شادی کے شادیانے

348

1970ء کی دہائی میں جب ہمارے چچا کی شادی ہوئی تھی، قریبی رشتے دار ہفتوں پہلے آجاتے اور آکر اپنی اپنی ذمے داریاں سنبھالتے۔ نہ کیٹرنگ ہائوس تھے۔ اگر تھے بھی تو خال خال۔ خواتین چاول وغیرہ صاف کرکے رکھتیں۔ ایک مزے کی بات اور کہ بارات اور ولیمے کا وقت ظہر کا ہوتا، جب کہ مایوں کی رسم عموماً عصر کے بعد کی جاتی جس میں سوجی، میدہ اور خشک میوہ ملا کر لڈو بنائے جاتے اور آنے والے تمام مہمانوں میں تقسیم کیے جاتے۔ اور یہ بھی گھر میں ہی بنائے جاتے جو دلہن کی بہنیں اور بھابھیاں مل کر بناتیں۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پلائو کے چاول الگ ہوتے اور زردے کے چاول الگ۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اُس زمانے میں مسالے والی بریانی کا وجود نہیں تھا۔ نانبائی آتے، اینٹوں کے چولہے بنتے۔ لڑکے باہر کے کام کرتے، کبھی چپکے چپکے ڈھول بجاتی اور گاتی ہوئی لڑکیوں کو بھی جھانک لیتے۔
1980ء کی دہائی میں وقت کی کروٹ کے ساتھ میرج ہالز کا دور شروع ہوا اور مووی اور ڈیجیٹل کیمرے کا دور آیا۔اب لوگ میرج ہال میں شادیاں کرنے لگے۔ مگر پھر بھی کچھ حدود اور قیود تھیں۔ عورتوں اور مردوں کے الگ بیٹھنے اور الگ کھانے کا انتظام ہوتا۔ مگر 1990ء کی دہائی کے بعد اور خاص طور پر موبائل کی آمد کے بعد تو شادیوں کی تقاریب کے مناظر بالکل ہی بدل گئے۔ دولہا دلہن کے لاکھوں کے جوڑے، کھانے کی بے تحاشا ڈشز… ایسا لگتا ہے کہ مقابلے کی فضا ہے۔ دولہا دلہن کے پارلر کے اخراجات سمیت ہر چیز بے جا اِسراف کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔لڑکے لڑکیاں، حتیٰ کہ بڑی خواتین مختلف اسٹائل سے اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ سیلفیاں لیتی نظر آتی ہیں۔ اس تیز رفتاری کے دور میں ہم لوگ تو شادی میں اس لیے بھی شرکت کرتے ہیں کہ چلو جن رشتے داروں سے ملاقات نہیں ہوپاتی اُن سے ملاقات ہوجائے گی۔ مگر ہائے رے یہ موبائل، کہ وہاں پر بھی سلام کے علاوہ مجال ہے جو کسی سے بات ہوجائے۔ بس سب اپنی فیملی کی تصاویر کھینچ کھینچ کر فیس بک پر اَپ لوڈ کرکے دوستوں کو آن لائن دکھاتے رہتے ہیں اور پاس بیٹھے لوگوں کی پروا بھی نہیں کرتے۔ اس موبائل کا کمال ہے کہ پاس بیٹھے لوگ دور چلے گئے، دور بیٹھے لوگ پاس آ گئے۔ مگر ان سب کے باوجود نہ شادی میں وہ مزا رہا، نہ ان ڈھیر سارے لوازمات میں۔

حصہ