داستانِ حیات: وہ کیا دوست تھے۔۔۔۔؟۔

351

میں سوچ رہی تھی ’’آج میں نے اچھا کھانا کیسے پکا لیا؟‘‘ آج سے ٹھیک 49 سال قبل 16 دسمبر1971ء کو تو ہم نے فاقہ کیا تھا اور ہم صرف موت کے منتظر تھے۔ پورے دن شدید گولیوں کی زد میں رہے۔ ہم اور ہمارے اہلِ خانہ جو کم و بیش 16 لوگ تھے، بچے سمیت سب کے سب پلنگ کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھے۔ بڑی بڑی کھڑکیوں کو بند کیا ہوا تھا۔
ہر لمحہ موت کے منتظر تھے۔ ایک وقت کھڑکی کی جھری سے باہر سڑک پر دیکھا کہ انڈیا کی جیپ جارہی ہے۔ یقین نہ آیا، اور میں نے کھڑکی کے سہارے کھڑے ہوکر ایک پیر اٹھا دیا کہ اے اللہ میاں! ہم کس سرزمین میں کھڑے ہیں؟ کیا یہ میری سرزمین نہیں ہے؟ کیا یہ اب پاکستان نہیں رہا؟ یہ کون سا ملک ہے جہاں یہ جیپ جارہی ہے؟ 4 دسمبر کو شروع ہونے والی جنگ اب ختم ہوچکی تھی، ہم گومگو میں تھے اور آنسوئوں نے راستہ ڈھونڈ لیا۔ لگاتار تین دن تک دھاڑیں مار مار کر روتی رہی۔ ہزاروں سوالات تھے اور جواب کسی کا بھی نہ تھا۔ کسی گولی نے بھی ہمارا کام تمام نہیں کیا تھا، ہم سب بال بال بچ گئے۔ ہم غم و اندوہ سے نڈھال تھے۔ بھائیوں کو ابا نے کسی محفوظ جگہ منتقل کردیا۔ اب ہم خواتین بھابھیاں، بہنیں، بچے اور مردوں میں صرف والد صاحب رہ گئے۔ ہمارے گھر میں کچھ خاندانوں نے پناہ لی تھی، انہیں مقتل لے جایا گیا۔ ایک شخص، جو ایک بچے کے ساتھ دوسرے شہر سے جان بچا کر آیا تھا، کچھ مہینوں سے رہ رہا تھا، اُسے ہمارے گھر سے لے جایا گیا اور قتل کردیا گیا۔ ہمارے چچا جو ہمارے ساتھ رہتے تھے، تنہا تھے وہ مقتل سے جان بچا کر آنے میں کامیاب ہوگئے۔
دوسرے دن ابا نے اپنے گھر سے زیادہ، قریبی پڑوس کے ایک گھر کو محفوظ جانا، وہاں مجھے اور میری بہن کو بھیجا۔ وہ گھر سو گز کے فاصلے پر تھا۔ ابا نے بہت افسردگی سے کہا کہ ہم یہاں سے دیکھ رہے ہیں تم دونوں چلی جائو، لیکن برقع اتار دو صرف بڑا دوپٹہ لپیٹ لو۔ برقع بہاریوں کی پہچان تھی، بنگالی خواتین برقع نہیں پہنتی تھیں۔ ابا برقع اتارنے کو کہہ رہے تھے جنہوں نے مجھے چھٹی کلاس سے برقع پہنا دیا تھا۔ میں اس وقت ظہور صاحب کے گھر اس عالم میں گئی کہ سڑک کے دونوں طرف لچے لفنگے لڑکے ہنس رہے تھے، ہمیں جاتے دیکھ کر وہ آوازے کسنے لگے۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ کان بند ہوچکے تھے۔ نظریں نیچی کیے تیز تیز بھاگ رہی تھی کہ ذرا بھی دیر کی تو کوئی اچک لے گا۔
اگلے دن ہمارا پورا گھر پناہ لینے وہاں پہنچ گیا۔
رات بھر ہم نے بڑا بھیانک منظر دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک ٹرک کھڑا ہے اور اس میں ہمارے گھر کا سب سامان لادا جارہا ہے۔ پھر جہاں پناہ لی تھی وہاں پر کچھ لڑکے ہمارے بھائی کو تصویر دکھا کر کہنے لگے: یہ تمہاری تصویر ہے۔ اور پھر تمام مردوں کو رات ایک بجے لائن میں کھڑا کردیا، اور گولی چلانے ہی والے تھے کہ ایک شخص نے تصدیق کی کہ یہ تصویر اس کی نہیں ہے۔ اور اس طرح سب کی جان بخشی کا پروانہ مل گیا۔ پھر ابا نے بھائیوں کو کہیں اور بھیج دیا اور ہمیں لے کر اسی لٹے پٹے گھر میں واپس آگئے۔ بنگالی کیپٹن سے اجازت لے کر گھر کا وہ منظر دیکھا جو لفظوں میں بتا نہیں سکتی۔ موت کا سناٹا تھا، ہر کونے سے آہوں و سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔

ظلم ہر ڈھب سے ڈھاتے رہے فتنہ گر
ظلم ڈھانے کا ہر ڈھب نرالا رہا
ہر نفس ظلم کی چیرہ دستی رہی
ہر طرف ظلم کا بول بالا رہا

صدمے سے سب نے بستر پکڑ لیے۔ میں نے چولہا چکی سنبھال لیا کہ بچوں کو کچھ کھلانا پلانا ہے، اور آنسو بہاتی رہی۔ پچاس درندوں کا جتھہ آگیا اور ابا کو برا بھلا کہتا رہا۔ کہنے لگے: یہ جو سب سامان ہے لوٹ کا ہے، تم نے ہمارے لوگوں کی دکانیں لوٹی ہیں۔ ابا نے قسم کھائی اور کہا کہ ہمارا خود کا ہوٹل تھا، یہ سب سامان اسی وقت کا ہے، کہو تو ہم قرآن اٹھا لیتے ہیں۔
ان میں سے ایک کہنے لگا: قرآن تمہارے ہاتھ میں آیا تو ناپاک ہوجائے گا۔ بے چارے ابا صدمے سے خاموش ہوگئے، کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ تم شریف آدمی ہو اس لیے چھوڑے جارہے ہیں اور تمہاری بیٹیوں کو بھی۔ کل اتنے پیسے لے کر گیٹ پر کھڑے رہنا۔ ابا کہتے رہ گئے کہ پیسے کہاں سے لائیں گے؟ مگر وہ لوگ دھمکی دے کر چلے گئے۔ ہمیں ہر طرف سے خبریں مل رہی تھیں کہ نوجوان شہید کیے جارہے ہیں، معصوم بچوں کو اٹھا اٹھا کر دیواروں پر مارا جارہا ہے، گھروں کو آگ لگائی جارہی ہے، عورتیں بیوہ ہورہی ہیں، لڑکیوں کی عزت لوٹی جارہی ہے، لڑکیاں درندوں سے بچنے کے لیے گلے میں پھندے ڈال کر درختوں سے لٹک رہی ہیں، مہارانیاں نوکرانیاں بنائی جارہی ہیں۔ بنگالیوں نے کہا تھا کہ ہم تمہاری عورتوں کو ماسیاں بنائیں گے، وہی ہوا۔ زبردستی شادی کی جارہی تھی، مائوں کے سامنے بچے ذبح کیے جارہے تھے، خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، بازار فتنے سے گرم تھا، کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ تقدیر مسکرا رہی تھی، بدنصیبی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایک کڑے امتحان کا آغاز ہوچکا تھا۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

سارے خواب چکنا چور ہوچکے تھے، بھیانک تعبیر سامنے تھی، بچے کھچے لوگوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا تھا۔ 16 دسمبر 1971ئکو جنرل نیازی نے ائرپورٹ جاکر جگجیت سنگھ اروڑا کو سلامی دی اور اسی دن رمنا پارک میں لاکھوں لوگوں کے سامنے اپنا ہتھیار دشمن کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے ہتھیار رکھنے کی رسم کیسے نبھائی، وہ جانے اور اللہ۔ مشرقی پاکستان، پیارا پاکستان، سنہرا پاکستان، دریائوں کا شہر، مسجدوں کا شہر حوالے کردیا گیا۔ جنرل نیازی زندہ کیسے رہا، معلوم نہیں… ایک غیرت مند سپاہی نے ہمارے گھر سے قریب فوجی چھائونی میں خود کو آگ لگا لی، لوگ بتارہے تھے کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکا تھا۔ ہم نے چھت پر چڑھ کر دیکھا، کیوں کہ فوجی چھائونی اور ہمارا گھر دونوں ہی دریائے بوڑھی گنگا کے قریب تھے۔ آگ لگنے کا منظر دل چیر گیا۔
مغربی پاکستان میں جنرل یحییٰ شراب و کباب میں مشغول تھا۔ جنرل رانی اور نورجہاں بیگم نے عیش کا سامان مہیا کررکھا تھا۔ گانوں کی محفل تھی اور یہاں ملک دولخت ہورہا تھا۔ ہمارا ملک کتنے بے غیرتوں کے ہاتھوں میں آیا اور شریف دور کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ بھٹو کو کرسی چاہیے تھی، اُس نے بھرے مجمع میں کہا ’’یہاں ہم، وہاں تم… جو مشرقی پاکستان جائے گا وہ صرف ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائے گا…‘‘ اور پھر جلسے میں کہا کہ ’’ٹانگیں توڑ دوں گا جو واپس آئے گا‘‘۔ بنگالیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی تھیں، جو بیج مغربی پاکستان نے بویا، وہی کاٹا۔ بنگالی کہہ رہے تھے کہ ’’ہمیں ان درندوں سے چھٹکارا مل گیا… اللہ کا احسان ہے۔‘‘ پھر یہ کہ ’’ہمارا ساتھ ہمارے اللہ نے دیا…‘‘ ہم تواتنا جانتے ہیں کہ اگر بنگالیوں کو حق دیا جاتا، اُن کی غربت دور کی جاتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ انہیں بہت زیادہ ڈی گریڈ کیا گیا، یہ لوگ بھول گئے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگ تھے، ذہین لوگ تھے، اتنا دبانا کہاں کی عقل مندی تھی! انہیں غدار بنانے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ 1965ء کی جنگ میں سب متحد تھے، صرف چھ سال بعد 1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔
خیر اللہ کا احسان تھا کہ ہم لوگوں کی جانیں اور عزتیں بچ گئیں۔ بنگالی جو ہمارے کرایہ دار تھے، انہوں نے ابا سے کہا کہ سب کچھ ہمارے حوالے کردو صرف چند ہزار روپے میں، ورنہ ہم یہ بھی نہیں دیں گے۔ ابا نے ہم سب کو محمد پور منتقل کردیا اور خود اماں کے ساتھ وہیں رہ گئے۔ بس میں بیٹھنے تک بہت مشکل پیش آئی… کئی خاندانوں کو ایک ہی بس میں بٹھا دیا گیا۔ بس کو چاروں طرف سے بنگالیوں نے گھیر لیا، ساری لڑکیاں بس کی سیٹوں کے نیچے چھپ گئیں۔ بہرحال کسی صورت سے محمد پور پہنچے۔ سارا دن بھوکے رہے کہ اِدھر اُدھر مارے مارے پھر رہے تھے۔ اپنے ایک عزیز کے گھر اترے، وہ لوگ بہت خوش ہوئے کیوں کہ یہ علاقہ بہاریوں کا تھا، یہاں تحفظ تھا۔ ہم جہاں رہ رہے تھے وہ بنگالیوں کا علاقہ تھا، اِکا دُکا بہاری تھے۔ اب ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا، بہت سارے خاندان ایک چھت تلے جمع ہوگئے۔ شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک کسی اور محفوظ گھر میں پناہ لیتے اور وہاں پر جاتے۔ اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔ بہت مشکل سے کلکتہ پہنچے۔
ایک مرتبہ ائرپورٹ سے واپس آگئے تھے۔ سامان بالکل نہیں تھا، سب کچھ دے چکے تھے۔ پھر نکلے تو وہی برقع اتار کر۔ وہاں مسافر خانے میں پناہ لی۔ دو مہینے کلکتہ میں رہے۔ پھر ہم ٹکڑوں میں بٹ کر دوسری فیملی کے ساتھ کٹھمنڈو پہنچ گئے۔ یہاں کئی مہینے رہے، اور پاکستان نے ٹکٹ بھیجا تو ہم پاکستان آئے۔ نیپال میں بھی کئی گھر بدلنا پڑے تھے، ہندوستان میں بھی ہر وقت لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہورہی تھی۔ بہرحال ہم سب بچ گئے۔
اب ہم پاکستان میں تھے۔ میرے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی، ایک بیگ تھا جو میرا کُل اثاثہ تھا۔ اپنے رشتے دار کے گھر چھ ماہ رہی، پھر والدین آئے۔ اب سب نے الگ الگ پناہ لی… بھائی اپنے اپنے سسرالی عزیزوں کے پاس رہے، ہم سب اپنے قریبی عزیز کے پاس۔ پھر کرائے کا گھر لیا۔ شدید مالی بحران تھا، ابا خاموش ہوگئے۔ مشرقی پاکستان میں ہماری بہت عزت تھی، ہم اوپر سے نیچے اترتے تو ہمارے کرایہ دار پیٹھ کرکے کھڑے ہوجاتے کہ مولوی صاحب کی بیٹی اتر رہی ہے۔ کسی بنگالی نے کبھی ’’تم‘‘ کہہ کر بات نہیں کی، ہمیشہ آپ کہا، نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔
پاکستان میں اپنی حالت دیکھ کر یوں لگتا کہ ہم سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ جو لوگ جنگ سے پہلے آگئے اُن کی حالت ہم لوگوں سے بہت بہتر تھے۔ ہم لوگ انتھک محنت کررہے تھے مگر حاصل کچھ نہیں۔ میں نے میٹرک کیا تھا۔ مختلف کام کیے، گارمنٹس فیکٹری میں کام کیا جہاں صرف بوڑھی عورتیں کام کرتی تھیں۔ میں آٹھ دس گھنٹے کام کرتی۔ پھر کاسمیٹکس کی فیکٹری میں کام کیا، اس کے علاوہ گھر کے سامنے ٹیوشن سینٹر میں نرسری کلاس کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا جس سے مجھے صرف 60 روپے ماہانہ ملتے۔ 9 مہینے بعد انہوں نے 90 روپے کردیے۔ پچاس بچے تھے۔ اپنے گھر کینٹین کھول لیا۔ آدھے وقت میں آتی اور بچوں کی چیزیں فروخت کرتی۔ میں یہ سب صرف اس لیے کررہی تھی کہ وہ مجھے سرٹیفکیٹ دیں گے، جسے دکھا کر گورنمنٹ ملازمت مل سکے گی۔ اسی دوران پرائیویٹ امتحان دیتی رہی۔ زندگی بہت سخت تھی، ہر طرف پریشانیاں ہی پریشانیاں تھیں، میں خاصی بیمار پڑ گئی۔ انتھک محنت، پھر بیماری اور تمام رشتے داروں کا تحقیر آمیز رویہ میں برداشت نہیں کر پارہی تھی۔ جب پرائیویٹ اسکول سے استعفیٰ دیا تو انہوں نے میرا کینٹین بند کروا دیا۔ میں نے اپنے گیٹ کے باہر کینٹین کھول لیا۔ اسی دوران چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنی بڑی بہن کی شادی کی۔ شادی کے لیے جہیز کیسے جمع کیا یہ خود ایک کہانی ہے۔ بہرحال مجھے گورنمنٹ ملازمت مل گئی، میں ٹیچر بن گئی، پھر میں نے ٹریننگ بھی کی اور گریجویشن بھی کیا، اس طرح سر اٹھانے کے قابل ہوگئی۔
میں نے بیماری نہیں دیکھی تھی، لیکن یہاں بیماری نے ڈیرا ڈال لیا۔ میں نے پیسوں کی قدر و قیمت جانی، روٹی حاصل کرنے کے لیے حقارت دیکھی، کرائے کے گھر میں مالک مکان کی حیثیت دیکھی۔ میری زندگی میں عیش نہیں تھا، سہولتیں نہیں تھیں… نفس پر کیسے قابو پایا جاتا ہے، خودداری کسے کہتے ہیں اور پھر اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جاتا ہے، یہ میں نے سیکھا اور اس پر اللہ نے عمل کروایا۔ مجھے کسی سے ذرہ برابر مدد لینا بھی پسند نہیں تھا۔ مجھے لوگوں کے دکھ درد کو دور کرکے خوشی ملتی تھی۔ میں نے اپنا کبھی نہ سوچا۔ کسی کو پریشانی میں مبتلا دیکھتی تو اس کی مدد کے لیے کھڑی ہوجاتی۔ ہر وقت اللہ سے ڈرتی رہی۔ بدنصیب لوگوں سے میری بہت دوستی تھی، ان کا غم بانٹ کر میں جیتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہوتی کہ اگر یہ بھی نہ ملا تو؟

نہ جلتی شمع تو پروانے کہاں جاتے؟
سب ہی ہوتے اپنے تو بے گانے کہاں جاتے؟

طویل زندگی میں بے حد نشیب و فراز آئے لیکن میں اپنے چھوڑے ہوئے شہر کو نہ بھولی۔ وہ موسم، وہ ہریالی، وہ پانی، وہ دیش۔ 16 دسمبر میری روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے، لیکن پانچ سال پہلے ظالموں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں پر جس درندگی کا مظاہرہ کیا اُس پر پوری قوم رو پڑی۔ دشمن ہر تھوڑے دن بعد کاری ضرب لگاتا ہے۔ ایک بازو کاٹ کر اُس کا جی نہ بھرا تو 150 سے زائد طلبہ اور اساتذہ کو شہید کر دیا۔
ایک دن میرے بیٹے نے میری بہو سے پوچھا کہ بنگلہ دیش کب بنا؟ اُس نے غلط جواب دیا اور میرا بیٹا اُس کی لاعلمی پر افسردہ ہو گیا۔ میری بہو ایک اچھے اسکول اور کالج سے پڑھی ہوئی ہے۔ میری تعلیمی نصاب مرتب کرنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو ملک کی تاریخ سے آگاہ کریں۔ بنگلہ دیش کب، کیسے اور کیوں بنا، وہ ہمارے ملک کا حصہ تھا۔ نئی پود کی ان باتوں سے لاعلمی اچھی نہیں۔ جب کچھ پڑھائیں گے تو وہ علم سے واقف ہوں گے، ورنہ جہل کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ ملک کی ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے، وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہوتا ہے۔ ہم تو اتنا چاہتے ہیں کہ ایسے کام کریں جس سے ہمارا رب راضی ہوجائے، ہماری آخرت سنور جائے۔

حصہ