سائبر کرائم

1094

کیا آپ کو کبھی موبائل پربے نظیرانکم سپورٹ یا کسی انعامی مقابلے کے ٹکٹ یا کسی نامعلوم قرعہ اندازی میں نام نکلنے کا میسیج ملا ہے ؟کبھی کسی بینک سے معلومات لینے کا میسیج آیا ؟کبھی ایسی فون کال آئی جس نے اپنے آپ کو بینک کا نمائندہ بتا کر سادہ طریقے سے آپ سے کوئی معلومات کی تصدیق کرائی ہو اور باتوں باتوں میں آپ نے والدہ کا نام یا اپنا کوئی نمبر بتا دیا ہو؟اچھا کوئی ایزی پیسہ والے نے غلطی سے کوئی کوڈ مانگنے کا ذکر کیا ہو؟ یا غلطی سے کوئی کہے کہ آپ کو موبائل لوڈ بھیج دیا ہے ؟اچھاوہ ہسپتال میں موجود کسی ضرورت مند لڑکی کاکوئی میسج ملے ہیں جس کا عمومی نام صبا ہی ہوتا ہے اور وہ 20 سے لیکر 50 روپے کا موبائل ایزی لوڈمانگتی ہے۔خوش قسمت ہیں کہ نہیں آیا اور آپ کسی بھی قسم کے لالچ میں نہیں پڑے ۔مگر اب بات مسڈ کال تک جا پہنچی ہے ۔ برطانیہ میں تو سارہ کے نام سے 20 پونڈ رقم مانگی جاتی ہے۔پھر اسکی آڑ میں رحم کھانے والے کا خاصا مال چوری ہو جاتا ہے ۔کیا آپکو کسی آن لائن کاروبار میں سرمایہ کاری کی اور بہترین منافع کی آفر ہوئی ؟جس میں شروع میں کچھ ماہ تو منافع باقاعدگی سے آتا ہے مگر جب آپ کا لالچ بڑھتا ہے تو آپ سرمایہ کاری بڑھاتے ہیں پھر وہ ویب سائٹ والاکبھی پلٹ کر نہیں آتا یا وہ بھی آپ کے ساتھ اپنے لٹ جانے کا رونا روتا ہے ۔اسی طرح اگر آپ موبائل کے پوسٹ پیڈ کسٹمر ہیں اور اگر آپ کا ماہانہ بل بڑھتا محسوس ہو تو جان لیں کہ ہیکر آپ سے مال بٹور رہے ہیں۔اس لیے موبائل فون کے تمام صارفین کسی بھی عجیب نمبر سے موصول ہونے والی مس کال کو سنجیدہ لیکر دوبارہ کال کرنے سے گریز کریں۔تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں پتا چلا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران دُنیا بھر میں سائبر جرائم میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا۔بینک بند تھے لوگوں نے آن لائن رجوع کیا اور وہیں سے چوروں کو خوب رستے ملے ۔دُنیا بے شک جدید ہوئی ہے مگر شیطان و اُس کے چیلے جو بیٹھے ہی اس ساری تہذیب جدید کے کندھوں پر ہیں وہ اس میں ایک قدم آگے ہی ہیں ۔سادہ تعریف میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک آلات کی مدد سے کیے جانے والے مالی و اخلاقی جرائم سائبر کرائم کے ذیل میں آتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی اس سائبر دُنیا میں آج اس سے جڑے جرائم کی بات کریں گے ۔سائبر کرائم اس وقت دُنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم میں شامل ہو چکے ہیں۔ اِن میں پکڑائی بہت مشکل سے ہوتی ہے ، بندہ اپنے تئیں بے حد محفوظ ہوتاہے اور حرام کی دولت و بدد عائیں سمیٹتا رہتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے لیے وہ تمام رقم حرام ہوتی ہے اور اِس کا انجام نہ ہی دُنیا میں اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اس کو آسانی سے کوئی رعایت ملے گی ۔ اِس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ سائبر کرائم کا شکار اکثر افراد وہ معصوم یا غریب لوگ ہوتے ہیں جن کی جمع پونجی ہی وہی ہوتی ہے جو لُٹ جاتی ہے۔میڈیا میں سب سے زیادہ مقبول جرائم کی سنسنی خیز خبریں کہی جاتی ہیں ۔ان کی رپورٹنگ کا بنیادی مقصد ہونا تو یہی چاہیے کہ جرائم کم سے کم ہوں ، جرائم سے نفرت ہو، مجرم کیفر کردار کو پہنچیں ، عبرت ہو اور ساتھ ہی ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ذمہ داری سے اپنا کام انجام دے سکیں۔ اب یہ مقاصد کتنے پورے ہو رہے ہیں یہ ہم خود جائزہ لے سکتے ہیں ۔ اِسی تناظر میں کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام ’بڑھتے ہوئے سائبر کرائم ‘ کے عنوان سے صحافیوں کی آگہی کے لیے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقادکیا گیا جس کا اولین مقصد آگہی کو فروغ دینا تھا۔
پاکستان میں 2007 سے اس پر ایف آئی اے کام کر رہی ہے۔اس کے لیے باقاعدہ ’’نیشنل رسپانس فار سائبر کرائم‘‘ بنایا گیا ہے جس کے اس وقت 15 تھانے ملک بھر میں کام کر رہے ہیں۔ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کے نیچے تین ڈپٹی ڈائریکٹر کام کرتے ہیں۔کراچی میں سب سے زیادہ شکایات آتی ہیںاس کے بعد لاہور دوسرے نمبر پر ہے شکایات کے اندراج میں ۔متاثرین کی سہولت کے لیے ایک آن لائن شکایات سسٹم سال بھر سے متعارف کرایا ہواہے۔ شرط یہ ہے کہ شکایت کنندہ کے رہائشی شہر میں ہی شکایت درج ہوگی۔ایف آئی اے کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک سائبر کرائم واحد شعبہ ہے جو 80000 شکایات ڈیل کر رہا ہے۔بڑھتے جرائم کی وجہ سے حکومت نے بھی وسائل بتدریج بڑھائے ہیں ۔
سائبر سیکیورٹی اس وقت پاکستان کے لیے بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔حالیہ دنوں بینک اسلامی کے اکاؤنٹ ہیک ہونے سے ایک بڑا جھٹکا لگا۔ اس کے لیے افسوس ناک بات یہی ہے کہ ابھی تک قانون سازی ہی نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے یہ سائبر اسپیس مجرموں کے لیے جرائم کا ایک محفوظ طریقہ کار بن چکا ہے۔ اس ضمن میں ’آن لائن ہیراسمنٹ ایکٹ ‘ آچکا ہے جبکہ ’ڈیٹا پروٹیکشن کا‘ قانون ابھی کئی سال سے تیاری کے مراحل میں ہی ہے۔جو قانون بن چکا ہے اس میں بھی مزید جدت لانے اور حالات کے مطابق تبدیلی کی ضرورت ہے کیوں کہ ٹیکنالوجی مستقل آگے بڑھتی اور جدت اپناتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ بہتات اِن جرائم میں مالی ایشوز کی ہے، جنہیں ہم سائبر چوری کہہ سکتے ہیں ،ا س کو قابو کرنے میں بھی کئی مشکلات ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سائبر کرائم کا تفتیشی افسر متعلقہ فیلڈ کی تکنیکی مہارت والا ہونا چاہیے ، پھر یہی نہیں بلکہ ’سائبر اسپیس ‘تو گلوبل ہے یا ’بارڈر لیس کرائم ‘ہے اس لیے اگر کسی دوسرے ملک سے بیٹھ کر جرم کیا جائے تو کیا کرنا ہوگا۔اس کے لیے ممالک سے ابھی معاہدات ہو نے ہیں۔
سائبر کرائم کی اقسام میں سب سے سخت نوعیت ’’سائبر ٹیررازم‘‘ اور ’’سائبر بلاسفیمی‘‘ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعہ دہشت گردی کی کارروائی کی جانب اکسانا اور اسلام ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی شعائر، انبیاء ، کتاب اللہ کی شان اقدس میں گستاخی شامل ہے۔ اس کے بعد اگلی کٹیگری میں ’ چائلڈ پورنو گرافی‘ اور ’’سائبر جنسی ہراسمنٹ ‘ہے جس میں انٹرنیٹ پر بچوں ، خواتین کے ساتھ زیادتی و دیگر فحش تصاویر اَپ لوڈ کرنا، بلیک میل کرنا، جنسی ہراساں کرنا شامل ہے ۔ پھر ’’ڈیٹا چوری‘‘ کا معاملہ ہے جو کہ ایک سم ، موبائل سے لے کر سوشل میڈیا اکاؤنٹ، ای میل ، ہارڈ ڈسک، کاپی رائٹ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد ’’مالی بدعنوانی‘‘ کے کیسز ہیں جو ’’صبا کے بیلنس‘‘ سے شروع ہو کر ، او ایل ایکس فراڈ، ایزی پیسہ فراڈ اور بینک اکاؤنٹ ہیکنگ تک جاتے ہیں ۔ اسی طرح ’ سائبر سیکیورٹی‘ ہے جس میں بڑے اداروں کے اپنے سرور سے ڈیٹا ہیک ہو جانے کے کیسز ہوتے ہیں ، جس کی تازہ مثال بینک اسلامی سے 60ملین ڈالرصرف 90 منٹ میں لوٹنے کا کیس شامل تھا۔
سائبر کرائم سیل کے مطابق 2018 میں صرف کراچی میں2526کیسز تھے ، 2019میں 4304 کیسز پھر2020میں نومبر تک 10148کیسز درج ہوئے ۔انہوں نے کئی شکایات پر گھنٹوں کے اندر کارروائی کی ہے ،خصوصاً خواتین کی تصاویر کے معاملے میں ۔ اس میں متعلقہ ادارے فیس بک وغیرہ سے ریکارڈ منگوانے میں نہ صرف خاصی دقت ہوتی ہے بلکہ وقت بھی لگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک اُن اداروں سے ان جرائم کی روک تھام کے لیے معاہدات نہیں کر پایا ۔ معاہدے میں ایک اور مسئلہ دونوں کے نظریات کا ہے ۔ ایک چیز جو ہمارے نزدیک جرم ہے اُن کے نزدیک و ہ آزادی اظہار ہوتی ہے ۔ اس لیے چونکہ اُس پلیٹ فارم جیسے فیس بک کے وہ خود مالک ہیں اس لیے پالیسی بھی اُن کی ہوگی۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق سوشل میڈیا پر فیک پروفائل کیسز بھی بہت تواتر سے آتے ہیںاور اُن میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی معلومات نہیں ہوتی۔ بہت تگ و دو کے بعد فیک پروفائل پر کسی کی غلط تصاویر ثابت ہونے پر فیس بک مدد کرتا ہے۔
اس میں پہلی بنیادی بات سائبر سیکیورٹی کے لیے یہ ہے کہ جوآلہ یا پلیٹ فارم آپ استعمال کرتے ہو اس کو تحفظ دینا آپکا اپناکام ہے۔ اپنے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ مشکل رکھنا اس کیTwo factor authenticationرکھنا لازمی ہے۔ اگر آپ کا فیس بک پروفائل سکیورٹی کے ٹول کو پورا کرتا ہے تو آپ قدرے محفوظ ہیں۔اپنی آئی ڈی کو فون سے کنٹرول میں رکھیں۔اگر آپ کا فیس بک پروفائل ہیک ہوا ہے تو فیس بک والوں نے ازخود شکایت کو جلدی حل کرسکتا ہے اس کی ایس او پی بہت بہتر ہے براہ راست رابطہ کرنے پر۔دوسری اہم بات یہ کہ اگر آپ اپنے مالی معاملات کو اپنے فون یا کمپیوٹر سے ڈیل کرتے ہیں تو بھر پور احتیاط کریں۔کوڈ دینے کے معاملے میںتو جان لیں کہ کسی صورت کسی کو نہیں دینا ، کسی کو بھی نہیں دینا۔عوام میں اس حوالے سے شعور کی تاحال کمی ہے اس لیے وہ بعد میں روتے اور پچھتاتے ہیں ۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق جو بھی آن لائن پورٹل سے شکایت درج کراتا ہے تو ادارہ از خود اُس سے رابطہ کرتا ہے ، جرم کے شواہد یا تصدیق پرہی کارروائی کا آغاز کرتا ہے تاکہ کسی کو بھی جھوٹے الزام یا ذاتی رنجش کی بنیاد پر نہ تنگ کیا جائے ۔اسلیے فیک کمپلینٹ کرانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جاتی ہے ۔خواتین کی تصاویر والے کیسز میں سب سے زیادہ بے احتیاطی خود خواتین کی اپنی ہی ہوتی ہے ، وہ خود اپنی تصاویر دھوکہ میں آکر فراہم کرتی ہیں، اپنے پاس ورڈ شیئر کرتی ہیں جس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اب یہ باقاعدہ ریکٹ مافیا بن چکا ہے جو پہلے کم عمر خواتین سے یہ کام کرواتا ہے تاکہ بعد ازاں اُن کو بلیک میل کر کے پیسے بٹورے۔ اس لیے خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین کو موبائل فون دینا ہی سب سے خطرناک ہے کیوں کہ اس کا خمیازہ بعد میں غیرت کے نام پر قتل سے لے کر کئی اور زندگیوں کی تباہی تک جاتا ہے۔
ڈیٹا ہیکنگ کی ایک تازہ مثال چند روز قبل ہوئی جب معروف آن لائن اسٹور علی بابا سے ایپل لیپ ٹاپ کا بڑا کنسائنمنٹ منگوایا گیا۔ آرڈر آن لائن دیا تو جواب میں ایک کال آگئی جس نے اپنے آپ کو علی بابا کا نمائندہ بتا کر گھما یا پھریا اور 5000ڈالر وصول کرلیے ۔بعد ازاں پتا چلا کہ علی بابا کا تو لوکل نمائندہ ہے ہی نہیں ۔اب بات یہ ہے کہ آرڈر تو آن لائن ویب سائٹ پر دیا گیا تھا جس کے بارے میں صرف گاہگ ہی جانتا تھا اس لیے بیچ میں کہاں ڈیٹا ہیک ہوا ؟ یہ سب بڑے کھیل ہوتے ہیں۔اسی طرح میپنگ ٹیکنیک کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کالنگ کے ذریعہ کالز کر کے لوٹا جانا ایک معمول کی بات بن چکا ہے۔
اسی طرح برانچ لیس بینکنگ اور ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رحجان نے جن جرائم کو رستہ دیا ہے اُن کی روک تھام کے لیے قانون سازی کا نہ ہونا انتہائی افسو س کی بات ہے ۔ ایک انسان کی جمع پونجی دھوکہ سے اُس کی سادہ لوحی سے لوٹ لی گئی ۔ اچانک اطلاع ملنے پر اُس کا ہارٹ فیل ہوگیا ۔ اب مجرم پکڑا گیا تو صرف دفعہ420 یعنی دھوکہ دہی، فراڈ کی لگے گی اور وہ چند گھنٹہ میں کپڑے جھاڑتا ہوا ویسے ہی باہر آجائے گا اور اگلے شکار کی تلاش میں نکل جائے گا۔ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے گذشتہ دنوں ایسے ہی ایک بڑے گروہ کو خاصی محنت تکلیف مشقت کے بعد پکڑا جس کے بعد قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ سب ریلیف پاتے چلے گئے۔
پتا یہ چلا کہ پنجاب کے اوڈھ ( خانہ بدوش) افراد کا گینگ ہے جو کہ دراصل پورا کا پورا گاؤں ہوتا ہے ۔ باپ کسی سائیکل پر کپڑے بیچتا ہے، خاتون برتن دھوتی ہے اور بیٹا کھیتوں میں کہیں ٹامک ٹوئیاں مارتا نظر آتا ہے۔مگر اندر سے پورا گاؤں ایک ہوتا ہے ، جدید ترین سیکورٹی کیمروں کے ساتھ ایسی مانیٹرنگ کہ کوئی چڑیا بھی آئے تو نوٹ کر لیجاتی ہے ۔اپنے علاقوں کے زمینداروں سے کہیں زیادہ مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں ۔سائبر دور سے قبل یہ سب نوسربازوں کا گروہ ہوتا تھا جو جعلی سونا و دیگر کاروباری لالچ دیکر گاؤں لاتے اور بے رحمانہ طریقہ سے لوٹ لیتے یا تاوان وصول کرتے ۔ اب ایسی جدید ٹریننگ کے ساتھ اس میدان میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ اُترے ہیں کہ جب یہ گروپ پکڑا گیا تو اُن کے پاس موجود موبائل فون کا جب آڈٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے رابطے گروپس میں کئی نادرا کے ملازمین ہیں جن کے ساتھ ڈیٹا فراہمی کے مخصوص ریٹ طے ہیں ۔ یہ اُن کو شناختی کارڈ نمبر بھیجتے ہیں وہ انکو ساری معلومات مع انگوٹھے کا نشان دیتے ہیں ۔ اس نشان کی مدد سے پی ٹی اے کی نااہلی و کرپشن کے باعث جعلی سمیں دھڑا دھڑ ایشو ہوتی ہیں۔ ان جعلی سموں پر برانچ لیس بینکنگ اکاؤنٹ ایزیپیسہ، جیز پیسہ اکاؤنٹ بنتے ہیں۔راتوں رات منٹوں میں رقم ادھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا ۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سینٹر کے حکام نے بتایا کہ رات 2بجے سم ایشو ہوئیں، دس منٹ میں ایکٹیو ہوئیں، دس منٹ میں رقم منتقلی ہوئی اور اگلے دس منٹ میں رقم باہرہوگئی۔مضمو ن طویل ہو رہا ہے اگلے ہفتہ اگر کوئی بڑا ایشو نہیں آیا تو ان واقعات کو تفصیل سے بتائیں گے ۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ’نادرا‘ ڈیٹا بیچنے والے اپنے ایک ملازم کو بھی پھانسی دلوادے(قومی راز افشا کیس) اور پی ٹی اے ناجائز سم ایشو ہونے سے روک دے تو بہت سارے سائبر کرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔‘

حصہ