زندگی خوبصورت ہے مگر میرے لیے نہیں، ظہیر احمد خان غوری

299

غم خوشی ….دکھ اور سکھ….شاید زندگی اِسی سے عبارت ہے۔اس زندگی میں خوشیاں بھی ملتی ہیں اور دکھ بھی اور بعض دکھ ایسے جان لیوا ہوتے ہیں کہ زندگی پانی کی مانند بے رنگ ہو جاتی ہے۔زندگی کا سارا لطف جاتا رہتا ہے اور زندگی بے کیف ہو جاتی ہے۔زندگی کی حقیقت اگر انسان پر واضح نہ ہو تو وہ خوشیاں ملنے پر اکٹرنے لگتا ہے اورغم ملنے پر اِسے روگ بنا لیتا ہے مگر جو یہ سمجھتے ہوں کہ دکھ اور سکھ سب آزمائش ہے اور یہ کہ رات کے بعد ایک روشن صبح نےضرور طلوع ہونا ہے تو ایسے لوگ ضرور سرخرو ہوتے ہیں۔
دکھ اور غم کے حوالے سے ہمارے یہاں عمومی مزاج یہ ہے کہ غم اور پریشانیوں کو ہم روگ بنا لیتے ہیں،پھر عمل اور جدوجہد کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے دکھ اور پریشانیوں سے ہی لطف لینے لگتا ہے،اس کے پاس صرف سرد آہیں اور محرومیوں کا تذکرہ ہی رہ جاتا ہے۔
۔55سالہ ظہیر احمد خان غوری ان لوگوں میں نہیں جو اپنی محرومیوں کا ذکر کر کے ہمدردیاں سمیٹیں اور اپنے غم کا ماتم کریں بلکہ ظہیر احمد ان با ہمت لوگوں میں شامل ہیں جو اپنے عزم و ہمت سے اپنے لیے ایک نئی دنیا کا پیکر تراشتے ہیں،حیات کے صحراسے اپنے لیے قطرہ قطرہ زندگی کشید کرتے ہیں اور زندگی کو شکر گزاری کے جذبے سے دیکھتے ہیں ان کے لیے یہ بات بے معنی ہوتی ہے کہ ان کے پاس کیا نہیں ہے،بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس کیا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر شخص اپنی اپنی محرومیوں کا رونا رو رہا ہے،اچھا مکان،اچھی گاڑی،اسٹیٹس اور زندگی کی دیگر سہولیات جو درحقیقت بنیادی ضروریات نہیں آسائشیں ہیں،ان آسائشوں کے حصول میں آج کا انسان معاشی حیوان بنا ہوا ہے۔
یوں تو ظہیر احمد پر میری نگاہ کئی بار پڑ چکی تھی،اسے دیکھتے ہی پوری توجہ اس کی جانب مبذول ہو جاتی….ایک بے جان جسم جو چنگچی رکشے کی سیٹ پر مضبوط بیلٹ سے باندھ دیا گیا تھا۔وہ اکثر مجھے گلشن چورنگی پر نظر آتا،گلشن چورنگی سے عائشہ منزل تک مسافروں کو لے کر جانا اور آنا اس کے روز کا معمول تھا۔ایک دن گلشن چورنگی کے پل کے نیچے وہ مجھے مل گیا،اس کی گاڑی گرم ہو رہی تھی،اپنی گاڑی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جب وہ گلشن کے اسٹاپ پر رکاتو مجھے اس سے بات چیت کرنے اور اس کے حال جاننے کا موقع مل گیا تھا۔
”السلام علیکم“….میں نے خندہ پیشانی سے اُسے سلام کیا۔میرے اندازِ تخاطب میں مانوسیت سی تھی۔
”وعلیکم السلام“….اس کے جواب میں بھی ایک مانوسیت تھی جیسے وہ بھی مجھ سے شناسا ہو۔
”کیا حال ہیں،ٹھیک ہیں؟“
”ہاں….اللہ کا شکر ہے“
”مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے“۔
”کیا بات کریں گے آپ؟“
”بس ایسے ہی….کچھ آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں آپ کا انٹرویو لینا چاہتاہوں ایک رسالے میں شایع کروں گا“
”اچھا….لیں انٹرویو“
جس شخص کو روز میں دور سے دیکھتا تھا اور اسے محض ایک معذور شخص سمجھ کر نظر انداز کردیتا تھا آج اسے قریب سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ صرف معذور ہی نہیں بلکہ بے بسی ، بے کسی،بے کلی ، ناآسودگی اور محرومیوں کی ایک دنیا آباد کیے بیٹھا ہے ، ایک ایسی دنیا جس میں زندگی کی آسائشیں تو دور کی بات بنیادی ضروریات تک میسر نہیں حتی کہ نہ وہ سیر ہو کر کھا اور پی سکتا ہے اور نہ ہی رفع حاجت کی ضرورت اپنی مرضی سے پوری کرسکتا ہے ۔
”کیا ہوا آپ کو ؟“میں نے اس سے پہلا سوال کیا تو اس نے بتایا کہ جب وہ تین سال کا تھا تو اسے پولیو ہوا ۔ ظہیر احمد نے اپنی کہانی شروع کی تو میں اس کے اور قریب آگیا۔اسی اثناءمیں خشک میوہ کا ٹھیلا لگانے والا پٹھان اس کے قریب آیا تو اس نے ایک کاجو کھانے کی فرمائش کی جس پر پٹھان نے ایک کاجو لاکر اس کے منہ میں رکھ دیا ۔
میرا پورا دھڑ مفلوج ہے ۔ ظہیر احمد نے اپنی کہانی کا آغاز کیا تومیں گوش بر آواز ہوگیا۔
میرے والد نے میرے علاج کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی، یہاں تک کہ کہ میرے وزن کے برابر انہوں نے پیسہ خرچ کیامگر میرا علاج نہیں ہوسکا ۔ میرے نہ پاؤں کام کرتے ہیں اور نہ ہاتھ، میں صرف گردن موڑ سکتا ہوں اور میری صرف زبان چلتی ہے ، اتنا کہہ کر وہ مسکرایا اور کہا کہ میرے چار بچے ہیں جو میرے نہیں میرے بھائی کے ہیں میری اہلیہ ہے جو بیمار ہے ۔ پچھلے 5سال سے میں چنگجی چلارہا ہوں ، میری رہائش معین آباد سعود آباد ملیر میں ہے ، صبح پونے سات بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات دس بجے گھر پہنچتا ہوں۔
آپ گاڑی پر بیٹھتے کیسے ہیں میں نے اس کی گفتگو کے دوران سوال کیا ۔
ایک شخص مجھے گاڑی پر بٹھادیتا ہے ۔گاڑی چلانے کے دوران رفع حاجت کی ضرورت پیش آتی ہے تو کیا کرتے ہیں؟میں نے تجسس سے پھر سوال کیا۔ بھائی با ت یہ ہے کہ میں واش ہی نہیں جاتا۔
”کیا مطلب“
مطلب یہ کہ مجھے کون واش روم لے کر جائے گا ؟اس ڈر سے میں کچھ کھاتا نہیں ۔ آدھی روٹی صبح اور آدھی روٹی رات میں کھاتا ہوں دودو تین تین دن بعدواش روم جاتا ہوں جس کی وجہ سے مجھے بواسیر کی بھی شکایت ہوگئی ہے ۔ گاڑی چلانے کے دوران تو واش روم بالکل ہی نہیں جاسکتا ہاں اگر بہت زیادہ پیشاب لگے تو کہیں کنارے جا کر بوتل میں اپنی حاجت پوری کرلیتاہوں ۔ اسی لیے میں پانی بھی نہیں پیتا ۔ دن بھرمیں میں 2سے 3گلاس پانی پیتا ہوں ۔ میں رات کو لیٹ جاؤں تو خود سے اٹھ نہیں سکتا ۔ دنیا خوبصورت ضرور ہے مگر شاید پیسے والوں کے لیے ، ان کے لیے جن کے پاس وسائل ہیں۔”دیکھو میری گاڑی ٹھنڈی ہوئی “اس نے دوران گفتگو مجھے اپنی گاڑی چیک کرنے کا کہا۔ بات دراصل یہ تھی کہ آج اس کی گاڑی صبح سے ہی ڈسٹرب کررہی تھی اور وہ اپنی گاڑی کو ٹھنڈی کرنے کے لیے تھوڑی دیر رکا تھا ۔میں نے گاڑی کے انجن پر اپنی انگلی کو رکھا اور بتایا کہ نہیں ابھی گرم ہے ۔جس پر وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔
میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں ، کئی مرتبہ مجھے بس والوں نے ٹکر ماری ، ایک مرتبہ تو میر ابازوہی دب گیا میں گاڑی سے لٹک گیا ، بعد میں اس واقعے کے بعد میرا جو ایک بازو اٹھتا تھا وہ بھی اٹھنا بند ہوگیا ، اب صرف میری کلائیاں مڑتی ہیں اور انگلیوں سے ہی میں بریک، کلچ اور گیئر لگاتا ہوں۔کئی مرتبہ ٹریفک پولیس والوں نے بھی روکا کہ چنگچی چلانے پر پابندی ہے مگر میں نے کہا کہ اب تم ہی بتاؤمیں کیا کروں ؟جس پر ٹریفک پولیس والے خود سوچ میں پڑگئے ۔یاربات یہ ہے کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے ناں….ایک اور بات میں تمہیں بتاؤں واش روم نہ جانے کی وجہ سے جو تکلیف مجھے ہوتی ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگاسکتا ۔ پورے دن تکلیف میں رہتا ہوں، پسینے کی وجہ سے کپڑے جسم سے چپک جاتے ہیں جنہیں میں ہٹا نہیں سکتا اور یہ کپڑے جسم سے چپک چپک کر زخم بنادیتے ہیں اور ان زخموں سے پھر کپڑے چپک جاتے ہیں ۔ ایک دکھ وہ ہوتا ہے جس میں بندہ آنسوؤں سے روتا ہے اور ایک دکھ وہ ہوتا ہے جس میں دل روتا ہے ، بس سمجھو کہ میرا دل بھی روتا رہتا ہے ۔
”چھوڑو یا کیا کروگے میری کہانی سن کے اور چھاپ کے ؟“اپنی اتنی بپتا سنانے کے بعد نہ جانے اسے اچانک کیا خیال آیا ۔
تم جیسا ایک اور تھا اس نے مجھے رمضان میں ٹی وی پر بلایا ، اپنی ریٹنگ کے چکر میں مجھے مصیبت میں ڈال گیا۔
میں نے تفصیل پوچھی توکہنے لگا رمضان کے مہینے میں ایک پروگرام میں ایک اینکر نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کے لیے تاحیات کرائے کا مکان اور علاج کا بندوبست کروں گا مگر اس نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔ میرے گھر والے اور میری ماں یہ سمجھتی ہے کہ میں نے اس ٹی وی والے سے پیسے لے لیے ہیں اور میں انہیں بتا نہیں رہا ۔ اب خدا ہی جانتا ہے کہ مجھے کتنے پیسے ملے ہیں ۔ اس شخص نے مجھ سے میری ماں کو ناراض کردیا ۔
ایک لمحے کو وہ رکا اور چنگچی کے ہینڈل پر سر جھکا کر اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔میں دل مسوس کر رہ گیا ۔ وہ کوئی بچہ یا میرا ہم عمر نہیں تھا، ہوتاتو شاید میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیتا سر پر ہاتھ پھیرتا ، گلے لگاتا یا جھپی دیتا ۔ 55سالہ ادھیڑ عمر غمزدہ ظہیر کو تسلی دینے کے لیے میں نے اس سے کہا کہ ابھی میں اس اینکر سے بات کرتا ہوں اور پھر جب میں نے اس اینکر کو فون ملایا تو دوسری جانب سے آواز آئی ”سوری رانگ نمبر“
”ہاتھ لگاکر پتاؤانجن ٹھنڈا ہوا“ ،اس نے مجھے ایک بار پھر اپنی گاڑی کی حرارت چیک کرنے کا کہا۔ میں نے انجن پر انگلی رکھ کر بتایا کہ اب گاڑی کچھ ٹھنڈی ہے جس پر اس نے کہا اچھا اب میں نکلتا ہوں ۔ پھر وہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا ۔
اس کے جانے کے بعد میں بھی اپنے آفس کے لیے پلٹا ان سوچوں کے ساتھ کہ زندگی میں کیسے کیسے دکھ ہیں اور معاشرے میں کتنی بے حسی ہے۔سوچتا رہا کہ جو شخص محض اس لیے کچھ نہ کھاتا ہو کہ کہیں رفع حاجت کی ضرورت نہ پڑجائے اس کی زندگی کیسی ہوگی ؟۔کبھی برسات کے بھیکتے موسم میں بنتے پکوڑوں کی خوشبو اس کی ناک تک بھی آتی ہوگی ، شدید حبس اور لُو کے ماحول میں اس کا گلہ بھی خشک ہوتا ہوگا اور جی بھرکرٹھنڈا پانی اور مشروب پینے کا اس کا دل بھی چاہتا ہوگا ؟ لاچاری کی ایک ایسی کیفیت جس میں اسے خود توجہ کی ضرورت ہے اپنی اور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے۔ ظہیر احمد کی کہانی لکھتے وقت میری پیٹھ پر خارش ہورہی ہے اور میں اپنے بائیں ہاتھ سے کھجا بھی رہاہوں ۔ یہ خارش تو ظہیر کو بھی کبھی ہوتی ہوگی؟ میں سوچتا رہا ظہیر میں اور مجھ میں کیا فرق ہے،مجھ میں اور ظہیر ہی میں نہیں بلکہ ظہیر اور پاکستان کے 22کروڑ عوام میں کیا فرق ہے ؟ کیا کوئی مجھ پر یہ فرق واضح کرسکتا ہے؟

حصہ