شراب کی حرمت

نوجوان کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر اس ریڑھ کی ہڈی کی صحت و بقا کو برقرار رکھنا معاشرے کا کام ہے، کیوں کہ اسی ریڑھ کی ہڈی کی دماغی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ انسانی دماغی حالت کا انحصار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے۔ کوئی شخص بھی پیدائشی طور پر اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ اس کا ماحول، اس کی تربیت اور اس کا علم اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ مگر ہر شخص اللہ کے ہاں اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے۔ ہمارے ملک میں ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، مگر ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ماحول کی درستی، قرآن و حدیث سے آگاہی، صحیح و غلط کی پہچان ضروری ہے۔ اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو انسانی رویّے ماحول کے خلاف ردعمل کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔ ناخوش گوار ماحول، غلط صحبت، منفی رویّے انسان میں مایوسی پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے نشے کا استعمال ضروری سمجھنے لگتا ہے۔ قرآن مجید میں نشے کے لیے ’’خمر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اور ہر وہ چیز جو نشہ پیدا کرے حرام ہے۔ ’’خمر‘‘ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہر نشہ آور چیز کو ’’خمر‘‘ اور ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘ فرما کر ہر مشروب جو نشہ پیدا کرے، حرام قرار فرما دیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب چیزوں سے منع فرما دیا جو عقل میں فتور پیدا کریں۔ اس میں افیون، چرس، شراب، بھنگ، ہیروئن شامل ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ سب سے پہلے اسلام میں جس چیز کو الٹا جائے گا جس طرح بھرے برتن کو الٹ دیا جاتا ہے وہ شراب ہوگی۔ یعنی اسلام میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے جس حکم کی خلاف ورزی کی جائے گی اور اس کے حکم کو الٹ دیا جائے گا وہ شراب کی مخالفت کا حکم ہوگا۔ پوچھا گیا ’’یا رسول اللہ یہ کیونکر ہوگا حالانکہ شراب کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام بیان ہوچکے ہیں اور سب پر ظاہر ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ اس طرح ہوگا کہ شراب کا دوسرا نام رکھ لیں گے اور اس کو حلال قرار دے دیں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر، اور اُس چیز پر جس کے لیے اٹھا کر لے جائی جارہی ہو۔‘‘ (ابن دائود، ابن ماجہ، مشکوٰۃ)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو چیز زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے نشہ لائے اس کا تھوڑی مقدار میں استعمال کرنا بھی حرام ہے‘‘ (ترمذی، ابو دائو، ابن ماجہ،مشکوٰۃ)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’چار اشخاص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں نہ بھیجے گا اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں سے کچھ حصہ ملے گا۔ -1 شراب کا عادی، -2 سود خور، -3 یتیم کا مال کھانے والا، -4 ماں باپ کا نافرمان۔
قرآن مجید ہر مسلمان کے لیے منبع ہدایت و رہنما ہے، جب انسان اس ہدایت سے دور ہوجاتا ہے تو نفسانی خواہشات غلبہ پانے لگتی ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی ہوس اسے لوٹ مار میں مبتلا کردیتی ہے۔ جب حرص و ہوس میں بندہ کچھ نہ کرپائے تو نشے کا سہارا لے کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں کھو کر انسانی رشتوں سے بھی عاری اور بے نیاز ہوجاتا ہے۔
قرآن میں شراب کی حرمت کا حکم بتدریج نازل ہوا۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ’’پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے۔ کہو، ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ شراب اور جوئے کے متعلق یہ پہلا حکم ہے جس میں صرف ناپسندیدگی کا اظہار کرکے چھوڑ دیا گیا تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی۔ سورہ نساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا ’’اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو‘‘۔ یہ شراب کے متعلق دوسرا حکم ہے۔ سورہ بقرہ میں شراب کو بری اور اللہ کی ناپسندیدہ چیز قرار دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا ایک گروہ سورہ بقرہ میں شراب کو ناپسندیدہ سمجھ کر شراب سے پرہیز کرنے لگا تھا مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے، حتیٰ کہ نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے تھے اور کچھ نہ کچھ پڑھ جاتے تھے۔ نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کا حکم 4 ہجری کی ابتدا میں آیا۔ اس حکم کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینے سے بچنے لگے جن میں اندیشہ ہوتا کہ نشے کے دوران نماز کا وقت نہ آجائے۔ سورہ مائدہ میں شراب کی حرمت کا قطعی حکم نازل ہوا ’’اے ایمان والو! یہ شراب، جوا اور آستانے، پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘ سورہ مائدہ کی اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت بیان کی گئی: -1 شراب (جس کی پہلے بھی ممانعت آچکی تھی، مگر اب سختی سے شیطانی کام کہہ کر منع کردیا گیا۔)، -2 قمار بازی، -3 تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں اور آستانے کہلاتے ہیں، -4 پانسے یعنی ایسی قرعہ اندازی جو مشرکانہ عقائد و وہم سے آلودہ ہو۔
شراب کی حرمت میں سورہ بقرہ اور سورہ نساء میں پہلے دو احکامات نازل ہوچکے تھے۔ سورہ مائدہ کے اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہے وہ اسے فروخت کردیں۔‘‘ اس کے کچھ مدت بعد سورہ مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں شراب کو حرام اور شیطانی عمل قرار دیا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد آپؐ نے اعلان کرا دیا کہ اب جبن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کردیں۔
چنانچہ اسی وقت مدینے کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا ’’ہم یہودیوں کو تحفتاً کیوں نہ دے دیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جس نے یہ چیز حرام کی ہے اسی نے اسے تحفہ دینے سے بھی منع فرمایا ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے پوچھا ’’ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کردیں؟‘‘ آپؐ نے اس سے بھی منع فرما دیا اور حکم دیا کہ ’’نہیں اسے بہا دو‘‘۔ ایک صاحب نے بااصرار دریافت کیا کہ ’’دوا کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟‘‘ فرمایا ’’نہیں وہ دوا نہیں بیماری ہے۔‘‘ ایک اور صاحب نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جو نہایت سرد ہے اور ہمیں محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے، ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ہاں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’تو اس سے پرہیز کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔‘‘ فرمایا ’’اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پینے والوں کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ چالیس ضربیں آپؐ کے زمانے میں اس جرم میں لگا دی جاتی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں 40 کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شروع میں 40 کوڑوں کی سزا تھی، پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرامؓ کے مشورے سے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی۔ شریعت کی رو سے اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور قوت نافذ کرے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بنی ثقیف کے ایک شخص کی دکان اس بنا پر جلوا دی گئی تھی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچا کرتا تھا۔ ایک اور موقع پر ایک پورا گائوں حضرت عمرؓ کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا تھا کہ وہاں خفیہ شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار جاری تھا۔
شراب کی حرمت کے احکامات بتدریج نازل ہونے میں یہی مصلحت تھی کہ لوگوں میں اس کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی پیدا کی جائے اور آہستہ آہستہ ان کے ذہنوں کو اس کی حرمت کے لیے تیار کیا جائے تاکہ کوئی عذر نہ رہے۔
nn