سوشل میڈیا پر اسرائیل کارڈ

424

یہ کورونا بلاو ل کو بھی ہو گیا ، بلکہ ایک چینل پر خبر تو یہ چلی کہ بلاول ہائوس کورونا کا گڑھ بن گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی بڑی بہن کی منگنی کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں گے، ان کے کئی قریبی مشیران کورونا مثبت آئے ہیں۔ یہ ہفتہ بھی تیز ترین خبروں اور اُن کے رد عمل کے ساتھ گزرا۔ اوّل الذکر لاہور میں مینار پاکستان پر تحریک لبیک پاکستان کے قائد علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کے عظیم الشان و تاریخی جنازہ کی کوریج ہے۔ اس کی صرف کوریج ہی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ ہی بہت کچھ بیانیے بھی جاری رہے۔ AllamaKhadimHussainRizvi, Funeral, MinarePakistan, NamazeJanaza, Mumtaz Qadri, May AllahPak, Prayers ،عشق کی داستان فیض آباد، سمیت کئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت ابھرے۔زیادہ تر میں تو مرحوم کے یادگار جملوں کے کلپس ہی تھے ، خصوصاً جو انہوں نے اپنے دنیا سے رخصت ہوجانے کے حوالے سے کہا تھا۔ عوام کا جو منظر مینار پاکستان و اطراف میں موجود تھا ویسا ہی سوشل میڈیا پر مستقل تصاویر و شارٹ کلپس کی صورت متحرک تھا۔ اس بار تو ٹی وی چینلز بھی کوریج دے رہے تھے۔ لیکن اس پرحقیقی تبصرہ وہ بیانیہ یہی ہے جو صہیب جمال نے اپنی پوسٹ میں لکھی کہ ’یہ جنازہ کسی مذہبی رہنما کا نہیں بلکہ ملک کو لبرل و سیکولر بنانے والوں کا بھی ہے۔‘علامہ صاحب کے لیے ہرمکتبہ فکر کے جید علما کی جانب سے روایتی تعزیت کے بجائے ’ختم نبوت اور ناموس رسالت ؐ سے منسوب کرکے جو تاثرات دیے گئے وہ بہت سوں کو چپ کرانے کے لیے کافی تھے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپنے مرکزی ذمہ داران کے ہمراہ قبر پر حاضری اور وہاں کی گئی گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بے حد وائرل رہی۔یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی ذمہ داران و صوبائی ذمہ داران نے جنازے میں بھی شرکت کی تھی۔اِسی طرح معروف عالم دین مفتی عدنان کاکاخیل کا بھی ویڈیو اظہار تعزیت کلپ بہت وائرل رہا۔اس سب کے دوران سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ خاصا منقول ہو کر وائرل رہا کہ ’لْنڈے کے دیسی لبرلز کے پیٹ میں خوب مروڑ اُٹھ رہے ہیں کہ ایک عاشق رسولؐ کے جنازے میں شریک لاکھوں افراد دراصل پاکستانی معاشرے میں ’مذہبی انتہا پسندی‘ کا ثبوت ہے۔یہ لوگ ہمیں اس معاملے میں بھی کوس رہے ہیں، بھائی یہی ایک ہی معاملہ تو ہے جس میں ہم سب انتہا پسند ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہیں۔بقول شاعر :


حجت نہ پیش کیجیے کوئی فضول میں
ہم انتہا پسند ہیں عشق رسولؐ میں
اِس جنازے کو لیکر سوشل میڈیاپر خاصی باتیں کی گئی۔ کسی کو جنازے کی شرکا کی تعداد پر مسئلہ ہوا، کسی کو امام احمد بن حنبل کے قول کا حوالہ دینے پر، کوئی عشق رسول کو اتباع سے جوڑتا رہا ، کسی کو گالیاں یاد آئیں، کسی کو بیٹے کی امارت پر ، کسی کو ایجنسیاں یاد آئیں، کسی کو فرقہ واریت، کسی کو مذہبی انتہا پسندی وغیرہ۔ بہر حال اہم بات یہ تھی کہ ان ساری باتوں کے زیادہ تر مدلل جوابات اْن کے ایسے عقیدت مندوں کی جانب سے آئے جو نہ مسلکی اعتبار سے ، نہ تنظیمی اعتبار سے اور نہ سیاسی اعتبار سے ان کے فالوورز تھے۔ یہ وہ تھے جن کا قلم صرف حق کو بیان کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک جواب میں قاضی نصیر عالم لکھتے ہیں کہ ،’اللہ پاک علامہ خادم رضوی کو غریق رحمت کرے۔ آخری سانس تک انہوں نے اپنا عہد نبھایا۔دکھ یہ ہے کہ ان کے پائے کا کوئی شخص بھی میسر نہیں۔علامہ خادم رضوی بلا شبہ ہمارے عہد کے سید عطا اللہ شاہ بخاری تھے۔اَسباب ِدنیا میں سے اُن کے پاس تھا ہی کیا؟ نہ جائداد نہ رقبے۔نہ خاندان کا تفاخر۔ کچھ بھی تو نہیں تھا۔ہاں متاع حیات کے نام پر ایک ہی نسبت تھی جو اْنہیں اَمرکر گئی۔اس جیسا جنازہ چشم فلک نے اِس صدی میں تو نہیں دیکھا۔دلوں کی بادشاہت اور کسے کہتے ہوں گے۔ورنہ اٹک کے اس قصبے میں کتنے پیدا ہوئے اور مر گئے۔ پہرے دار کی رحلت کے بعد اگر قیادت کسی اور کے پاس جاتی تو اس تحریک کا شیرازہ بکھر جاتا۔کئی گروپ بن جاتے ، ماضی کی طرح ، تحریک قصہ پارینہ بن جاتی۔ان کے صاحبزادے سعد رضوی کے پاس قیادت جانے کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ابھی یہ رزم گاہ آباد رہے گی۔یہاں ابھی بہت سے معرکے سر ہونے ہیں۔تو مدعا یہ ہے کہ جنازے میں خلقت دیکھ کر جو لوگ ہذیان میں مبتلا ہیں ان کی آہ وبکا اور بین ابھی آسمان تک بلند ہونے ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ کے قول کے تناظر میں جب ہم کسی صاحب نسبت کے جنازے کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت ہم ان کی نسبت سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں اور جو لوگ ایسے ہر موقع پر بال ٹھاکرے کی آخری رسومات کی تصاویر لے کے آتے ہیں فی الحقیقت وہ اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ہمیں اپنی نسبت پر فخر ہے انہیں اپنی نسبت مبارک ہو۔
اِسی ہفتہ پاکستان کی وفاقی کابینہ میں شامل وزیر تعلیم شفقت محمود کے سوشل میڈیا پر خوب چرچے رہے۔ کورونا کی لہر کے باعث تعلیمی اداروں کوڈیڑھ ماہ چھٹیاں بخشنے کی وجہ سے اتنی غیر معمولی مقبولیت ملی۔ خوب میمز بنی، مذاق بھی بنا ، ٹاپ ٹرینڈ بھی بنا مگر یہ طنزیہ نہیں شکریہ کا اظہار تھا۔ اسکولوں، کالجوں ، عمومی جامعات کی کلاسز تک تو یہ معاملہ حل ہو امگر پھر میڈیکل جامعات میں داخلہ کی قومی ٹیسٹ MDCATکے 29نومبر کو انعقاد نے نیا شور مچا دیا۔طلبہ کا مطالبہ تھا ٹیسٹ آگے بڑھانے کا۔ اس پر حکومت نے بھر پور مدلل موقف کا اظہار کیا اور کئی ٹرینڈ بننے کے باوجود فیصلہ پر ڈٹ گئی۔
عالمی منظر نامے پر عرب اسرائیل تعلقات میں تیزی نے بھی خوب سوشل میڈیا پر جگہ لی۔کورونا کی وجہ سے عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے ویزہ پابندی کی خبر کے بعد بھی یہی بات پھیلائی گئی کہ اسرائیل کو قبول کرنے کے لیے یہ پلان بنایا گیا ہے۔اس میں مبشر لقمان جیسے بدنام زمانہ اینکر کی وڈیو اور کامران خان کی ٹوئیٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایسا لگا کہ سب لوگ ہی بک چکے ہیں۔ یہ سب شروع ہوا ناجائز اسرائیلی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہوکے سعودی عرب کے مبینہ دورے کی خبروں کے بعد۔ جی صرف خبریں تھیں، دورہ نہیں، جس کی تردید سعودی عرب نے بھی کی۔ مگر سوشل میڈیا سے تیر نکل چکا تھا۔ اس کے بعد خبر آئی گرین لسٹ کی، مہتاب خان لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل نے سعودی عرب کو گرین لسٹ میں شامل کر لیا۔ قانونی طور پر گرین لسٹ میں شامل ممالک کے شہریوں کو اسرائیل پہنچنے پر قرنطینہ میں وقت گزارنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق موجودہ حالات میں سعودیہ اور اسرائیل کے درمیان معاملات طے پانے کے لیے بڑے پیمانے پر دونوں ممالک کے حکام نے دورے کرنا ہیں۔ اس لیے سعودیہ کو گرین لسٹ میں شامل کرنا ضروری تھا۔ ورنہ قرنطینہ کی وجہ سے وقت ضائع ہو نے کا احتمال ہے۔‘
پاکستان کو پالیسی نرم کرنے کی جانب مباحث گھیر کر لائے گئے ، وقت سے پہلے ہی سب الرٹ ہو گئے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنا واضح موقف صاف دہرا دیا کہ ’ اسرائیل کو تسلیم کرنا ، مطلب پاکستان کا انکار ہوگا‘۔مگر عوام الرٹ رہی اور دو دن تک اس موضوع پر ٹرینڈ بنتا رہا۔نجیب ایوبی عوامی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ’اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا عالم اسلام، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے عوام سے غداری ہے۔ پاکستان کے عوام اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور دباؤ کو برداشت کریں۔ محمد بن سلمان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو خادم الحرمین الشریفین نہیں بلکہ خادم امریکا و اسرائیل ہوں گے۔
اس دوران عافیہ صدیقی کی ناجائز امریکی قید سے رہائی کے لیے بھی سوشل میڈیا پر اچھی مہم چلی اورنئے امریکی صدر جو بائیڈن سے توقعات باندھتے ہوئے ٹرینڈ بناکر متوجہ کیا گیا۔کشمیر میں مسلسل بھارتی درندگی کا سلسلہ جاری رہا اور شہادتوں نے سوشل میڈیا پر خوب شور مچایا۔ اہم بات یہ تھی کہ خواتین و بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کے لیے ملکی قانون میں تبدیلی لا کر ’نامرد‘ کرنے کی عجیب حرکت پر شدومد سے بات نہیں ہوئی۔ بیان بازیوں اور سوشل میڈیا پر درجنوں پوسٹس لگانے کی بجائے۔وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے- زنابالجبر کے حوالے سے مجرم کو نامرد بنانے کی سزا بظاہر قرآن و سنت کے احکام کے خلاف لگتی ہے۔ سزائے موت چند لوگوں کو بھی دی جائے گی تو منفی عناصر میں خوف پھیلے گا اور شائد جرائم کی شرح میں کمی آئے۔ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے سنہری اصولوں کی روح کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ ملک میں اس طرح کے معاملات کو طے کرنے کے لیئے ایک آئینی ادارہ موجود ہے۔ بدقسمتی سے لوگ سنجیدہ اقدامات کی جگہ شور شرابے کو پسند کرتے ہیں!
جعلی ویڈیوز کے ضمن میں اس ہفتہ پیپلز پارٹی کی خوب گت بنی۔ بلاول بھٹو کی بڑی بہن بختاور بھٹوزرداری کی تقریب منگنی کا کارڈ پہلے خوب پھیلایا گیا، پھر اس میں سے قادیانیت نکالی گئی اور ہونیوالے شوہر کو ڈنکے کی چوٹ پر سوشل میڈیا پوسٹوں سے قادیانی بنا کر پیش کیا گیا۔پھر تقریب سے دو دن قبل کی ویڈیوز کو منگنی کی تقریب بنا کر شیئر کر دیا گیا۔ اس دوران منگنی کی تقریب میں آنے کے لیے کورونا ٹیسٹ کو لازم قرار دیا گیا۔ پھر آخر میں ڈراپ سین بلاول کے کورونا مثبت آنے پر ہوا۔ وڈیوز میںچوں کہ پیپلز پارٹی کے مشہور گانے پر رقص جاری تھا اس لیے یہ نام دیا گیا، بعد ازاں پھر کچھ وضاحت آئی۔ ’بختاور اور محمود کی بات بہت پہلے سے طے تھی، منگنی کا اعلان اب ہوا۔ بختاور بھٹو زرداری کے منگیتر چوہدری محمود کے والدکے دوست نے بھی کچھ بتایا۔ کسی شادی کی تقریب میں ’’دلا تیر بجا‘‘ پر رقص کی ایک وڈیو بلاول ہائوس سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہے، بلاول ہائوس میں ایسی کسی قسم کی کوئی تقریب نہیں ہوئی، وڈیو میں دکھائی گئی جگہ بلاول ہائوس نہیں ہے، اس وڈیو کو بی بی بختاور بھٹو زرداری کی نسبت طے ہونے کی تقریب سے منسوب کیا جارہا ہے، بی بی بختاور کی نسبت ابھی ایک دن بعد 27 نومبر کو طے ہونا ہے۔ براہ کرم پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔

حصہ