منظر ایوبی کی یاد میں ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کا اجلاس و مشاعرہ

200

دبستان اردو ادب کا ایک معتبر نام پروفیسر منظر ایوبی 1932ء میں انڈیا کے شہر بدایوں میں پید اہوئے‘ 1950ء میں وہ انڈیا سے پاکستان آئے پہلی ملازمت وزارتِ محنت میں کی پھر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور 1994ء میں کالج پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے‘ اب تک ان کی 9 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں تکلم‘ مزاج‘ چڑھتا سورج بڑھتا چاند‘ متاعِ آخرت‘ فردوسِ جنوں‘ نئی آوازیں‘ سخن وروں کے درمیان‘ ادبی چہرے اور نئے موضوعات کی تلاش شامل ہے۔ راقم الحروف نثار احمد کی معلومات کے مطابق منظر ایوبی کی 8 کتابیں اشاعت کے لیے تیار ہیں‘ ان کتابوں کے نام ہیں اردو شاعری میں انقلابی شعور‘ اردو شاعری میں سوچ کے نئے دھارے‘ آئینوں کے روبرو‘ شعلہ بیانی میری‘ لہر لہر سنگیت‘ گیت مرے نگر نگر‘ جگنو‘ تتلی‘ رنگ ہوا۔ ان کے چار طنز و مزاح پر مبنی اسٹیج ڈرامے بھی آچکے ہیں۔ پروفیسر منظر ایوبی کا انتقال رواں سال ہوا۔ ان کی وفات کے بعد بزم یارانِ سخن کراچی نے ان کی یاد میں پہلا تعزیتی اجلاس کیا۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ گزشتہ ہفتے منظر ایوبی کی یاد میں ہانی ویلفیئر آگنائزیشن نے اجلاس و مشاعرے کا اہتمام کیا ریڑھی گوٹھ لانڈھی کراچی میں ہونے والے اس پروگرام کی صدارت رونق حیات نے کی مہمانان خصوصی میں محمود احمد خان اور طارق جمیل شامل تھے۔ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر مظہر ہانی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم یادرفتگاں کے سلسلے میں پروگرام کرتے ہیں لیکن ہم زندہ شعرائے کرام کی پذیرائی کے لیے بھی تقریب سجاتے ہیں جس کو ہم ’’سمندری مشاعرے‘‘ کا نام دیتے ہیں آج ہم جس اہم قلم کار کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں وہ ہمہ جہت شخصیت تھی انہوں نے زندگی کے کئی اہم شعبوں میں اہم ذمہ داریاں انجام دیں۔ انہوں نے تمام عمر اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ طارق جمیل نے کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی بہت بڑے شاعر اور ماہر تعلیم تھے ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل ہے۔ آج مظہر ہانی نے ان کی یاد میں جو محفل سجائی ہے وہ قابل ستائش اقدام ہے ان کا ادارہ ریڑھی میاں گوٹھ میں لوگوں کو علاج کی سہولت کے علاوہ دینی اور دنیاوی تعلیم بھی پھیلا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ مظہر ہانی سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی خدمتِ خلق میں مصروف ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ صاحب صدر نے کہا کہ مظہر ہانی شاعر بھی ہیں اور سماجی رہنما بھی۔ شاعری کے حوالے سے ان کی تقاریب ہوتی رہتی ہیں اور سماجی خدمات کے تناظر میں مظہر ہانی ایک معتبر نام ہے آج کا جلسہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ آج ہم منظر ایوبی کی خدمات کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی تعلیم اور ادب کے فروغ میں لگا دی ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں وہ ہر مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تھے۔ رونق حیات نے مزید کہا کہ ہر معاشرے میں شعرائے کرام کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن ادب اور شعرا کے ترقی کے لیے حکومتی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص نہیں ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اردو زبان کو جائز مقام دیا جائے‘ ہم اردو کے ساتھ ساتھ تمام علاقائی زبانوں کی ترقی چاہتے ہیں‘ ہم خلوص و محبت کا گلدستہ بنانا چاہتے ہیں۔ آیئے آپ لوگ ہمارے ساتھ جڑ جائیں تاکہ قلم کاروں کے مسائل حل ہو سکیں۔ اس مشاعرے میں اختر سعیدی نے پروفیسر منظر ایوبی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا جس میں انہوں نے منظر ایوبی کی تمام جہتوں کا احاطہ کیا۔ اختر سعیدی بھی ہمارے ادبی منظر نامے کا ایک روشن باب ہے ہم طویل عرصے سے ان کی ادبی خدمات سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ اس مشاعرے میں ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت چلنے والے اسکول اور مدرسے کے بیشتر طلبہ و طالبات کے علاوہ ان کے اسکول کا تمام عملہ سامعین کی حیثیت سے موجود تھا۔ شاندار تقریب کا سہرا مظہر ہانی کو جاتا ہے۔ مشاعرے میں رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ انور انصاری‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف‘ نثار احمد‘ یوسف چشتی‘ جمیل ادیب سید‘ افضل ہزاروی‘ گلِ انور‘ مظہر ہانی‘ سعد الدین سعد‘ تنویر سخن‘ اسحاق خان اور تاج علی رانا نے اپنا کلام پیش کیا۔
nn

حصہ