حقوق نسواں سے آزادی نسواں تک

669

آج 25 نومبر عورتوں پر تشدد کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کو بے نقاب کیا جائے۔ تشدد بجائے خود بری چیز ہے چاہے مرد مرد پر تشدد کرے یا مرد عورت پر۔ جنگل کا قانون ہے کہ طاقتور کمزور پر تشدد کیا کرتا ہے۔ عورت چونکہ مرد کے مقابلے میں کمزور ہے اس لیے عموماً مرد کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔۔ آج کے دن سوال یہ ہے کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جتنی حقوق انسانی کی تنظیمیں عورت کے حقوق کے لیے شور کر رہی ہیں ،حقوق نسواں کے لیے اقوام متحدہ کی سطح سے ملکی سطح تک قانون سازی کی جارہی ہے اس قانون سازی کے نتیجے میں تشدد بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔۔ سادہ سی بات ہے جب انگریز ہندوستان میں آئے تو مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور انگریزوں کی موجودگی میں ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے۔
اسی طرح عالمی ادارے جتنا فوکس کر رہے ہیں عورت کو، قانون سازی کو۔۔۔ اتنے ہی یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔۔ بات سمجھنے کی ہے کہ معاشرے میں تشدد کیا صرف مرد کرتا ہے۔۔کیا سارے مرد ساری عورتوں پر تشدد کر رہے ہیں۔۔ تو عورتوں اور مردوں کی الگ سوسائیٹیاں بسا دی جائیں۔ عورتیں عورتوں کے ساتھ رہیں اور مرد مردوںکے ساتھ۔۔۔ کیونکہ یہ فضا بنائی جا رہی ہے کہ مرد قابل نفرت ہے۔
یہ مرد اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ گھروں میں رہا جائے۔۔نہ وہ اس سماج کا حصہ ہوں، کیونکہ وہ تیزاب پھینک دیتے ہیں، وہ زخمی کرتے ہیں، وہ تشدد کرتے ہیں،سرعام عزت کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں، لہٰذا اس قابل نفرت مخلوق سے علیحدگی ہی بہتر ہے۔۔ دنیا بھر میں ہم جنس پرستی کے قوانین پاس ہو رہے ہیں، ان کو جلا ملے گی اور دنیا جلد ہم جنس پرستوں کی دنیا بن جائے گی۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جو مرد تشدد کر رہے ہیں ان کا تناسب معاشرے میں کتنا ہے؟؟ ان ذہنی مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟؟ اس کا مطلب ہے معاشرے میں ڈپریشن اور فرسٹریشن موجود ہے اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اب ماہرین سماجیات و نفسیات بیٹھیں اور سوچیں کہ معاشرے کو ڈپریشن اور فرسٹریشن میں دھکیلنے والے عوامل کون سے ہیں؟؟ اگر مردوں کی جنونیت سامنے آرہی ہیں تو مردوں کے لئے تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا جائے۔ان کو تعلیم و روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کیونکہ قانون فطرت کے تحت عورت کمزور ہے مرد قوی ہے اور عورت اپنے دفاع کے لیے مرد کی طرف ہی دیکھتی ہے۔ملک کا دفاع بھی مرد کرتے ہیں خاندان کا دفاع بھی۔
عورت اور مرد ایک دوسرے کے خلاف دو متحارب گروہ نہیں ہیں۔ بلکہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔قرآن نے لباس جیسی چیز سے خوب صورت تشبیہ دی۔وہ مل کر ایک خوبصورت خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں جو سماج کی اکائی ہے وہاں بچے پروان چڑھتے ہیں اور معاشرتی ترقی کرتے ہیں ۔معاشروں کو صنفی طور پر تقسیم کر دینا،عورتوں کو مردوں کے خلاف کھڑا کرنا ، جرائم کو بہت مشتہر کرنا۔۔ جبکہ جرم مرد نہیں کرتا،مجرم کرتا ہے۔ مجرم مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی۔۔ لہذا نفرت تشدد سے کی جائے کسی صنف سے نہیں۔ نہ تشددکو کسی صنف کے ساتھ مختص کیا جائے۔ خود عورت عورت پر بھی تشدد کرتی ہیں اور مرد مردوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ شریعت میں عورتوں سے جڑا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا اسلام نے حل پیش نہ کیا ہو۔ اللہ نے عورتوں کی بھی حدود مقرر کر دی ہے اور مردوں کی بھی۔۔احکاماتِ پردہ عورتوں کے لیے ہیں تو پہلے مردوں کو نظر نیچی کرنے کا حکم ہے۔ مردوں کے لیے بھی حدود مقرر کر دی گئی ہیں۔
نکاح کے موقع پر جو آیات پڑھی جاتی ہیں اس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کو خدا کا خوف دلایا جاتا ہے۔۔اللہ کے ہاں مردوں کی قوامیت کی بنیاد پر ان کی سزا میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔۔ بلکہ اسلام میں لفظ “قوامیت” صرف برتری کا تصور نہیں رکھتا ذمہ داری کا تصور بھی رکھتا ہے۔ یہ ایک عورت کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے اس کے لیے چار پہر ے دار شوہر، بیٹا، باپ،بھائی کی صورت میں پیدا کئے جو اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں، کفالت بھی۔۔ عورت گھر کی ملکہ ہے، ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی بشارت۔۔آئیں اسلامی تعلیمات کو عام کریں کہ یہی شاہ کلید ہے۔۔۔
مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق ایشوز بہت سادہ نہیں ہوتے۔بات سادہ سی ہے کہ پاکستانی عورت خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے ریاست اسے احساس تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ہمارے سماج کی عورت بچوں کے ساتھ تنہا لمبے روٹ پر آسکریم کھانے نہیں نکلتی۔۔ریپ کے واقعات کے مجرم پکڑے جائیں، تیز تر ٹرائل ہو اور سر عام پھانسی۔یہ قومی مطالبہ ہے صبح ایک ٹی وی چینل پر عورتوں کی ایک انجمن کی نمائندہ کہہ رہی تھیں کہ مجھے رشتوں کا اکرام درکار نہیں۔ماں بہن اور بیوی بیٹی کیوں میرا تشخص ہو؟ مجھے عورت کی حیثیت میں عزت درکار ہے۔ حالانکہ عورت سے جڑے یہ رشتے تو زندگی کا مان ہیں۔ہر عورت کسی کی بیٹی اور بہن ہے۔جب انسان کی اپنی بہن اور بیٹی ہوتی ہے تو وہ دوسرے کی بہن اور بیٹی کی بھی عزت کرنا جانتا ہے۔
معاشرے کی مائیں سانجھی ہیں ،بہنیں،بیٹیاں سانجھی ہیں۔کیا ان پے در پے سانحات کا دکھ صرف عورتیں محسوس کررہی ہیں ؟؟ہر آدمی جس کے اپنے گھر میں ماں،بہن،بیوی،بیٹی جیسے پیارے رشتے موجود ہیں اس طرح کے سانحات پر لرزہ براندام ہے۔بھائی،شوہر اور بیٹے زیادہ مضطرب ہیں ان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے ایک غیر محفوظ سماج میں ۔ایسے واقعات تازیانہ ہیں ہر مرد کی غیرت کے لیے بھی۔یہ سماج کی جنگ ہے جرم اور مجرم کے ساتھ۔۔جتنی نفرت ایک عورت ایسے ناپاک مجرم سے کرتی ہے اتنی ہی ایک مرد بھی۔اس لیے کہ وہ خود باپ، بیٹے،شوہر اور بھائی کے پاکیزہ رشتوں سے جڑا ہے۔ درندہ صفت لوگ جو انسان نما بھیڑیے ہیں ،معاشرہ کا چہرہ داغ دار کررہے ہیں۔
اب یہ کہنا کہ میرا بھائی یا بیٹا نصف شب کو تنہا اسکوٹر چلا سکتا ہے تو یہ حق مجھے بھی ملنا چاہیے۔آدھی رات کے بعد تنہا گھر سے نکلنا میرا حق ہے،مجھے مرد جتنی آزادی مطلوب ہے۔صنفی تخصیص کے بغیر۔یا۔۔۔اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن کو لازم کیا جائے وغیرہ
تاثر یہ دیا جانے لگتا ہے کہ سارے مرد سب عورتوں کے حقوق سلب کررہے ہیں۔ہم پنجروں میں قید پھڑپھڑا رہی ہیں۔پاکستانی عورت عالمی عدالت انصاف تک جائے کہ یہ معاشرہ ہمیں انسانی حقوق نہیں دے رہا۔حقوق نسواں ایک جمپ میں آزادی نسواں بن جاتی ہے۔یہاں خواتین کے حقوق کی آڑ میں فتنوں اور ایجنڈوں سے ہشیار رہنا وقت کی ضرورت ہے۔ ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریںتاکہسارا سماج عورت کی حفاظت کے لیے مضبوط حصار بن جائے۔
nn

حصہ