ہم کیوں مسلمان ہوئے

479

ماہر علم الانسان، مصنف اور محقق کی حیثیت سے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ میلما یورپ کے علمی حلقوں میں خاص عزت اور شہرت کے مالک تھے۔ وہ ایمسٹرڈیم کے استوائی عجائب گھر میں اسلامی شعبے کے صدر اور نگران تھے۔ انہوں نے متعدد کتابیں لکھی تھیں جن میں سے ایک پاکستان کے بارے میں ہے۔
مجھے اسلام میں کیا حُسن نظر آیا‘ وہ کونسی جاذبیت تھی جو مجھے اس عقیدے کی طرف کھینچ لائی؟ یہ ہیں وہ دو سوال جن کے جواب مجھے دینے ہیں۔ تو عرض ہے کہ میں نے 1919ء میں لیڈن یونیورسٹی سے مشرقی زبانوں کی تعلیم شروع کی اور مشہور مستشرق اور عربی علوم کے ماہر پروفیسر سنائوک ہرگرونج کے لیکچروں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگا۔ میں نے عربی میں اس قدر استعداد حاصل کرلی کہ البیضادی کی تفسیر قرآن اور غزالی کی ایک کتاب کا ترجمہ کر ڈالا۔
جیسا کہ اس زمانے کی روایت تھی میں نے تاریخ اسلام اور اسلامی اداروں کے بارے میں ساری معلومات ان کتابوں سے حاصل کیں جو یورپین زبانوں میں شائع ہوئی تھیں۔ 1921ء میں میں مصر گیا اور وہاں ایک ماہ تک قیام کیا۔ اس دوران میں، میں نے الازہر کا خوب مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ چونکہ میں نے عربی کے علاوہ سنسکرت، ملائی اور جاوی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا تھا اس لیے 1927ء میں ہالینڈ کی نو آبادی جزائر شرق الہند (جو آزادی کے بعد انڈونیشیا کہلایا) چلا گیا اور جکارتہ میں اعلیٰ تعلیم کے ایک خاص ادارے میں جاوی زبان اور ہندوستانی کلچر کی تاریخ پڑھانے لگا۔ اگلے پندرہ برس تک میں جاوی زبان اور کلچر کے قدیم و جدید شعبوں میں تخصص حاصل کرچکا تھا۔ اس مدت میں اسلام اور عربی سے میرا رابطہ بالکل برائے نام رہ گیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران میں جب انڈونیشیا پر جاپان کا تسلط قائم ہوا تو میں بھی جنگی قیدی بن گیا۔ رہائی ملی تو 1946ء میں واپس وطن چلا گیا اور ایمسٹرڈیم کے رائل ٹراپیکل انسٹی ٹیوٹ میں تدریسی فرائض انجام دینے لگا۔ یہاں مجھے جاوی زبان میں اسلام پر ایک گائیڈ بک لکھنے کا حکم ملا اور یوں ایک مرتبہ پھر اسلام سے میرا رابطہ قائم ہو گیا۔ یورپ میں اسلام پر جتنی کتابیں چھپی تھیں تقریباً ساری میں نے پڑھ ڈالیں۔
اس ضمن میں مجھے اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کے مطالعے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں نے رخت سفر باندھا اور 54ء کے اواخر میں لاہور جا پہنچا۔ اب تک اسلام کے بارے میں میری معلومات کا ماخذ یورپین لٹریچر تھا مگر لاہور میں مجھے اسلام کے بارے میں بالکل نئے پہلو سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ دل و دماغ پر اس کے تاثر کا یہ عالم تھا کہ میں نے اپنے مسلمان دوستوں سے نماز جمعہ میں شرکت کی اجازت طلب کی جسے انہوں نے نہایت خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا۔ یہیں سے میں اسلام کی اعلیٰ و ارفع قدروں سے واقف ہوا اور میری زندگی ایک پاکیزہ انقلاب سے دوچار ہونے لگی۔
میں نے اپنے آپ کو اسی روز سے مسلمان سمجھنا شروع کردیا تھا جب ایک جمعہ کو مجھے مسجد کے نمازیوں سے خطاب کا موقع دیا گیا اور اس کے بعد ان گنت دوستوں سے مصافحہ کرنا پڑا جو اگرچہ میرے لیے اجنبی تھے مگر ان کے بے پناہ تپاک میں سگے بھائیوں کی محبت جھلکتی تھی۔ اس کے بعد میرے دوست مجھے ایک چھوٹی مسجد میں لے گئے، وہاں ایک ایسے صاحب خطبہ دےرہے تھے جو روانی سے انگریزی بول سکتے تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں خاصے اہم عہدے پر فائز تھے۔
انہوں نے نمازیوں کو بتایا کہ اس اجتماع میں انگریزی الفاظ زیادہ استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک دور دراز کے ملک ’’نیدر لینڈز‘‘ سے آیا ہوا ہمارا ایک بھائی اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔ بہرحال خطاب ختم ہوا تو پہلے امام کی اقتدا میں دو رکعتیں پڑھی گئیں اور بعد میں انفرادی طور پر لوگوں نے چند رکعات ادا کیں۔
میں اُٹھ کر باہر نکلنے ہی والا تھا کہ خطیب صاحب جنہیں لوگ علامہ صاحب کے لقب سے پکارتے تھے، میری طرف متوجہ ہوئے، انہوں نے بتایا کہ لوگ میری زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں۔ خیر میں اُٹھا اور مائیکروفون کے سامنے جا کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگا۔ میں انگریزی میں بات کررہا تھا جبکہ علامہ صاحب اس کا اردو میں ترجمہ کرتے جاتے تھے۔ میں نے بتایا کہ میں ایک ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں بہت ہی کم مسلمان رہتے ہیں۔ میں ان کی جانب سے اور اپنی طرف سے آپ حضرات کو ہدیہ سلام و تبریک پیش کرتا ہوں کہ آپ اپنی آزاد و خودمختار اسلامی ریاست کے مالک ہیں اور اس ریاست نے گزشتہ سات برسوں میں خاصا استحکام حاصل کرلیا ہے اور خدا نے چاہا تو ایک روشن مستقبل آپ کا منتظر ہے۔ میں اپنے وطن واپس جا کر بتائوں گا کہ پاکستان میں مجھے مہمان نوازی اور محبت و اخلاص کے کس بے پایاں سلوک کا مستحق سمجھا گیا۔
ان الفاظ میں اردو ترجمہ کیا گیا تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ سیکڑوں نمازی غیر معمولی اشتیاق اور کمال محبت کے ساتھ میری طرف لپکے۔ ان کے چہرے خلوص اور پیار کے نور سے چمک رہے تھے اور آنکھوں سے اخوت و یگانگت کی ایسی کرنیں پھوٹ رہی تھیں جو دل و دماغ سے آگے میری روح میں اُترتی جارہی تھیں۔ میں نے بچشم سر مشاہدہ کرلیا کہ اسلام کا رشتہ اخوت دنیا کا سب سے مضبوط رشتہ ہے۔ سچی بات ہے، اس روز میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
یوں پاکستان کے مسلمانوں نے مجھ پر یہ ثابت کردیا کہ اسلام محض قوانین کا ایک مجموعہ نہیں ہے بلکہ محبت کا رواں دواں زمزمہ بھی ہے جو پیاسی روحوں کو سیراب کرتا اور ویران دلوں میں سدا بہار پھول کھلاتا ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کا وہ حسین گلدستہ ہے جس سے مسلمان سب سے پہلے نوازا جاتا ہے۔ یوں ایمان و علم کی روشنی نے میرے دل و دماغ کو بھی منور کردیا اور میں نے اسلام قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا۔
اب میں یہ بتائوں گا کہ اسلام کی کون سی باتوں نے مجھے متاثر کیا:
-1 صرف ایک اعلیٰ و برتر ہستی ’اللہ‘ کا اقرار۔ یہ نظریہ فطرت کے اتنا قریب ہے کہ سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی انسان اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ اللہ بڑا ہی بے نیاز ہے، سبھی مخلوقات اسی کی محتاج ہیں۔ وہ کسی کی اولاد نہیں مگر ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا اور ساری کائنات میں کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ وہ حکمت، طاقت اور حسن کا منبع ہے، وہ بڑا ہی مہربان اور بہت ہی زیادہ رحیم ہے۔
-2 اللہ کا اپنی کائنات، مخلوق اور اشرف المخلوقات انسان سے رابطہ براہِ راست قسم کا ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی ذریعے کی ضرورت نہیں۔ اسلام میں عیسائیت کی مانند پاپائیت کا کوئی تصور نہیں۔ اس مذہب میں انسان اپنے اعمال و افعال کے لیے آزاد و خود مختار پیدا کیا گیا ہے۔ یہ دنیا اس لیے دارالامتحان ہے جہاں اسے دوسری زندگی کے لیے تیاری کرنا ہے۔ وہ اپنے اچھے بُرے کا خود ذمہ دار ہے اور کسی دوسرے کی قربانی اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
-33 ’’مذہب میں کوئی جبر نہیں‘‘ ’’صداقت جہاں سے بھی ملے اسے قبول کرلو‘‘ اسلام کے ان سنہرے اصولوں میں رواداری اور حق شناسی کا جو جوہر پایا جاتا ہے اس کی مثال دُنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔
-4 اسلام انسانوں کو رنگ و نسل اور علاقے سے ماورا ہو کر رشتہ اخوت میں منسلک کرتا ہے اور صرف یہی وہ مذہب ہے جس نے عملی طور پر اس اصول کو اپنا کر دکھا بھی دیا ہے۔ مسلمان دنیا میں کہیں بھی ہوں، وہ دوسرے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ خدا کے سامنے سارے انسان یکساں درجہ رکھتے ہیں اس کا سب سے خوبصورت اور روح پرور مظاہرہ حج کے موقع پر احرام باندھ کر کیا جاتا ہے۔
-5 اسلام زندگی میں روح اور مادے دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ انسان کی ذہنی و روحانی پرورش کا گہرا تعلق اس کی جسمانی ضرورتوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسے زندگی میں ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ روح اور جسم اپنے اپنے دائروں میں ترقی کرسکیں۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کو ممنوع قرار دینے کا عمل اپنے اندر وہ عظمت رکھتا ہے جس نے اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں صدیوں آگے لاکھڑا کیا ہے۔

حصہ