بابا اپنی دولت مجھے دے دو

801

سب کچھ معمول کے مطابق تھا…سڑک پر ٹریفک کا وہی ازدحام… ہر سو شور اور ہارن کی آوازیں،گاڑیوں کا کثیف دھواں، اس کے مرغولے اور بوجھل فضا…کہیں مزدور بیلچہ، ہتھوڑا ایستادہ کیے سرنیہواڑے بیٹھے تھے، توکہیں کوئی پیشہ ور بھکارن اپنے بچے کے ماتھے پر ہلدی چونا لگاکر بچے کے زخمی ہونے کا ناٹک رچا رہی تھی،کہیں کچرے کے ڈھیر پر کچرا چننے والے بچے اپنا رزق تلاش کررہے تھے، تو کہیں گاڑی کی ٹکر پرگتھم گتھا فریق آستین اٹھائے تیوریاں چڑھائے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھیرا رہے تھے۔کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ آمادہ ہوتا بھی تو کیسے؟ اس سے تو اَنا کی پوری فصیل زمیں بوس ہونے کا خطرہ تھا، سو ایسا خطرہ مول لینے کا یارا کسی میں نہ تھا۔ معذرت خواہی کا کوئی کلچر معاشرے میں ہوتا تو اس کا کچھ اثر سڑک پر بھی دِکھتا۔ سو، اس شورا شوری اور دھند میں سانس لینے کے لیے منہ آسمان کی طرف کیا تو وہاں بھی فضا میں تیرتی چیلوں کی اداس چیخیں ہی تھیں۔ میں ایک کہانی کی تلاش میں تھا اور مشکل یہ تھی کہ کہانی کا کردار نہیں مل رہا تھا… دور تک پھیلی تارکول کی طویل سڑک پر میری موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی۔ یوں تو اس طویل سڑک کے دائیں بائیں جابہ جا کہانیاں ہی کہانیاں اور افسانے ہی افسانے تھے، مگر یہ کہانیوں اور افسانوں سے بڑھ کر معاشرے کے المیے تھے اور ان المیوں پر ماتم کا حاصل ہی کیا تھا! طویل شاہراہ سے پگڈنڈی نما گلی میں مڑا تو پان کے کیبن پر کھڑے 80 سالہ بزرگ کی جانب میری توجہ آپ سے آپ ہی مبذول ہوگئی، چُپڑی اور دو دو… مجھے اور کیا چاہیے تھا…! وہ نمناک آنکھوں سے ایک گاہک کو اپنے حج و عمرے کی داستان سنا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں رک گیا۔ اُن کا چہرہ جھریوں سے بھرا پڑا تھا، نیچے کے بیشتر دانت اپنی مدتِ حیات پوری کرچکے تھے۔ آنسو ان کے رخسار پر ایسے بہہ رہے تھے جیسے بنجر اور کھردری زمین پر کسی بلندی سے پانی کا کوئی سوتا نشیب کی جانب آرہا ہو۔ گاہک کے جاتے ہی میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ سے کچھ باتیں ہوسکتی ہیں؟’’ہم سے کیا باتیں کرے گا؟‘‘… ’’وہ آپ رو کیوں رہے تھے؟‘‘
’’ارے بابا یہ دکھ کے آنسو نہیں ہیں، بس مولا نے ہم پر اتنا کرم کیا، ہم گناہ گار کو اپنے حرم پاک میں بلایا، رسولؐ کا روضہ دکھایا، یہ اس کے آنسو ہیں۔ اب تم بولو کیا بات کرنی ہے‘‘؟
’’بس ویسے ہی آپ کو روتا دیکھ کر رک گیا تھا‘‘۔ میں نے اُن سے اُن کی کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی تو وہ آمادہ ہوگئے، پھر ہم تھڑے پر ہی بیٹھ گئے۔ لیجیے آپ بھی یہ کہانی سنیے:

’’غلام رضا نام ہے میرا۔ 1940ء کی پیدائش ہے میری، خانیوال کی۔ میرا ماں باپ جو تھا وہ میانوالی کا تھا۔ خانیوال ہی میں ہمارا گائوں ہے، یہیں میری تعلیم ہے۔ میرے کو یاد ہے یہ پاکستان بنا ہے ناں تو میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا، ہمارا جو ہیڈ ماسٹر تھا وہ ہندو تھا، بھوجا رام اس کا نام تھا۔ ہمارے گائوں کے کچھ لوگ ایسے تھے جو خانیوال سے نواب شاہ آگئے تھے۔ جب یہ لوگ یہاں آئے تو ان کے سہارے میں بھی یہاں آگیا، یہاں ایک اسکول ٹیچر تھا جو بعد میں پولیس میں بھرتی ہوگیا، اُس کا ایک بھائی آئی جی تھا سندھ پولیس کا، اور دوسرا بھائی ایف آئی اے میں انسپکٹر تھا، یہ نیپا چورنگی کے پاس رہتا تھا، میں ان کے گھر پر ملازم ہوگیا۔ بیس سال میں نے یہاں کام کیا، انہی لوگوں نے میری شادی ایک میمن سے کرادی، میرے سات بچے ہیں، چار لڑکے اور تین لڑکیاں۔ دو لڑکیوں کی شادی کردی ہے، ایک پڑھ رہی ہے۔ میں نے بھیک مانگ مانگ کر اپنی اس بچی کو تعلیم دلوائی ہے، اس نے چودہ جماعتیں پاس کی ہیں، اب اس کی شادی کا مسئلہ ہے، اللہ پاک کا کرم ہے کہ بچوں کو تعلیم دی ہے، قرآن پاک پڑھوایا ہے، یہ بچہ میرا گم تھا (انہوں نے قریب کھڑے اپنے25سالہ بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا)، جب میں حرم پاک حج و عمرہ کرنے گیا، وہاں میں نے دعائیں مانگیں، تب یہ بچہ 15سال بعد مجھے ملا۔ اب میرا پان کے اس کیبن پر جھگڑا چل رہا ہے، اب یہ کیبن چلنے لگا ہے تو جس نے لگا کے دیا ہے وہ واپس مانگ رہا ہے کہ واپس دے دے یا تین سو روپے کرایہ دے۔ جس کا کیبن ہے وہ میری سمدھن ہے اور میمن ہے۔ حج وعمرہ میرے کو کسی نے کروایا، زمین شمین میری کوئی ہے نہیں، جائداد پراپرٹی ہے نہیں، ایک ہوتا ہے ناں کہ آدمی کہتا ہے میرا تو وہاں یہ تھا۔ میرا کچھ بھی نہیں ہے، یہ چار فٹ کا کھڈا مل جائے، یہی ہماری جائداد بن جائے گی، صرف چار فٹ کا کھڈا چاہیے۔ اچھا یہ بھی قسمت والے ہی کو ملتا ہے، نصیب والے کو اللہ دیتا ہے۔ کوئی پانی میں ڈوب کرمرتا ہے،کسی کو کتا، بلا کھا جاتا ہے، ہمارا تو التجا ہے کہ پروردگار عزت کی موت دیوے، عزت کے ساتھ اسّی سال گزارے ہیں، تو جو چند دن ہیں اسے بھی عزت کے ساتھ گزار دیوے، بس ہم یہ دعا کرتا ہے۔‘‘
بابا سانس لینے کو رکے تو میں نے پوچھا ’’کیا کیبن سے آپ کے گھر کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں؟‘‘
’’اس سے گھر نہیں چلتا، میرے کو لوگ بھی بہت دے جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ مانگتے ہیں؟‘‘
’’مانگتا نہیں ہوں۔ لیکن لوگوں کو پتا ہے، کوئی مجھے راشن دے دیتا ہے،کوئی پیسے دے جاتا ہے، اگر کسی کو بول بھی دوں ناں کہ بھئی یہ پریشانی ہے تو وہ میری عمر کو دیکھ کر دے دیتا ہے۔ ایک دن میں گھر سے نکلا تو میری بچی نے کہا کہ بابا ناشتا تو ہم نے کرلیا ہے مگر آٹا نہیں ہے، میں نے بچی سے کہا کہ میں نیچے ہوٹل والے کو کہہ دیتا ہوں وہ کھانا دے دے گا، رات میں آکر میں اسے پیسے دے دوں گا۔ اِدھر میں دکان پر آگیا، ایک آدمی آیا، اس نے میرے کو ہزار روپے دیے اور کہا کہ ایک پیکٹ بینسن سگریٹ دو۔ میں نے دے کر باقی پیسے واپس کیے، اس نے پانچ سو کا نوٹ رکھا اور کہا بابا یہ رکھ لے، مجھے معلوم ہے تیرے گھر آٹا نہیں۔ میں اللہ کا ولی نہیں ہوں، گناہ گار ہوں، نماز روزہ نہیں کیا، پر یہ ہے کہ میری دعا قبول ہوجاتی ہے، وہ بھی اس لیے کہ حرم پاک میں غلافِ کعبہ پکڑ کر میں نے دعا مانگی اور جو گناہ کیے، ان سب کی معافی مانگی، اللہ رحمن ہے، ہم جتنے بھی گناہ کرلیں، وہ بخشنے والا ہے، ہمارے گناہ اس کی رحمت سے بڑے نہیں ہیں، اللہ کے دربار میں کھڑے ہوکر میں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ ایک دن میرے پاس صبح کے ٹائم میں ایک آدمی آیا، وہ سگریٹ پیتا جاتا اور روتا بھی جاتا، میں نے پوچھا بابا کیوں روتا ہے؟ کہنے لگا: سامنے اسپتال میں میری بچی داخل ہے، ایک ہی اولاد ہے، وہ آئی سی یو میں ہے۔ میں نے کہا: تُو اسپتال جا، اپنی بچی کو کھاتا پیتا پائے گا۔ دوسرے دن وہ میرے پاس مٹھائی کا ڈبہ لے کر آیا، اس کی گود میں بچی تھی، اس نے کہا میں اسپتال گیا تو میں نے دیکھا بچی کو اس کی ماں بسکٹ کھلا رہی ہے۔‘‘
’’مکان اپنا ہے آپ کا؟‘‘
’’نہیں، میرے کو کسی میمن نے بٹھایا ہوا ہے یہاں، اپنا نہیں ہے۔‘‘
’’مکان آپ کا اپنا نہیں، کیبن آپ کا اپنا نہیں ہے، نہ آپ کے پاس دولت ہے، پریشانیاں بھی ہیں، بیٹی کی بھی شادی کرنی ہے، دل میں اللہ سے شکایت نہیں ہوتی؟‘‘
’’بھئی مشکل تو ہے، پر اللہ سے شکایت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے جس حال میں میرے کو رکھا ہے اس سے زیادہ کا قابل نہیں ہوں ناں۔ اللہ جس حال میں رکھے، بندے کا کام ہے اس کی رضا پر راضی رہے۔ بھلا میں اللہ سے ناراض ہوجائوں گا تو اللہ کا کیا بگاڑ لوں گا…! کچھ بگاڑ سکتا ہوں؟ ہاں جس حال میں اللہ رکھے اس کا شکر ہے، باقی رہی بات پریشانی کی تو بھئی ایک روٹی کم ہووے شام کو تو بچے مانگتے ہیں۔‘‘
’’اللہ سے باتیں کرتے ہیں؟‘‘
’’بھئی میں فارغ بیٹھا ہوتا ہوں تو کہتا ہوں کہ اے اللہ جو میرے سے زیادہ غریب ہیں تُو ان کو دے، ان کی مشکلیں حل کردے، اور جو بے گناہ قیدی ہیں انہیں رہا کردے، امام جعفر صادق کا قول ہے کہ بے گناہ قیدی پر رحم کھائو، اس کی رہائی کی دعا مانگو۔‘‘
’’اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟‘‘
’’ہاں الحمدللہ زندگی سے میں مطمئن ہوں، اس لیے مطمئن ہوں کہ زندگی میں دو منٹ کے لیے بھی میرا کسی سے جھگڑا ہوا ہے ناں تو دو منٹ کے بعد میں نے اُس سے معافی مانگی ہے، بھئی ان کا گناہ ہے مگر میں نے معافی مانگی ہے دو منٹ میں۔ اس لیے کہ تُو تُو، مَیں مَیں کوئی اچھی چیز تو نہیں۔ میری بہو ہے وہ بھی میمن ہے، مجھ میں کچھ اچھائیاں تھیں ناں کہ ان لوگوں نے میرے کو رشتے دیے… اگر میں اچھا نہ ہوتا تو میمن میرے کو دیتے رشتہ؟‘‘
’’کوئی خواہش ہے بابا؟‘‘
’’میرے کو کوئی خواہش نہیں ہے، دولت کی تو بالکل بھی خواہش نہیں ہے، بس عزت کی دو روٹیاں ٹائم پر مل جائیں، بچے کھا لیں، بچی کی شادی سر پر ہے اگر اس کا کوئی وسیلہ بن جائے تو پریشانی کم ہوجائے۔‘‘
’’ہفتے میں کتنی مرتبہ گوشت کھاتے ہیں؟‘‘
کبھی کبھی تو بھئی ہفتہ پندرہ دن گزر جاتے ہیں، آج کل تو گوشت کا نام بھی نہیں لیا جاتا، مگر میرے کو ناں یہ سامنے بنگلے والا مہینے میں مرغی کا گوشت لاکر دیتا ہے، اس میں سے دو چار بوٹیاں اور آلو ڈال کر ہم سالن بنا لیتے ہیں، ایسا کرکے کام چلا لیتے ہیں، خرید تو سکتے ہی نہیں ہیں گوشت۔‘‘
ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ اس دوران آیت الکرسی اور چار قل اور دیگر آیاتِ قرآنی پر مبنی طغرے لے کر ایک شخص آیا، اور ہدیتاً لینے کو کہا، جس پر وہ کہنے لگے، بابا اس کی تو قیمت ہی نہیں ہے، میں لگائوں گا کدھر؟‘‘
’’مرنے سے ڈرتے ہیں؟‘‘ میں نے اگلا سوال کیا۔
’’موت کو میں یاد کرتا ہوں، موت سے ڈر نہیں لگتا، یہ تو آنے والی چیز ہے، ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔آپ کو بھی چکھنا ہے، مجھے بھی چکھنا ہے، اس سے ڈر کیسا؟ یہ تو آئے گی۔ جو رات میری قبر میں لکھی ہے وہ رات میں باہر گزار نہیں سکتا۔‘‘
’’بابا یہ حج کا کیا قصہ ہے، حج پر کیسے گئے آپ؟‘‘
’’ایک دن ایک آدمی آیا، اس نے پوچھا کہ بابا آپ نے حج کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ بولا: بابا! تم تیار ہوجائو۔ اس نے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا، میری جیب میں ڈالا اور کہا کہ تم عوامی مرکز جائو، پاسپورٹ بنوائو۔ یہ سامنے قریشی بھائی کی دکان ہے، حج کا سن کر اس نے مذاق اڑایا، کہا: بابا تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے، تیرے گھر آٹا نہیں ہوتا، اسی لیے تُو بچوں کی سوچ میں پاگل ہوگیا ہے۔ ارے بھائی پاگل وہ ہوتے ہیں جو کپڑے اتار کر بیٹھے ہوتے ہیں، میں نے تو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔م یں عوامی مرکز گیا، وہاں لمبی لائن تھی، مگر سب سے پہلے میرا کام ہوا، اُن لوگوں نے مجھ سے سوالات کیے اور آخر میں کہا سب ٹھیک ہے، آپ حج پر جاسکتے ہو، آپ میں کوئی فالٹ نہیں۔ میں نے ان سے کہا: مجھے پتا ہے کوئی فالٹ نہیں ہے۔ فالٹ والوں کو اللہ پاک اپنے حرم میں بلاتا ہی نہیں ہے۔ حرم پاک میں میرے دل میں آیا کہ یہاں پنجابیوں کے ہوٹل ہیں، یار آج نہاری کھانی چاہیے، اتنے میں ایک عربی آیا، بولا آئو کچھ کھاتے ہیں۔ ادھر گیا، پیالہ اٹھایا تو اس میں نہاری… ہم تو صرف یہ سنتے تھے کہ حرم پاک میں جو دل میں آئے وہ ملے گا، تو وہ جگہ ایسی ہے کہ آپ منہ سے لفظ نہ نکالو لیکن دل میں ہو تو وہ چیز آپ کو ملے گی۔ تو یہ نصیب والوں کا کام ہے۔ اب میں کیا بتائوں جب میں حج پر گیا، لوگ تو سات چکر لگا کر طواف کرتے ہیں، حجرِ اسود کو ہاتھ لگا کر چومتے ہیں، بوسہ نہیں دے پاتے۔ میں نے ساتوں چکر میں اپنے ہونٹوں سے حجرِ اسود کو بوسہ دیا ہے، ساتوں چکر میں میَں نے اپنے منہ سے چوما ہے۔ حجرِ اسود کے دوسرے کنارے پر بھی ایک پتھر ہے، اس کو چومنے کے لیے جھکا تو میرے اوپر بہت سے لوگ گر گئے۔ پولیس نے میرے کو بغل میں ہاتھ ڈال کر اوپر اٹھایا تو میرا ہاتھ ایک کنڈی سے ٹکرایا، میں نے اسے کافی دیر پکڑے رکھا۔ یہ کنڈی کیا تھا، لوگ اس کو بہشتی دروازہ کہتے ہیں اور اس کو چومنے کے لیے کودتے ہیں، مگر میرے مولا نے مجھ گناہ گار کو بہشتی دروازے کی کنڈی پکڑوا دی۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ رونے لگے۔ تھرتھراتے ہاتھوں سے انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’’جب پولیس والوں نے مجھے نیچے کیا تو لوگ میرے ہاتھ چومنے لگے کہ بابا تم بڑے خوش نصیب ہو۔ میرے پاس تو یہاں سے لالوکھیت جانے کے پیسے نہیں ہیں، مگر یہ میرے رب کا کرم ہے کہ اس نے مجھے اپنا گھر دکھلایا۔ ایک آدمی میرے گھر کے نیچے رہتا ہے، وہ پاسپورٹ بنواکے لایا۔ چھ آدمی تھے، پوری فیملی تھی، بتا رہا تھا لوگوں کو۔ میں بھی کھڑا ہوگیا، میں نے مبارک باد دی اس کو، میں نے کہا کہ اللہ نے آپ کو بلایا ہے،آپ جا رہے ہو، مبارک ہو آپ کو۔ بولا: یار! یہ بلاوے والی کون سی بات ہے، یہ تو پیسے کا کھیل ہے، کوئی بھی چلا جائے۔ میں نے کہا: حبیب بھائی تُو پیسے سے جائے گا ناں حرم پاک، واپس آکر میرے کو لعنت دینا۔ حرم پاک پیسے سے آج تک کوئی نہیں گیا، پیسوں سے حج وعمرہ ہوتا تو فرعون کرلیتا، شمر کرلیتا۔ قسم ہے وہ چھ پاسپورٹ رد ہوگئے، پانچ سال تک وہ جا نہیں سکا، پاسپورٹ بھی ختم ہوگئے ان کے۔‘‘
’’اللہ کے دربار میں پہنچ کر آپ نے اللہ سے دولت نہیں مانگی؟‘‘
’’(تُنک کر) دولت…! یہ کوئی مانگنے کی چیز ہے یار؟ ایمان مانگا ہے، اللہ پاک سے عزت مانگی ہے۔‘‘
وہ اپنی کتھا سناتے رہے اور میں عقیدت مند مرید کی طرح سر جھکائے سنتا رہا۔ ایسی عسرت اور تنگ دستی اور دل کی ایسی دولت مندی…! میں نے ان سے اجازت چاہی تو کہنے لگے ’’تم ہمارا مہمان ہے، چائے پیے بغیر نہیں جائے گا‘‘۔ سو، ان سے چائے پی، انہوں نے گلے سے لگا کر بھینچا اور ڈھیروں دعائیں دیں… دل میں آیا کہ جاتے جاتے بابا سے کہہ دوں کہ ’’بابا…! اپنی دولت مجھے دے دو۔‘‘nn

حصہ