شکر و صبر کے ساتھ جینے کا سلیقہ

659

شازیہ: (تکلیف سے روتے ہوئے) امی میرے ساتھ ہی یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے! میرا کیا قصور ہے؟
ساس: بیٹا رو نہیں، بے شک تمہیں بہت تکلیف ہورہی ہے، اور آپریشن کے بعد بھی بہت دن تکلیف رہے گی، (ذرا رک کر) لیکن بیٹا ہمیں تو اللہ رب العزت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم بروقت اچھے اسپتال پہنچ گئے، مرض کی فوراً تشخیص بھی ہوگئی، آپ نے خود سنا کہ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ مریض کو صحیح وقت پر لے کر آئے ورنہ… پھر سعد بیٹے کو دفتر کی طرف سے مکمل میڈیکل کی سہولت تھی جس کی وجہ سے آپریشن کا تمام خرچا دفتر کی طرف سے کیا گیا۔ اللہ رب العزت کے تو ہم پر بے حد احسانات ہیں اور الحمدللہ مشترکہ خاندان کی وجہ سے تمہیں بچوں کی فکر بھی نہ تھی… میرا رب بڑا مہربان ہے… ستّر مائوں سے بھی زیادہ ہم سے محبت کرتا ہے، اگر کوئی تکلیف ہمیں پہنچتی بھی ہے تو وہ اپنے دوسرے احسانات سے ہمیں محروم نہیں کرتا۔ اس کا اپنے بندوں پر بڑا کرم ہے۔ بس بیٹا اللہ کی طرف سے آئی تکلیف کے ساتھ اُس کے احسانات کو نہ بھولو۔ اللہ کو اپنے صابر و شاکر بندے پسند آتے ہیں، اُن کی یہ خوبیاں بھی میرا رب اُن کی نیکیوں میں شمار کرتا ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ہے بیٹا! یہ تکلیفیں، پریشانیاں آنے سے اللہ کے صابر اور شاکر بندے رب کی طرف مزید رجوع کرتے ہیں۔
…٭…
شازیہ کو ساس کی بات میں بڑا وزن محسوس ہوا، اور دل کو سکون بھی ملا کہ میرے رب نے مجھے اپنے انعامات سے محروم نہیں رکھا… خدانخواستہ مجھے نہ پتا چلتا، میرے مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی تو… نہ جانے کیا ہوجاتا۔…٭…
رقیہ کے شوہر کا انتقال ہوا تو وہ مشکل سے 35 سال کی ایک خوب صورت عورت تھی، دو چھوٹے چھوٹے بچے… خاندان والوں نے کہا دوسری شادی کرلو، لیکن اس نے سوچا نہ جانے ان معصوموں کے ساتھ سوتیلے باپ کا کیا رویہ ہو؟ اس نے انکار کردیا اور کہا کہ وہ بقیہ زندگی تنہا اپنے بچوں کے ساتھ ہی گزار دے گی۔ لیکن تنہائی میں وہ روتی کہ چند سال ہی اسے اپنے شوہر کا ساتھ نصیب ہوا، شوہر بھی ایسا جو نہ صرف اس سے محبت کرتا بلکہ اس کی قدر و عزت بھی کرتا تھا۔ شوہر کی یہی بات اسے دوسری شادی سے روک رہی تھی۔
لیکن اتنی لمبی زندگی، تنہائی… اور ابھی تو اسلم نے بڑی محنت سے اس کے اور بچوں کے لیے دو منزلہ گھر بنوایا تھا۔ خدارا میں کیا کروں…؟ یا اللہ تُو نے میرے ساتھ کیوں کیا ایسا؟ اتنی مختصر سی خوشیاں اور پھر محرومیاں… شادی سے پہلے وہ ایک اسکول میں ملازمت کررہی تھی جہاں اسے دوبارہ ملازمت مل گئی۔ شوہر کی پنشن اوراس کی تنخواہ سے گزربسر ہورہی تھی لیکن تنگی کے ساتھ۔
…٭…
معلمہ: (حاضرینِ محفل کو بغور دیکھ کر) کبھی میری بہنو! اپنی زندگی سے ’’شکر‘‘ کو نہ نکالنا۔ بے شک زندگی میں تکلیفیں اور پریشانیاں آتی رہتی ہیں، ان پر واویلا مچانا تکلیفوں کو ختم نہیں کرتا بلکہ بڑھا دیتا ہے، کوئی بھی پریشانی بندے پر آتی ہے تو اللہ رب العزت اسے دوسری طرف سے اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے، رزق میں تنگی آتی ہے تو آپ سے صحت نہیں چھینتا۔ غربت ہو اور صحت بھی جواب دے دے اور کوئی آس پاس دادرسی والا بھی نہ ہو تو بندہ بے بس ہوجائے۔ لیکن اس دھرتی پر ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو اللہ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں، لیکن صبر شکر کرتے ہیں کہ کم از کم ہم اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ کرنے کے قابل تو ہیں۔ رب کی بارگاہ میں جس کو سربسجود ہونے کا موقع مل جائے تو وہ دراصل سب سے خوش نصیب بندہ ہے۔ بڑا بدنصیب ہے وہ بندہ جو اللہ کے حضور سجدہ نہ کرپائے۔ اس لیے میری بہنو! اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی آزمائش اور تکلیف آئے تو اپنے آس پاس دیکھیں، اور دیکھیں کہ کون سی نعمتیں ہیں جن سے اللہ نے آپ کو نوازا ہے۔ یقین کریں آپ اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں گی۔
ہاں ناشکرے اور واویلا مچانے والے بندے اپنے آپ کو مزید تکلیف اور نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔
…٭…
رقیہ کو معلمہ کی باتوں سے بڑی تقویت محسوس ہوئی۔ خواتین کے جانے کے بعد وہ معلمہ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’جی بیگم اسلم آپ کیسی ہیں؟‘‘
رقیہ: ’’الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے بہت بہتر ہوں، آپ کا بیان سننے سے پہلے تھوڑا دل برداشتہ تھی لیکن اب…‘‘
معلمہ: ’’اچھی بات ہے، زخم تازہ ہو تو درد تو ہوتا ہی ہے۔ سنا ہے تم نے دوبارہ ملازمت شروع کردی! اچھی بات ہے، اس طرح تمہاری مصروفیت کی وجہ سے دل بھی لگا رہے گا۔‘‘
رقیہ: ’’جی اللہ کا شکر ہے، بس دعا کریں اللہ اس رزقِ حلال میں برکت عطا فرمائے اور گزربسر آسانی سے ہوجائے، کسی کی محتاجی اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔‘‘
معلمہ: ’’ویسے تو تمہارا مکان دو منزلہ ہے، اگر اوپر والا حصہ کرائے پر چڑھادو تو آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر کہو تو ایک نیک فیملی ہے، دو بوڑھے میاں بیوی ہیں، بہو اور بیٹا بیرونِ ملک رہتے ہیں، سال میں ایک آدھ مرتبہ ہی چکر لگاتے ہیں، تمہارے لیے بھی اچھا ہوگا کہ بزرگوں کا ساتھ مل جائے گا اور اُن کے لیے بھی بہتر ہوگا۔ اگر بیٹا تم کہو تو میں اُن سے بات کروں؟‘‘
اس طرح رقیہ کا یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا، آمدنی میں اضافے کے ساتھ نیک بزرگ فیملی کا ساتھ مل گیا۔
آج وہ شکر ادا کررہی تھی کہ اسلم نے موت سے صرف چند سال پہلے اپنے پلاٹ پر دو منزلہ مکان بنوایا۔ اُس وقت رقیہ اس کی مخالفت کررہی تھی، لیکن آج وہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کررہی تھی کہ بے شک میرا رب بڑا مہربان ہے، اس نے روزگار اور آمدنی کے وسیلوں کے ساتھ ساتھ اچھی صحت بھی دی ہے اور دو نیک صالح بچے بھی دیے ہیں۔ یہ سوچ ہی اس کے غموں کا مداوا تھی، حوصلہ اور امید تھی۔
…٭…
میں جب ایسے واقعات دیکھتی اور سنتی ہوں تو فوراً اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں اپنوں کا ساتھ بھی چھوٹ گیا لیکن لبوں پر اپنے رب سے شکوہ نہ تھا، بلکہ شکر الحمدللہ تھا۔ صبر کے ساتھ شکر… اللہ کو اپنے پیارے نبی کی یہی ادا بھا گئی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور کہ ہمارے رب نے ہمیں اتنی مشکلات و تکالیف میں مبتلا کردیا، اُن کے سامنے حضرت ایوب علیہ السلام کی مثال ہے کہ اللہ کے نبی تو پل پل اپنے اللہ کے احکامات کے ترجمانی کرتے ہیں، ہمیشہ رب کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے والے نبی کو اللہ کریم آزمائش میں مبتلا کرکے ہمیں نصیحت دے رہا ہے۔ قرآن پاک جو ہم سب کے لیے نصیحت ہے اس میں ایسے واقعات دراصل ہمارے لیے سبق و تربیت کا حصہ و ذریعہ ہیں۔ قرآن کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ جو بندے اللہ کی دی ہوئی ان مثالوں سے اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں اللہ پاک نہ صرف انہیں اِس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی نوازتا ہے۔ سبحان اللہ
جیسا کہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں میرا رب فرماتا ہے کہ ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوںگا۔‘‘ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ میرے سامنے بہت سی مثالیں ہیں کہ جن بندوں نے آزمائش و تکلیف میں بھی اپنے رب کا ذکر و شکر فراموش نہیں کیا انہیں رب نے بہت نوازا ہے اور انہوں نے زندگی سکون سے گزاری ہے۔ ویسے بھی اپنی تکلیف کو دیکھ کر اُن لوگوں کو مت بھولیں جو ہم سے زیادہ تکلیفوں اور غموں میں مبتلا ہیں۔ انہیں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ میں بار بار اپنے بچوں سے بھی یہی کہتی ہوں کہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر آپ کو اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں کا شدت سے احساس ہوگا، لیکن ذرا نیچے والوں کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں تشکر سے نم ہوجائیں گی… جیسا کہ ایک ولی اللہ کا واقعہ پڑھ رہی تھی کہ وہ بڑی مفلسی کی زندگی گزار رہا تھا، ایک دن کہیں جا رہاتھا، اُس کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل تھی، وہ بڑا رنجیدہ ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کی چپل بھی نہیں ہے۔ وہ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو دونوں پیروں سے محروم تھا۔ اس شخص کی حالت ناگفتہ تھی۔ اس نے سوچا میں تو چپل کے لیے پریشان ہو،ں اللہ کے اس بندے کے تو پائوں ہی نہیں جہاں وہ چپل پہن سکے۔ اس نے اپنے رب کا شکر اد اکیا کہ اصل نعمت تو یہ پائوں ہیں جن پر بندہ چل پھر سکتا ہے، مجھے تو اللہ نے اس نعمت سے محروم نہیں رکھا، پھر میں کیوں ناشکرا بن رہا ہوں!
…٭…
ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں، جہاں وہ بھوکے پیاسے رہ کر بھی کہتے: شکر الحمدللہ۔ بہت سے صحابہ کرامؓ رنج و الم اور کرب سے گزرتے لیکن لبوں پر رب سے شکوہ نہ ہوتا۔ میرے رب کو اپنے ایسے معتبر بندے پسند ہیں، لہٰذا ہم سب کو بھی اپنی زندگی میں آنے والی تکالیف اور آزمائشوں پر واویلا اور ہائے ہائے نہیں کرنی چاہیے۔ یہ طریقہ تکالیف کو بڑھا دیتا ہے، انسان کو مزید اذیت میں گرفتار کردیتا ہے۔ اسے اپنی چھوٹی چھوٹی تکالیف بھی پہاڑ جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ آج ہمارے چاروں طرف ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے اپنے غموںکو اپنے اوپر حاوی کرکے خود کو ’’ڈپریشن‘‘ کا مریض بنا لیا ہے۔
میری چھوٹی بہن نے گردوں کی پیوند کاری کے بعد بیس سال بڑی پُرسکون اور شاندار زندگی گزاری۔ بھری جوانی میں جب اس کے یہاں پہلی اور اکلوتی اولاد کی ولادت ہوئی تو وہ اللہ سے ناامید نہیں ہوئی۔ پیوندکاری کے بعد ہم سب نے اُسے الحمدللہ کا ورد کرتے ہی سنا، ہر وقت کہتی کہ ’’شکر کہ اللہ نے زندگی عطا کی، میں اپنی بیٹی کی بھی پرورش کرسکتی ہوں، ایسی بیماری میں مبتلا بہت سے لوگ کرب کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اللہ نے ماشاء اللہ مجھے خوش حالی بھی عطا کی، شوہر کی رفاقت بھی دی اور پیار و محبت کرنے والے بہن بھائی بھی دیے‘‘۔ یقین کریں اپنی شکر گزاری اور مثبت سوچ و عمل کی وجہ سے اُس نے ایک بھرپور اور قابلِ تحسین زندگی گزاری۔
بے شک میرا رب اپنے ایسے بندوں سے راضی رہتا ہے۔ تکلیف میں صبر، شکر اور ذکرِ الٰہی سے گناہ بھی جھڑتے ہیں، اور بندہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے۔ مجھے تو اپنے نبیؐ کے صحابہ اجمعینؓ پر رشک آتا ہے جو تکلیفوں اور بھوک پیاس میں مبتلا ہوتے لیکن آپؐ سے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے! ایک مرتبہ میرے نبیؐ کو کچھ کھجوریں پیش کی گئیں۔ اصحابِِ صفہ جو کئی دن کے بھوکے پیاسے تھے، آپؐ نے دو‘ دو کھجوریں انہیں پیش کیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کئی دن کے بھوکے تھے، انہوں نے ایک کھجور کھائی اور دوسری رکھ دی۔ آپؐ کے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا ’’ماں بھی بھوکی ہے، دوسری کھجور ان کے لیے ہے‘‘۔ میرے نبیؐ نے فرمایا ’’ابوہریرہؓ یہ دونوں کھجوریں تم کھا لو‘‘۔ اور دو کھجوریں ان کی والدہ کے لیے بھی دیں۔
اللہ چاہتا تو ان معتبر اور عظیم ہستیوں کو بہت نوازتا، لیکن میرا رب دے کر بھی اور لے کر بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کون ہے صبر و شکر والے۔ پھر ان کے درجات بھی بڑھاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے آج ہمیں بہت سی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے، اگر زندگی میں کوئی محرومی اور کمی ہے تو اس میں بھی میرے رب کی مصلحتیں ہیں۔ ناشکری اور بے صبری کے بجائے صبر اور شکر کی خوبیوں سے اپنی ذات کو آراستہ کریں۔ بے شک میرا رب بڑا رحیم و کریم ہے۔ یہی خوبی اپنی اولاد میں بھی پیدا کریں، خصوصاً بیٹیوں میں، کیوں کہ شادی کے بعد اکثر بچیاں ذرا سی کمی اور تکلیف پر واویلا مچا دیتی ہیں جس سے نہ صرف اُن کی، بلکہ اُن سے منسلک افراد کی زندگی بھی اذیت کا شکار ہوجاتی ہے۔
آج کل بہت سے گھرانے کورونا کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ایک بچی نے بتایا کہ میرے شوہر کی ماہانہ آمدنی آدھی بھی نہیں رہی ہے لیکن میں اللہ کا شکر ادا کررہی ہوں کہ میری تنخواہ بھی آرہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں پریشانی نہیں ہورہی۔ مجھے اس بچی کی بات بہت پسند آئی، جب کہ اس کے شوہر کی آدھی سے زیادہ تنخواہ اپنے خاندان (مشترکہ خاندان) پر خرچ ہوجاتی ہے۔ اس بچی سے میں نے کہا کہ تمہارے چہرے پر جو سکون اور اطمینان ہے وہ تمہارے اس شکر کی وجہ سے ہے، اور تمہاری روزی میں برکت بھی اسی لیے ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو بھی اسی خوبی کے ساتھ جینے کا سلیقہ عطا فرمائے، آمین۔

حصہ