سے اٹھو جاگو میرے لال اور جابجا بکتے ہوئے بازار میں عورت اور مزدور کے جسم کا رونا روتے رہے لیکن ان کی کوئی تحریر، کوئی بیان کوئی نظم براہ راست امریکا اور یورپ کی موجودہ یا سابقہ سامراجی کردار کے بارے میں بھی با وجود سراغ لگانے سے نہیں ملتی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ کچھ اور نہیں صوفیانہ اور درویشیانہ مزاج قدرت کے اذن و اجازت سے قائم کردہ انسانی نظام اور اس کی مشیت کے سامنے عمل سپردگی کا نام ہے۔ خواہ یہ نظام اشتراکی ہو سرمایہ دارانہ یا اسلامی۔ لیکن ذرا ٹھہریے اگر یہی ہے کہ وہ اشتراکی، سرمایہ دارانہ اور اسلامی نظریات و اقدار کو ایک پلڑے میں رکھتے تھے تو پھر فیض خود کیا تھے؟ کیا ایک سادہ ورق جس پر کچھ بھی لکھ دیا جائے ، کوئی بھی کچھ بھی لکھ دے۔ ہرگز ایسا نہیں تھا۔ حقیقتاً فیض ایک مخصوص حالات میں جس کا تذکرہ خوف طوالت سے حذف کیا جاتا ہے، اشتراکی نظریے سے وابستہ ہو گئے تھے اور اس نظریے کی روح وہی تھی جس کی بابت حسن عسکری نے لکھا تھا کہ ترقی پسند تحریک کے مقاصد کے پیچھے انسانی روح کے جو مطالبات کارفرما ہیں ان سے انکار کر کے میں انسان ہی نہیں رہ سکتا یعنی مرتبہ انسانیت سے خود کو گرادوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم نے امریکی سامراج کو ابھارا، برطانوی راج نے انسانیت کو جن دکھوں میں مبتلا کیا وہ سب فیض کی آنکھوں کے سامنے تھے، اگر فیض ایسے ہی اشتراکی ہوتے تو برطانوی فوج کا حصہ ہی کیوں بنتے۔ چلے کہہ لیجیے کہ فسطائیت ، سرمایہ داری سے زیادہ خطرات اپنے اندر رکھتی تھی لیکن انھوں نے فسطائیت کے خلاف بھی کون سی ایسی نظم لکھی جس میں ہٹلر اور مسولینی کے مظالم کو نام لے کر موضوع بنایا ہو۔ ہاں انھوں نے ظلم کے خلاف، بھوک کے خلاف جنگ اور جبر کے خلاف لکھا اور جو لکھا اس میں بھی ایک پردگی کی کیفیت ہے، احتجاج، غصہ اور اشتعال انگیزی اور نعرے بازی نہیں ہے… آج بازار میں پابجولاں چلو میں فیض کا جو دھیما لہجہ ہے، خود سپردگی کا ہے، اس میں درد ہے، اس میں احتجاج کی لے اتنی دھیمی ہے کہ جابر اور ظالم کو بھی مظلوم سے پیار ہو جائے۔ اسی لیے جب میں نے زیرنظر انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کی شاعری مزدور اور سرمایہ دار دونوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے؟ تو جو جواب انھوں نے دیا وہ انٹرویو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ صوفیانہ اور درویشانہ رویہ نئے عہد اور نئے زمانے کی نئی شاعری میں فیض ہی سے مخصوص ہے اور یہی ان کی انفرادیت اور ان کا امتیاز ہے، جس کو اجاگرنہیں کیا گیا۔ رہی بات کہ وہ کتنے مسلمان اور کتنے پاکستانی تھے تو اس کے لیے فیض صاحب کے مضامین اور انٹر ویو ملاحظہ کر لیا جائے تو ایک ایسی حقیقت کھل جائے گی جس کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کیا گیا۔ ان مضامین اور انٹرویو میں نہ صرف فیض احمد فیض کٹر پاکستانی نظر آتے ہیں بلکہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست اس کی بنیاد کو دین اسلام پر مبنی سمجھتے ہیں۔ وہ قومیتوں کے مسائل کا بھی ادراک رکھتے ہیں اور اسلامی تاریخ اور حال کی مسلم تہذیب اور اس کی انفرادیت پر ایسی نظر رکھتے ہیں کہ پاکستان میں پانچ اور بعد میں چار قومیتوں کو کس طرح اسلام کی لڑی میں پرو کر ایک مسلم قوم بنایا جائے ، اس کا ایک واضح تصور بھی ان کے ہاں موجود تھا۔ کسی کو یقین نہ آئے تو پاکستان اسٹڈی سینٹر کی چھاپی ہوئی کتاب ’’فیض احمد فیض اور پاکستانی ثقافت، تحریریں اور تقریریں‘‘ مرتبہ شیما مجید (سال اشاعت 2006ء ) ملاحظہ کر لے۔ فیض کی اشتراکیت کا بھرم پھر بھی نہ کھلے تو ممتاز ترقی پسند نقاد جناب ممتاز حسین کی معروف کتاب ’’ادب اور شعور‘‘ میں ان کا مضمون ’’دست صبا، فیض کا ایک مجموعہ کلام‘‘ دیکھ لے جس کا آغاز ان فقروں سے ہوتا ہے:۔
’’ایک بارفیض ہماری بزم سے یہ کہہ کر رخصت مانگ چکے تھے کہ جب ’’محرکات کی شدت میں کمی واقع ہو جائے تو شاعر کو اہل محفل کا شکریہ ادا کر کے اٹھ جانا چا ہیے‘‘۔
اس لہجے میں بھی اشتراکیت کی وہ نعرے بازی نہیں جو ایسے بائیں بازو کے انقلابیوں کی پہچان ہے۔ یہ ایک تہذیب و شائستگی پر مبنی ایک دھیما لب ولہجہ ہے جو اہل محفل کی دل آزاری بھی نہیں کرتا، یہ کسی انقلابی کا نہیں ایک صحت مند دل و دماغ رکھنے والے آدمی کا انداز و اسلوب کلام ہے جو ماضی میں صوفیوں اور درویشوں سے مخصوص تھا اور فیض کی شاعری میں آ کر عہد جدید کے دکھوں سے آمیز ہو کر کچھ ایسا ہوگیا کہ یہ پہچاننا نقادوں کے لیے دشوار ہوگیا کہ ایک اسلوب کلام، اس دھیمے دھیمے نرم خو انداز میں اس خطے کے تصوف وطریقت کا مزاج سرایت کیے ہوئے ہے۔
فیض اپنے پیش رو اقبال کے بعد مولوی میر حسن کے شاگرد ہوئے۔ مولوی میر حسن طریقت و شریعت دونوں سے گہرائی سے واقف تھے چناں چہ اقبال ان سے کسب فیض کر کے اپنے کلام میں جلال کی صفت الٰہی کا مظہر ہوئے اور فیض صفت جمال کا۔ بس اتنی سی بات ہے جس کا سمجھنا سمجھانا کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا۔ اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کاکام نہیں۔

تصانیف

-1 نقش فریادی (1941ء ) -2 دست صبا (1953ء ) -3 زنداں نامہ (1956ء) -4 دست تہ سنگ (1965ء)-5 میزان، تنقیدی مضامین (1962ء) سر وادی سینا (1973ء) -7صلیبیں مرے دریچے میں، خطوط (1971ء) -8 متاع لوح و قلم، نثر (1976ء) -9 ہماری قومی ثقافت، نثر (1976ء ) -10 شام شہر یاراں (1978ء ) -11 مہ و سال آشنائی، یادداشتیں، -12 مرے دل مرے مسافر (1981ء) -13 سارے سخن ہمارے (1983ء)-14 نسخہ ہائے وفا (1984)-.
15 فیض احمد فیض اور پاکستانی ثقافت تحریریں اور تقریریں (2026ء) مرتبہ: شیما مجید
طاہر مسعود: فیض صاحب ! آدمی کا دل خواہشات سے لب ریز رہتا ہے اور چند خواہشیں مثلاً عزت، شہرت، محبت اور خوش حالی کے حصول کی خواہشیں تو ہر دل میں ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آپ کے دل میں شاید ہی کوئی ایسی خواہش، تمنا یا آرزو باقی رہ گئی ہو جو پوری نہ ہوئی ہو۔ خدا کی اتنی ساری نعمتوں کے میسر آجانے کے بعد بھی آپ کو اپنی زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوتا ہے؟
(1)سطور بالا تعارف میں فیض صاحب سے جواب مرحوم ہو چکے ہیں ( تاریخ وفات 20 نومبر 1984ء ) ملا قات کا پس منظر بیان نہیں کیا گیا کیوں کہ کتاب کے سابقہ ایڈیشنوں میں بار بار درج ہو چکا اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
فیض: کبھی بات یہ ہے کہ ہم نے زندگی سے جتنا کچھ مانگا تھا اس سے زیادہ ملا کبھی کبھی تو یہ سوچ کر ہم بے حد افسردہ ہو جاتے ہیں کہ جو کام میں کرنا چاہیے تھا، وہ ہم سے نہیں ہو پایا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں بھی جم کر بیٹھنے کا، اپنی ساری توجہ ایک چیز پر مرکوز کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس کے فائدے بھی ہوئے۔ وقتاً فوقتاً دوسرے کاموں کے مواقع ملے اور اس سے بہت سے رشتے ناتے قائم ہوئے۔
طاہر مسعود : پچھلے دنوں کہیں آپ نے کہا کہ آپ شاعری میں کمال حاصل نہیں کر سکے۔ اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟
فیض: یہ اور بات ہے لوگ ہمیں چاہتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری جو تمنا تھی، وہ پوری نہ ہوسکی لیکن ان تمناؤں کی تکمیل کے بغیر بھی اتنا صلہ مل چکا ہے کہ شکایت کرنا ناشکرگزاری ہوگی۔ ہماری تمنا تھی کہ ہم شاعری میں درجہ کمال کو پہنچتے مثلاً ناظم حکمت، پابلو نرودا ، لورکا وغیرہ ہمارے عہد کے شاعر ہیں۔ ظاہر ہے ہم ان جتنے بڑے شاعر تو نہیں ہیں۔ ہماری مثال تو عربی کے اس محاورے کے مطابق ہے کہ ’’ہم بڑے نہیں تھے، بڑوں کے اٹھ جانے نے میں بڑا بنا دیا ہے‘‘۔
طاہر مسعود: لوگوں نے آپ کا جس بے پناہ طریقے سے خیر مقدم کیا ہے اور آپ کو جس شان دار طریقے سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔ کہیں آپ کے یہ احساسات اس کے خلاف ردعمل کے طور پر تو پیدا نہیں ہوئے ہیں؟
فیض: یہ بھی ایک پہلو ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی کمال پیدا نہیں کیا، جو کچھ ہمیں کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نہیں کرسکے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ مزدور کو کم معاوضہ ملے تو اسے رنجش ہوتی ہے اور زیادہ مل جائے تو ندامت ہوتی ہے۔ ہمیں ہماری خواہش سے زیادہ ملا ہے اس لیے شکایت تو نہیں ہے لیکن تھوڑی سی حیرت ضرور ہے کہ آخر ہم نے ایسا کیا تیر مارا ہے؟
طاہر مسعود: آپ کے نقادوں کے خیال میں آپ کو بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر اہمیت دی جاتی ہے۔ ابتدائی زمانے میں تو آپ کو پنڈی سازش کیس کے حوالے سے شہرت ملی اور اب بائیں بازو کے عناصر نظریاتی ہم آہنگی کی بنا پر آپ کو اور آپ کے نام کو بہ طور علامت(Symbol) کے استعمال کرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
فیض: بات یہ ہے کہ راول پنڈی سازش کی ، جیل خانہ، سیاست اس طرح کے جو واقعات کیا تھے ہمارے ساتھ نہیں آئے۔ فرض کیجیے یہ سب پیش نہ آتا تو فی الحال یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ آگے چل کر کیا ہوتا اور کیا نہیں ہوتا۔ رہا سوال مخالفین کا تو مخالفین کی بات دوسری ہے۔ اس لیے کہ انھیں ہماری ذات سے مخالفت با مخاصمت تو ہے نہیں۔ ان کی مخالفت کو ہمارے سیاسی نظریات سے ہے۔ اگر ہم جیل خانے نے بھی گئے ہوتے تو اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی انھیں ہماری مخالفت کا کوئی نہ کوئی بہانہ تو مل ہی جاتا۔ اس پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم جیل نہ جاتے تو ہمارے پاس اخبارات رہتے۔ اگر مارشل لا قائم نہ ہوتا تو اخبار ہم سے چھینا نہ جانتا اور ہم صحافت ہی کرتے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کبھی نام پیدا کرنے کی گنجائشیں موجود تھیں، امکانات روشن تھے۔ ہاں ممکن ہے شاعری میں پیچھے رہ جاتے اور صحافت کے ذریعے لوگوں کی خدمت کر لیتے یا یہ بھی ممکن تھا کہ ہم صحافت میں نہ ہوتے اور مدرسی ہی کرتے رہتے جس سے ہم نے اپنی زندگی شروع کی تھی، ممکن ہے اس پیشے سے وابستگی کے نتیجے میں ہماری استعداد میں اضافہ ہو جاتا اور ہم کم از کم اچھے استاد ہوجاتے۔ ہوا یوں کہ راستے میں ادھر ادھر کے بہت سے موڑ آئے اور سب کچھ خود بہ خود ہوتا رہا۔ ہم نے اپنی مرضی سے کوئی بھی پیشہ اختیار نہیں کیا۔ حالات بدلتے گئے اور میں ان حالات کے ساتھ ساتھ چلنا پڑا۔ اب یہی دیکھے کہ اخبارات ضبط ہوئے لیکن ہم نے اسے اپنے شوق سے تو ضبط نہیں کرایا۔ اگر یہ سب کچھ اس طرح سے رونما نہ ہوا ہوتا تو ممکن ہے ہمیں شاعری کرنے کا زیادہ وقت مل جاتا اور ہم اس پر زیادہ توجہ اور وقت دے سکتے یا مدرسی ہی کر لیتے یا کچھ اور۔ جن حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ہمارا نام اس لیے ہوگیاکہ ہم جیل خانے چلے گئے تھے تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ جیل خانے نہیں گئے۔ انھیں شہرت کیوں مل گئی؟ مثلا فراق صاحب تو جیل نہیں گئے تھے۔ اس سے ان کی شاعری میں فرق تونہیں آیا۔
طاہر مسعود: گویا آپ کی زندگی میں جتنے موڑ آئے اس میں آپ کے ذاتی ارادوں کا کم اورحالات کا دخل زیادہ رہا؟
فیض: جی ہاں حالات ہی اس نوعیت کے پیدا ہوتے گئے جو ہمیں دھکیل کر اس طرف لے گئے ورنہ ہم بھی وہ راستہ اختیار نہ کرتے۔ بہ فرض محال اگر جاپان اور جرمنی حملہ نہ کرتے تو ہم فوج میں نہ جاتے یا پاکستان بننے کے بعد سیاسی حالات اچھے ہوتے تو میں جیل کیوں جانا پڑتا۔ اس نوع کے معاملات میں ایک حد تک حالات کا دخل ہوتا ہے اور ایک حد تک آدمی کے اپنے اختیار کا بھی ہوتا ہے۔ اس میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں، یا تو یہ کہ سب کچھ نظر انداز کر کے حالات سے سمجھوتہ کر لیا جائے یا پھر سمجھوتہ نہ کریں اور حالات کا جو تقاضا ہے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
طاہر مسعود: راول پنڈی سازش کیس تو خیر اب پرانی بات ہوگئی لیکن میں جس نسل کا نمائندہ ہوں، کم از کم اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ آپ کی شخصیت اور شاعری جتنی دل آویز ہے اس کے پیش نظر یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ بھلا آپ کا کسی سازش، بغاوت یا حکومت کا تختہ الٹنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اب جب کہ اس واقعہ کو بھی برسوں بیت چکے ہیں۔ آپ اس بارے میں کچھ ارشاد فر مانا پسند کریں گے؟
(جاری ہے)

حصہ