عالمِ اسلام اور پاکستان

813

قادیانیوں کو سرکاری و قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے باوجود آج تک ان کی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف اداروں میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ آج بھی پنجاب کے پیشتر سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں مسلمان بچوں کے لیے یہ مشنری قادیانی اسلامیات، اخلاقیات و دینی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔ اللہ ان فتنہ گروں کے فتنے سے وطن عزیز کو مکمل طور پر محفوظ رکھے۔
اب بات کرتے ہیں روئے زمین کی دنیاوی لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط، طاقت ور اور مظالم سے بھرپور فلسطینیوں کے خونِ ناحق سے رنگین موجودہ دور میں ناانصافی کی سب سے بڑی مثال اسرائیلی ریاست کی‘ جو کہ پہلے ایک مسلمان اکثریتی علاقے فلسطین پر مشتمل تھی۔ خبر یہ ہے کہ اسرائیلی پروازوں کو سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات جانے والی اسرائیلی ایرلائنز کی پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
انیسویں صدی تک فلسطین کثیر ثقافتی آبادی پر مشتمل تھا جس میں 86% مسلم‘ 10% عیسائی اور 4% یہودی امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔ پھر دنیا بھر کے انتہا پسند صہیونیوں (Zionists) نے اپنی علیحدہ ریاست بنانے کا ناجائز فیصلہ کیا جس پر انیسویں صدی کے اختتام پر طے شدہ منصوبے کے تحت یہودی فلسطین منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ برطانیہ نے‘ جس کا اُس وقت فلسطین پر کنٹرول تھا‘ انہیں منتقلی کی اجازت دے دی۔ یہودیوںکی آمد مقامی باشندوں کے لیے پریشانی اور سخت کشیدگی کا باعث بنی۔
پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ برطانیہ نے عرب حکمرانوں کو 1916ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پہ آمادہ کیا جس کے بدلے میں اُن کے ساتھ آزاد عرب ریاست بہ شمول فلسطین‘ کا وعدہ کیا گیا۔ جب کہ اس معاہدے کی کھلم کھلاخلاف ورزی کرتے ہوئے بالفور اعلامیہ (Balfour Declaration ) 1917ء میں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیاگیا ۔
1920میں جب نو آبادیاتی طاقتوں نے خلافتِ عثمانیہ کو مختلف ریاستوں میں بانٹ کر تمام اثاثوں کو لوٹ لیا‘ جب جرمنی میں ہٹلر نے طاقت حاصل کی تو یہودی جرمن نازیوں کے تشدد کا نشانہ بنے۔ مؤرخین کے مطابق 60 لاکھ یہودی اس ’’ہولو کاسٹ‘‘ میں لقمۂ اَجل بنے۔
مر آ العارفین میں بریگیڈئر (ر) آصف ہارون راجا اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اور فلسطین کے انسانی سانحے سے بھرپور تاریخ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد اقوامِ متحدہ نے صہیونیوں کے دبائو کی وجہ سے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے اور یروشلم کو اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی عالمی انتظام کے حوالے کرنے کی تجاویز پیش کیں۔ یہودی اقلیت کو 57% فیصد اور مسلمان اکثریت کو 43% فیصد زمین ملنا تھی۔ اِن تجاویز کی امریکا سے منظوری کے بعد 14مئی 1948ء کو اسرئیلی ریاست کے قیام کا دعویٰ کیا گیا‘ جسے عرب ریاستوں نے مسترد کر دیا جس کے باعث 1948میں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ عراق، شام، لبنان، اُردن، یمن اور سعودی عرب کی مشترکہ ا فواج کو شکست ہوئی اور اسرائیلی فوج نے78% فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا۔
750,000 فلسطینیوں کو نکال کر پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ اُن میں سے20 لاکھ اُردن میں‘ 4,27,057 لبنان میں‘ 47,770 شام میں 788,108 مغربی کنارہ میں 11,00,000غزہ میں اور 2,50,000 اسرائیل میں بے گھر ہوئے۔ 500 قصبوں اور دیہات تباہ کر دیے گئے۔ 1956ء میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کی فوجوں نے مصر پر حملہ کیا کیوں کہ جمال عبدالناصر نے نہرِ سوئز کی نیشنلائزیشن کی۔ اگرچہ مصر کوشکست ہوئی لیکن عالمی دبائو کے باعث حملہ آوروں کوانخلاء کرنا پڑا۔1967 میں چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام کی گولان کی چوٹیوں، اُردن کا مغربی کنارہ اور مصرسے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا اُس وقت سے یہ علاقے اسرائیلی قبضے میں ہیں۔1973ء میں اسرائیل نے سینائی پر قبضہ کرلیا لیکن کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت 1978میں مصرکو واپس کردیا۔
فلسطین پر 1948ء سے بنی اسرائیلی ریاست جسے اب تک 23 ممالک نے تسلیم نہیں کیا جن میں انڈونیشیا، الجزائر، یمن، افغانستان، ایران، شام، سوڈان، شمالی کوریا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں بھی اسرائیلی اثر و رسوخ کے باعث اس ریاست کو تسلیم کرنے کی باتیں بالکل اسی طرح کی جارہی ہیں جس طرح پاکستان میں ایک طبقہ کر رہا ہے کیوں کہ عالمی طاقتیں ہمیں ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بالکل ایسے ہی اسرائیل کو تسلیم کر کے پاکستان کو خوش حالی اور ترقی کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ اسرائیلی فنڈنگ پر بنے پروگراموں میں قرضوں کی معافی سے لے کر عالمی طاقتوں سے غیر مشروط مکمل اتحاد کی جھوٹی سچی کہانیاں سناکر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
موجودہ امریکی استعمار بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے کے لیے مسلسل اسی طرح کے اقدامات کر رہا ہے۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد ہی قابض اسرئیل کو مضبوط کرنا ہے۔ فلسطین عالم اسلام اُمتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ ہم سب تعصب اور علاقائی، قومی، مذہبی اور لسانی تعصب سے بالاتر ہو کر مل کر امریکی منصوبوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔ اُمت مسلمہ مل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی اور اپنے ہی وطن میں واپس لوٹنے اور استقلال کے لیے ان کی پشت پناہی کرے۔کرپشن نے ملک میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے اور ایک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو رہے حکمرانوں کے حالات تو بدلے ہیں لیکن ایک عام آدمی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی کیوں کہ ملک میں اکثر خرابیوں اور مسائل کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔ اسی مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے2010 میں سید منور حسن نے اپنے دور امارت ہی ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ کا عندیہ دے دیا تھا جس کا آغاز 2016 کے اوائل سے ہوا۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اداروں میں کرپشن کے خلاف ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم کا آغاز کیا تھا جس میں کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کی یہ مہم وقت کی ضرورت ثابت ہوئی۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ گزشتہ ماہ بدعنوانی پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ نے 178بدعنوان ممالک کی جو درجہ بندی کی اُس میں میں پاکستان 143ویں نمبر پر ہے۔2010 رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک اجلاس میں ارکان کو بتایا گیا کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو میں کرپشن کے سبب سالانہ پانچ سے چھ سو ارب روپے ٹیکسوں کی رقم ضائع ہو رہی ہے۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق پاکستان میں ٹیکس نظام کی ایک اور سب سے بڑی خامی بالواسطہ ٹیکسز ہیں، پاکستان میں جو ٹیکسوں کا جو نظام لاگو ہے اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ 60 فیصد ٹیکسز وہ ہیں جو بالواسطہ ٹیکس کی مد میں اکٹھے کیے جاتے ہیں اور 40 فیصد براہ راست ٹیکسز ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ کی آمدن کم ہوتی جاتی ہے اس ٹیکس کا بوجھ آپ پر بڑھتا جاتا ہے۔ ٹیکس سسٹم یہ کر رہا ہے کہ پورے پاکستان کی حکومت چلانے کا خرچ پاکستان کے کم آمدن والے طبقے پر بڑھاتا جا رہا ہے۔
کرپشن کم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کرپشن پر قابو پانے کے لیے کم از کم دو اقدامات اٹھانا ہوں گے۔اس سلسلے میں انہوں نے میڈیا کی آزادی پر سے پابندیاں اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سے تین سالوں کے دوران پاکستان میں شفافیت سے متعلق صورت حال خراب ہوئی ہے۔ اور یہ وہی زمانہ ہے جب میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔احمد بلال محمود نے کہا پاکستان کو انتخابی عمل میں پیسے کے بے دریغ استعمال روکنے کے لیے بھی قانون سازی کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اس کا ذکر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن کے اندر ہی ایک ایسا محکمہ بنایا جا سکتا ہے جو دیکھے کہ پارٹیاں اور انتخابات میں حصہ لینے والے لوگ پیسہ کہاں سے لاتے ہیں اور کتنا خرچ کرتے ہیں۔
ایک اور سلگتامسئلہ جو مملکت خداداد پاکستان کی نوجوان نسل کو مکمل و جزوی طور پر اپنی گرفت میں لینے کے لیے پوری طرح بیتاب اور کسی حد تک کامیاب بھی ہے،وہ ہے ملک میں بے حیائی و فحاشی کا بڑھتاہوا سیلاب۔حیا صرف ظاہری دکھاوا اور لباس سے ہی نہیں بلکہ عمل کردار طور طریقے رہن سہن سوچنے سمجھنے کا انداز بات چیت کے طریقوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔اسی طرح فحاشی و عریانی بھی صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ انسان کے ہر عمل کردار اور افکار سے نمایاں ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے ہم کسی سے بات کرتے ہی با آسانی یہ اندازہ لگالیتے ہیں کہ آیا وہ شخص کتنا باحیا باوقار یا بے حیا ہے۔
حیا انبیاء، صدیقین ،صالحین اور نیک لوگوں کا امتیازی وصف رہا ہے۔ محسنِ انسانیتؐ نے فرمایا ’’ایمان کی 60 سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
ایک موقع پر محسنِ انسانیتؐ ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے‘ جو اپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے‘ تب آپؐ نے فرمایا ’’ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیوں کہ حیا دراصل ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘ ایک اور صحابی عمران بن حصینؓ نے بتایاکہ ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شرم و حیا بھلائی کاباعث بنتی ہے۔‘‘
سرور کونینؐ نے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم وحیا‘‘ہے۔
خاتم النبینؐ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ۔‘‘ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جو واحد سبب ہے وہ شرم و حیا ہے اور جب کسی میں شرم کافقدان ہو جائے اور حیاباقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گا اور جب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتاہے تو اس کا یقینی انجام تباہی بن جاتی ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جب اللہ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تو اُس سے شرم و حیا چھین لیتا ہے۔‘ ایک طویل حدیث میں رسولؐ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیاکہ ’’الحمدللہ ہم اللہ تعالیٰ سے حیاکرتے ہیں‘‘۔ حضرت محمدؐ نے فرمایا ’’نہیں، حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سر میں جو خیالات ہیں اُن سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھرا ہے ان سب کی نگرانی کرو، اور موت اور موت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو، پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اللہ تعالیٰ سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا۔‘‘
گزشتہ کچھ عرصے سے ملکِ خداداد پاکستان میں فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب جس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، یہ ایک افسوس ناک اور خطرناک صورت حال ہے،فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے برقی آلات گھر گھر عام کردیے گئے ہیں، انٹرنیٹ اور موبائل کمپنیوں کے نت نئے پیکجز اور اسکیمیں اس وبا کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کررہی ہیں اور یہ برقی آلات جس قدر کم قیمت پر پاکستان میں میسر ہیں، پوری دنیا میں اس کی نظیر نہیں، یہ مغربی قوتوں کا ایک خاص منصوبہ ہے جس کے تحت یہ سب کچھ بڑھایا جا رہا ہے۔
معروف کالم نویس انصار عباسی اس موضوع پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’فیشن شوز اور کیٹ واک کے نام پر عریانیت اور بے حیائی پھیلانے کا جو دھندا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جس انداز میں زور پکڑتا جا رہا ہے، اگر اس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو عریانیت کی یہ آگ مہذب گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘
ملک میں بڑھتی ہوئی جنسی استحصال،بچوں بچیو ں اور خواتین کے ساتھ نازیبا اور غیر اخلاقی سلوک کی خبریں اس قبیح عمل فحاشی کے بڑھتی ہوئی نفوذ پزیری کے واضح ثبوت ہیں۔

حصہ