اشتہارات ،کل اور آج

637

’’اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔ میرے ابو نے لی اک بیمہ پالیسی۔ لا کے امی کو دی اک بیمہ پالیسی۔ رہیں تاکہ امن اور حفاظت سے ہم۔‘‘
یہ الفاظ ہیں پی ٹی وی کے سنہرے دور میں بے حد مقبول ہوجانے والے ایک معروف انشورنس کمپنی کے اشتہار کے۔ یہ الفاظ ہمارے بچپن کی معصوم بازگشت بن کر آج بھی ہمارے لاشعور کا حصہ ہیں۔ اس اشتہار میں ایک چھوٹی بچی اپنے ابو کی سلامتی کی دعائیں کررہی ہے… بے حد خوبصورتی سے فلمایا گیا یہ اشتہار اُس زمانے میں رائج پاکیزہ معاشرتی کلچر کی بھرپور عکاسی کررہا ہے۔
تقریباً چار دہائی قبل بننے والے اشتہارات اور آج کے اشتہارات میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں زیاہ تر اشتہارات بچوں، ان کے والدین، اساتذہ یا دیگر رشتوں پر فلمائے جاتے تھے۔ مثلاً اُس دور میں ایک ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بے حد مقبول ہوا… اس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
’’ابو آگئے… کہا ں ہے میرا برش بناکا… کہاں ہے میری کریم بناکا۔ جب تک نہ ہوں گے دونوں بناکا، میں بھی یوں ہی روٹھی رہوں گی۔ صبح بناکا، شام بناکا… صحت کا پیغام بناکا‘‘۔
اس پیارے سے اشتہار میں بھی دو بچیاں اپنے والد سے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ نہ لانے کی صورت میں روٹھ جانے کا عندیہ دے رہی ہیں۔
اتنے پیارے اشتہارات بنائے جاتے تھے جن سے دیکھنے والے بھی محظوظ ہوتے اور کمپنی کی پروڈکٹ بھی بے حد مقبول ہوجاتی تھیں ۔ اُس دور کے اشتہارات آج کل کی طرح واہیات ناچ گانوں اور غیر ساتر لباس پہنی ماڈلز پر نہیں فلمائے جاتے تھے۔
ایک شربت کے اشتہار کے الفاظ پر توجہ فرمائیں:
’’دل نہیں بھرتا، جتنا پیو نورس اتنا اچھا ہے… میں تو چھپا کر رکھتی ہوں پر بھیا سب پی جاتا ہے… اک نورس میرے بھیا کی اک نورس میری لانا… بڑے مزے کا شربت نورس مجھ کو ہے جی سے پیارا…بھول نہ جانا پھر پپا…‘‘
ذرا غور کریں دل کو چھونے والے ان اچھوتے الفاظ پر… یہ اشتہار اپنے دور کے ٹاپ رینکنگ پر تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بغیر کسی ماڈل کی خوب صورتی کی غیر ضروری نمائش کے بھی نمبر ون معیار کے اشتہار بنائے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح پی ٹی وی کے ’’گولڈن ایرا‘‘ پر سپر ہٹ ہونے والے چائے کے ایک مقبولِ عام اشتہار کے الفاظ دیکھیے: ’’چائے چاہیے… کون سی جناب؟ لپٹن عمدہ ہے… لپٹن پیجیے… لپٹن لیجیے‘‘۔
نہ کوئی ناچ، نہ گانا، نہ ہی بے ہودہ الفاظ اور ادائیں۔ سیدھے سادے دکان دار چچا اور ایک ماڈل پر فلمائے گئے اس اشتہار کے سادہ اور دلکش بول آج بھی زبان زدِ عام ہیں، اور کمپنی بھی مقبول و معروف ہے۔
اُس زمانے میں ایک ہی قومی چینل ’’پی ٹی وی‘‘ کے نام سے موجود تھا۔ اس چینل کے اوقاتِ کار بھی محدود تھے… اسے مانیٹر کرنا بھی آسان تھا۔ اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں انٹرنیٹ کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی بے شمار نجی چینلز کا سیلاب امڈ آیا۔ ان چینلز کو بھاری فیس کے بدلے لائسنس جاری کیے گئے… نام نہاد ادارہ ’’پیمرا‘‘ انہیں مانیٹر کرنے کے لیے قائم کیا گیا، جس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ آج کل کے اشتہارات کی بات کی جائے تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے الفاظ موجودہ دور کے میڈیا کے اخلاقی زوال کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں۔
الفاظ سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں، کچھ الفاظ اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ وہ آپ کی پہچان اور شناخت بن جاتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہم کسی شخصیت کے ظاہری حسن و دل کشی یا کسی خوبی کے گرویدہ ہوجاتے ہیں اور اس شخصیت کو بہت سراہتے ہیں۔ پر جب گفتگو شروع ہوتی ہے تو اُس کی سوچ اور مزاج کی شناسائی اس کے الفاظ اور گفتگو بخوبی کرواتے ہیں۔ اکثر ہمیں ابتدائی نقطہ نظر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس قدر اہمیت کے حامل ہیں یہ الفاظ کہ بعض اوقات یہ زندگی کا رُخ موڑ دیتے ہیں… انہی الفاظ کے مناسب استعمال سے ہم عوام کی ذہن سازی کا کام بھی بآسانی کرسکتے ہیں… اور انہیں اچھے اخلاق اور اعلیٰ تہذیب کا سبق بھی اشتہارات کے ذریعے پڑھا سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج کے اشتہارات فحاشی اور عریانی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ جتنا زیادہ ’’بولڈ‘‘ اشتہار ہوگا، اتنی ہی ریٹنگ بڑھے گی اور شہرت اور منافع ملے گا۔
حال ہی میں چائے کی ایک مشہور کمپنی نے تو چائے کے اشتہار کو سنیما اسکرین کے کسی دوگانے کا مکمل روپ دے کر پیش کیا۔ اس دوگانے کو مشہور ماڈلز پر فلمایا گیا۔ رقص و موسیقی، قیمتی لباس اور مہنگے ترین سیٹ پر فلمائے گئے اس اشتہار کے رقص و موسیقی تو چائے کے اشتہار کے لیے قطعی نامناسب اور غیر متعلقہ ہیں ہی، مگر اس کے الفاظ انتہائی حیا باختہ، گھٹیا اور ناقابل قبول ہیں۔ چائے کی پتی بیچنے کے لیے آج ان نام نہاد کمپنیوں نے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو تماشا بناکر ان کی عظمت اور وقار کو روند ڈالا۔ یہ بظاہر تو خود کو سیکولر اور خواتین کے حقوق و آزادی کے علَم بردار گردانتے ہیں، مگر درحقیقت یہ خود ہی عورت کو مارکیٹ کی ایک ’’پروڈکٹ‘‘ بناکر اس کے بلند رتبے اور تقدس کو پامال کررہے ہیں۔ آپ اس اشتہار کا موازنہ پی ٹی وی کے پرانے لپٹن چائے کے اشتہار سے کرکے دیکھ لیں۔ آپ بھی میری طرح یقینا معیار کی تنزلی دیکھ کر چکرا جائیں گے۔
اگر ہم الفاظ کی بات کریں تو آج کل چائے کے ایک ’’نیو ارائیول‘‘ اشتہار کے الفاظ نے پوری قوم کو بری طرح سے مایوس کیا۔ اس اشتہار میں تھرکتی بل کھاتی اداکارہ جن الفاظ کے ذریعے چائے کی پیالی پینے کی دعوت دے رہی ہیں وہ قطعی قابلِ قبول نہیں۔ اپنی پروڈکٹس بیچنے کے لیے آپ ہماری نوجوان نسل کوکس نوعیت کی تخیل کی دنیا میں پہنچانا چاہتے ہیں؟کیا آپ کو اپنی پروڈکٹس کے معیار پر بھروسا نہیں؟ اگر ہے تو پھر آپ کیوں تہذیب اور شائستگی کے دائرے کے اندر بنائے گئے اشتہارات کے ذریعے اپنی مصنوعات بیچنے سے کتراتے ہیں؟ اس کے علاوہ سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوا جو اشتہارات کے بول اور انداز یکسر تبدیل کردیا گیا ؟کیا عوام کی رائے پوچھ کر گلیمرکی چکاچوند سے بھرپور اشتہارات بنائے جاتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیوں کہ عوام نے کبھی فرمائشی اشتہارات نہیں مانگے، بلکہ عوام بے چارے تو وہ سب کچھ دیکھنے پر مجبور ہیں جو یہ میڈیا ہاؤسز انہیں دکھاتے ہیں۔
اشتہارات کا معیار کارپوریٹ کلچر کی حرص وہوس کی وجہ سے پستی کی گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے… یہ کمپنیاں ہر حربہ استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہیں۔ انہیں معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات کی کوئی پروا نہیں، بس اپنے منافع سے غرض ہے۔
گزشتہ دنوں بسکٹ کے ایک اشتہار نے عوام کو شدید اذیت اور مایوسی میں مبتلا کیا… عورت کی نمائش، رقص و موسیقی اور بے تکی تھیم سے ناقابلِ قبول حد تک واہیات اس اشتہار کو عوام کے زبردست احتجاج کے بعد بند کرنا پڑا۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ عوام صاف ستھرے اور معیاری اشتہارات دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیمرا بغیر دیکھے ہی تمام اشتہارات کو آن ائیر کردیتا ہے؟ ’’پیمرا‘‘ اگر اپنی شق نمبر 3 نقطہE بھول گیا ہو تو یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ اس شق کے تحت پیمرا اس بات کا مجاز ہے کہ ’’کوئی بھی نازیبا اور فحش چیز نشر نہیں کرنے دی جائے گی۔‘‘
پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہے تو اس نام نہاد ادارے کو بند کرکے کوئی فعال اور مضبوط ادارہ قائم کیا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کو بہتر اور پاکیزہ ماحول فراہم کیا جا سکے۔

حصہ