راجا کی خوشبو

860

پھول و پنکھڑی کی بظاہر کوئی زبان نہیں ہوتی، یہ تو مہر و محبت کا استعارہ اور چاہت کی خاموش زبان ہے۔
میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک بھی گیا عدمؔ
وہ پھول دے کے بات کا اظہار کر گیا
شیخ سعدیؒ نے کہا تھا ’’اگر تمھارے پاس دو درہم ہوں تو ایک درہم سے تم روٹی خریدو تاکہ اپنی بھوک مٹا سکو، اور دوسرے درہم سے پھول خریدو تاکہ تمہاری روح خوش رہ سکے‘‘۔
وطنِ عزیز میں اس وقت درجنوں، سیکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پھول سے بچے آب ودانہ کی تلاش میں دردر کی خاک چھانتے پھررہے ہیں۔ خنکی میں ڈوبی ہوئی صبح ہو، یا روپہلی دوپہر، یا سنہری شام کا ملگجا منظر… ان کی بے نور آنکھیں آتے جاتے موسموں کے ہر لطف اور مزے سے یکسر عاری ہیں۔ جا بہ جا کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والے بچے اپنا پیٹ تو جیسے تیسے بھر لیتے ہیں لیکن ان کی روحیں پیاسی کی پیاسی ہی رہ جاتی ہیں۔ احساسِ محرومی کے شکار ان بچوں کے سینوں کے اندر پلنے والے عزائم اور احساس سے تو ہمار ا معاشرہ عاری ہے ہی، مگر معاشرتی ناہمواریوں اور ہولناک تضادات کے نتیجے میں ہمارے اس معاشرے کے خلاف اُن کے اندر جنم لینے والی نفرت، تشدد، جھنجھلاہٹ اور دکھ سے بے خبری کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسکول جانے والی عمر کے ان بچوں کے ہاتھوں سے کچرے کے تھیلے لے کر ان کے ہاتھوں میں بستہ تھمانا کسی بھی حکومت کے ادنیٰ منصوبوں تک میں شامل نہیں رہا۔ چائلڈ لیبر کا واویلا کیا جاتاہے لیکن اسے ختم کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھانے کا کسی میں یارا نہیں۔


پھول بیچنے والے کسی بچے کے انٹرویو کا حکم تو ڈیڑھ ماہ قبل مل گیا تھا لیکن ہم اپنے اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ،وجہ اس کی یہ تھی کہ ہم اپنے فرائضِ منصبی سے کچھ ایسے وقت فارغ ہوتے ہیں جب یہ پھول بیچنے والے بچے اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے گھروں کو جاچکے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ہماری قسمت نے خود یاوری کی۔ ہم نارتھ آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں ماحضر نوش ِجاں کرنے کے بعد ایران توران کی ہانک رہے تھے کہ اچانک ایک چھ سال کا بچہ ہاتھوں میں گجرے اور کنگن اٹھائے ہماری جانب آتا دکھائی دیا۔ اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں… ہم نے ٹھان لی کہ آج انٹرویو لے کر رہیں گے۔ ہم نے اسے آواز دی تو وہ ہماری جانب چلا آیا، مگر سوال یہ تھا کہ وہ اپنا قیمتی وقت ہمیں دے گا کیسے؟ اس مخمصے سے نکلنے کے لیے ہمارے عزیز دوست نے مشورہ دیا ’’یار ایسا کرو اس سے گجرے خرید لو‘‘۔ ہم نے اسے یقین دلایا کہ ہم تمھارے پانچ گجرے خریدیں گے، لیکن پھر بھی وہ آمادہ نہ ہوا تو ہم نے اپنی بولی دگنی کردی۔ ’’نئی‘‘ (نہیں) اس نے مُردہ سی آواز میں ہماری اس پیشکش کو بھی ٹھکرادیا، تو ہم نے اسے اس پیشکش کے ساتھ ایک عدد برگر کی بھی پیشکش کردی اور سمجھایا کہ ’’جتنی دیر میں تم ان دس گجروں کو فروخت کروگے اتنا ہی وقت ہم تم سے لیں گے، اس کے بعد چلے جانا‘‘۔ وہ شاید میری بات سمجھ گیا اور بیٹھنے پر آمادہ ہوگیا۔
ہم نے اس بچے کو اپنے روبرو بٹھایا اور پوچھا: ’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘
’’رجہ(راجا )‘‘ اس نے پھر مُردہ سی آواز میں جواب دیا۔
’’آپ کے ابو کا کیا نام ہے؟‘‘
’’وسن‘‘۔
’’آپ پڑھتے ہیں؟‘‘
’’پے سے (پیسے) نہیں ہیں‘‘۔
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’حیدری‘‘۔
’’کب سے پھول بیچ رہے ہو ؟ ‘‘
’’ ایک سال سے ‘‘ (اس نے جماہی لیتے ہوئے جواب دیا )۔
’’روزانہ کتنے پیسے مل جاتے ہیں ؟ ‘‘
’’ 30-40 روپے ‘‘۔
’’یہ پیسے کس کو دیتے ہو ؟ ‘‘
’’اماں کو ‘‘۔
’’کتنے بہن بھائی ہیں ؟ ‘‘
’’دو ‘‘۔
’’پھول کیوں بیچتے ہو؟ ‘‘
’’بس…‘‘
بس…کہہ کر وہ اٹھ کرجانے لگا، ہم نے اسے اس کا وعدہ اور معاہدہ یاد دلایا تو وہ پھر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ’’من نے (میں نے) جانا ہے ‘‘۔
’’دیکھو تمہارے لیے برگر منگوایا ہے، وہ آجائے تو کھا کر چلے جانا ‘‘۔
ہم نے اسے تسلی دے کر بٹھالیا۔
’’اچھا راجا یہ بتاؤ یہ کنگن،گجرے اور گلدستے تم خود ہی بناتے ہو؟‘‘
’’نہیں، اماں بناتا ہے‘‘۔
’’راجا یہ پھول کہاں سے لاتے ہو؟‘‘
’’تین ہٹی سے‘‘۔
’’خود لاتے ہو؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ اس نے گردن اثبات میں ہلائی جیسے اس عمل پر اپنی ستائش کا طلب گار ہو۔
’’کس موسم میں پھول زیادہ بکتے ہیں؟‘‘
’’گرمی میں‘‘۔
’’راجا یہ پھول کب سے کب تک بیچتے ہو؟‘‘
’’شام سے رات تک‘‘۔
’’تمہارا کھیلنے کو دل نہیںکرتا؟‘‘
’’’نہیں‘‘۔
’’راجا، یہ چھوٹے چھوٹے بچے بستہ اٹھائے روز صبح اسکول جاتے ہیں، تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم بھی اسکول جاؤ؟‘‘
’’ہاں‘‘۔
وہ میرے سوالات کے جواب ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ میں ایسے میکانیکی اندا ز میں دے رہا تھا جیسے ان سوالات کے جواب اس کے دماغ میں ’’فیڈ‘‘ ہوں۔ اس کی اداس اور افسردہ آنکھوں میں نیند کے خمار سے بڑھ کر انجانا خوف تھا۔ اتنا بے تاثر چہرہ اور زندگی کی ہر امید و آس سے بجھا ہوا معصوم دل آج میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔
زندگی کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ جب فارغ ہوتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ یہ اور اس نوع کے دیگر سوالات اُس کے لیے بے معنی تھے۔ راجا کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ ایسی عسرت اور کسمپرسی اور نام… راجا! حیرت تو ایک لمحے کے لیے ہوئی مگر یہ معلوم کرکے کہ اُس کا باپ کچھ نہیں کرتا، رات دن گھر پر پڑا رہتا ہے، اس کے نام کو سن کر پیدا ہونے والا اچنبھا دور ہوگیا۔ یہ راجا ہے، اس کی بہن کا نام یقینا رانی ہوگا، مگر باپ کے شہنشاہ ہونے میں یقینا کوئی شک نہیں۔ جو گھر بیٹھے اپنے معصوم بچوں کی کمائی کھاتا ہو اُسے یقینا شہنشاہ ہی کہنا چاہیے۔
’’یہ گاڑیاں دیکھتے ہو، ان کو چلانے اور ان میں بیٹھنے کا دل نہیں چاہتا؟‘‘ میں نے پہلو بدل کر راجا سے سوال کیا۔
’’نہیں‘‘۔
’’راجا تمہاری امی کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’پھول بیچتی ہیں‘‘۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ بڑے ہوکر کیا بنو گے؟‘‘
’’ٹھیلا لگائیں گے‘‘۔ اس نے اطمینان اور اعتماد سے جواب دیا جیسے زندگی کا یہ ہدف اس نے طے کیا ہو۔ اتنے میں ویٹر برگر لے کر آگیا۔
’’لو یہ کھاؤ‘‘۔
’’نہیں…‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھ کر جانے لگا۔
’’بھئی تمہارے لیے منگوایا ہے‘‘۔
’’نہیں، ابا نے منع کیا ہے‘‘۔
’’ارے بھئی کھا کر دیکھو، مزہ نہ آئے تو چھوڑ دینا‘‘۔
مگر وہ برگر نہ کھانے پر اڑا رہا۔ بے حد اصرار پر اس نے دو چار چپس لیے اور ہاتھ پونچھ کر اٹھ گیا۔ اتنے مہنگے برگر کو یوں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے زبردستی اسے لپیٹ کر اُس کے ہاتھ میں تھمادیا۔
’’امی کو دے دینا وہ کھالیں گی‘‘۔
ایک ہاتھ میں برگر اور دوسرے میں گجرے اٹھائے وہ ہجوم میں گم ہوگیا۔ اُس سے دس عدد گجرے ہم نے لے لیے۔ اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ہمیں گھورتے رہے۔کسی کے ہاتھ میں پھول ہو اور وہ بھی گجرے، تو کسی سے کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ جانے لوگ کیا کیا سوچاکیے۔ سو دوستوں، یاروں سے نظر چراتے اور دامن بچاتے دبے قدموں ریسٹورنٹ سے باہر آگئے۔ رات بھیگ چکی تھی، ہم نے اپنے دوست سے اجازت لی اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے روانہ ہوئے۔ سڑکیں سنسان اور ہُو کا عالم تھا مگر ایک سوال بری طرح کلبلارہا تھا جس کی بازگشت نے رات بھر پریشان کیے رکھا:
’’اچھا راجا یہ بتاؤ بڑے ہوکر کیا بنو گے؟‘‘
’’ٹھیلا لگائیں گے‘‘۔
ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میں آپ ہی گویا ہوا:
وہ سارے پھول سے بچے تلاشِ رزق میں گم ہیں
جنہیں اسکول جانا ہے، جنہیں تتلی پکڑنا ہے

حصہ