ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری

602

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری جون 1912ء کو رائے پور میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن پٹنہ (صوبہ بہار) تھا۔ والد صاحب بہ سلسلہ ملازمت رائے پور مقیم تھے۔ چناں چہ ڈاکٹر رائے پوری نے وہیں سے میٹرک کیا اور 1928ء میں کلکتہ چلےگئےجہاں سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد علی گڑھ کا سفر اختیار کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی سند لے کر وہ پیرس گئے اور پیرس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔ 1930ء میں مولوی عبدالحق انہیں اپنے ساتھ حیدر آباد دکن لے گئے اور یوں وہ انجمن ترقی اردو میں مولوی صاحب کے ادبی معاون کے طور پر کام کرتے رہے۔ ترقی پسند تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے اگلے سال 1937ء میں آپ یورپ چلے گئے جہاں تین سال قیام کیا اور 1940ء میں لوٹ آئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں تین سال تک بہ طور نائب نیوز ایڈیٹر کام کیا۔ 1943ء میں استعفیٰ دے کر آئندہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہنے کا ارادہ کر لیا۔ جس کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں تاریخ کے پروفیسر اور وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1945ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمۂ تعلیم میں مشیر تعلیم کے عہدے پر تعینات کیے گئے۔ انہیں اس محکمے میں رہتے ہوئے محکمۂ تعلیم کے مشیر اور مشہور انگریز ماہر تعلیم سرجان سارجنٹ اور عبوری دور کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت بھی ملی۔ مولانا سے مشورہ کرکے وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں تعلیم ہی کے محکمے میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ پھر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے اور کراچی یونیورسٹی میں بھی کچھ عرصہ وزٹنگ پروفیسر رہے۔
ڈاکٹر اختر حسین رائے کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اردو‘ ہندی اور انگریزی زبانوں میں لکھا ہے۔ دو افسانوی مجموعے ’’محبت اور نفرت‘‘ اور ’’زندگی کا میلہ‘‘ جن کے کئی افسانے دوسری زبانوں میں ترجمہ کیے گئے‘ ادبی تنقید کے بھی دو مجموعے ہیں ’’ادب اور انقلاب‘‘ اور ’’روشن مینار‘‘ کالی داس کے مشہور ڈراما ’’شکنتلا‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ مولوی عبدالحق کی ہدایت پر نذرالاسلام کی بنگلہ نظموں اور میکسم گورکی کی خود نوشت کا تین جلدوں میں ترجمہ کیا۔ ہندی افسانوں کا مجموعہ ’’آگ اور آنسو‘‘ بھی چھپ کر ہندی پڑھنے والوں میں مقبول ہو چکا ہے۔
اختر حسین رائے پوری کی اہلیہ حمیدہ اختر بھی کئی کتابوں کی مصنفہ‘ جب کہ ان کے صاحبزادے عرفان حسین انگریزی کے ممتاز کالم نگار ہیں۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ برصغیر کی معروف ترقی پسند تحریک آپ کے ایک مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ سے شروع ہوئی‘ آپ کے خیال میں اس تحریک کے پس منظر میں کون سے مقاصد اور حالات کار فرما تھے؟
اختر رائے پوری: اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ترقی پسند تحریک میں صرف کمیونسٹ اور بائیں بازو کے افراد شامل تھے‘ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ اس تحریک میں مختلف الخیال لوگ شامل تھے مثلاً جہاں اس تحریک میں سجاد ظہیر اور ان جیسے کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے دیگر ادیب شامل تھے‘ وہیں اس تحریک سے منشی پریم چند‘ مولوی عبدالحق اور مولانا عبدالمجید سالک وغیرہ بھی متاثر تھے۔
قصہ یہ ہے کہ 1936 میں سجاد ظہیر انگلستان سے تعلیم ختم کرکے واپس آئے تو انہیں ایک انجمن بنانے کا خیال آیا۔ انہوں نے لکھنؤ میں ادیبوں کو جمع کیا اور ایک جلسہ کیا جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی اور یوں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ اس انجمن کے قیام سے 1935ء میں رسالہ ’’اردو‘‘ میں میرا مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جو آج بھی اس تحریک کا پیش رو کہلاتا ہے۔
طاہر مسعود: لیکن ترقی پسندوں کے ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ ترقی پسند تحریک کا پیش رو افسانوں کا مجموعہ ’’انگارے‘‘ ہے جس میں چار افسانہ نگاروں کے افسانے شامل تھے جو افسانے کو خیالی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لائے تھے اور جرأت مندانہ لب و لہجہ اختیار کیا تھا۔
اختر رائے پوری: یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ترقی پسند تحریک ’’انگارے‘‘ نامی کتاب سے شروع ہوئی۔ 1936ء میں سجاد ظہیر کے تین افسانے‘ احمد علی کے دو‘ رشید جہاں کے بھی غالباً دو اور محمودالظفر کا ایک افسانہ شامل کرنے کے بعد یہ کتاب وجود میں آئی تھی اور ان تمام افسانہ نگاروں کی یہ پہلی تحریریں تھیں۔ اس مجموعے کو آپ دیکھیں تو اس کے تقریباً تمام ہی افسانے جنسی
اور یہ کسی اعتبار سے بھی ادبی معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ اگر اس کی کوئی خوبی تو صرف اتنی کہ اس نے پڑھنے والوں میں ایک ہیجان پیدا کیا کیوں کہ لوگ اس قسم کی تحریروں کے عادی نہیں تھے۔ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کر لیا تو کہا جانے لگا کہ حکومت نے اس کتاب کو انقلابی ہونے کی وجہ سے ضبط کیا ہے حالاں کہ حکومت نے اس کتاب کواس لیے ضبط کیا تھا کہ فحشیات کا ایک پلندہ تھا۔ اس زمانے میں رسالہ ’’اردو‘‘ کے مدیر مولوی عبدالحق تھے۔ اس رسالے میں قاضی عبدالغفار نے نقاش کے نام سے ’’انگارے‘‘ پر ریویو لکھا جس میں کہا کہ اس کتاب میں وہ سب فحش افسانے احمد علی کے ہیں جنہیں اس کتاب میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے بعد میں ان افسانوں کے لکھنے پر کسی رسالے میں معذرت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ میں نے یہ افسانے یورپ کے بعد مصنفوں سے‘ جو جنسی مسائل پر کھل کر لکھتے ہیں‘ متاثر ہو کر لکھے ہیں۔ مثلاً جیمس جوائنس اور ورجینا وولف وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ان فحش افسانوں کا تعلق اس تحریک سے کیسے ہو سکتا ہے جو ایک طرف یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ ملک کی آزادی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہے۔
طاہر مسعود: گویا ’’انگارے‘‘ اس اعتبار سے پہلی کتاب ہے جس نے برصغیر میں آزاد رجحان سے لکھنے کے سلسلے کو جنم دیا؟
اختر رائے پوری: اس سے پہلے کبھی ایسے کھلے الفاظ میں انسان کی پوشیدہ زندگی کے بارے میں تحریریں نہیں لکھی گئی تھیں لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ ’’انگارے‘‘ نے ہلچل ضرور مچائی‘ لیکن اس کی ادبی اہمیت کچھ نہیں ہے مثلاً آپ دیکھیں قاضی عبدالغفار نے 1928ء میں ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ لکھے۔ آپ اسے پڑھیں گے تو بے ساختہ داد دیں گے۔ ایک سوسائٹی عورت پر کیسے مظالم کرتی ہے کہ وہ طوائف بننے پر مجبور ہو جائے۔ اس موضوع کو قاضی عبدالغفار نے اپنے آرٹسٹک اندازِ بیان سے زندہ کر دیا ہے۔
طاہر مسعود: آپ ترقی پسند تحریک کے پس منظر کے بارے میں کچھ فرمائیں گے؟
اختر رائے پوری: جی ہاں آپ اس تحریک کو 1947ء سے قبل کے پس منظر میں دیکھیے۔ اس تحریک میں شامل ادیبوں کا سیاسی عقیدہ خواہ کچھ ہو لیکن اس امر پر سب ہی ادیب متفق تھے کہ ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے اور یہ کہ جنگ آزادی سے ادب کو علیحدہ نہیں رہنا چاہیے اور ان ہی وجوہات کی بنا پر غیرکمیونسٹ ادیبوں نے بھی اس تحریک سے دل چسپی لی۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں اس تحریک کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
اختر رائے پوری: اس تحریک نے حصول آزادی تک ایک کام تو ضرور کیا مختلف الخیال مصنفوں اور ادیبوں کے ذہن کو جنگ آزادی کی طرف مائل کیا اور ادیبوں اور شاعروں نے عوام کا مشاہدہ شروع کیا اور ادبی تخلیق کا نیا دور شروع ہوا۔
طاہر مسعود: تاہم آپ اس بات سے تو اتفاق کریں گے کہ اس تحریک کے بیش تر مصنف زندگی کو ایک ہی عینک سے دیکھتے رہے اور یکساں موضوعات پر یکساں قسم کی تحریریں لکھتے رہے؟
اختر رائے پوری: اس تحریک نے بڑا ادب یا بڑے ادیب پید انہ کیے ہوں لیکن اس نے ادب میں ایک معاشی شعور ضرور پیدا کیا ہے۔
طاہر مسعود: آپ ایک عرصے تک ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور…؟
اختر رائے پوری: (بات کاٹ کر) میرا کبھی بھی ترقی پسند تحریک سے بہت گہرا تعلق نہیں رہا‘ البتہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے انتخابات میں‘ میں امرتسر اور دلّی میں انجمن کی قائم شاخوں کا صدر منتخب ہوا تھا اور اور اگر کوئی جلسہ اور مشاعرہ وغیرہ ہوتا تو اس میں شرکت بھی کر لیتا تھا لیکن درحقیقت میں نے کبھی خود کو کبھی ترقی پسند نہیں کہا اور نہ ہی کبھی اس کا لیبل لگایا۔
طاہر مسعود: یہ تو عجیب بات ہے کہ آپ انجمن کے عہدے دار بھی تھے اور کبھی اس سے تعلق بھی ظاہر نہیں کیا؟
اختر رائے پوری: لیبل لگانے کی کیا ضرورت ہے‘ لوگ میری تحریروں سے اندازہ لگا سکتے تھے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا میرے خیالات کیا ہیں۔
طاہر مسعود: ترقی پسندوذں نے آپ کو اپنی تحریک سے کن وجوہات کی بنا پر علیحدہ کیا؟
اختر رائے پوری: پاکستان بننے کے بعد ترقی پسندوں نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ اختر حسین رائے پوری‘ پروفیسر احمد علی اور وقار عظیم ترقی پسند نہیں ہیں‘ حالاں کہ میرا متعلق اس انجمن سے کبھی کا ختم ہو گیا تھا اور آج بھی مجھے نہیں معلوم کہ وہ انجمن ابھی باقی ہے یا ختم ہو گئی۔
طاہر مسعود: آپ نے علیحدگی کا سبب نہیں بتایا؟
اختر رائے پوری: بات یہ ہے کہ 1948ء میں‘ میں نے ایک رسالے میں ’’پاکستان میں اردو‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں‘ میں نے یہ کہا کہ اب نیا ملک وجود میں آچکا ہے اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ اب اپنی توانائیاں اس ملک کے مسائل کو سمجھنے میں‘ اسے استحکام بخشنے میں اور اس کی بہتری میں صرف کریں جس پر انہوں نے میری انجمن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
طاہر مسعود: آپ کو اپنے زمانے میں مشرق و مغرب کی بڑی شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا ہے ان میں اقبال‘ ابوالکلام آزاد اور نہرو جیسی شخصیات شامل ہیں‘ ان میں سے چند کا ایک ذکر کرنا پسند کریں گے؟
اختر رائے پوری: جی ہاں! میں نےلوگوں کے اصرار پر ماہنامہ ’’افکار‘‘ میں اپنی یادداشتیں لکھنی شروع کی تھیں لیکن آٹھ قسط لکھنے کے بعد میرے بینائی خراب ہو گئی۔ میں نے کوشش کی کہ کسی کے ذریعے اسے مکمل کرائوں لیکن کوئی قابل اعتبار آدمی نہیں ملا۔
یہ 1933ء کے آغاز کا ذکر ہے میں علی گڑھ میں طالب علم تھا‘ اس زمانے میں ترکی کے ایک مشہور آدمی رئوف بے‘ جو اتاترک کے ساتھی تھی اور ان کی کابینہ میں بھی شامل تھے‘ ہندوستان آئے اور جامعہ ملیہ کالج دہلی میں تقاریر کیں۔ علامہ اقبال ایسے ہی ایک جلسے کی صدارت کے لیے لاہور سے دہلی آئے۔ جلسے میں رئوف بے نے اتاترک کی سیکولر پالیسی کی حمایت میں تقریر کی جس پر علامہ اقبال نے بڑی وضاحت سے اس کا جواب دیا۔ میں نے پہلی بار علامہ اقبال کو یہیں دیکھا اور متاثر ہوا۔
طاہر مسعود: آپ نے ان سے کیا سوالات دریافت کیے تھے اور اس کا انہوں نے کیا جواب دیا تھا؟
اختر رائے پوری: میرے سوالات سیاسی اور معاشی مسائل کے علاوہ خود اقبال کے فلسفۂ زندگی کے متعلق تھے۔ میں نے بعد میں ان سوالات و جوابات کو نوٹ کر لیا تھا لیکن وہ دستاویزات کہیں گر گئے ہیں اور اب مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں رہا۔ ان سے بعد میں بھی ملنے کا اتفاق ہوتا رہا تاہم آخری ملاقات 1936ء میں پانی پت میں مولانا حالی کی یاد میں منعقدہ ایک جلسے کے موقع پر ہوئی۔ علامہ اقبال کے گلے میں عارضہ تھا اس لیے ان کی فارسی میں مختصر سی نظم یا قطعہ کسی اور نے پڑھ کر سنایا تھا۔ اس موقع پر حفیظ جالندھری نے علامہ سے میری شکایت کی کہ ’’اختر نے کسی تحریر میں آپ کی شان میں گستاخی کی ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے جواب دیا ’’مجھے ایسے نوجوانوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے جو دلیر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن میں آزادی سے سوچنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘ ان سے مل کر میں ہمیشہ مایوس ہوا ہوں۔‘‘ علامہ اقبال نہ صرف بڑے شاعر تھے بلکہ بڑے انسان بھی تھے۔ بعد میں ان کا کلام پڑھ کر مجھ میں اسے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا احترام بھی بڑھتا گیا۔ میں نے اقبال کی صد سالہ برسی کے موقع پر جامعہ کراچی میں ’’بیسویں صدی کی شاعری میں اقبال کا مرتبہ‘‘ کے موضوع پر ایک اہم تقریر کی تھی جس میں‘ میں نے اقبال کا موازنہ چار زبانوں کے عظیمِ شعرا سے کیا تھا یعنی جرمن شاعر رلکے‘ فرانسیسی شاعر پال والیری‘ انگریزی شاعر ٹی ایس ایلیٹ اور ہندی شاعر ٹیگور سے۔
طاہر مسعود:آپ نے ٹیگور اور اقبال کی شاعری کے مزاج میں کیا فرق محسوس کیا؟
اختر رائے پوری: ٹیگور آرٹسٹ تھا۔ بنگالی زبان کا سب سے بڑا شاعر‘ اس نے ناول‘ مختصر افسانے اور ادبی تنقید بھی لکھی ہے لیکن وہ مفکر ان معنوں میں نہیں تھا جن میں اقبال تھے۔ اقبال کے سامنے ایک مشن‘ ایک مقصد اور ایک فلسفۂ زندگی تھا‘ جب کہ ٹیگور کے ذہن میں انسانیت کا تصور تھا۔ اقبال شعوری طور پر تکنیک اور زبان و بیان کی خوبیوں کو اہمیت نہیں دیتے‘ حالاں کہ وہ ان کی شاعری میں موجود ہیں جب کہ ٹیگور تکنیک فارم اور زبان و بیان کو زیادہ اہم جانتے ہیں۔ ٹیگور کو موسیقی کا شوق تھا اور موسیقی کے علم کی وجہ سے وہ الفاظ کے آہنگ سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اقبال نے فارسی اور اردو دونوں میں شاعری کی‘ حالاں کہ ان کی مادری زبان نہ فارسی تھی نہ اردو۔ اقبال کی نظموں کو پڑھیں تو ان کی زبان کتابی زبان محسوس ہوتی ہے۔ بلاشبہ اقبال اور ٹیگور بیسویں صدی کے پانچ بڑے شاعروں میں شامل ہیں۔
طاہر مسعود: تو پھر ٹیگور کو نوبل پرائز مل گیا اور اقبال اس سے محروم کیوں رہے؟
اختر رائے پوری: نوبل پرائز دیتے وقت بہت سے فیصلے کیے گئے‘ مثلاً بیسویں صدی کا سب سے بڑا ناول نگار ٹالسٹائی تھا۔ 1820ء میں اس کا انتقال ہوا اور اس طرح کہ مرتے وقت دنیا کا سب سے بڑا مصنف ہونے کے باوجود نوبل پرائز سے محروم تھا۔ (رک کر) ویسے بھی اگر نوبل پرائز نہ ملے تو عظمت میں کمی نہیں آتی۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اقبال ہر لحاظ سے نوبل پرائز کے حق دار تھے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اقبال کو نوبل پرائز اس لیے نہیں دیا گیا کہ ان کی شاعری قرآن اور اسلام کا پیغام عام کرنا چاہتی ہے؟
اختر رائے پوری: یہ کہنا مشکل ہے لیکن نوبل پرائز نہ ملنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یورپ کے ادبی حلقے ابھی اقبال سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ ٹیگور بھی جب انگلستان گئے تھے تو ان کی بنگالی نظمیں کوئی نہیں سمجھتا تھا اس لیے ٹیگور نے ذہانت کا ثبوت دیا اور اس نے انگریزی میں لکھنا شروع کردیا۔ پھر یہ کہ یورپ کے ادبی حلقوں میں ٹیگور کا تعارف ایک ایسے آدمی نے کرایا جو خود بھی انعام یافتہ تھا۔ یعنی ڈبلیو بی ایٹس۔
طاہر مسعود: کیا خیال ہے علامہا قبال کی انگریزی ٹیگور سے زیادہ اچھی نہیں تھی؟
اختر رائے پوری: یقینا اقبال کی انگریزی ٹیگور سے زیادہ اچھی تھی اور ان کی نظموں کے تراجم ابھی ہونے شروع ہوئے تھے۔ پروفیسر نکلسن نے ’’خودی‘‘ اور ’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ کیا تھا اس کے باوجود اس وقت تک یورپ کے لوگ اقبال کے شاعرانہ کمالات سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقبال کی طبیعت میں بڑی بے نیازی تھی۔ انہوں نے کبھی نوبل پرائز کے حصول میں کوئی دل چسپی نہیں لی حالاں کہ یہ بڑ اعزاز تھا لیکن انہوں نے نہ کبھی اس کی خواہش ظاہر کی اور نہ اس کا ذکر کیا۔ وہ واقعی قلندر اور صوفی منش انسان تھے۔
طاہر مسعود: حال ہی میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان نے اپنے انٹرویو میں اقبال کے بارے میں کہا کہ وہ عملی زندگی میں بے حد نازک مزاج تھے۔ اتنے نازک مزاج کہ ناک میں پھنسی نکل آئی تو گول میز کانفرنس چھوڑ ک وطن لوٹ آئے۔ آپ نے اقبال کے متعلق کسی ایسی چیز کا مشاہدہ کیا؟
اختر رائے پوری: مجھے نہیں معلوم کہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے یہ بات تعصب کے بغیر کہی یا تعصب کی بنا پر‘ اس لیے کہ اقبال نے ہمیشہ قادیانی جماعت کی مخالفت کی ہے اور چوہدری صاحب قادیانی تھے۔
طاہر مسعود: اندرا ان دنوں آکسفورڈ میں پڑھتی تھیں اور اپنے والد سے ملنے پیرس ائی تھیں۔ جب میں نہرو سے ملنے جاتا تھا تو ان سے تعارف ہوا۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ سیاست کا میدان بھی سر کریں گی۔ نہرو اور دیگر احباب کی محفل میں جب سیاسی بحثیں چھڑتی تھیں تو وہ حصہ نہیں لیتی تھیں۔ کچھ شرمیلی بھی واقع ہوئی تھیں لیکن ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں دن رات سیاست کا ذکر ہوتا تھا۔ نہرو کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اور جب وہ پیرس آئے تھے تو ایک پارسی خاتون مس باٹلی والا کو ساتھ لائے تھے اور اس جوان لڑکی کو وہ اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بتاتے تھے۔ اکثر شام کو جب ہم نہرو سے ملنے جاتے تو مس باٹلی والا وہاں موجود ہوتیں‘ بہر حال آدمی میں انسانی کمزوریاں تو ہوتی ہیں۔
طاہر مسعود: مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ بھی تو آپ کو کئی ماہ تک کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ کچھ ان کے بارے میں ارشاد ہو؟
اختر رائے پوری: جب میں کلکتے میں طالب علم تھا تو چند بار ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مولانا وزیر تعلیم ہو کر شملے میں مقیم تھے تو میں اس محکمے میں ملازم تھا۔ مولانا آزاد وزیر تھے اور سرجان سارجنٹ سیکرٹری تعلیم تھے وزیر اور سیکرٹری کے درمیان براہِ راست گفتگو نہیں ہو سکتی تھی۔ مولانا آزاد انگریزی سمجھتے تھے لیکن بول نہیں سکتے تھے۔ دلی سے جو فائل ڈاک شملہ آتی تھی‘ میرا کام یہ تھا کہ اسے لے کر میں سیکرٹری کے ہاں پہنچتا تھا۔ اپنے دست خط کرنے کے لیے فائل سیکرٹری تعلیم خود رکھ لیتے تھے اور وزیر تعلیم کی فائلیں میرے حوالے کر دیتے تھے جنہیں لے کر میں مولانا آزاد کے پاس جاتا تھا۔ وہ فائلیں پڑھتے تھے اور جن پر کوئی آرڈر لکھنا ہوتا تو اسٹینو کو لکھا دیتے تھے ورنہ دوسری فائلوں کے ساتھ رکھ لیتے تھے۔ مولانا آزاد دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ شام کو پانچ بجے ان کے گھر پر چائے کا اہتمام ہوتا تھا‘ لوگ آتے تھے اور مختلف موضوعات پر مثلاً تاریخ‘ فلسفے‘ شاعری وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو ہوتی تھی۔ سیاست کے موضوع پر مولانا ذرا کم گفتگو کرتے تھے۔ کبھی نہیں سنا گیا کہ مولانا رات کو کسی کے گھر گئے ہوں یا کسی کو اپنے گھر بلایا ہو۔ یہ ان کا اصول تھا۔
طاہر مسعود: مولانا آزاد نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے کس نوعیت کی تعلیمی منصوبہ بندی کی تھی؟
اختر رائے پوری: مولانا نے 1946ء میں قلم دانِ وزارت سنبھالا لیکن وہ عبوری مدت کے لیے وزیر بن کر آئے تھے۔ میرا قیاس ہے کہ انہیں تعلیمی مسائل پر غور کرنے کا موقع ملا تھا لیکن عبوری حکومت ہونے کی وجہ سے وہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکے۔
طاہر مسعود: وہ کیا؟
اختر رائے پوری: 1947ء کے اواخر میں جب سرجان سارجنٹ کا بھارت میں کنٹریکٹ ختم ہوا تو وہ انگلستان جاتے ہوئے کراچی ٹھہرے اور مجھے اطلاع دی۔ اس وقت برٹش کونسل قائم ہوچکی تھی اور وہ اس کے نمائندے کے گھر واقع کلفٹن میں ٹھہرے۔ میں ان سے ملا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ہندوستان سے واپس جا رہا ہوں لہٰذا اگر پاکستان کو اس ابتدائی مرحلے میں میری ضرورت ہے تو میری خدمات حاضر ہیں۔‘‘ میں نے سارجنٹ کا یہ پیغام نواب زادہ صدیق علی خان کے ذریعے قائد ملت تک پہنچایا۔ اس وقت سیکرٹری تعلیم کی جگہ خالی تھی‘ لہٰذا پیغام ملنے کے بعد قائد ملت نے سارجنٹ کے لیے قائداعظم سے سفارش کی لیکن معلوم ہوا کہ اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمن یہ طے کر چکے ہیں کہ وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمود حسین کو مشیر تعلیم بنائیں گے لہٰذا قائداعظم نے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
طاہر مسعود: مولانا آزاد سے کبھی پاکستان کے قیام پر بھی گفتگو ہوئی؟ مولانا کیا فرماتے تھے؟
اختر رائے پوری: تقسیم کے بعد جب سول سروس والوں سے یہ پوچھا جانے لگا کہ وہ پاکستان جائیں گے یا بھارت ہی میں رہیں گے تو میں نے مولانا سے مشورہ کیا کہ آیا میں پاکستان چلا جائوں یا یہیں رہوں تو مولانا نے مجھ سے کہا کہ ’’پاکستان اب بن چکا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے استحکام اور سلامتی کے لیے کام کریں۔‘‘ میں ان ہی کے مشورے پر پاکستان چلا آیا۔
طاہر مسعود: مولانا اگر اس انداز میں سوچتے تھے تو وہ خود کیوں نہیں آئے؟
اختر رائے پوری: اگر آجاتے تو کہا جاتا کہ پہلے مخالفت کی اور اب پاکستان بن گیا تو اپنے مفادکے لیے یہاں آگیا۔ ان کا نہ آنا ہی بہتر ہوا۔
طاہر مسعود: ذاتی زندگی میں مولانا آزاد آپ کو کیسے محسوس ہوئے؟
اختر رائے پوری: وہ بہت نفیس اور شان دار آدمی تھے‘ البتہ ایک آدھ کمزوری ان کی طبیعت میں بھی تھی لیکن اس کا ذکر جانے دیں۔ بیان کرنے سے کوئی فائدئہ نہیں۔ (جون 1981ء)

حصہ