چراغ فکر جلا دیا

614

روداد:شگفتہ ضیا

7 نومبر کی شام آرٹس کونسل کا وہ ہال اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھا جسے خوشنما پھولوں سے سجا کر اپنی روایتی اقدار سے ہم آہنگ خوبصورت رنگ دیا گیا، اور جان سے عزیز تر ہستی، نبیِ مہربانؐ پر گل ہائے عقیدت نچھاور کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ ذکر ہے اُس نعتیہ مشاعرے کا جو حریم ادب کراچی کے تحت آرٹس کونسل میں منعقد ہوا، اور جس میں شہر کی معروف شاعرات نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔
حریم ادب پچھلے کئی سال سے آرٹس کونسل میں خواتین کے مشاعروں کا انعقاد کررہی ہے، یہ ادبی محافل حقیقت میں آرٹ کونسل میں ایک نئی روایت کا آغاز ہیں۔
تقریب کی ابتدا حمدیہ اشعار اور سورہ الم نشرح کی پُراثر تلاوت سے ہوئی۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ثریا ملک نے خوبصورت الفاظ میں حریم ادب کا تعارف پیش کیا:
حریم ادب ادبی و اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے خواتین اور خاص طور پر نئی نسل میں علم و ادب کی آبیاری کررہا ہے۔ تہذیب کو پروان چڑھانے والے بروقت اپنا فرض ادا کریں تاکہ مثالی معاشرے کی صورت گری کرسکیں، اور معدوم ہوتے ادب و روایات کو پروموٹ کریں۔
بلاشبہ یہ نعتیہ مشاعرہ اس ماہِ مبارک کی مناسبت سے منظم کیا گیا تھا، لیکن فرانس کے دل شکن واقعات اور پھر فرانسیسی صدر کی ہرزہ سرائی نے اس کی اہمیت مزید اجاگر کردی۔ اس دلوں کو چیر دینے والے، غیظ وغضب کو بھڑکا دینے والے ماحول میں ہر مسلمان کا اپنے فہم، جذبے، بساط اور صلاحیت کے مطابق ردعمل سامنے آیا۔ اور اپنے نبیؐ کی ناموس کو اپنی جان سے عزیز رکھنے والی ہماری شاعرات کا جذبِ دروں اور محبتِ رسول ؐان کے نعتیہ کلام کو اور زیادہ پُرسوز و پُراثر بنا گئی۔
مشاعرے کی نظامت آمنہ رومیصہ زاہدی نے کی، جن کا تعلق ڈاؤ میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ انہوں نے درود کے ورد کی تاکید کے بعد اعجاز رحمانی کا یہ شعر پڑھ کر تمام شاعرات کے جذبات کی ترجمانی کی:
سخت اعجازؔ مدحت کا ہے مرحلہ
کچھ سلیقہ تو کچھ حوصلہ چاہیے
اور حسب ِروایت اپنا کلام سنا کر مشاعرے کا آغاز کیا۔
وہ امتی کہ ہزاروں برس کے بعد آئیں
رکھیں گے وہ بھی تمہاری طرح مجھی کو حبیب
جن معزز شاعرات نے حضور اکرمؐ کی شان میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا، ان کے مختصر تعارف اور منتخب اشعار سے آپ بھی لطف اندوز ہوں۔

نورالعلمہ حسن میڈیکل کی طالبہ اور اپنی جامعہ کی ادبی و تقریری انجمن کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔
یہ دل تو عصیاں کی تیرگی میں گھرا ہوا ہے
جو نور کو سائبان کرلوں تو نعت لکھوں
محترمہ ادیبہ فریال انصاری نے جو شاعرہ و ادیبہ ہونے کے ساتھ، موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں، مترنم آواز میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا:
کرائی ہے باطل و حق میں تمیز
ہمیں ان کی الفت ہے جاں سے عزیز
پڑھیں آپؐ پر یوں ہزاروں درود
کہ بن جائیں انسان کامل وجود
شاعرہ،مصنفہ،افسانہ و کالم نگارمحترمہ ہما بیگ بوجوہ حاضر نہ ہو سکیں، ان کی نعت پڑھ کر سنائی گئی۔
اس کے بعد محترمہ ہاجرہ منصور کی نظمیہ نعت نے تو حاضرین کو گویا مسحور ہی کردیا:
اگر اس وقت میں ہوتی
محبت کی فصیلوں پر
میں عمارہ نظر آتی
کسی بھی ڈھال کی صورت
گرجتی اور چمکتی برق کی مانند
صفیہ بن کے ڈٹ جاتی
اگر اس وقت میں ہوتی
بعد از اںدعوت دی گئی مصنفہ ،کالم نگار اور بلاگر محترمہ سمیرا غزل کو
آپؐ کے دم سے ہی قائم سلسلہ نور و ضیاء کا
آپؐ دیں کی آبرو ہیں نام ہیں الفت وفا کا
مشاعرے کے درمیان میں ہی صاحب ِکتاب مصنفہ، کالم نگارڈائریکٹر جامعۃ المحصنات پاکستان افشاں نویدکو دعوتِ خطاب دی گئی،جنہوں نے مدحتِ نبویؐ کی روح کو اپنے مؤثر اور دلنشین الفاظ میں پیش کرتے ہوئے کہا: ہم آج ان حالات میں یہاں جمع ہیں جب دنیا میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک سب فرانسیسی صدر سے اظہارِ نفرت کررہے ہیں، کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں کے ساتھ جذباتی دہشت گردی کی گئی۔ مسلمان یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ مٹی کا ڈھیر نہیں۔ ان کے خاکستر میں ابھی چنگاری باقی ہے۔ آئی ایم ایف ان کا، ورلڈ بینک ان کا، آخر انہیں ڈر کس بات کا ہے؟ ڈر صرف اس بات کا ہے کہ ہو نہ جائے آشکارا شرع پیمبر کہیں! لہٰذا روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو!!
ایمان اک تخم ہے جو دل میں بویا جاتا ہے تو شخصیت پر برگ و بار لگتے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیج تو ہو خدا پرستی کا مگر برگ و بار لگیں مادہ پرستی کے؟ ہم سے یقینا کوئی بھول ہوئی ہے۔ ہماری محبت کو جانچنے کا پیمانہ ہمارا عمل ہے۔ ہمارے کردار کی کمزوری کو دشمن بھی سمجھتا ہے اور ہمیں تر نوالہ گردانتا ہے۔
اردو کی استاد، ادیبہ،کئی کتابوں کی مصنفہ زینت کوثر لاکھانی نے گلہائے عقیدت پیش کیے:
اے سرزمینِ پاک مقدر کی بات ہے
سرمہ ہے تیری خاک تو پتھر بھی لعل ہے
کسی کو طُور بخشا اور کسی کو حسن دے ڈالا
محمدؐ کو ملی رب سے تو دوجگ کی پذیرائی
معروف و کہنہ شاعرہ محترمہ طاہرہ سلیم سوزؔ نے حریم ادب کی اس خوبصورت کاوش کو سراہا۔
آپ کی ہیں صفات لا محدود
کیسے ہم آپ پر کتاب لکھیں
ہم جسارت تو کر رہے ہیں مگر
کیسے نوروں کی کائنات لکھیں
مشہور شاعرہ، ادیبہ، آرٹس کونسل سے وابستہ محترمہ شاہدہ اسرار کنول کے لیے حریم ادب نے اظہارِ تشکر کیا کہ ان کے تعاون سے مشاعرے کی اس محفل کا انعقاد ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حریم ادب کے ساتھ ہمیشہ تعاون رہا کیونکہ حریم ادب کے بہت اچھے، بامقصد اور منظم پروگرام ہوتے ہیں۔
محترمہ ناہید عزمی… صحافت سے وابستہ، مصنفہ، مدیرہ میگزین، کوآرڈی نیٹر پاک برٹش آرٹس کونسل ہیں
مشکلیں اس کے رستے میں آتی نہیں، سر اٹھاتی نہیں
ڈھونڈ لیتا ہے جو بھی تیرا نقشِ پا، اے مرے پیشوا
آپ ہیں تیرگی میں جلا اک دیا اے مرے پیشوا
شاعرہ، ادیبہ، استاد، بچوں کے لیے ایوارڈ یافتہ۔محترمہ نیر کاشف نے محبت ِنبویؐ کے سوز سے پُر اشعار پیش کیے۔
ریسرچ اسکالر،میڈیا اینکر پرسن، سیرتِ طیبہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ثروت عسکری:
یہ شانِ کریمی ہے تیری اے میرے سرکار
رکھ لیجیے محشر میں بھرم اے میرے سرکار
آرٹس کونسل کی ممبر،تحریک نفاذِ اردو کی سرگرم کارکن محترمہ آمنہ عالم کا پُر اثر نعتیہ کلام:
اک زخم کی کسک نے تڑپا دیا ہے لوگو
طائف کی اس گلی کا قصہ مجھے سناؤ
اپنے مکاں کا رقبہ گر مختصر لگے تو
اس شاہِ دو جہاںؐ کے حجرے کو ناپ آؤ
پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی… شاعرہ، محقق، نقاد، استاد ادبیات اردو
آپؐ کے عشق سے روشن ہو میرے دل کا جہاں
خانۂ دل بھی میرا مثلِ حرا ہو جائے
محترمہ وضاحت نسیم… کئی کتابوں کی مصنفہ، جاپانی زبان کی ماہر، مشہور شاعرہ
منسوب ہیں آپؐ سے سب تحریریں قرآن کے شہ پاروں میں
اوراقِ مقدس کے شایاں کردار ہے کیا کرداروں میں
آقاؐ سے نسبت خاص جو ہو ہر نعمتِ عظمیٰ پاس جو ہو
دنیا کی خلش کم ہو جائے ہم جیسے دنیا داروں میں
محترمہ نسیم نازش ریڈیو پاکستان کے پروگرام صبح نو کی مصنفہ،شاعرہ، انکم ٹیکس انسپکٹرنے حریم ادب کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ حریم ادب کے سبھی پروگرام بہت اچھے ہوتے ہیں۔انہوں نے مترنم آواز میں ہدیہ نعت پیش کیا:
میرے لبوں پہ آ گیا رحمتِ دو جہاں کا نام
بحرِ الم میں یک بیک مجھ کو سفینہ مل گیا
جی نہ چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو مگر وقت تنگیِ داماں کا شکار تھا۔لہٰذا صدرِ مشاعرہ ،حریم ادب پاکستان کی نائب صدر،‘شاعرہ، مصنفہ ڈاکٹر عزیزہ انجم کو حسبِ روایت آخر میں بلایا گیا۔ انہوں نے اتنی خوب صورت محفل سجانے پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام شاعرات کے جذبوں اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے صدارتی خطاب کے بجائے صرف اپنا دلنشیں کلام سنانے پر اکتفا کیااور واشگاف الفاظ میں وقت کی ضرورت کے عین مطابق اعلان کیا:
وہ آخری نبی ہیں وہی آخری نبی
آئے گا ان کے بعد نہیں اب کوئی نبی
اسی دوران معروف مصنفہ اورکالم نگار غزالہ عزیز کی نئی کتاب ’’پھولوں کی ٹوکری‘‘ کی رونمائی کا اعلان ہوا۔ کتاب کی رونمائی عائشہ سید کے ہاتھ سے انجام پائی اور مشاعرے کی رنگینی کو دوبالا کر گئی۔
اب انتظار تھا مہمانِ خصوصی کے خطاب کا۔ سوات سے تشریف لانے والی مہمانِ خصوصی ڈپٹی سیکرٹری جماعت اسلامی، سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید نے اپنی گفتگو میں مشاعرے کی اتنی بہترین محفل منعقد کرنے اور اس بابرکت موقع پر مدعو کرنے پر میزبان عشرت زاہد صدر حریم ادب کراچی اور تمام منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری شاعرات بہنوں نے ہمیں مدینے کی گلیوں میں پہنچا دیا۔ یہ شاعرانہ آمد حضور اکرمؐ کی محبت میں ڈوب کر ہی ممکن ہوتی ہے۔حضور اکرمؐ کی رحمت و محبت سے دنیا کی کوئی مخلوق محروم نہیں۔ مجھے اپنی شاعرات اور اس محفل کو سجانے والوں پر فخر ہے۔ ہماری یہ بہنیں نظریۂ پاکستان کی اصل محافظ ہیں۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ حضور اکرمؐ کی پیروی میں مضمر ہے۔ انہوں نے جذبوں کو ابھارنے والے اس شعر پر اپنی بات کا اختتام کیا:
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
محفل کے اختتام پر صدر حریم ادب پاکستان عالیہ شمیم نے مختصر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام شاعرات کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے الفاظ کے موتیوں سے گلہائے عقیدت پیش کیے۔ دنیا کی تمام محبتیں اس محبت کے تابع ہیں۔ اسی کی بدولت ایمان کی مٹھاس، لذت، اطاعت کا جذبہ، اور مصائب میں برداشت پیدا ہوتی ہے۔
مختصر سی دُعا پر اس یادگار محفل کا اختتام ہوا۔
nn

حصہ