اکرم کنجاہی کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’مابعدِ جدیدیت اور چند معاصرِ متغزلین‘‘ شائع ہوگئی

551

اکرم کنجاہی کسبِ معاش کے حوالے سے ایک سینئر بینکار ہیں لیکن بہ حیثیت قلم کار وہ پاکستان اور دیگر ممالک کے علمی و ادبی حلقوں میں معتبر ہیں۔ ’’غنیمت‘‘ کے نام سے سہ ماہی ادبی پرچہ بھی نکال رہے ہیں اس کے علاوہ ادبی تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور تحقیق و تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تادمِ تحریر ان کے چار شعری مجموعے‘ سات کتابی تحقیق و تنقید پر‘ فن ِ تقریر پر دو کتابوں کے ساتھ ساتھ بینکنگ پر بھی دو کتابیں تحریر آ چکی ہیں یہ تمام کتب ہمارے لیے مفید ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’مابعدِ جدیدیت اور چند معاصر متغزلین‘‘ اکتوبر 2020ء میں آئی ہے۔ رنگَ ادب پبلی کیشنز کراچی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اس کتاب کے حسنِ ترتیب میں ابتدا مابعد جدیدیت کا جائزء‘ انور شعور کا رنگِ تغزل‘ جان کاشمیری کا صد رنگ میری موج‘ نسیم سحر کی نسیمِ غزل اور ڈاکٹر منور ہاشمی کی سخنِ عشق شامل ہے کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت آٹھ سو روپے ہے۔ شفقت رسول (لاہور) نے اس کتاب کے ابتدا میں کہا ہے کہ مابعد جدیدیت انسان اور اس سے متعلق علوم کو اجاگر کرتی ہے یہ جدید دور کی آئیڈیا لوجی ہے۔ اکیسویں صدی کا انسان مذہبی‘ اقتصادی اور تخلیقی آزادی کا خواہش مند ہے آج کا انسان طوفانوں کا رخ موڑنے اور سمندر کو کھنگالنے کا ہنر جانتا ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا علمی و فکری المیہ یہ ہے کہ ہم سچ بوول دیتے ہیں مگر سچائی میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں اب صورت حال یہ ہے کہ مابعد جدیدیت زنددگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے۔ مابعد جدیدیت دراصل جدیدیت کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اکرم کنجاہی نے اپنی اس کتاب میں مابعد جدیدیت کو نئی غزل کے پس منظر میں بڑی عمدگی سے تحریر کیا ہے نیز معاصرِ غزل گوئی کے جائزے میں انہوں نے جدید غزل کے تجربارت کو آگے بڑھایا ہے۔ اکرم کنجاہی نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مابعدِ جدیدیت کی کوئی ایسی تعریف طے نہیں جاسکی جس پر تمام ناقدینِ ادب متفق ہوں۔ گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت کا فلسفہ پس ساخیات والا ہی ہے۔ ادب کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ یہ منظم سماجی ضابطوں کی پیداوار ہے۔ لہٰذا سماج پر نظر رکھنا بھی قلم کار کی ضرورت ہے۔ ہینسن برٹین کے بقول مابعدِ جدیدیت ایک ایسا رویہ ہے جس کا آغاز مختلف النوع ثقافتوں کی نمو سے ہوا نیز اس کا تعلق جدید حسیت سے بھی ہے جو سماجی بھی ہے اور فنی بھی۔ وزیر آغا نے کہا تھا کہ مابعد جدیدیت آزادیٔ اظہار کی ترجمان ہے تاہم ہر زبان کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے ہم عالمی مابعد جدیدیت کی تھیوری کو بغیر ردوبدل کے قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام الناس سے جڑے رہنے والے ادب کا حامی ہے۔ مابعد جدیدیت کے بہت سے شیریں ثمرات ہمیں نئے ذائقوں سے آشنا کر رہے ہیں۔ مابعد جدیدیت ایسی تمام صورت حال سے گریزاں ہے جو پژمردگی اور قنوطیت کی فضائیں تشکیل دے۔ پاکستان میں جدیدیت کے تیسرے دور کا آغاز1958ء میں ہوا یہ سلسلہ 1980ء تک اپنے عروج پر رہا بعدازاںاس میں وہ شدت نہ رہی۔ نئی نسل شعرانے اپنے عہد اور مقامی تہذیب و تمدن کو شعری قالب میں ڈھالنا شروع کردیا ہے ہمارے عہد کے تخلیق کار نے جدیدیت کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کیا ہے کہ یہ نظریہ کسی لیبل‘ ٹیگ‘ تصور اور کسی مخصوص اسلوب بیان کی تھیوری نہیں ہے بلکہ یہ آفاقی سچائیوں کا نظریہ ہے۔ اس کتاب کے دوسرے حصے میں انور شعور کا رنگ تغزل کا تاثراتی جائزے میں تحریر ہے کہ انور شعور کے چار شعری مجموعوں اندوختہ‘ مشقِ سخن‘ می رقصم‘ دل کا کیا حال کروں میں انور شعور نے اسالیبِ زبان و بیان‘ رموز و علائم‘ اصطلاحات و تلمیحات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے ہاں غزل کے تمام رنگ نمایاں ہیں انہوں نے جو کچھ لکھا وہ سہولت اور روانی کے ساتھ لکھا‘ ان کے کلام کا بیشتر حصہ داخلی واردات کا آئینہ ہے۔ جان کاشمیری کے بارے میں اکرم کنجاہی نے لکھا ہے کہ وہ ایک زودِ گو‘ پختہ کار اور قادرالکلام شاعر ہیں ان کا ذہن فکر رسا اور زرخیز ہے‘ وہ فن کی باریکیوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ان کے کلام کی خاصی تعداد طرحی غزلوں پر مشتمل ہے‘ ان کے ہاں اظہار کی بے ساختگی و نفاست‘ فکر کی بالیدگی اور نزاکت نظر آتی ہے۔ نسیمِ غزل وہ شعری مجموعہ ہے جس کے خالق نسیمِ سحر ہیں‘ نسیم سحر کے ہاں جو داخلیت ہے‘ وہ اکتسابی نہیں انہوں نے علامتوں کو نئے رنگ سے باندھا ہے انہوں نے چشمے‘ دریا‘ ندی‘ گھٹا‘ قیامت‘ کربلا‘ لہو‘ فرات‘ بھنور‘ سمندر‘ ساحل‘ آئینہ‘ چہرہ‘ سفر‘ شہر‘ گھر‘ کھنڈر‘ وحشی ہوا‘ چراغ‘ سایہ‘ مسافر اور کالے درختوں کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے کلام میں شہر‘ سنگ دلی‘ بے وفائی‘ بے حسی‘ خود غرضی‘ اجنبیت‘ بے چہرگی‘ تنگ دستی کی علامات‘ منفی روّیوں کے مظاہرے ہیں۔ اکرم کنجاہی کی اس کتاب میں ڈاکٹر منور ہاشمی کے فن اور شخصیت پر بھی بات کی گئی کہ ان کی غزلوں میں جو مغموم اور افسردہ فضا ہے وہ ان کی داخلی اور تمدنی احوال کی عکاس ہے انہوں نے عشق کے دائمی جذبے کو اپنے گردوپیش اور اس عہد کی مروجہ اخلاقی حدود و قیود کے دائرے میں پیش کیا ہے ان کی غزلوں میں رومانی کیفیات بہ درجہ اتم موجود ہیں‘ ان کی زندگی کا طویل عرصہ سعودی عرب میں گزرا ہے لہٰذا وہاں کے مسائل و خوبیاں بھی ان کے ہاں نظر آتی ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نثار کے نزدیک اکرم کنجاہی نے ان چاروں شعرا کی شاعری پر بڑی ذمہ داری سے بحث کی ہے۔ انور شعور پر 32 صفحات‘ جان کشمیری پر 54 صفحات‘ نسیم سحر پر 112 صفحات اور منور ہاشمی پر 34 صفحات کے مقالے لکھے ہیں جس کا تفصیلی جائزہ اس ادبی کالم میں ممکن نہیں۔ گزشتہ ہفتے میری ان سے ایک ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کراچی کی تمام ادبی انجمنوں کی تعریف کی کہ یہ لوگ ادب کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اختلافات اور مخالفتیں اگر مثبت ہوں تو ہماری زبان و ادب میں ترقی ہوتی ہے ورنہ گروہ بندیوں سے ادب کو نقصان ہوتا ہے۔ دبستان کراچی کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم کسی کو ’’تسلیم‘‘ نہیں کرتے بلکہ اس کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اس بارے میں اربابِ ہنر کو چاہیے کہ وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔

حصہ