ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری

2683

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ وہ ان ادیبوں میں ہیں جو معاشرے اور علم و ادب کے جمے جمائے افکار و تصورات میں اپنی تخلیقی فکر سے تبدیلی کا نقطۂ آغاز بن جاتے ہیں۔ ایک پختہ کار اور منفرد افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت کی ابتدا ترقی پسند تحریک سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’محبت اور نفرت‘‘ (1933ء) تھا جس میں ان کے سولہ افسانے شامل تھے۔ ان میں کئی افسانے انہوں نے پہلے ہندی میں لکھے تھے جس کی بابت انہوں نے لکھا:
’’اگر یہ کہوں تو خودستائی نہ ہوگی کہ میں نے ہندی افسانہ نویسی میں ایک نئے اسلوب اور ایک نئے دور کا آغاز کیا۔‘‘
اختر حسین رائے پوری کے یہ افسانے بھی جو ترقی پسند تحریک سے پہلے لکھے گئے‘ اپنے موضوعات‘ تکنیک اور مقاصد کے لحاظ سے ترقی پسندانہ ہی کہے جائیں گے۔ اس لیے کہ ان میں اس وقت کے مکروہ سماجی حقائق کی نمائندگی ملتی ہے اور ساتھ ہی ایک انسانی درد مندی اور خلوص بھی جس سے پتا چلتا ہے کہ ادیب اپنے معاشرے اور اس کے زخموں اور ناسوروں کا دکھ درد اپنے دل میں رکھتا ہے اور وہ معاشرے کو ایک صحت مند اور دکھوں اور مصیبتوںٍ سے پاک معاشرہ دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ یقینا رومان بھی ان کے افسانوں کا موضوع ہے کیوں کہ ان کے خیال میں ’’رومان بھی زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کی کلفتوں کو چھپایا جائے۔‘‘ لیکن رومان کے ساتھ انہوں نے جن سماجی مسائل پر توجہ کی اور جن کرداروں کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا ان میں طوائفیں‘ مزدور‘ گداگر اور پسے اور کچلے ہوئے طبقات کے کردار ہیں جن کو ادب میں پہلے جذبات کی اس شدت اور درد مندی سے اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کی روایت ابھی مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ یوں بعد میں کرشن چندر‘ منٹو اور عصمت نے افسانہ نگاری کی ان ہی پگڈنڈیوں کو شاہراہ بنایا جنہیں اختر حسین اور احمد علی جیسے افسانہ نگاروں نے ہموار کیا تھا۔ اس طرح اردو افسانے کے ارتقا میں اختر حسین رائے پوری کے افسانے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قدر و قیمت اور اہمیت تاریخی نوعیت کی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اختر حسین رائے پوری اس لحاظ سے بھی اردو ادب اور اردو تنقید کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے کہ ترقی پسند تحریک کی فکری اور نظری بنیاد ان ہی کے انقلاب آفریں مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ سے پڑی۔ یہ مضمون جو جولائی 1935ء کے رسالہ ’’اردو‘‘ میں چھپا تھا‘ اردو کی ادبی تنقید کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں پہلا پتھر ثابت ہوا جس سے اٹھنے والی لہروں اور ان کے تلاطم نے ادب کی غرض و غایت اور زندگی سے اس کے ربط ضبط اور تعلق کے حوالے سے روایتی تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مجنوں گورکھ پوری نے اس مضمون کو ترقی پسند تحریک کا سنگ بنیاد قرار دیا۔ خود سجاد ظہیر جو اس تحریک کے سب سے فعال اور متحرک ادیب تھے‘ جنہوں نے اس تحریک کی لفظی داستان اپنی بے حد دل چسپ اور معلومات افزا کتاب ’’روشنائی‘‘ میں قلم بند کی ہے‘ اختر حسین رائے کے مذکورہ مضمون کی بابت لکھا ہے ’’میرے خیال میں یہ ہماری زبان میں پہلا مضمون ہے جس میں مبسوط اور مدلل طریقے سے نئے ترقی پسند ادب کی تخلیق کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ اس اہم مضمون کے مصنف کی حیثیت سے اختر حسین رائے پوری کو اردو کے ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں اوّلیت حاصل ہے۔‘‘
چناں چہ 1936ء میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین کے باقاعدہ قیام اور اس کے دستور العمل طے کرنے کے لیے جو اجلاس ہوتے رہے ان میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بھی شامل تھے۔ جب ترقی پسند تحریک کے ذیر اثر غیر ملکی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کا کام شروع ہوا تو علی سردار جعفری نے لکھا کہ اختر حسین رائے پوری بھی ترجمہ کرنے والوں میں شامل تھے اور انہوں نے بنگالی کے انقلابی شاعر نذرالاسلام کی بنگلہ نظموں کا ترجمہ ’’پیامِ شباب‘‘ اور روسی مصنف میکسم گورکی کی آپ بیتی کو اردو کا جامہ پہنایا۔ دونوں ترجمے انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہوئے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ اس تحریک کا ساتھ بہت دور تک نہ دے سکے اس کی وجہ سجاد ظہیر کے نزدیک یہ تھی کہ ان کے خیال میں ڈاکٹر رائے پوری کو نجی مالی مشکلات اور دنیا میں ترقی کرنے کی خواہش ترقی پسند ادب کی مشکل ذمے داریوں سے دور کھینچ کر لے گئی۔ لیکن شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی کہ تحریک کاواضح جھکاؤ روس اور اشتراکیت کی طرف ہو گیا جس ے ڈاکٹر رائے پوری کو اتفاق نہ تھا۔ دل چسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ باوجود ترقی پسند تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین سے الگ تھلگ ہو جانے کے آزادی کے بعد انجمن کے ذمہ داروں نے انہیں تنظیم سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔
میں جون 1981ء کی ایک شام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری سے ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دل میں کچھ دھڑکا سا بھی لگا تھا کہ جانے گفتگو کے لیے پوری طرح آمادگی ہو یا نہ ہو اس لیے کہ فون پر جب بھی میں نے ان سے انٹرویو کے لیے وقت طلب کیا تو دل گرفتی کے ساتھ کہنے لگے:
’’مجھے رہنے دیں‘ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ بینائی جواب دے چکی ہے۔ لکھنے پڑھنے کا کام عرصہ ہوا چھوٹ چکا اور اب تو بس میں ہوں اور میری یادیں ہیں۔‘‘
میرے اصرار پر انہوں نے وقت تو دے دیا لیکن ان کی دل گرفتہ معذرت سے ان کا اوّلین افسانہ ’’زبان بے زبانی‘‘ (مطبوعہ نگار‘ لکھنؤ مارچ 1934ء) یاد آگیا۔ عمر کی انسٹھویں دہلیز پر وہ اپنے ہی افسانے کا کردار بن چکے تھے۔ یہ افسانہ برگد کے ایک پیڑ کی کہانی ہے جو دنیا کے سرد و گرم کا مزا چکھنے کے بعد آہستہ آہستہ عمر رسیدہ ہو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے غیر فانی ہونے کا احساس بھی اس کے اندر موجود رہتا ہے۔
جب میں پی ای سی ایچ سوسائٹی میں ان کے بنگلے کا پتا پوچھتے ہوئے کسی طرح پہنچا تو وہ پھولوں اور کیاریوں سے آراستہ لان میں بید کی آرام کرسی پر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا پالتو کتا ان کے نزدیک ہی کھڑا وفاداری سے دُم ہلا رہا تھا۔ اردگرد پرندے پنجروں میں اپنے رنگین پروں میں سمٹے بیٹھے تھے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی کتا غراتا ہوا لپکا‘ میری جان تو ویسے ہی کتوں سے جاتی ہے‘ٹھٹھک کر رک گیا‘ تب ہی ڈاکٹر رائے پوری کی تسلی دیتی آواز آئی:
’’آجایئے کچھ نہیں کہے گا۔‘‘
ان سے باتیں شروع ہوئیں تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوسکا۔ رات بھیگ چلی تھی‘ یوں یہ انٹرویو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔
اس انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی خود نوشت لکھ رہے ہیں اس کی چند قسطیں صہبا لکھنوی اپنے رسالہ ’’افکار‘‘ میں چھاپ چکے تھے۔ پھر کسی وجہ سے یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ انٹرویو کی اشاعت کے بعد ان کی خود نوشت ’’گردِ راہ‘‘ چھپی اور مقبول ہوئی۔ اختر حسین رائیٔ پوری سے پھر ملاقات کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ 2 جون 1992ء کو ان کا بلاوا آگیا۔
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری جون 1912ء کو رائے پور میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن پٹنہ (صوبہ بہار) تھا۔ والد صاحب بہ سلسلہ ملازمت رائے پور مقیم تھے۔ چناں چہ ڈاکٹر رائے پوری نے وہیں سے میٹرک کیا اور 1928ء میں کلکتہ چلے گئیٔ جہاں سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد علی گڑھ کا سفر اختیار کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی سند لے کر وہ پیرس گئے اور پیرس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔ 1930ء میں مولوی عبدالحق انہیں اپنے ساتھ حیدر آباد دکن لے گئے اور یوں وہ انجمن ترقی اردو میں مولوی صاحب کے ادبی معاون کے طور پر کام کرتے رہے۔ ترقی پسند تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے اگلے سال 1937ء میں آپ یورپ چلے گئے جہاں تین سال قیام کیا اور 1940ء میں لوٹ آئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں تین سال تک بہ طور نائب نیوز ایڈیٹر کام کیا۔ 1943ء میں استعفیٰ دے کر آئندہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہنے کا ارادہ کر لیا۔ جس کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں تاریخ کے پروفیسر اور وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1945ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمۂ تعلیم میں مشیر تعلیم کے عہدے پر تعینات کیے گئے۔ انہیں اس محکمے میں رہتے ہوئے محکمۂ تعلیم کے مشیر اور مشہور انگریز ماہر تعلیم سرجان سارجنٹ اور عبوری دور کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت بھی ملی۔ مولانا سے مشورہ کرکے وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں تعلیم ہی کے محکمے میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ پھر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے اور کراچی یونیورسٹی میں بھی کچھ عرصہ وزٹنگ پروفیسر رہے۔
ڈاکٹر اختر حسین رائے کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اردو‘ ہندی اور انگریزی زبانوں میں لکھا ہے۔ دو افسانوی مجموعے ’’محبت اور نفرت‘‘ اور ’’زندگی کا میلہ‘‘ جن کے کئی افسانے دوسری زبانوں میں ترجمہ کیے گئے‘ ادبی تنقید کے بھی دو مجموعے ہیں ’’ادب اور انقلاب‘‘ اور ’’روشن مینار‘‘ کالی داس کے مشہور ڈراما ’’شکنتلا‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ مولوی عبدالحق کی ہدایت پر نذرالاسلام کی بنگلہ نظموں اور میکسم گورکی کی خود نوشت کا تین جلدوں میں ترجمہ کیا۔ ہندی افسانوں کا مجموعہ ’’آگ اور آنسو‘‘ بھی چھپ کر ہندی پڑھنے والوں میں مقبول ہو چکا ہے۔
اختر حسین رائے پوری کی اہلیہ حمیدہ اختر بھی کئی کتابوں کی مصنفہ‘ جب کہ ان کے صاحبزادے عرفان حسین انگریزی کے ممتاز کالم نگار ہیں۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ برصغیر کی معروف ترقی پسند تحریک آپ کے ایک مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ سے شروع ہوئی‘ آپ کے خیال میں اس تحریک کے پس منظر میں کون سے مقاصد اور حالات کار فرما تھے؟
اختر رائے پوری: اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ترقی پسند تحریک میں صرف کمیونسٹ اور بائیں بازو کے افراد شامل تھے‘ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ اس تحریک میں مختلف الخیال لوگ شامل تھے مثلاً جہاں اس تحریک میں سجاد ظہیر اور ان جیسے کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے دیگر ادیب شامل تھے‘ وہیں اس تحریک سے منشی پریم چند‘ مولوی عبدالحق اور مولانا عبدالمجید سالک وغیرہ بھی متاثر تھے۔
قصہ یہ ہے کہ 1936 میں سجاد ظہیر انگلستان سے تعلیم ختم کرکے واپس آئے تو انہیں ایک انجمن بنانے کا خیال آیا۔ انہوں نے لکھنؤ میں ادیبوں کو جمع کیا اور ایک جلسہ کیا جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی اور یوں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ اس انجمن کے قیام سے 1935ء میں رسالہ ’’اردو‘‘ میں میرا مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جو آج بھی اس تحریک کا پیش رو کہلاتا ہے۔
طاہر مسعود: لیکن ترقی پسندوں کے ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ ترقی پسند تحریک کا پیش رو افسانوں کا مجموعہ ’’انگارے‘‘ ہے جس میں چار افسانہ نگاروں کے افسانے شامل تھے جو افسانے کو خیالی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لائے تھے اور جرأت مندانہ لب و لہجہ اختیار کیا تھا۔
اختر رائے پوری: یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ترقی پسند تحریک ’’انگارے‘‘ نامی کتاب سے شروع ہوئی۔ 1936ء میں سجاد ظہیر کے تین افسانے‘ احمد علی کے دو‘ رشید جہاں کے بھی غالباً دو اور محمودالظفر کا ایک افسانہ شامل کرنے کے بعد یہ کتاب وجود میں آئی تھی اور ان تمام افسانہ نگاروں کی یہ پہلی تحریریں تھیں۔ اس مجموعے کو آپ دیکھیں تو اس کے تقریباً تمام ہی افسانے جنسی مسائل سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کسی اعتبار سے بھی ادبی معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ اگر اس کی کوئی خوبی تو صرف اتنی کہ اس نے پڑھنے والوں میں ایک ہیجان پیدا کیا کیوں کہ لوگ اس قسم کی تحریروں کے عادی نہیں تھے۔ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کر لیا تو کہا جانے لگا کہ حکومت نے اس کتاب کو انقلابی ہونے کی وجہ سے ضبط کیا ہے حالاں کہ حکومت نے اس کتاب کواس لیے ضبط کیا تھا کہ فحشیات کا ایک پلندہ تھا۔ اس زمانے میں رسالہ ’’اردو‘‘ کے مدیر مولوی عبدالحق تھے۔ اس رسالے میں قاضی عبدالغفار نے نقاش کے نام سے ’’انگارے‘‘ پر ریویو لکھا جس میں کہا کہ اس کتاب میں وہ سب فحش افسانے احمد علی کے ہیں جنہیں اس کتاب میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے بعد میں ان افسانوں کے لکھنے پر کسی رسالے میں معذرت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ میں نے یہ افسانے یورپ کے بعد مصنفوں سے‘ جو جنسی مسائل پر کھل کر لکھتے ہیں‘ متاثر ہو کر لکھے ہیں۔ مثلاً جیمس جوائنس اور ورجینا وولف وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ان فحش افسانوں کا تعلق اس تحریک سے کیسے ہو سکتا ہے جو ایک طرف یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ ملک کی آزادی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہے۔
طاہر مسعود: گویا ’’انگارے‘‘ اس اعتبار سے پہلی کتاب ہے جس نے برصغیر میں آزاد رجحان سے لکھنے کے سلسلے کو جنم دیا؟
اختر رائے پوری: اس سے پہلے کبھی ایسے کھلے الفاظ میں انسان کی پوشیدہ زندگی کے بارے میں تحریریں نہیں لکھی گئی تھیں لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ ’’انگارے‘‘ نے ہلچل ضرور مچائی‘ لیکن اس کی ادبی اہمیت کچھ نہیں ہے مثلاً آپ دیکھیں قاضی عبدالغفار نے 1928ء میں ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ لکھے۔ آپ اسے پڑھیں گے تو بے ساختہ داد دیں گے۔ ایک سوسائٹی عورت پر کیسے مظالم کرتی ہے کہ وہ طوائف بننے پر مجبور ہو جائے۔ اس موضوع کو قاضی عبدالغفار نے اپنے آرٹسٹک اندازِ بیان سے زندہ کر دیا ہے۔
طاہر مسعود: آپ ترقی پسند تحریک کے پس منظر کے بارے میں کچھ فرمائیں گے؟
اختر رائے پوری: جی ہاں آپ اس تحریک کو 1947ء سے قبل کے پس منظر میں دیکھیے۔ اس تحریک میں شامل ادیبوں کا سیاسی عقیدہ خواہ کچھ ہو لیکن اس امر پر سب ہی ادیب متفق تھے کہ ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے اور یہ کہ جنگ آزادی سے ادب کو علیحدہ نہیں رہنا چاہیے اور ان ہی وجوہات کی بنا پر غیرکمیونسٹ ادیبوں نے بھی اس تحریک سے دل چسپی لی۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں اس تحریک کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
اختر رائے پوری: اس تحریک نے حصول آزادی تک ایک کام تو ضرور کیا مختلف الخیال مصنفوں اور ادیبوں کے ذہن کو جنگ آزادی کی طرف مائل کیا اور ادیبوں اور شاعروں نے عوام کا مشاہدہ شروع کیا اور ادبی تخلیق کا نیا دور شروع ہوا۔
طاہر مسعود: تاہم آپ اس بات سے تو اتفاق کریں گے کہ اس تحریک کے بیش تر مصنف زندگی کو ایک ہی عینک سے دیکھتے رہے اور یکساں موضوعات پر یکساں قسم کی تحریریں لکھتے رہے؟
اختر رائے پوری: اس تحریک نے بڑا ادب یا بڑے ادیب پید انہ کیے ہوں لیکن اس نے ادب میں ایک معاشی شعور ضرور پیدا کیا ہے۔
طاہر مسعود: آپ ایک عرصے تک ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور…؟
اختر رائے پوری: (بات کاٹ کر) میرا کبھی بھی ترقی پسند تحریک سے بہت گہرا تعلق نہیں رہا‘ البتہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے انتخابات میں‘ میں امرتسر اور دلّی میں انجمن کی قائم شاخوں کا صدر منتخب ہوا تھا اور اور اگر کوئی جلسہ اور مشاعرہ وغیرہ ہوتا تو اس میں شرکت بھی کر لیتا تھا لیکن درحقیقت میں نے کبھی خود کو کبھی ترقی پسند نہیں کہا اور نہ ہی کبھی اس کا لیبل لگایا۔
طاہر مسعود: یہ تو عجیب بات ہے کہ آپ انجمن کے عہدے دار بھی تھے اور کبھی اس سے تعلق بھی ظاہر نہیں کیا؟
اختر رائے پوری: لیبل لگانے کی کیا ضرورت ہے‘ لوگ میری تحریروں سے اندازہ لگا سکتے تھے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا میرے خیالات کیا ہیں۔
طاہر مسعود: ترقی پسندوذں نے آپ کو اپنی تحریک سے کن وجوہات کی بنا پر علیحدہ کیا؟
اختر رائے پوری: پاکستان بننے کے بعد ترقی پسندوں نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ اختر حسین رائے پوری‘ پروفیسر احمد علی اور وقار عظیم ترقی پسند نہیں ہیں‘ حالاں کہ میرا متعلق اس انجمن سے کبھی کا ختم ہو گیا تھا اور آج بھی مجھے نہیں معلوم کہ وہ انجمن ابھی باقی ہے یا ختم ہو گئی۔
طاہر مسعود: آپ نے علیحدگی کا سبب نہیں بتایا؟
اختر رائے پوری: بات یہ ہے کہ 1948ء میں‘ میں نے ایک رسالے میں ’’پاکستان میں اردو‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں‘ میں نے یہ کہا کہ اب نیا ملک وجود میں آچکا ہے اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ اب اپنی توانائیاں اس ملک کے مسائل کو سمجھنے میں‘ اسے استحکام بخشنے میں اور اس کی بہتری میں صرف کریں جس پر انہوں نے میری انجمن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
طاہر مسعود: آپ کو اپنے زمانے میں مشرق و مغرب کی بڑی شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا ہے ان میں اقبال‘ ابوالکلام آزاد اور نہرو جیسی شخصیات شامل ہیں‘ ان میں سے چند کا ایک ذکر کرنا پسند کریں گے؟
اختر رائے پوری: جی ہاں! میں نےلوگوں کے اصرار پر ماہنامہ ’’افکار‘‘ میں اپنی یادداشتیں لکھنی شروع کی تھیں لیکن آٹھ قسط لکھنے کے بعد میرے بینائی خراب ہو گئی۔ میں نے کوشش کی کہ کسی کے ذریعے اسے مکمل کرائوں لیکن کوئی قابل اعتبار آدمی نہیں ملا۔
یہ 1933ء کے آغاز کا ذکر ہے میں علی گڑھ میں طالب علم تھا‘ اس زمانے میں ترکی کے ایک مشہور آدمی رئوف بے‘ جو اتاترک کے ساتھی تھی اور ان کی کابینہ میں بھی شامل تھے‘ ہندوستان آئے اور جامعہ ملیہ کالج دہلی میں تقاریر کیں۔ علامہ اقبال ایسے ہی ایک جلسے کی صدارت کے لیے لاہور سے دہلی آئے۔ جلسے میں رئوف بے نے اتاترک کی سیکولر پالیسی کی حمایت میں تقریر کی جس پر علامہ اقبال نے بڑی وضاحت سے اس کا جواب دیا۔ میں نے پہلی بار علامہ اقبال کو یہیں دیکھا اور متاثر ہوا۔ ان کے اردو اور فارسی کلام سے تو میں پہلے ہی متاثر تھا۔ تقریر سننے کے بعد ان سے ملنے کی ہمت کی۔ وہ دریا گنج میں ڈاکٹر انصاری کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ انہوں نے مجھے ملنے کی اجازت دے دی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ پلنگ پر لیٹ کر حقہ پی رہے تھے اور ان کا دیرینہ ملازم اللہ بخش دروازے پر بیٹھا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا ور اِدھر اُدھر کی باتوں

طاہر مسعود:
اختر رائے پوری:

حصہ