امتیازی خصوصیت

386

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں لندن دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت ہے، جس کے بعد اسلام آباد کا نمبر آتا ہے۔ اسلام آباد کی وجۂ شہرت سرسبز و شاداب درخت، آسمان سے باتیں کرتے مارگلہ کے پہاڑ، آبشاریں اور کشادہ سڑکیں ہیں۔ اسلام آباد نہ صرف پاکستان کا سب سے زیادہ شرح خواندگی والا شہر ہے بلکہ اس کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت کی یہ بیان کردہ وجۂ شہرت اپنی جگہ، لیکن یہ شہر ایک ایسی خصوصیت سے بھی مالامال ہے جو شاید ہی ملک میں بسنے والوں کے علم میں ہو۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جو لوگ اب تک اسلام آباد نہ دیکھ سکے وہ اس سے لاعلم ہیں۔ وہ امتیازی خصوصیت کیا ہے؟ چلیے موضوع بدلتے ہوئے بات لمبی کرتے ہیں، شاید اسی دوران میرے پڑھنے والے اسلام آباد کی اس وجۂ شہرت کو بھی جان لیں جس سے میں بھی ناواقف تھا۔
میری بڑی بہن گزشتہ تین دہائیوں سے اسلام آباد میں مقیم ہیں، چونکہ میں لمبے سفر سے بچتا ہوں اس لیے میرا بہن کے گھر کم کم جانا ہوتا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اپنے گھر والوں کے مقابلے میں اپنی بڑی بہن کے گھر ایک سے دو مرتبہ ہی جاسکا تو غلط نہ ہوگا۔ رہی سہی کسر وائی فائی سروس نے پوری کردی۔ سائنس جتنی بھی ترقی کرلے، لوگ ایک دوسرے سے بذریعہ اسکائپ گھنٹوں رابطے میں رہیں، لیکن بعض معاملات اور تقریباًت ایسی ضرور ہوتی ہیں جن میں انسان کا ذاتی طور پر شریک ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ میری بھانجی کی شادی بھی ایک ایسی تقریب تھی جس میں میری حاضری نہ صرف انتہائی ضروری تھی بلکہ کسی فریضے سے کم نہ تھی۔ بس پھر کیا تھا، جوں جوں رخصتی کی تاریخ قریب آتی گئی مجھ سمیت تمام ہی گھر والے اسلام آباد جانے کی تیاریاں بڑے زور شور سے کرنے لگے۔ بچوں کی خوشی قابلِ دید تھی، سب کے ذہن میں سوائے شادی میں شرکت کے کچھ نہ تھا۔ بس اسی گہماگہمی میں وہ وقت آگیا اور ہم اسلام آباد کے لمبے سفر پر روانہ ہوگئے اور اگلی شام بہن کے گھر پہنچ گئے، جہاں شادی کی تقریبات شروع تھیں۔ اس تقریبِ سعید میں بھرپور شرکت کے بعد ہمارے وہاں رہنے کا واحد مقصد بچوں کو اسلام آباد کی سیر کرانا تھا۔ پروگرام کے مطابق تیسرے دن میں بچوں کو لے کر فیصل مسجد دیکھنے اسلام آباد کے اطراف کھڑے بلند وبالا پہاڑوں کی جانب چلا گیا، اس دوران میرا بھانجا شکیب بھی ساتھ تھا۔ وہاں سے ہماری واپسی خاصی دیر سے ہوئی۔ یوں اسی رات میں اسلام آباد کی اس وجۂ شہرت سے بھی آشنا ہوگیا جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ جی ہاں مجبور کردیا۔ مجھے اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے عام گشت کرتے سوروں کے درجنوں ریوڑ نظر آئے، جو سر جھکائے بلا خوف و خطر انسانی آبادیوں کی جانب پیش قدمی کررہے تھے۔ جبکہ سڑک عبور کرنے والے لوگ ان سوروں کے گزر جانے کے انتظار میں سڑک کی دوسری جانب کھڑے تھے۔ یہ سارا ماجرا میرے لیے حیران کن تھا۔ گھر پہنچنے کے بعد میں رات کے تیسرے پہر تک اسی موضوع پر گفتگو کرتا رہا۔ میری بہن کے گھر والوں کے لیے میری یہ باتیں معنی خیز نہ تھیں۔ میری بڑھتی ہوئی تشویش کو بھانپتے ہوئے شکیب نے مجھ سے کہا:
’’ماموں چھوڑیئے، آپ بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے! ابھی آپ گھر سے باہر جائیں، دو تین سور تو گلی میں گھومتے ہوئے نظر آجائیں گے۔ رات میں اسلام آباد کی سڑکوں اور گلیوں میں انہی کا راج ہوتا ہے، یہ دوڑتے ہوئے اکثر لوگوں کی ٹانگوں سے ٹکراتے ہوئے جاتے ہیں۔ برساتی نالوں اور بازاروں کے ساتھ بنے پبلک باتھ رومز کے گرد تو یہ دن کے اوقات میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔‘‘
شکیب کی ان باتوں نے مجھے مزید حیرت زدہ کردیا۔ وہ مطمئن تھا، اس سے پہلے کہ وہ کوئی دوسری بات شروع کرتا، میں نے کہا:
’’بیٹا یہ سور ہے۔ خنزیر نجس اور حرام جانور ہوتا ہے، بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہوتا ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، ایسے میں تمہارا اطمینان میری سمجھ سے باہر ہے۔ خاص طور پر یہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں، اور یہ انتظامیہ کیا کررہی ہے؟ کیوں اس خطرناک جانور کو شہر بدر نہیں کرتی؟ کیا اس کے خلاف کوئی ایسا آپریشن نہیں کیا جاسکتا جس سے اسلام آباد کے شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنایا جاسکے؟ وزیروں، مشیروں کی ایک فوجِ ظفر موج موجود ہے، اور خود وزیراعظم بھی یہاں رہتے ہیں۔ یہاں پارلیمنٹ ہاؤس سمیت دیگر اہم سرکاری عمارتیں ہونے کے باوجود اس خطرناک صورتِ حال پر اربابِ اختیار کا آنکھیں بند کیے بیٹھے رہنا عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے!‘‘
’’ماموں جان آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اسلام آباد چونکہ پہاڑوں کے سنگم میں واقع ہے اور خاصا سرسبز و شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اطراف میں گھنے جنگلات بھی ہیں جو سوروں کے چھپنے کا محفوظ ٹھکانا ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں، اس حقیقت سے سبھی لوگ واقف ہیں کہ جب دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا یعنی اسلام آباد کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ جنگل ہوتا تھا، اُس زمانے میں یہاں مختلف جانوروں کے ساتھ ساتھ سور بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، اور آج بھی نہ صرف بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ اب تو دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سوروں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سوروں کے ایک جوڑے کے ہاں ہر چار ماہ میں لگ بھگ درجن بھر بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، اتنی تیز ہونے والی افزائشِ نسل سے کوئی پریشان ہو یا نہ ہو، حکومت پُرسکون ہے۔ اورجہاں تک اسلام آباد انتظامیہ کا تعلق ہے، وہ بڑے اطمینان میں ہے۔ شہر کی انتظامیہ سوروں کی بڑھتی آبادی سے بالکل بھی پریشان نظر نہیں آتی۔ وہ تو انہیں شہر کی صفائی ستھرائی کا ایک ایسا قدرتی ذریعہ سمجھتی ہے جو کوڑے میں پھینکی گئی کھانے پینے کی اشیاء، خاص طور پر مُردار جانوروں کی لاشوں کو اپنے ساتھ لے جاکر شہریوں کو تعفن سے بچاتے ہیں۔ رات کے اوقات میں اکثر سوروں کے غول شہر کی کچرا کنڈیوں پر امنڈ آتے ہیں۔ یہ روز کا معمول ہے کہ سورکوڑے سے اپنی خوراک ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ سوروں کی موجودگی یہاں کی زندگی کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ اب تو اسلام آباد کی گلیوں اور سڑکوں پر کتے، بلیوں کی طرح گھومتے ان سوروں کو دیکھ کر کوئی خوف نہیں کھاتا۔ یہاں سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں بھی قطار میں جاتے سوروں کی آمد و رفت میں کسی قسم کا کوئی خلل نہیں ڈالتیں، بلکہ درجنوں سوروں کو سڑک پار کرتے دیکھ کر پورا پروٹوکول دینے کے لیے ایک طرف کھڑی ہوجاتی ہیں۔ آپ نے چونکہ یہ پہلی مرتبہ دیکھا ہے اس لیے حیرت زدہ ہیں، لیکن ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔‘‘
’’شکیب بیٹا تمہاری باتیں ہوسکتا ہے اپنی جگہ ٹھیک ہوں، لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ انتہائی خطرناک جانور ہے جو انسانوں پر حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ظاہر ہے لوگ اپنے کاموں کے سلسلے میں باہر نکلتے ہیں، اس دوران سوروں کے حملے کی وجہ سے کسی کی بھی جان جا سکتی ہے، میں تو اس جانب اشارہ کررہا ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں ماموں جان ایسا نہیں ہے، اسلام آباد کے رہائشی جانتے ہیں کہ گلیوں اور بازاروں میں گھومنے والے سور ان پر حملہ نہیں کرسکتے، ہاں جنگلی سور ایسا ضرور کرسکتا ہے۔ ایسے واقعات ہوئے ہیں، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو سور شہر میں آجاتے ہیں اُن میں خاصی تبدیلی آجاتی ہے۔ ہم اپنی اور وہ اپنی زندگیوں میں مست ہیں۔ یہی اسلام آباد کا رنگ ہے جو دوسرے شہروں سے مختلف ہے۔ میں پھر کہتا ہوں اس کے بارے میں نہ سوچیں، فریش ہوجائیں، کل کسی اور جگہ جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔‘‘
شکیب نے اپنے تئیں بڑی آسانی سے میرے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات وخیالات کا رُخ دوسری جانب موڑ دیا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے اور اچھی نوکری حاصل کرنے کے باوجود شاید اس بات سے ناواقف ہے کہ اپنے ماموں کے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات کو دبانا کم سے کم اُس کے بس کی بات نہیں۔ اُسے کیا خبر کہ ان سوروں کے حوالے سے میری سوچ کہاں تک جاپہنچی ہے! وہ کیا جانے جس ملک میں مُردار اور گدھے کا گوشت فروخت کردیا جائے وہاں کورونا وائرس کے باعث بڑھنے والی بے روزگاری سے تنگ لوگ سور کے گوشت کی فروخت جیسے انتہائی اقدام کی جانب بھی جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق جب گھر میں بھوک نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں تو ذہن میں ایسے خیالات کا ابھرنا فطری عمل ہے۔ بس یہی وہ وجہ ہے جو میرے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔
آخر میں اربابِ اختیار سے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خدارا پاکستان جیسے اسلامی ملک کے دارالحکومت کو اس نجس جانور سے پاک کرنے کے لیے فوری طور پر ایسے اقدامات کریں جس سے نہ صرف انسانی جانوں کو تحفظ فراہم ہوسکے، بلکہ غربت اور بے روزگاری سے تنگ افراد کے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کسی انتہائی اقدام کی جانب جانے کا راستہ بھی بند ہوجائے۔
nn

حصہ