چینی 68 روپے کلو۔۔۔۔ کہاں؟

535

’’بھائی صاحب مہنگائی کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے،ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ دالیں، سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کھانے پینے کے ان لوازمات کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے۔ درآمد کی گئی سبزیوں، آٹے اور چینی سے بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ کہتے ہیں یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی 68 روپے کلو دستیاب ہے۔ کہاں ہے؟ ہمیں تو نظر نہیں آتی۔ کبھی کہا جاتا ہے اسٹاک ختم ہوگیا ہے، تو کبھی سپلائی نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ عوام سے جھوٹ ہی بولا جارہا ہے۔ اگر کچھ سچ ہے تو یہ کہ مہنگائی پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں، کھانے پینے کی چیزیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ سبزیوں کی بات کی جائے تو وہ بھی سونے کے بھائو بک رہی ہیں۔ ٹماٹر کی قیمت 150روپے فی کلو سے بڑھ کر 200 روپے کلو تک جا پہنچی ہے، جبکہ پیاز کی قیمت 50 روپے فی کلو سے 80 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ ادرک 600 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ لہسن 400 کلو بک رہا ہے۔ ہر چیز مہنگے داموں فروخت ہورہی ہے۔ لوگوں کو آٹا، چینی کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کرکے ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔‘‘
دو روز قبل میں اپنے دوست کے ساتھ ایک ایسے یوٹیلٹی اسٹور پر چلا گیا جس کے ساتھ ویئر ہائوس بھی قائم ہے۔ میرے وہاں جانے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ حکومت کی جانب سے جن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کی گئی ہیں، خاص طور پر چینی عوام کو میسر ہے بھی کہ نہیں؟ بس پھر کیا تھا یوٹیلٹی اسٹور سے چینی نہ ملنے پر قطار میں کھڑے ایک شخص نے مہنگائی کے وہ اعداد و شمار پیش کیے جسے سن کر میں لاجواب ہوگیا بلکہ میری زبان پر چپ کا ایسا تالا لگا کہ میں ماضی کی اُن وادیوں میں جا پہنچا جب گھر کے بڑے آٹے اور چینی کے حصول کے لیے راشن شاپ پر لمبی قطاریں لگایا کرتے، جہاں ہمیشہ ہی عوام کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا، راشن شاپ مالک کا رویہ عوام کے ساتھ بڑا حاکمانہ ہوا کرتا، جس سے ظاہر ہوتا کہ جیسے وہی لوگوں کے رزق کا مالک ہے، اُس کے نزدیک لوگوں کی پریشانی کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ لوگ گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے گھر کا راشن حاصل کرتے۔ جس نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہے،اچھی طرح جانتا ہے کہ راشن شاپ سے آٹے اور چینی کا حصول کوئی آسان کام نہ تھا۔ آٹے اور چینی کی تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہوتی جس کے لیے عوام کو راشن کارڈ بناکر دیے گئے تھے۔ راشن کارڈ میں گھرانے کے افراد کی تعداد کے مطابق اشیا کا کوٹہ درج کیا جاتا، جس کا جتنا کوٹہ بنتا اُسے اتنا ہی راشن دینا ہوتا۔ قانونی طور پر اس فارمولے کو نافذ کرکے اُس وقت کی حکومت نے اپنی جانب سے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، یہ الگ بات کہ راشن کے حصول کے لیے بنائے گئے کوٹے پر شاید ہی کبھی عمل کیا گیا ہو۔ لوگوں کو دی جانے والی چینی میں تقریباً ہر مرتبہ ہی کٹوتی ہوا کرتی، اس طرح عوام کا جائز حق مار کر چوری کی گئی چینی مہنگے داموں مٹھائی فروشوں کو دے دی جاتی۔ کئی راشن شاپ مالکان تو عوام کو اُن کے حصے میں آئی چینی تک بلیک میں فروخت کرتے۔ یہ کالا دھندا زیادہ تر کسی تہوار کی آمد پر بڑے زور شور سے کیا جاتا۔ آٹے کے نام پر انتہائی ناقص گندم عوام کو دی جاتی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق عوام اُس وقت غیر معیاری آٹا مجبوراً کھاتے رہے۔ اس نظام کے تحت عوام کو کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو لیکن ملک میں راشن شاپ مالکان نے وہ لوٹ مار مچائی جسے سوچ کر آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ جب بھی کوئی تہوار آتا تو ابو جان بجائے گھر میں رہنے کے راشن کی لائن میں کھڑے ہوتے۔ تہواروں پر اشیائے ضروریہ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔
وقت بدلا، حکومتیں بدلیں، حالات بدلے۔۔۔ اور کچھ ایسی تبدیلی آئی کہ عوام کو آٹا اور چینی بازاروں سے ملنے لگے۔ یوں عوام نے سکھ کا سانس لیا اور لمبی قطاروں سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، خاص کر معیاری اشیاء کی فراہمی حکومت کی اوّلین ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے، اوپن مارکیٹ سے آٹے اور چینی کا آسانی سے مل جانا ہی اُس وقت عوام کے لیے نئی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ تھا جسے نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ اشیائے خورونوش کا باآسانی مارکیٹ سے ضرورت کے مطابق مل جانا کسی انقلاب سے کم نہ تھا۔ اس طرح عوام کو اْس ’’جاگیردار‘‘ سے نجات بھی مل گئی جو راشن شاپ مالک کی صورت ان کے رزق پر قبضہ کیے بیٹھا تھا۔ یوں خوراک کی تقسیم کا وہ فارمولہ جو کمیونزم کے نظریات پر بنایا گیا تھا بری طرح ناکام ہوگیا۔ اس فارمولے کی ناکامی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت لوگوں کو مسلسل سستی اور معیاری اشیا فراہم کرتی رہتی۔ لیکن کام اس کے برعکس ہوا، یعنی عوام کو دکان داروں کے حوالے کردیا گیا، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر پھر بے چینی بڑھنے لگی۔ پھر وہ وقت آیا جب مہنگائی کے ستائے غریب عوام کو ریلیف دینے اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نامی ادارہ قائم کیا گیا، جس کے توسط سے اْس وقت ملک کے بڑے شہروں میں 20 ڈپارٹمنٹل اسٹور قائم کیے گئے۔ یہ ایک کامیاب منصوبہ تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے شہروں تک پھیل گیا۔ یوٹیلٹی اسٹور بنانے کا واحد مقصد یہ تھا کہ مارکیٹوں میں بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں عوام کو سستی چیزیں دستیاب ہوں تاکہ انہیں تھوڑا سا ریلیف مل سکے۔ شروع شروع میں یوٹیلٹی اسٹورز سے خریداری پر حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کے باعث فوائد ملتے رہے، حکومتیں آتی جاتی رہیں اور ہر آنے والی حکومت اپنی پالیسی کے مطابق غریبوں کے لیے بنائے گئے ان اسٹورز کو چلاتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ یہاں سے قیمتوں میں ملنے والا ریلیف ختم ہونے لگا، چیزیں غیر معیاری اور زیادہ تر سامان انتہائی ناقص ملنے لگا۔ اگرچہ کچھ چیزوں کی قیمتیں بازار سے کم تھیں لیکن سبسڈی ختم کیے جانے کے باعث یہ فرق بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مارکیٹ کے مقابلے میں یوٹیلٹی اسٹورز پر چیزیں زیادہ مہنگی اور غیر معیاری فروخت ہورہی ہیں۔


جب کہ دوسری طرف ملک کے بڑے سپر اسٹورز دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔ سپر اسٹورز پر تیزی سے بڑھتے ہوئے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے آج ایک عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب نجی سپر اسٹورز پر روزمرہ ضروریات کا سامان مارکیٹ ریٹ سے کم فروخت ہوسکتا ہے تو یوٹیلٹی اسٹورز پر اس کی فروخت کے درمیان کون سی دیوار حائل ہے؟ ملک بھر میں نجی سپر اسٹورز پر لوگوں کی بڑھتی تعداد بتاتی ہے کہ یہ اسٹورز عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور فراہم کررہے ہیں جس کی بنا پر لوگ جوق در جوق وہاں جانے پر مجبور ہیں۔
اس کے علاوہ ان سپر اسٹورز مالکان کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کی بنیاد پر عوام کی ایک بڑی تعداد ان اسٹورز کا رخ کرنے پر مجبور ہے؟ بس اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے میں نے یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن جہاں میں موجود تھا، کے ساتھ قائم ویئر ہائوس کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ کے ایک افسر نے مجھے اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا:
’’جس دوران حکومت سبسڈی دیا کرتی تھی تو روزمرہ استعمال کی اشیا پر خاصا ریلیف ملتا تھا۔ حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کے باعث ہی چیزیں مارکیٹ ریٹ سے کم ملتی تھیں۔ اب جبکہ حکومت نے سبسڈی ختم کردی ہے چیزیں تو مل جاتی ہیں لیکن بازار سے زیادہ مہنگی ملتی ہیں، جن اشیا کی قیمتیں کم ہیں مثلاً چینی کی قیمت کو ہی دیکھ لیجیے، حکومت کے خصوصی پیکیج کے تحت جس دن سے اس کے نرخ 68 روپے کلو کیے گئے ہیں، یہ ناپید ہوگئی ہے، پیچھے سے مال کی سپلائی نہیں ہو رہی، لوگ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں، جس دن سپلائی آتی ہے سستی کی گئی تمام اشیا خاص طور پر چینی کو پَر لگ جاتے ہیں، میرا مطلب ہے ایک سے دو دن میں سارا مال ختم ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے یوٹیلٹی اسٹورز پر 68 روپے کلو ملنے والی چینی بازار میں سو روپے سے زائد فروخت کرکے فی کلو 30 روپے سے زائد کون کمانا نہیں چاہتا! اسی لیے یوٹیلٹی اسٹورز انتظامیہ کی ملی بھگت سے چینی دکان داروں کو دے دی جاتی ہے۔ اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس ساری کرپشن میں یوٹیلٹی اسٹورز انتظامیہ اور ویئر ہائوس کا عملہ ملوث ہے۔ ہم حکومت کی طرف سے دی جانے والی پرائس لسٹ کے مطابق ہی سامان دے سکتے ہیں، اگر کسی چیز کو سستا کریں تو حکومت کو اپنی جیب سے پیسے ادا کرنے پڑیں گے۔ یہ سچ ہے کہ یہاں زیادہ تر چیزیں غیر معیاری ہیں۔‘‘
میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ’’نجی سپر اسٹورز، کمپنیوں سے سبسڈی لیتے ہیں، زیادہ سامان فروخت کرنے پر اسکیم کے تحت فوائد حاصل کرتے ہیں، کسی بھی کمپنی کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے بڑے گروپس کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے سپر اسٹور مالکان کمپنیوں سے قیمتوں میں ریلیف حاصل کرلیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں سستی چیزیں ملتی ہیں، ہمارے وزیروں کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ عوام کے لیے کمپنیوں سے بات کریں! ان کا تو کام صرف لیٹر نکالنا اور میڈیا پر بیٹھ کر قصیدہ گوئی کرنا ہے، انہیں مارکیٹ کے اتار چڑھائو کی کیا خبر! جب حکمرانوں کی جانب سے کسی محکمے کو نظرانداز کیا جانے لگے تو سمجھ لیں کہ ادارے کی بندش کے بارے میں فیصلے کیے جاچکے ہیں، مجھے یہ خوف ہے کہ کہیں حکومت یوٹیلٹی اسٹورز ختم نہ کردے، اگر ایسا ہوا تو کئی ہزار گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے، موجودہ حکمران تو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کرکے حکومت میں آئے تھے، ان کے دور میں اب تک لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، ملک میں عدم استحکام بڑھا ہے، آگے کیا ہوگا، خدا جانے۔‘‘
اس شخص کی ایک ایک بات اپنی جگہ بالکل سچ تھی، وہ کر بھی کیا سکتا تھا! حکومتی پالیسیوں پر وہ بہت زیادہ نالاں دکھائی دے رہا تھا، خاص طور پر اُس کی اِس بات میں خاصا دَم تھا کہ ایک عام کاروباری شخص یا سپر اسٹور کا مالک کاروبار کرتے ہوئے گھی، تیل، صابن یا دوسری اشیائے ضروریہ کے لیے مختلف کمپنیوں سے کاروباری ڈیل جس سے عوام کو ریلیف ملے، کرسکتا ہے تو پاکستان میں کاروبار کرنے والی ان کمپنیوں سے غریب عوام کے لیے حکومت کوئی ڈیل کیوں نہیں کرسکتی؟ میرے نزدیک اگر حکمران اس سلسلے میں کوئی پیکیج لینے کی ذرا سی بھی بات کریں تو یقیناً کسی بھی عام کاروباری شخصیت سے زیادہ ریلیف لے سکتے ہیں۔ ظاہر ہے گھی، تیل و دیگر چیزیں بنانے والوں کی کیا مجال کہ وہ پاکستان میں رہ کر کاروبار کریں اور حکومت کی ناراضی مول لیں! خاص کر حکمرانوں کے ساتھ بیٹھے وہ شوگر مل مالکان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان و حکمران جن کی درجنوں شوگر ملیں ہیں۔
حکومت کے پاس اتنے زیادہ اختیارات ہونے کے باوجود یوٹیلٹی اسٹورز سے چینی اور آٹے جیسی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ پر بھی عوام کو ریلیف نہ ملنا صاف بتاتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس یوٹیلٹی اسٹور پر بعض چیزیں مارکیٹ ریٹ سے بھی مہنگی فروخت کی جا رہی تھیں۔ مجھے اس ویئر ہائوس اور اس کے ساتھ بنے یوٹیلٹی اسٹور کو دیکھ کر بہت افسوس ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کروڑوں روپے مالیت کی چیزیں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے کیسے فروخت کی جاسکتی ہیں! اگر یہی حالت رہی تو یہ ساری چیزیں خراب ہوکر کوڑے دان کی نذر ہوسکتی ہیں۔ مجھے حکمرانوں کی بنائی گئی پالیسیوں پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا! میں یوٹیلٹی اسٹور کے باہر قطار میں کھڑے لوگوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ آخر کب تک حکومتوں کے مزے لوٹنے والے سیاست دان غریبوں کو ذلیل و رسوا کرتے رہیں گے؟ وہ دن کب آئے گا جب یہاں کے حکمران عوام کی دادرسی کریں گے؟
nn

حصہ