روک سکو تو روک لو ۔۔۔۔۔

418

’’بھائی صاحب کدھر جارہے ہیں؟ اس طرف جانا منع ہے، آگے سڑک بند ہے، لہٰذا اپنی گاڑی واپس موڑ لیں۔‘‘
’’واہ بھئی واہ، کیا خوب کہی! تمہارے کہنے سے واپس چلا جائوں! میاں میرا گھر اسی جانب ہے، کیسے واپس لوٹ جائوں! اور پھر تم مجھے روکنے والے ہوتے کون ہو؟‘‘
’’انکل میں نے کون سی غلط بات کی ہے جو آپ تلملا کر اتنی اونچی آواز میں بات کررہے ہیں! میں پھر کہتا ہوں براہِ مہربانی واپس چلے جائیں، یہ راستہ بند ہے، لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔‘‘
’’دھرنا دیا گیا ہو یا لوگوں نے سڑک پر بوریا بسترا لگا رکھا ہو، آگے سے ہٹو اور میرا راستہ چھوڑو۔ عجیب مذاق بنا رکھا ہے، جس کا جی چاہتا ہے راستہ بلاک کرکے بیٹھ جاتا ہے، انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ سڑکیں گاڑیوں کے لیے بنائی گئی ہیں، پارک نہیں ہے جہاں تم بیٹھ جائو۔ اگر احتجاج کرنا ہی ہے تو جاکر ارباب ِاختیار کے گھروں کے سامنے بیٹھو۔ سڑک بلاک کرکے عوام کو پریشان نہ کرو۔‘‘
’’چاچا مجھ سے نہ الجھو، جتنا کہہ رہا ہوں اسے سمجھو۔ دیکھو آپ ہمارے بزرگ ہو، لوگ خاصے مشتعل ہیں، کسی نے بدتمیزی یا بدکلامی کردی تو کیا عزت رہ جائے گی! خدا کے واسطے جان چھوڑو اور یہاں سے جائو۔‘‘
’’کیوں جائوں؟ جو تم سے ہوسکے، کرلو، میں یہاں سے کہیں نہیں جائوں گا۔‘‘
اسٹیل ملز سے جبری طور پر نکالے جانے والے ملازمین کی جانب سے نیشنل ہائی وے پر دیے جانے والے دھرنے کے باعث دو افراد کے درمیان ہونے والی بحث و تکرار اس سے پہلے کہ ہاتھا پائی تک پہنچتی، میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
’’تم آپس میں لڑ کر اپنی توانائیاں کیوں صرف کرتے ہو؟ یہ سڑک کیوں بند ہے اور کیوں بند نہیں ہونی چاہیے، اس کا فیصلہ جذبات سے نہیں بلکہ ٹھنڈے مزاج سے کیا جا سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے اس سلسلے میں سڑک پر شور شرابہ کرنے کے بجائے کہیں بیٹھ کر بات کی جاسکتی ہے، اور پھر لڑنے جھگڑنے سے کون سے مسائل حل ہوتے ہیں! بڑے سے بڑے معاملات بھی بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں، لہٰذا آپس میں الجھنے سے بہتر ہے میرے ساتھ چلو، کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘‘
وہ دونوں میری بات مان کر سڑک کے کنارے لگے نیم کے درخت کی جانب چل دیے۔ درخت کی ٹھنڈی چھائوں تلے کچھ دیر خاموش بیٹھنے کے بعد حامد حسین نے سڑک بند کیے جانے پر ایک مرتبہ پھر اپنے اعتراضات شروع کردیے:
’’بھائی صاحب یہ کون سی شرافت ہے، جب دل چاہا ہڑتال کردی، جب من میں آیا سڑکیں بند کردیں! لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ میں اصولی آدمی ہوں، کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں، اگر انہوں نے دھرنا دیا ہے تو میں کیا کروں! مجھے تو اپنے گھر جانا ہے، سو، دھرنوں ورنوں سے میرا کیا لینا دینا! میں اسی سڑک سے جائوں گا اور ضرور جائوں گا، کوئی روک سکے تو روک لے۔‘‘
عاشق علی بھی اسٹیل ملز سے جبری طور پر فارغ کیے جانے والے مزدوروں میں سے ایک تھا۔ حامد حسین کی باتیں سن کر وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور انتہائی جذباتی انداز میں بولا:
’’ہم بھی جانتے ہیں یہ قومی شاہراہ ہے، ہمیں بھی معلوم ہے کہ راستے بند کرنا کوئی اچھا کام نہیں۔ ایک سڑک بند کی ہے، وہ بھی صرف چند گھنٹوں کے لیے، اس پر تم اتنے آگ بگولا ہورہے ہو۔ تم جلد سے جلد اپنے گھر بچوں کے درمیان پہنچنا چاہتے ہو، ہم پر تو روزگار کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، ایک کاغذ کا نوٹس بذریعہ ڈاک ارسال کرکے گھروں کی چھت تک چھین لی گئی ہے، ہم کہاں جائیں؟ سڑکوں پر بیٹھنے کا کسی کو شوق نہیں، کوئی خوشی سے قانون ہاتھ میں نہیں لیتا۔ جس کا روزگار جبری طور پر چھین لیا جائے وہ احتجاج بھی نہ کرے تو پھر کیا کرے؟ 4544 مزدوروں کا یک دم نوکریوں سے بے دخل کیا جانا معمولی بات نہیں۔ یہ ساڑھے چار ہزار خاندانوں کی بقا کا معاملہ ہے۔ جس دن سے جبری پروانہ ملا ہے، ہمارے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، ہم اپنے بچوں کو تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، چاہے ہمیں اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے ہم پْرامن احتجاج کے ذریعے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکر دینے والی حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ مزدوروں کا معاشی قتل کرنے اور انہیں بے گھر کرنے کے بجائے اپنی مزدور دشمن پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور اسٹیل ملز سے نکالے گئے تمام ملازمین کو ان کے عہدوں پر فوری طور پر بحال کرے۔‘‘
عاشق علی کی باتوں پر حامدحسین نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا:
’’میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر حکمرانوں نے کوئی ناانصافی کی ہے تو اس کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ اور پھر حکومت نے اگر نوکریوں سے نکالا ہے تو اس کے بدلے پیکیج دیا گیا ہے جس کے مطابق ہر مزدور کو اوسطاً 23 سے 27 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ نقصان کا سودا نہیں۔‘‘
’’جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جبری طور پر برطرف کیے گئے ملازمین کو دی جانے والی رقم اْن کی بقایا سروس کے دوران ملنے والی ماہانہ تنخواہ سے کم ہے، جبکہ ماہانہ ملنے والی تنخواہ پر انسان اپنی ضروریاتِ زندگی بہتر نہیں تو کم سے کم ایک دائرے میں رہتے ہوئے پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے لیے کوششیں کرسکتا ہے۔ جبکہ یکمشت ملنے والی رقم سے یہ اہداف پورے کرنا ممکن نہیں۔ اور پھر اسٹیل ملز کے ملازمین کو دیے جانے والے واجبات اور بقایاجات کی حقیقت کون نہیں جانتا کہ اپنے جائز بقایاجات اور پنشن کے حصول کے لیے کئی ملازمین نہ صرف اب تک در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، بلکہ کئی تو اس دوران دنیا سے کوچ بھی کرچکے۔ اگر کسی کو بقایاجات ملے بھی ہیں تو وہ قسطوں میں ادا کیے گئے ہیں، جو ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی گھر چلانے کی خاطر لیے گئے قرض کی ادائیگی میں تمام ہوگئے، یعنی کنویں کی مٹی کنویں میں ہی لگادی گئی۔ لہٰذا ہم کسی چکر میں آنے والے نہیں، ہم بھی اس حکومت کا نعرہ اسے ہی لوٹاتے ہیں ’’کوئی روک سکے تو روک لے، احتجاج جاری رہے گا‘‘۔
…………٭٭٭…………
اس ساری صورتِ حال میں یعنی عاشق علی اور حامد حسین کے درمیان ہونے والی بحث کے دوران میں نے دھرنے پر بیٹھے احتجاجی ملازمین کی نظروں سے بچاکر حامد حسین کو اْس کے گھر کی جانب تو روانہ کردیا، اب سوال یہ ہے کہ سڑک پر احتجاج کرنے والوں کو ان کے گھروں کی جانب کون بھیجے گا؟ ظاہر ہے جن کا روزگار جبری طور پر چھین لیا گیا ہو انہیں منتشر کرنا آسان نہیں۔ میں جب تک نیشنل ہائی وے پر موجود رہا، مظاہرین میں بڑھتی ہوئی بے چینی محسوس کرتا رہا۔ وہاں موجود لوگوں میں خاصا اشتعال پایا جاتا تھا۔
لوگوں کو روزگار دینے کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کرنے والوں کے دور میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار کردیے جائیں، جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز، کلرکس، واپڈا، او جی ڈی سی، ریلوے، پی آئی اے، ای او بی آئی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پی ٹی ڈی سی، اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سمیت کئی محکموں کے ملازمین اپنی نوکریوں کو لے کر سراپا احتجاج ہوں، ایسے حکمرانوں کی پالیسیوں پر افسوس اور ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے! ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، آسمان کو چھوتی مہنگائی، تباہ حال معیشت اپنی جگہ… حکمرانوں کی ناقص طرزِ حکمرانی اور نااہلی کا اندازہ اخبارات میں آنے والی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق:
’’موجودہ حکومت کے دور میں بے روزگاری کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ایف بی آر نے مالی سال2019-20ء میں 3989 ارب روپے اکٹھے کیے جو کہ ابتدائی طور پر مقررہ ہدف سے 1514 ارب روپے کم تھے۔‘‘
ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ صرف ایک سیاسی نعرہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکمرانوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستانی عوام سے مختلف وعدے کیے۔ نئے پاکستان کے قیام کے لیے مختلف شعبوں میں اصلاحات کے اعلانات کیے گئے، اور جو وعدے کیے گئے ان میں طرزِ حکومت میں تبدیلی، معیشت کی بحالی، بدعنوانی کا خاتمہ، انصاف کی جلد فراہمی، سیاحت کا فروغ، کفایت شعاری مہم، غربت کا خاتمہ، سول سروسز اور پولیس کے محکمے کی بہتری اور ہائوسنگ، زراعت اور لائیو اسٹاک جیسے شعبوں کی ترقی شامل تھی۔ قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے 26 ممالک سے معاہدے ہوچکے ہیں اور ان ممالک سے حاصل معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے11 ارب ڈالر ان ممالک میں موجود ہیں جو کہ جلد واپس لائے جائیں گے۔ تاہم حکومت اپنے اس وعدے کو بھی پورا نہیں کرسکی۔آخر میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ خدا حکمرانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔

حصہ