وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

399

26 نومبرسےکراچی میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ عمران خان کے پرانےساتھی کا کورونا سے انتقال ہوگیاہے۔بلاول زرداری بھی کرونا وبامیں مبتلا ہوگئے۔لیکن حکومت نے دوبارہ یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ روزگار بند نہیں کریں گے۔
اللہ سب کے حال پر اپناخصوصی رحم فرمائے اس وقت دوبارہ سے کرونا کی وباسراٹھا رہی ہے۔صرف یہی نہیں کہ کرونا کی وبا سر اٹھارہی ہے۔بلکہ تعلیمی اداروں اور مختلف پاکستانی سماجی ویب سائٹوں پر سیکیولر اور قادیانیت کے نظریات اورعقائد بھی سوچی سمجھی سازش کے پروان چڑھائےجارہےہیں۔
مملکت خدادادپاکستان اس وقت طرح کے خدشات میں گھرا ہواہے۔ایک طرف فلسطینیوں کے خون ناحق پر بنی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب عوام پر مہنگائی کا خطرناک ناگ اپنا پھن کھولےکھڑاہے۔کرونا کی تباہ کاریاں پورے ملک میں تباہی و بربادی کے نئے باب رقم کررہی ہے تو ایک جانب حکمران طبقے کی کرپشن اور عیش و آرام عام آدمی کی زندگی میں طوفان بپا کرنے کو کافی ہیں۔بچوں اورخواتین پر تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہاہے تو ایک طرف میڈیا پر گھر خاندان اور نسلوں کو تباہ کرنے والے خطرناک فحش ڈرامے بنائے جارہے ہیں۔خوب سے خوب تر کی جستجو نےاچھے خاصے سمجھدار اور فہم رکھنے والے افراد کو اچھے برے حلال حرام جنت دوزخ اور آخرت کی تمیز بھلادی ہے۔بلاشبہ قرب قیامت فتنوں کا ظہورہے۔جس کی تصدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ایک مومن اس وقت بہت سے محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ان محاذوں کے لیے بہت سی حکمت،تدبر،حاضردماغی،دور حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگی،مکمل معلومات،دین کا مکمل فہم اورمعاملہ فہمی کی اشد ضرورت ہے۔
کرونا وباسے متعلق ایک عام فرد کو بنیادی آگہی سے آگاہ کرنا اور خود بھی ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
بی بی سی کے مطابق سائنسدانوں نے چالیس لاکھ افراد کے ڈیٹا کو استعمال کرکے اس کی چھ مزید اقسام بتائی ہیں۔ یہ علامات کچھ یوں ہیں۔
فلو جس میں بخار نہیں ہوتا: سر درد ، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، پٹھوں میں درد ، کھانسی، گلے میں تکلیف، سینے میں درد ، بخار کا نہ ہونا۔
بخار کے ساتھ فلو: سر درد ، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، کھانسی، گلے میں تکلیف، بخار، آواز کا بیٹھ جانا ، بھوک ختم ہو جانا۔
معدے کی تکلیف: سر درد ، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، بھوک ختم ہو جانا، اسہال، گلے میں تکلیف، سینے میں درد، کھانسی نہ ہونا۔
تھکان (شدت کا پہلا درجہ) : سر درد، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، کھانسی، بخار، آواز کا بیٹھ جانا، سینے میں درد، تھکاوٹ۔
گھبراہٹ (شدت کا دوسرا درجہ): سر درد، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، کھانسی، گلے میں تکلیف، بخار، آواز کا بیٹھ جانا ، بھوک ختم ہوجانا، سینے میں درد، تھکاوٹ ، گھبراہٹ اور پٹھوں میں درد۔
پیٹ اور تنفس (شدت کا تیسرا درجہ): سردرد، سونگھنے کی حس کا خاتمہ، بھوک ختم ہوجانا، کھانسی، گلے میں تکلیف، بخار، آواز کا بیٹھ جانا، سینے میں درد، تھکاوٹ ، گھبراہٹ اور پٹھوں میں درد، سانس اکھڑنا ، اسہال، پیٹ میں درد۔
اور محققین کا خیال ہے کہ بچوں میں قے آنا، سہال اور پیٹ درد بھی کورونا وائرس کی علامات ہو سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی میڈیا سیل نے اپنے کارکنوں کو تمام اجتماعات میں اور عام افراد کو یہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی گزارش کی ہے۔
▪ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں
٭ماسک کا استعمال ممکن بنایا جائے
٭دروازے پر سینیٹائزر استعمال کیا جائے
٭مناسب فاصلے کو ممکن بنایا جائے
٭باربار ہاتھ دھونے کی تاکید کی جائے
٭سلام کرتے ہوئے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کیا جائے
٭اجتماعات ایس او پیز کے ساتھ رکھے جائیں
٭اجتماعات میں فاصلے سے بٹھایا جائے
٭ تصاویر کی شیئرنگ میں احتیاط کی جائے صرف خبریں جاری کی جائیں
٭سب سے بڑھ کر خواتین کو رجوع الی اللہ
٭استغفار،
٭اپنے اور متاثرہ لوگوں کے لیے دعاؤں کی تاکید کی جائے
٭تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد توکل الی اللہ کی تاکید کی جائے یہی سنت کا طریقہ ہے۔
خیر یہ بیماری تو جسمانی و اعصابی نظام کے لیے خرابی کا باعث بن رہی ہے جو کافی خطرناک بھی ہے۔لیکن ایک ایسی بیماری بھی ہےجو رفتہ رفتہ مسلمانوں کے روحانی،اعتقادی،مذہبی اور معاشرتی عقائد پر ضرب کاری ہے۔یہ بیماری سرطان ایڈز اور مختلف مہلک بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہے۔کیسے ایک مسلمان باآسانی اس خطرناک وباکے زیر اثرصرف دنیاوی رغبتوں پراپنا ایمان، دین اورمذہب سےلاشعوری طور پرروگردانی کررہا ہے۔قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی نفوذ پذیری اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اوررحمت عالم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریبا ً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرئے، وہ کافر مرتد، زندیق، دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”نہیں ہیں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے“(سورۃ الاحزاب آیت نمبر40)۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک لے کر فرمایا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے ”میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں“ (مسلم) ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں) اور میں خاتم النبیین ہوں“ (بخاری، مسلم، ترمذی)۔ ایک حدیث مبارکہ میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے تیس کذاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا“ (ابو داؤد)۔
فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ ’’قادیان‘‘ سے ہوا اس کا بانی انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ ’’مرزا غلام احمد قادیانی،، تھا جس نے انگریز روسا کو خوش کرنے کیلیے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تو کبھی نبوت کااعلان کیا۔
کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو افضل کہا اور کبھی سب انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا، کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو کبھی ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو قرآن مجید سے افضل قراردیا۔
کبھی قادیان حاضری کو حج وعمرہ سے افضل کہا تو کبھی اپنے گھر والوں اور ماننے والوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے افضل قراردیا، حتیٰ کہ اپنی بیویوں کو ’’امہات المومنین‘‘ اور ماننے والوں کو صحابہ قرار دیا (نعوذ باللہ)، الغرض اس سے جو ہوا اس نے کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتیوں سے جو ہوسکتا تھا انہوں نے خدا کے فضل سے کردکھایا۔
یہ لمحہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔ تب علمائِ حق نے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے میدانِ عمل میں آئے۔ فتنۂ قادیانیت کو انگریز کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور آج بھی ہے۔
1929ء سے پہلے فتنۂ قادیانیت کے خلاف جتنی جدوجہد ہوئی وہ انفرادی نوعیت کی تھی۔
1947ء میں ملک پاکستان معرض وجود میں آیا تو قادیانیت کا فتنہ پاکستان آ پہنچا، مرزا غلا م احمد قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ کے قریب ایک بڑے زمینی حصے کو کوڑیوں کے دام خرید لیا اور ’’ربوہ‘‘ کے نام سے اپنا اڈا قائم کرلیا۔
سوئے اتفاق پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ’’ظفر اللہ خان‘‘ قادیانی تھا چنانچہ قادیانیوں کے لیے ابتداء ہی سے اہم کلیدی آسامیوں اور عہدوں کا حصول آسان ہوگیا اور وہ سرعام اپنے جھوٹے نبی کے مشن کو پھیلانے لگے۔
مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے تمام مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا اور 1953ء میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی اس تحریک میں، پورے ملک کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو اس خطرناک فتنہ سے آگاہ کیا، یہ خوب صورت تحریک ہی 1974ء میں فتنہ قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں تحریک چلی اس تحریک میں آپ کے ہمراہ مفتی محمودؒ، مولاناغلام غوث ہزارویؒ، مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، مولانا عبدالحقؒ، مولانا سید ابو ذر بخاریؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا عبیداللہ انور، آغا شورش کشمیریؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، مولاناسیدابوالاعلی مودودیؒ، مولانا عبدالقادر روہڑیؒ، نوابزادہ نصراللہؒ، مظفر علی شمسیؒ اور دیگر اہم راہنما شامل تھے۔
حکومت تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئی، قومی اسمبلی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی نمائندگی مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبدالحقؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور دیگر کررہے تھے۔
ان۔تمام حضرات نے شب و روز کی کوششوں سے وہ تمام لٹریچر جمع کیا جو خصوصی کمیٹی کے لیے ضروری تھا۔شہداء ختم نبوت کا مقدس خون اور قائدین تحریک تحفظ ختم نبوت کی بے لوث قربانیاں رنگ لے آئیں۔
قومی اسمبلی نے مرزا ناصر پر 11 دن اور مرزائیت کی لاہوری شاخ کے امیر پر 7 گھنٹے مسلسل بحث کی، 7 ستمبر 1974ء کو وہ مبارک دن آ پہنچا جب قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر دن4بج کر 35 منٹ پر قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
(جاری ہے)

حصہ