میرے محسن ، میرے استادڈاکٹر اعجاز حسن قریشی

426

زندگی کیا ہے؟ کسی حباب کی مانند لمحوں میں پھوٹ جانے والی، مچھر کے پَر سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت شے۔ اور موت کیا ہے؟ ہر لمحہ زندگی کا تعاقب کرنے والی ایک بے رحم اور اٹل حقیقت۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی دوسروں کے لیے مشعلِ راہ اور موت قابلِ رشک ہوتی ہے۔
میرے آئیڈیل، میرے محسن، میرے استاد ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم و مغفور کا شمار بھی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے، جو بہت شان سے جیتے اور بڑے باوقار انداز میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتے ہیں۔
میں اپنی تین سالہ بھتیجی کے ساتھ کھیل رہی تھی جب پونے 12 بجے لاہور سے فرحت آپا (سابق مدیرہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ فرحت افزا صاحبہ) کا فون آیا۔ سلام دعا اور حال احوال کے بعد بولیں ’’لگتا ہے خبریں نہیں دیکھ (سن) رہیں؟‘‘
’’جی آپا! آپ کو پتا تو ہے میں خبریں نہیں دیکھتی… خیریت، کیا ہوا؟‘‘
بولیں ’’ہاں میرا بھی یہی خیال تھا کہ تم ڈاکٹر صاحب کی رحلت کی خبر سے لاعلم ہوگی۔‘‘
’’کیا… اناللہ وانا الیہ راجعون… کب؟ کیسے؟‘‘ ایک لمحے کو لگا جیسے زمین و آسمان کی گردش تھم گئی ہو۔ دل دکھ سے اور آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔
یادوں کے سنہرے البم میں سجی خوب صورت تصویروں کے ورق کو پلٹتے میں کئی سال پیچھے جدہ کے علاقے ’’جامعہ‘‘ کے ایک گھر میں پہنچ گئی جہاں ایک آٹھ نو سال کی بچی گود میں اردو ڈائجسٹ رکھے اسے حرف حرف پڑھنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کے لیے ہر ماہ انڈیا سے بچوں کا رسالہ ’’کھلونا‘‘ اور پاکستان سے ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’پھول‘‘، ’’نونہال‘‘ وغیرہ آیا کرتے تھے، جنہیں جلدی جلدی پڑھ کر اس کی نظریں اردو ڈائجسٹ کو تلاشتی تھیں، کیوں کہ اس کے بابا اردو ڈائجسٹ کے اجراء سے ہی اس کے مستقل قاری اور سالانہ ممبر تھے(اورآج تک ہیں الحمدللہ)۔
بچی کو ڈائجسٹ کی تحریریں تو سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر پڑھنے کا چسکا ایسا تھا کہ آخری صفحے کی آخری سطر تک سب پڑھ ڈالتی۔ یوں رفتہ رفتہ اس کی زبان میں روانی، خیالات میں وسعت اور سوچ میں پختگی و گہرائی آتی گئی۔ ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہونے لگا تو وہ چھوٹے چھوٹے جملوں سے کہانی بُننے کی کوشش کرنے لگی، اور پھر ایک دن اس کی پہلی تحریر، پہلی کاوش بعنوان ’’ہم اور مچھر‘‘ ادارہ اردو ڈائجسٹ کے تحت شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘ (جس کے سرپرست ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی و الطاف حسن قریشی اور مدیر فاروق اعجاز قریشی تھے) میں بغیر کسی اصلاح/ایڈیٹنگ کے شائع ہوگئی۔
قریشی برادران اور اردو ڈائجسٹ میرے بچپن کی یادوں کے نمایاں نام ہیں۔ ڈائجسٹ پڑھتے پڑھتے غیر محسوس انداز میں نہ جانے کب میں اسے ترتیب دینے اور سنوارنے والے ذہنوں کی سوچ سے متاثر ہوکر انہیں آئیڈیالائز کرنے لگی۔
ڈائجسٹ کی تحریروں کے ذریعے دیا جانے والا اسلام، پاکستان اور اردو زبان سے محبت کا پیغام ذہن و دل میں راسخ ہوکر میری زندگی کا جزوِ لاینفک بن گیا۔ یوں میرے ادبی و صحافتی سفر کے باقاعدہ آغاز سے برسوں پہلے اردو ڈائجسٹ میری پہلی درس گاہ اور قریشی برادران میرے استاد قرار پائے۔ بعد کے برسوں میں اگرچہ تعلیمی و دیگر مصروفیات کے باعث لکھنے لکھانے کا سلسلہ تو موقوف رہا، مگر ڈائجسٹ کے مطالعے کے ذریعے ذہن سازی و تربیت کا عمل مستقل جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1998ء میں روزنامہ اردو نیوز جدہ میں شائع ہونے والی تحریر اور (اُس وقت کے) میگزین ایڈیٹر اطہر ہاشمی صاحب مرحوم و مغفور کی ذاتی دل چسپی، شفقت، محبت اور حوصلہ افزائی کے باعث جیسا تیسا ہی سہی، مگر یہ سلسلہ الحمدللہ آج تک جاری ہے۔
2004ء میں جب میں مدیرہ بنی تو دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی۔ اردو ادب میں مجھے فاطمہ ثریا بجیا کی شخصیت اور انداز متاثر کرتا تھا اور صحافت میں قریشی برادران میرے رول ماڈل تھے۔ اب قدرت نے موقع دیا تو دونوں سے براہِ راست کسبِ فیض کی خواہش چٹکیاں لینے لگی، مگر میری علمی کم مائیگی کے آگے دونوں کی بلند قامتی مائونٹ ایورسٹ کی مانند تھی، جس کے سامنے سر تو کجا میں نظریں اٹھانے کی سکت بھی خود میں نہیں پاتی تھی۔ پھر گزشتہ تجربات و مشاہدات بھی کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں تھے، جو جتنا بڑا تھا اُس تک پہنچنا اتنا ہی مشکل بلکہ ناممکن تھا… رسائی ہو بھی جاتی تو ضروری نہیں اگلا اپنی شخصیت کے تاثر کو قائم رکھتا۔ سو اس خواہش کو دبائے کچھ اور وقت گزار لیا، مگر پھر ایک دن ہمت کرکے دونوں (ڈاکٹر صاحب اور بجیا جی) کے نام ایک ایک میگزین اور خط اس خواہش کے اظہار اور درخواست کے ساتھ بھیج دیا کہ اگر انہیں اعتراض نہ ہو تو میری حوصلہ افزائی و رہنمائی کے لیے اپنا اپنا نام رسالے کے کریڈٹ پیج پر بطور صدر مجلس مشاورت اور رکن مجلس مشاورت شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ مجھے بالکل امید نہیں تھی، مگر میری سوچ کے برعکس کچھ دن کے بعد دونوں کی جانب سے موصول ہونے والے خطوط نے میرے خدشات کو خوش گوار حیرت میں بدل دیا۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود دونوں نے کمالِ فراخ دلی و اعلیٰ ظرفی کے ساتھ مجھے اپنی پُرخلوص دعائوں سے نوازتے ہوئے نہ صرف یہ کہ نام شائع کرنے کی اجازت دے دی بلکہ ڈاکٹر صاحب نے تو ہر ماہ اردو ڈائجسٹ کی طرح میرا پرچہ بھی کاروان علم فائونڈیشن کے بچوں کو بھیجنے کی خواہش ظاہر کی، جو میرے اور میرے میگزین کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ میں کچھ ہچکچائی تو الطاف صاحب نے یہ کہہ کر مجھ نوآموز، کم علم کا حوصلہ بڑھایا ’’آپ کا میگزین تو بچوں کا اردو ڈائجسٹ ہے۔‘‘
اس کے بعد کچھ بھی کہنے کی گنجائش نہیں بچی تھی، چنانچہ ان دونوں کی بات رکھنے کے لیے ہر ماہ زیادہ عرق ریزی کے ساتھ پرچہ تیار کرنے لگی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا ’’انسان محض عمر بڑھنے سے بڑا نہیں بنتا، اس کا اخلاق، کردار، ظرف اور عمل اسے بڑا بناتا ہے‘‘۔ اور یہ بڑے لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف مجھے مان دیا بلکہ پرچے کو خوب سے خوب تر بنانے کی خوب صورت ترغیب بھی دلائی۔ کاروان علم فائونڈیشن ڈاکٹر صاحب کا ایک عظیم کارنامہ، ایک ایسا کارِخیر کہ جس کی بدولت وہ یقینا بارگاہِ خداوندی ہی میں نہیں، نگاہِ رسالت مآبؐ میں بھی سرخ رو ہوں گے، اِن شاء اللہ۔
ڈاکٹر صاحب کی جوہر شناس نظروں نے ملک کے طول و عرض میں بے مول کنکروں اور پتھروں کی طرح بکھرے غریب، یتیم اور کم وسیلہ بچوں اور نوجوانوں کو ’’جوہر قابل‘‘ کا نام دیا اور مخیر حضرات کے تعاون سے ان کی تعلیم و تربیت کرکے انہیں قوم کے ماتھے کا جھومر اور ملک کے لیے سرمایۂ افتخار بنانے کا بیڑا اٹھایا، اور اپنی عمر اور صحت کی پروا کیے بغیر خود کو اس مقصد کے لیے وقف کردیا۔
اسی سلسلے میں جب 2006ء میں مَیں اپنے میگزین کے لیے ان کا انٹرویو کرنے سمن آباد والے دفتر پہنچی تو بزرگ صورت، نیک سیرت، نہایت شفیق و نفیس سے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو دروازے پر منتظر کھڑا پایا۔ ڈاکٹر صاحب سے ٹیلی فونک رابطہ تو گزشتہ دو سال سے قائم تھا، وہ گاہے گاہے پرچے سے متعلق اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے رہتے تھے، مگر بالمشافہ یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ مجھے آج بھی 6 جولائی کی وہ شام اچھی طرح یاد ہے، بہت شفقت اور خوش دلی کے ساتھ ملے، سر پر ہاتھ رکھا۔ ان کے مقام، مرتبے اور بزرگی کا احساس کرتے ہوئے جب میں نے ان سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے کیوں زحمت کی، میں خود آپ کے پاس آرہی تھی۔‘‘
بولے ’’زحمت کیسی؟ بیٹی ہو… بیٹیوں کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا تو ہمارے نبیؐ کی سنت ہے۔‘‘ پھر ہاتھ بڑھایا اور دروازے پر پڑی چک اٹھاکر اندر جانے کا راستہ دیا۔ اس پل میں نے جانا کہ سفید لباس زیب تن کرنے والے اس مہربان انسان کا من بھی اتنا ہی اجلا ہے جس سے متانت، مروت، سادگی و پاکیزگی کی کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اردو زبان کے عاشقِ صادق تھے۔ ڈائجسٹ کے لیے آنے والی تحریروں میں سے بھی چن چن کر انگریزی الفاظ نکال کر ان کے متبادل اردو لفظ دیے جاتے… پہلی مرتبہ ملاقات کے وقت میں نے بابا کا تعارف ’’یہ میرے فادر ہیں‘‘ کہہ کر کروایا تو بولے ’’بیٹی! تم نے اچھے خاصے ’’والد صاحب‘‘ کو ’’فادر‘‘ بنا دیا ہے، فادر تو انگریزوں کے چرچ میں ہوتے ہیں۔‘‘ تب سے آج تک میں نے بابا کے لیے کبھی ’’فادر‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، مگر ہماری سرکاری و نجی درس گاہیں پوری دل جمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ ننھے منے بچوں کو یہ لفظ ازبر کروانے میں مصروف ہیں۔
سردیوں میں میری صبح 12,11 بجے سے پہلے نہیں ہوتی، ایسے میں ایک دن صبح کوئی آٹھ ساڑھے آٹھ بجے فون آیا۔ ڈاکٹر صاحب تھے، بولے ’’بیٹی! ہماری بیگم پنڈی آئی ہوئی ہیں، تم سے ملنا چاہتی ہیں، شام میں واپس آجائیں گی، اگر ممکن ہو تو جاکر مل لو‘‘۔ ٹیلی فونک رابطہ تو اُن سے بھی تھا، لہٰذا اب کیسی نیند اور کہاں کی سردی! فون سنتے ہی جلدی جلدی تیار ہوکر بغیر ناشتا کیے ان سے ملنے چل پڑی۔
’’فوزیہ! میں نے سوچا آپ کو اطلاع بھی کردوں اور دونوں ایک دوسرے کو پُرسہ دے کر دل بھی ہلکا کرلیں۔‘‘ فرحت آپا کی آواز مجھے ماضی کی یادوں سے حال میں کھینچ لائی تو ایک مرتبہ پھر دکھ اور تکلیف کے احساس سے آنکھیں بھر آئیں۔
فرشتۂ اجل نے اس سعید روح، اس بطلِ جلیل، رجلِ عظیم کو بھی ہم سے چھین لیا، ابھی تو پہلے جانے والوں کا خلا پُر نہیں ہوسکا تھا، ہم اس نقصان کے متحمل کیسے ہوں گے؟ میرے مالک! قائد و اقبال کی امانت اس ملک کے حقیقی امین، ملک کی ڈگمگاتی کشتی کی پتوار مضبوطی سے تھامے رکھنے والے ناخدا ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، اب کون ساحلِِ مراد تک پہنچنے میں ہماری رہنمائی کرے گا؟ ہمارے اخلاق، کردار اور زبان کو سنوارنے کی فکر کون کرے گا؟ میکڈونلڈ اور کے ایف سی کی دیوانی اس نسل کو اپنی مٹی، اپنی تہذیہب و ثقافت پر فخر کرنا، اسلام اور پاکستان سے سچی محبت کرنا کون سکھائے گا؟ کیوں کہ اب کوئی اعجاز حسن قریشی ہم میں نہیں رہے۔
آپا! ایک بار آپ نے کہا تھا ’’فوزیہ! تم بہت امیر ہو، بہت سارے بڑے لوگوں کی محبتوں اور دعائوں سے تمہارا بینک بیلنس بھرا ہوا ہے۔‘‘ اور میں ہر لمحہ اس سب کے لیے اپنے رب کی احسان مند و شکر گزار رہا کرتی تھی، مگر آج…
آپا! دیکھیں آج آپ کی بہن کتنی غریب، کتنی تہی دست ہوگئی ہے۔ اس سے پیار کرنے والے، سر پردستِ شفقت رکھنے، دعائوں سے نوازنے والے تہِ خاک سوگئے ہیں۔ پلٹ کر دیکھتی ہوں تو ماضی کے کسی جھروکے میں چمکتی آنکھوں اور مسکراتے چہرے والی ارفع کریم (کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ورلڈ ریکارڈ ہولڈر) کھڑی نظر آتی ہے، تو دوسرے سے بجیا جی (معروف اردو ڈراما نگار) کی میٹھی، مہربان آواز سنائی دیتی ہے ’’بیٹا کراچی کب آئو گی؟ دیکھو اِس بار میں تمہیں پورا ایک مہینہ اپنے پاس رکھوں گی، جلدی جانے نہیں دوں گی… اما، ابا کو بتا دینا۔‘‘
کہیں سے اختر امام رضوی (معروف شاعر، پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) سر پر ہاتھ رکھ شاباشی دیتے ہیں ’’میری بھتیجی اور عباس کی بیٹی کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔‘‘
کسی دریچے سے کرنل غلام سرور (معلم، محقق، مصنف، دفاعی تجزیہ نگار، کالم نگار) جھانک کر خوش گوار حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں ’’اچھا تو آپ نے میری کتاب ’آئینۂ ایام‘ پڑھ رکھی ہے؟‘‘
تو دوسرے میں سید مشکور حسین یادؔ (معروف مصنف، معلم) بیٹھے 1947ء میں اپنے خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کا آنکھوں دیکھا احوال سنا رہے ہیں۔ ایک طرف عباس العزم (معروف شاعر) سے ایک خاص موضوع پر نظم لکھوانے کے سلسلے میں بات ہورہی ہے تو قریب ہی کہیں سے ابا (سید اطہر علی ہاشمی… صحافی، ماہرِ لسانیت اور مدیر اعلیٰ روزنامہ جسارت) کہہ رہے ہیں ’’بھئی سنا ہے آج کل اسلام آباد میں خوب سردی پڑرہی ہے، تم تو ٹھٹھر رہی ہوگی، ابا سے کہو وہاں سے جہاز میں بٹھا دیں، یہاں ہم اتار لیں گے، جب تک چاہو مزے سے رہنا۔‘‘ اور اب ڈاکٹر صاحب بھی ’’ماضی‘‘ ہوگئے، تاریخ کا حصہ، ایک خوب صورت یاد بن گئے۔ ایک ایک کرکے میدانِ علم و عمل کے کتنے ہی شہ سوار، ادب و صحافت کے آسمان کے دمکتے سورج، چاند، ستارے… گوہر گراں مایہ، دھرتی کا مان، وطن کی پہچان دارِ فانی سے جہانِ ابدی منتقل ہوگئے، کہ اسی وعدے پر آئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب علمی فیاض تھے، بہت سے نام نہاد ’’بڑوں‘‘ کے برعکس وہ علم بانٹنے اور سکھانے کے معاملے میںکبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ نئے آنے والوں کے لیے ان کے دل اور دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سیلف میڈ انسان تھے، ان کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت اور شخصیت ہمہ جہت تھی۔ ان کے علمی، ادبی، صحافتی، سیاسی و سماجی پہلوئوں اور کارہائے نمایاں پر بہت کچھ لکھا اور بولا جائے گا کہ یہی رسمِ دنیا اور دستورِ زمانہ ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو اسی طرح خراجِ تحسین اور نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا کرتی ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے پیار کرنے والے جہاں جہاں اور جس بھی حیثیت میں ہیں، اُن کے مشن کو اپنا مقصدِ حیات بناکر جاری رکھیں… جانے والے تو اپنے اپنے حصے کا کام کر گئے، اب ہماری باری ہے کہ آگے بڑھیں اور ان کے جلائے چراغوں کی روشنی میں ان کے نقوشِ پا پر چلتے ہوئے منزل کی جانب بڑھنے کی سعی کریں۔ یہ وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا تو ہے ہی، ہمارا فرض اور ہم پر ملک وقوم اور ڈاکٹر صاحب کا قرض بھی ہے۔
میری دعا ہے کہ رب رحیم و کریم ڈاکٹر صاحب کو اپنا قربِ خاص اور شفاعتِ رسولؐ نصیب فرمائے اور الطاف صاحب کو صحت و سلامتی کے ساتھ اس جانکاہ صدمے، عظیم نقصان کو سہنے کا حوصلہ و استقامت عطا کرے، اور ان کا سایہ تادیر قوم کے سر پر قائم رکھے، آمین۔

حصہ