سلیم احمد

1293

’’بیاض‘‘ کی شاعری میں جو موضوعات میں نے لیے ہیں ان کا طنز کے بغیر لکھنا ناممکن تھا۔ آج بھی ایک حلقہ میری اس زمانے کی شاعری کے خلاف بے انتہا پروپیگنڈا کرتا ہے، حالاں کہ پورے مجموعے میں صرف چار یا پانچ اشعار ایسے ہیں جن میں جنس کا بیان ہے اور اسے تم غور سے دیکھو تو وہ صرف سماجی طنز ہے۔ جو لوگ اتنا نہ سمجھتے ہوں ان سے کیا بات کی جاسکتی ہے
طاہر مسعود: آپ کا شعری مجموعہ ’’اکائی‘‘ آیا تو ادبی حلقوں میں ایک بحث چھڑی کہ آپ کی ’’بیاض‘‘ کے زمانے والی شاعری زیادہ وقیع، گہری اور اچھی ہے، برعکس اس کے بعضوں کا خیال ہے کہ ’’اکائی‘‘ میں آپ کا شعری سفر بہت آگے بڑھا ہے۔ آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
سلیم احمد: جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا لوگوں کو میری پچھلی شاعری زیادہ پسند آتی جائے گی۔
طاہر مسعود: اس کی وجہ؟
سلیم احمد: وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سطح پر کی گئی ہے جس کا چھونا آسان نہ تھا۔ میرے بارے میں بعض تعصبات ایسے رہے ہیں جس کی وجہ سے میری اس زمانے کی شاعری کے متعلق صحیح فیصلہ نہیں ہوسکا۔ مثلاً حسن عسکری صاحب کا خیال یہ تھا کہ ’’بیاض‘‘ کی شاعری کے دو شعر دوسروں کے دیوانوں پر بھاری ہیں۔ وہ یہ بات بڑے بڑے شعرا کے نام لے کر کہتے تھے۔ میں ان کے نام نہیں لوگا۔ تو جناب رائے تو موجود تھی اور ایکسپرٹ کی رائے تھی۔
طاہر مسعود: عسکری صاحب نے آپ کی شاعری پر تحریری رائے کیوں نہیں دی؟
سلیم احمد: عسکری صاحب نے 1947ء میں تین شاعروں کو متعارف کرایا تھا۔ ناصر کاظمی، جمیل الدین عالی اور میں۔ بعد میں وہ سب سے مایوس ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آگیا کہ وہ صرف مجھے ایپروو کرتے تھے۔ اس وقت ان کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ میری غزلیں وہ اپنے ہاتھ سے نقل کرتے تھے اور لوگوں کو بھیجتے تھے۔ وہ مجھ پر مضمون لکھنے کو بہت بے تاب تھے لیکن میں نے کہا کہ عسکری صاحب آپ ایسے آدمی ہیں کہ اگر آپ میری شاعری پر مضمون لکھ دیں گے تو لوگ میری شاعری کو بھول جائیں گے اور کل سے آپ کے مضمون کا تذکرہ شروع کردیں گے۔ لہٰذا آپ نہ لکھیں اور میری شاعری کے متعلق لوگوں کی آزاد رائے بننے دیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ عسکری میرے لیے کیا تھے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ میں عسکری کے لیے کیا تھا؟ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ وہ میرے کہنے پر دوسروں کے لیے لکھ دیتے تھے۔ ہندوستان و پاکستان کا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جس سے میں اپنی شاعری پر لکھنے کے لیے کہوں اور وہ انکار کردے۔
طاہر مسعود: لکھنے کے حوالے سے مجھے ساقی فاروقی اور آپ کے تنازعے کا خیال آیا۔ وہ کیا قصہ تھا کہ آپ کے شعری مجموعے کا دیباچہ ساقی فاروقی نے لکھا اور مجموعے میں شامل نہیں ہوا تو ساقی نے اسے ’’اوراق‘‘ میں چھپوا دیا؟
سلیم احمد: بات یہ ہے کہ ساقی فاروقی یہاں آئے تو ان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے پبلشر کی عدم دست یابی کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں سارا مسودہ لے جاتا ہوں، میں پبلشر کا بندوبست کردوں گا اور آپ کی شاعری کا انتخاب بھی کروں گا اور پیش لفظ بھی لکھوں گا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ وہ مسوّدے کو اپنے ہم راہ لے گئے لیکن انہیں پبلشر تو ملا نہیں البتہ انہوں نے بڑی محنت سے اس کا انتخاب کیا اور میری شاعری پر مضمون لکھا اور اطہر نفیس کو بھجوایا۔ اطہر مرحوم میرے پاس آئے اور انہوں نے اس مضمون کو شائع کرنے سے انکار کردیا۔ (وہ میری کتاب چھپوا رہے تھے) انہوں نے مجھے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ساقی نے مضمون آپ کی نظموں کے حوالے سے لکھا ہے جب کہ آپ اصل میں غزل کے آدمی ہیں۔ دوسرے یہ کہ مضمون میں آپ کا موازنہ منیر نیازی سے کیا گیا ہے۔ منیر نیازی شاعری خواہ کتنے ہی اچھے ہوں لیکن آپ کی اور منیر نیازی کی شخصیت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ پھر تیسرے یہ کہ مضمون میں منیر نیازی کو برا کہا گیا ہے اور آپ کی شاعری کی تعریف کی گئی ہے لہٰذا منیرنیازی یہ سمجھیں گے کہ چوں کہ ساقی فاروقی ان کے حلقے کا آدمی ہے اس لیے سلیم احمد نے بہ طور خاص یہ مضمون لکھوایا ہے اور یوں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگا۔ میں نے اطہر نفیس سے کہا کہ آپ اپنی یہ ساری باتیں ساقی کو لکھ بھیجیں۔ تھوڑے دنوں بعد ساقی کا میرے پاس خط آیا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں لکھا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ کتاب اطہر نفیس چھپوا رہا ہے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس پر وہ خفا ہوگئے اور انہوں نے اپنا مضمون ’’اوراق‘‘ میں چھپوا دیا اور نوٹ لگادیا کہ میں بہتر منیر نیازی کو بہتر سلیم احمد سے بہتر سمجھتا ہوں۔ گویا انہوں نے اپنی پچھلی رائے سے رجوع کرلیا۔ اس پر میرے ایک گہرے دوست نے تبصرہ کیا کہ ساقی فاروقی آپ کا دوست ہے۔ اگر آپ نے یہ مضمون نہیں چھاپا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ مضمون کو چاک کردیتا۔ اب کے جب ساقی فاروقی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ بھئی سب سے پہلے یہ معاملہ صاف ہونا چاہیے۔ انہوں نے دس آدمیوں کی موجودگی میں جواب دیا۔ ’’سلیم بھائی! بات ختم ہوگئی ہے اور میرے دل میں کوئی بات نہیں ہے‘‘۔
طاہر مسعود: آپ کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ روایتی اور درماندہ شاعری سے بیزار ہیں، دوسری طرف آپ کی شاعری میں جو استعارے اور علامتیں ہیں وہ قطعی طور پر روایتی ہیں، شاید اس لیے آپ کے نقادوں کا کہنا ہے کہ آپ کی شاعری جدید طرز احساس سے محروم ہے۔
سلیم احمد: ’’بیاض‘‘ میں میرا 45ء سے لے کر 53ء تک کا کلام جمع ہے۔ یہ ایک مخصوص دور کے اشعار ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی ایک بات نہیں کہی جاسکتی۔ پچھلے پینتیس سال میں جو میرے تجربات یا شاعری میں تبدیلیاں آئی ہیں، ظاہر ہے ایک مخصوص دور کی شاعری میں اس کا اظہار تو ناممکن ہے۔ مختلف دور میں میں نے مختلف طرح کے اشعار کہے ہیں۔
طاہر مسعود: ہمارے ہاں گفتگوئوں میں عموماً ’’جدید حسیّت‘‘ کا ذکر آتا ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کے ذہن میں جدید حسیّت کا مفہوم کیا ہے؟۔
سلیم احمد: جدید حسیّت کا ذکر جب میں نے بہت سنا تو میں ایک دن ریڈیو اسٹیشن گیا اور سب کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگ جدید حسیت کا ذکر بہت کرتے ہیں۔ ذرا مجھے بتائیے کہ یہ کیا ہوتی ہے؟ اس پر وہ مجرد دلائل پیش کرنے لگے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پہلے مذہب اور اقدار پر یقین تھا اب یہ یقین نہیں رہا اور یہ اور وہ۔ میں نے ان سے کہا، بھئی مجرد باتیں نہ کریں بلکہ مجھے کچھ نمونے بتائیں تا کہ میں اسے دیکھ سکوں اور آئندہ کہیں دیکھوں تو فوراً پہچان جائوں۔ اس پر آپ یقین جانیے کہ وہ ایک شعر اور ایک مصرعے سے زیادہ کچھ اور نہیں سنا سکے۔ شعر تو یہ تھا کہ:
بانوئے شہر سے کہہ دو کہ ملاقات کرے
ورنہ ہم جنگ کریں گے وہ شروعات کرے
اور مصرع یہ ہے:
پرندے شام کو اُڑتے ہوئے اچھے لگے ہم کو
طاہر مسعود: آپ نے تصدیق کی کہ ان میں جدید حسیّت موجود ہے؟
سلیم احمد: جی نہیں! میں ہنستا رہا اور اس پر ہنسنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ کی شاعری کا لہجہ کہیں کہیں بے پناہ طنزیہ ہوجاتا ہے۔ بالخصوص ’’بیاض‘‘ کی شاعری میں یہ لب و لہجہ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ تقسیم کے بعد کے شاعروں میں طنز کی یہ کاٹ ہمیں ظفر اقبال کے ہاں ملتی ہے۔ آپ یہ فرمائیے کہ کیا آپ نے یہ لہجہ رومانوی پیرایۂ اظہار سے بچنے کے لیے شعوری کوشش کے طور پر اختیار کیا؟
طاہر مسعود: ’’بیاض‘‘ کی شاعری میں جو موضوعات میں نے لیے ہیں ان کا طنز کے بغیر لکھنا ناممکن تھا۔ آج بھی ایک حلقہ میری اس زمانے کی شاعری کے خلاف بے انتہا پروپیگنڈا کرتا ہے، حالاں کہ پورے مجموعے میں صرف چار یا پانچ اشعار ایسے ہیں جن میں جنس کا بیان ہے اور اسے تم غور سے دیکھو تو وہ صرف سماجی طنز ہے۔ جو لوگ اتنا نہ سمجھتے ہوں ان سے کیا بات کی جاسکتی ہے۔ تم نے ظفر اقبال کا نام لیا۔ انہوں نے بھی میرے بعد ایسی شاعری کی جس میں طنز کا لہجہ نمایاں تھا۔
طاہر مسعود: مناسب ہوگا کہ یہاں میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کا نظریۂ شعر کیا ہے؟
سلیم احمد: نظریے کا لفظ میری چڑ ہے۔ چاہے یہ نظریۂ حیات ہو یا نظریۂ شعر۔ جب سے اسلام کے نظریۂ حیات ہونے کا شہرہ ہوا ہے، میں اس کے خلاف لکھتا رہتا ہوں۔ میرا کوئی نظریۂ شعر نہیں ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ مختلف زبانوں میں کس کس قسم کی شاعری ہوئی ہے اور اس میں کس کس قسم کا کمال حاصل کیا گیا ہے۔ اس طرح مختلف قسم کی شاعری کے مختلف تصورات میرے ذہن میں موجود ہیں جن میں ایک بات مشترکہ ہے کہ شاعر وہ لکھے جس نے اس کی روح میں تحریک پیدا کی ہو۔ صرف ذہن یا جذبات کو نہیں بلکہ پورے وجود کو۔
طاہر مسعود: اس تعریف کی روشنی میں آپ خود اپنی شاعری کو کیسا پاتے ہیں؟
سلیم احمد: میری شاعری کا ایک حصہ وہ ہے جو میں نے عسکری صاحب کی زیر تربیت لکھا اور شاعری کا دوسرا حصہ وہ ہے جس میں، میں نے اپنے تجربے کو بیان کرنے کی کوشش کی۔ میں اس حصے کو جو میں نے عسکری صاحب کی زیر ہدایت لکھا، بڑی اہمیت دیتا ہوں، اس کی مدد سے میں نے لفظوں کو جوڑنا سیکھا۔ مختلف جذبات، مختلف اسالیب اور لب و لہجے استعمال کرنے پر اپنی بساط کی حد تک قابو حاصل کیا اور اس کی مدد سے میں نے اپنے امکانات کو جاننے کا سفر طے کیا ۔
طاہر مسعود: آپ نے ایک طویل نظم ’’مشرق‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ غالباً آپ نے اپنے طور پر شاعری میں ایک نیا تجربہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نظم کا محرک کون سا جذبہ تھا؟
سلیم احمد: ہوا یوں کہ 70ء کے قومی انتخابات ہوئے تو میں نے جماعت اسلامی کی کامیابی کے لیے بے انتہا کام کیا۔ ’’جسارت‘‘ میں، میں اپنے اور کئی قلمی ناموں سے مضامین لکھا کرتا تھا لیکن جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو جماعت اسلامی ہار گئی تھی۔ مجھے اس واقعہ سے شدید ذہنی صدمہ پہنچا۔ میں کئی راتوں تک سو نہیں سکا۔ لوگ آتے تھے اور ہم بیٹھ کر شکست کے اسباب کا تجزیہ کرتے تھے۔ ایک رات اسی اضطراب کے عالم میں وہ نظم شروع ہوگئی۔
طاہر مسعود: دور حاضر کے کن شعرا کو آپ اپنا تخلیقی ہم سفر تصور کرتے ہیں؟
سلیم احمد: میرے ابتدائی ہم سفر تو ناصر کاظمی اور جمیل الدین عالی تھے۔ مجھے ان دو ہم عصروں سے بڑی توقعات تھیں۔ تیسرا نام عزیز حامد مدنی کا تھا جو ہم سے زیادہ اہم تھا اس کے بعد منیر نیازی۔ بعد کے ہم سفروں میں جن کو میں اہمیت دیتا ہوں ان میں ظفر اقبال کا نام سرفرہست ہے۔ اب محشر بدایوانی ہیں۔ ہم سے جونیئر لوگوں کی دو تین صفیں ہیں یعنی کچھ لوگ 1960ء کے قریب اُبھرے، کچھ ان کے بعد۔ ان میں جن لوگوں سے مجھے بڑی توقع تھی ان میں اطہر نفیس، نصیر ترابی، سحر انصاری وغیرہ۔ لاہور میں ایک بہت اہم نام احمد مشاق کا تھا اور شہزاد احمد کا۔ بالکل نوجوان نسل میں پروین شاکر، ثروت حسین، جمال احسانی، افتخار عارف، شوکت عابد اور جاذب قریشی ہیں۔ ساقی فاروقی میرے بہت پسندیدہ شاعر تھے اور اس سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن پچھلے دس برسوں میں اس نے بہت زیادہ مایوس کیا اور اپنے حالیہ دورے کے دوران اس نے جو نظمیں سنائیں وہ تو مجھے بالکل ہی ناکام نظمیں معلوم ہوئیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں کوئی موضوع باقی نہیں رہا۔ صرف خارجی موضوعات پر گزر اوقات کررہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے باطن میں کچھ تلاش نہیں کررہا لیکن اگر ہم ایک واضح انفرادیت کی تلاش کریں جس نے ایک نئے طرز احساس کے ساتھ ایک نیا لب و لہجہ پیدا کرکے دکھایا ہے تو وہ انور شعور ہے، مجھے اس میں بڑے امکانات نظر آتے تھے۔ کراچی میں ایک اہم نام جون ایلیا کا ہے۔ لاہور کے نئے شعرا میں اختر حسین جعفری بہت پسند ہیں۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہوگی، اگر میں رضی ترمذی صاحب کا ذکر نہ کروں، وہ پرانے لکھنے والے ہیں مگر گوشہ نشین آدمی ہیں جس کی وجہ سے انہیں وہ شہرت و مقبولیت نہیں ملی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔


طاہر مسعود: مجید امجد، وزیر آغا اور مشفق خواجہ کی شاعری کے متعلق آپ نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا؟
سلیم احمد: وزیر آغا تو شاعر ہی نہیں ہیں۔ وہ عالم ہیں۔ محقق ہیں، وڈیرے ہیں۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اگر وہ شاعری کو چھوڑ دیتے تو ان کا کچھ زیادہ نقصان نہ ہوتا۔ مجید امجد کئی اعتبار سے بہت اہم شاعر ہے، لیکن ان کا اسلوب اور ڈکشن ایسا ہے کہ جو میرے مزاج کی بعض محدودات کی وجہ سے مجھے پسند نہیں آیا۔ انہوں نے کبھی میرا دل نہیں چھوا۔ سجاد میر مجھ سے مجید امجد کے لیے لڑتے رہے لیکن مجھے قائل نہ کرسکے۔ رہی سہی کسر اس پروپیگنڈے نے پوری کردی جو لاہور میں ان کے مرنے کے بعد نعرے بازی کی شکل میں شروع کیا گیا جس میں انہیں کبھی میر اور غالب کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر اور کبھی تین سو سال کا سب سے بڑا شعری ذہن قرار دیا گیا۔ جب اتنی ننگی پبلسٹی کی جاتی ہے تو میری روح اس سے انکار کردیتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ مانے سے انکار کردوں۔ اس پبلسٹی کی وجہ سے غالب اور اقبال کے خلاف میرے اندر ردّعمل پیدا ہوا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تعریف نہیں کی جارہی، مال کا نیلام اُٹھایا جارہا ہے اور نیلامی بولیوں سے مجھے گھن آتی ہے۔
طاہر مسعود: سوال یہ ہے کہ جن کی تعریف کی جاتی ہے ان کا کیا جرم ہے؟
سلیم احمد: ان کا جرم یہ ہے کہ اتنے چھٹ بھئیوں کو انہوں نے متاثر کیا۔ مشفق خواجہ بڑی خطرناک چیز ہے۔ میں جن تین چار آدمیوں سے ڈرتا ہوں، ان میں مشفق خواجہ بھی ہیں۔وہ اچھے شاعر بن سکتے تھےمگر توجہ نہیں دی انھوں نے اپنی شاعری کی طرف اس کا نان نفقہ ادا کرنے میں ہمیشہ کوتاہی کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی اس اولاد کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی شاعری ان سے کبھی بدلہ ضرور لے گی اور انہیں اس کا حساب کتاب صاف کرنے میں بڑے امتحان سے گزرنا پڑے گا۔
طاہر مسعود: بعض شعرا میں مقبول شاعری کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ وہ مقبول شاعری کو اعلیٰ تخلیقی اور فنی درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے، آپ کے مقبول شاعر پر کیا اعتراضات ہیں؟
سلیم احمد: مقبول شاعری کے دو معنی ہیں۔ حافظ کی شاعری ایک زمانے کی مقبول ترین شاعری تھی۔ مولانا روم کی شاعری خواص سے عوام تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک طرف عالم اسے پڑھتے تھے تو دوسری طرف سڑکوں پر فقیر اسے گاتے تھے۔ یہی حال سعدی اور امیر خسرو کا ہے اور یہی غالب، نظیر اکبر آبادی اور انیس کا۔ مقبول شاعری کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ وہ شاعری ہے جو خواص کی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے اور عوام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں مقبول شاعری وہ ہے جن معنوں میں مقبول شاعری خواص کو مطمئن نہیں کرتی۔ صرف عوام کی پسند کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً فراز اور ساحر وغیرہ کی شاعری۔ اس شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عوام کے وقتی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور اس سے اوپر اُٹھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ سیاسی اور ہلکی پھلکی رومانیت ہے۔
طاہر مسعود: نئے لکھنے والوں میں غیر ملکی شعرا کے زیر اثر نظمیں لکھنے کا رواج چل پڑا ہے۔ ان میں بعض علی الاعلان اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ نیرودا، سینٹ جان پرس یالورکا سے متاثر ہیں اور اردو میں ان جیسی نظمیں لکھنے کی مشق کررہے ہیں۔ آپ اس نوعیت کی کوشش کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
سلیم احمد: متاثر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ حضرات صرف متاثر نہیں ہیں بلکہ سیدھے سادے چوری کررہے ہیں۔ میں ان میں سے کئی حضرات کو جانتا ہوں جنہوں نے مختلف شعرا کی نظمیں ان کے حوالے کے بغیر ترجمہ کر ڈالی ہیں اور اپنے نام سے چھپوا لی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اصول یہ بھی ہے کہ لٹریچر لفظ اور زندگی کا مجموعہ ہے۔ لٹریچر سے لٹریچر پیدا نہیں ہوتا، جیسے خچر سے خچر پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی نظموں میں بیش تر زندگی کا تجربہ غائب ہے اور اگر کچھ تجربہ ہے تو مصنوعی اور اوڑھا ہوا۔ اسی لیے یہ شاعری غیر مانوس معلوم ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: کیا مقبول شاعری کرنے کے مقابلے میں ایسی نامانوس شاعری کرنا بہتر نہیں ہے؟
سلیم احمد: ہاں! کیوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعری بہرحال بہتر شاعری سے اثر قبول کررہا ہے۔
طاہر مسعود: اردو کے نقاد، شاعری کے سلسلے میں مختلف نوعیت کے نظریات تراشتے رہتے ہیں۔ لیکن شعرا یا تو اس نظریے کی روشنی میں شاعری تخلیق نہیں کرپاتے یا ان نظریات کا عملی اطلاق ان کے بس سے باہر کی چیز ہوجاتا ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟
سلیم احمد: پہلی بات تو یہ ہے کہ نقاد کو شاعری پہنچتی بھی ہے یا نہیں؟ بیش تر نقادوں کو شاعری نہیں پہنچتی۔ وہ شاعری کے بارے میں نظریہ سازی کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے شاعرانہ قدر و قیمت کے تعین میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شاعری اپنے تجربے سے ہوتی ہے، جب اس پر نظریے کی ٹوپی اوڑھائی جاتی ہے تو ٹوپی کبھی سر پر آتی ہے اور کبھی نہیں۔
طاہر مسعود: تنقید کا ایک مقصد ذوق کی اصلاح (To Correct The Taste) ہے۔ آپ کے خیال میں ہمارے نقادوں نے ادب کے قارئین کے ذوق کو کتنا بلند یا بہتر بنایا ہے؟
سلیم احمد: نقاد بد مذاقی پھیلانے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ پارٹی بندی ہے۔ خواہ ذاتی تعلقات کی بنا پر ہو یا نظریاتی بنیاد پر ہو۔ شاعر اپنا دوست ہے تو تعریف تو کرنی ہے۔ شاعر اپنے نظریے کا ہو، اسے سراہنا لازمی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جینوین شاعر کے بجائے اپنی اپنی پارٹی کے شاعروں کی تعریفیں ہونے لگتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ بدمذاقی کے فروغ کی صورت میں نکلتا ہے۔ سارے ترقی پسند اس ضمن میں آتے ہیں اور غیرترقی پسندوں کے نام نہیں لوں گا۔ اس گروپ بازی کی وجہ سے عسکری، راشد اور میرا جی کو کیا کیا گالیاں نہیں دی گئیں۔ پتا چلا کہ ادب یا شاعری کوئی چیز نہیں ہے، سیاسی مسلک سب کچھ ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے۔
طاہر مسعود: بائیں بازو کے ادیبوں میں ادھر دو چار سال سے خود ساختہ جلاوطنی کا شوق مقبولیت حاصل کررہا ہے اور اب تک فہمیدہ ریاض اور احمد فراز ملک چھوڑ کر بھارت جاچکے ہیں اور وہاں انہوں نے یوں تاثر دیا ہے جیسے پاکستان میں ان کا جینا دوبھر کردیا گیا تھا اس لیے وہ بھاگ کر آئے ہیں۔ ان کے اس عمل پر آپ کا تبصرہ؟
سلیم احمد: یہ لوگ حکومت کے خلاف نہیں ہیں، یہ پاکستان کے خلاف ہیں اور پاکستان سے ان کی وجہ مخاصمت اسلام ہے۔ انہیں وہ پابندیاں پسند نہیں جو اسلام فرد پر عاید کرتا ہے۔ اب چوں کہ موجودہ حکومت اسلام کا نام لیتی ہے۔ اس لیے انہیں اس کا وجود بہت ناگوار محسوس ہوتا ہے اور یہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھارت میں بھی انہیں مسلمانوں میں تو کیا ہندوئوں میں بھی عزت حاصل نہیں ہوگی۔ وہاں کے مسلمان کسی ایسے ادیب کو قبول نہیں کرسکتے جو پاکستان کا دشمن ہو اور مسلمانوں کو چھوڑ کر ایک ہندو ملک میں پناہ لینے آیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے ان سے اپنا کام نکالنے کے لیے ان کی سرپرستی کررہے ہوں لیکن اس سے زیادہ کی توقع ان سے بھی نہیں رکھی جاسکتی۔
طاہر مسعود: یہ لوگ کسی موقع پر پاکستان واپس آنا چاہیں تو انہیں آنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں؟
سلیم احمد: وہ دوبارہ پاکستان آئیں تو انہیں ایک بے شرمی کی زندگی کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔
طاہر مسعود: کیا یہ خود ساختہ جلاوطنی کا فیشن فیض صاحب کی ایجاد نہیں ہے جس کی بھونڈی نقالی کی جارہی ہے؟
سلیم احمد: کم از کم فیض سے چھوٹے لوگوں نے اسے ’’سنت فیضیہ‘‘ ہی سمجھ کر قبول کیا ہے مگر فیض صاحب ان سے بہت بڑے شاعر ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ کراچی میں بڑا ادب اور بڑی شاعری پیدا ہونے کا امکان لاہور کی نسبت زیادہ ہے کہ کراچی میں سمندر اور صحرا ہیں اور بڑا ادب ایسے ہی خطے میں زیادہ پیدا ہوا ہے۔ کیا اپنی بات کی تفصیل سے وضاحت کرنا پسند کریں گے؟
سلیم احمد: میں سنجیدگی سے تین چار باتیں سوچ رہا ہوں کہ نئی شاعری اگر صنعتی عہد کے دکھ اور مصائب کا اظہار اور اگر یہ نئی زندگی کے تجربہ کا بیان ہے تو ظاہر ہے کہ ادب زندگی کے تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔ لاہور اپنی ساری خوبیوں کے باوجود اس تجربے سے محروم ہے۔ ابھی تک اس کی حیثیت ایک بڑے گائوں کی سی ہے۔ نئے معنوں میں وہ شہر بنا ہی نہیں ہے۔ دوسرے، لاہور میں فطرت کے بڑے مظاہر نہیں ہیں یعنی وہ مظاہر جو انسان پر حیرت، ہیبت اور ہیجان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس معاملے میں لاہور، کراچی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بات یہ ہے کہ لاہور والوں کو خود اطمینانی حاصل ہوگئی ہے کہ ایک تہذیبی شہر میں رہتے ہیں۔ اس لیے شعر و ادب تو گویا ان کی میراث ہیں ہی۔ کراچی ایک جدید صنعتی شہر ہے۔ یہاں کی زندگی تیز رفتار اور مقابلے و مسابقت کی زندگی ہے۔ یہ فطرت کے ان مظاہر سے قریب ہے جسے میں نے صحرا و سمندر کہا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کے شاعر کو خود اطمینانی حاصل نہیں ہے۔ وہ یہ طعنہ ہر وقت سنتا رہتا ہے کہ وہ ایک کمرشل شہر میں رہتا ہے۔ میں نے یہ بات 55ء میں کہی تھی کہ کراچی کا مقدر حریف ادبی مرکز بن کر اُبھرنا ہے۔ نئی زندگی مشکل سے قابو میں آتی ہے اور ابھی صرف 35 سال گزرے ہیں۔ جب کراچی والے نئی زندگی کے تجربے میں ڈوب جائیں گے تو لاہور کے لیے واقعی لمحہ فکریہ ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ نے صحرا اور سمندر کا ذکر کیا لیکن انفرادی تخلیقی صلاحیت کو نظر انداز کردیا جو اس دعوے کو جھٹلا بھی سکتی ہے؟
سلیم احمد: انفرادی صلاحیت کا تعین نہیں کیا جاسکتا جس کا تعین نہیں کیا جاسکتا ہے اور منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی، اسے مساوی فرض کر لیتے ہیں۔ اس طرح سوال یہ ہوگا کہ اگر ایک طرح کا ٹیلنٹ دونوں جگہ موجود ہو تو نئی اور بڑی شاعری پیدا ہونے کا امکان کہاں زیادہ ہے؟
طاہر مسعود: لیکن آپ یہ تو مانیں گے کہ لاہور میں علمی اور ادبی فضا موجود ہے۔ وہاں پاک ٹی ہائوس ہے، حلقہ ارباب ذوق ہے جہاں ادیب اور شاعر ادبی و علمی موضوعات پر تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن کراچی میں ایسی فضا موجود نہیں ہے۔
سلیم احمد: ایمان داری سے جواب دیجیے گا کہ لاہور میں پاک ٹی ہائوس ہے تو کراچی میں بعض گھر یہ شہرت رکھتے ہیں کہ وہاں چوبیس گھنٹے ادب کے سوا کوئی بات ہی نہیں ہوتی اور ادب سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ وہاں آتے اور گفتگو کرتے ہیں۔ پھر یہ بات صحیح ہے کہ لاہور کو ایک تہذیبی شہر کی حیثیت سے چند سہولتیں حاصل ہیں لیکن سوال تو زندگی کے تجربے کا ہے۔ نیا تجربہ نہ ہو تو نئی کتاب سے ویسا ہی ادب پیدا ہوگا جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ خچر سے خچر پیدا کرنے کی کوشش۔

حصہ