لبیک کی گونج اور سوشل میڈیا

306

اقوام متحدہ اِنسانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے اِس حد تک فکرمند محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے اِنسانوں کے لیے رفع حاجت کی کمی کو بھی شدت سے محسوس کیا۔19نومبر کا دن ’عالمی یوم بیت الخلا ‘ یعنی ورلڈ ٹوائیلٹ ڈے سے منسوب کیا۔ویسے تو اس کا آغازسنگاپور میں 19نومبر2001میں’ورلڈ ٹوائلٹ آرگنائزیشن ‘کے قیام سے ہوا جسے 2013تک سنگا پور نے سرکاری سطح پر اپنایا اور اقوام متحدہ میںاپنی پہلی قرارداد “Sanitation for all”کے عنوان سے لے گئے اور122ممالک سے منظور کروایا۔ عالمی سطح پر سینیٹیشن کرائسز سے نمٹنے کے لیے اس معاملے کوپائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل کرتے ہوئے 2013سے اقوام متحدہ نے عالمی دن کے طور پرمنانے کا اعلان کیا۔امسال اس دن کے لیے اقوام متحدہ نے جو ابلاغی تھیم منتخب کی وہ’ مستحکم صفائی اور موسمی تبدیلی ‘ تھی۔ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ پر یہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت عالمی سطح پر بھی اُبھرا ۔اُن کی تحقیق سے مسئلہ کی شدت کا پتہ یہ چلا کہ اس وقت دُنیا کی نصف آبادی کے قریب4.2ارب انسانوں کے پاس بیت الخلا کی مکمل سہولت آسانی سے دستیاب نہیں۔اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات صفائی ستھرائی کے لیے بنائے گئے نظام کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ، سیلاب یا برسات کا پانی بھی بیت الخلا یا سیوریج کے نظام کو نقصان پہنچاتا ہے ،جیسا کہ ہم نے کراچی میں حالیہ برسات کے نتائج میںبھی دیکھا۔سیلابی پانی انسانی فضلہ کو پانی کی لائنوں ، فصلوں اور لوگوں کے گھروں تک پھیلاسکتا ہے جو انسنی صحت کے لیے مضر ہے۔ یہ واقعات ، جودُنیا بھر میں آب و ہوا کی تبدیلی کے بدتر ہونے کی وجہ سے کثرت سے ہوتے جارہے ہیں ، صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا سبب بنتے ہیں اور ماحول کو بھی مشکل کرتے ہیں۔ایک محتاط سروے کے مطابق 4.2 بلین (ارب) لوگ اس وقت محفوظ طریقے سے بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں اوربنیادی حفظان صحت عوامل جیسے پانی وصابن سے ہاتھ دھونے تک کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ اکثر غیر قابل اعتبار ، ناکافی بیت الخلا استعمال کرتے ہیں یا کھلے میدان وغیرہ میںفراغت پاتے ہیں۔ اقوام متحدہ رپورٹ کے مطابق استعمال نہ ہونے والا انسانی فضلہ ماحول میں نکل جاتا ہے اور مہلک اور دائمی بیماریوں کو پھیلاتا ہے۔اس لیے اس دن کو منانے کا مقصد پائیدار حفظان صحت کے نظام پر عمل کرنے کے لئے ابھارنا اور اسکے لیے سہولیات اور علم وشعور کا فروغ ہے، تاکہ متعدد مہلک بیماریوں سے بچا جا سکے۔اس ضمن میں پڑوسی ملک بھارت کا بھی خاصانام آتا ہے جہاں گھروں میں بیت الخلا کو بنانا انتہائی معیوب بلکہ شدید گناہ سمجھا جاتا ، انکے مطابق جہاں ان کا بھگوان ہوگا وہاں بیت الخلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ گھر سے باہر ہی یہ سارا نظام بناتے۔ موجودہ شہری زندگی میں تو اب اٹیچ باتھ کا تصور سرایت کر چکا ہے ۔سب جانتے ہیں کہ اس نام نہاد جدید صاف ستھرے فلش اور کموڈ نظام میں پانی کا کتنا ضیاع ہوتا ہے۔پھر ساری گندگی آپ کے گھر کے نیچے ہی نالی و پائپ لائن میں ہی تیرتی رہتی ہے ، جس سے خارج ہونے والی گیس و دیگر اثرات بد آپ کے گھر،باورچی خانے تک آسانی سے پہنچتے ہیں۔ آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ بیت الخلا میںجانے کی دُعا میں’ خبیث جنات سے بچنے ‘ کی طلب کیجاتی ہے ۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مذکورہ جگہ کون کون آپ پر’حملہ آور‘ ہو سکتا ہے ۔بہر حال تمام باتوں کی ایک بات کہ طہارت،صفائی ، پاکیزگی کو ہمارے ایمان کا نصف حصہ قرار دیا گیا ہے ، بس اس کو اپنا نا ہوگا، از خود بیماریو ں سے بچ سکیںگے۔
اسکے علاوہ 19نومبر کو ہی بین الاقوامی دن برائے مرد بھی منایا گیا۔بنیادی طور پر تو یہ دن خواتین کے عالمی دن 8مارچ کے مقابلے پر متعارف کرایا گیا ۔دُنیا کے کوئی 44ممالک اس میں اپنا کوئی نہ کوئی حصہ ملاتے ہیں، یہ اقوام متحدہ والا دن تونہیںمگر اس کے پیچھے وہی محدود لبرل سوچ کارفرما ہے ۔
مقبوضہ کشمیر پرمیں بھارتی جارحیت کا سلسلہ بدستورجاری رہا ، ساتھ ہی آزاد کشمیر وادی نیلم پر ہونے والی شدید بمباری بھی سوشل میڈیا پر موضوع بنی رہی۔ بھارت کے افغانستان میں دہشت گردی کیمپس کا بھی انکشاف ہوا ۔ سوشل میڈیا پر#IndianTerrorismExposed کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھارت کے جارحانہ عزائم اور سازشی چہرے کو خوب بے نقاب کیا گیا۔


لوگوں نے جہاد والا ثواب سمجھ کر24ہزار ٹوئیٹ کے سہارے خوب محنت سے ٹرینڈ بنا ہی ڈالاان میںکچھ لیک شد ہ دستاویزات ، کشمیر ایشو، عمران خان کے اقوال، شہداء کی تصاویر، ایک آدھ اخباری کالم، جنرل باجوہ کاویڈیو کلپ، وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کا کلپ و دیگر شامل رہے، مگر جو اہم نظریاتی جنگ والا مواد ہندوستان کو سمجھنے کے لیے ہونا چاہیے تھااسکی کمی محسوس ہوئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ کو مخصوص لابی، ادارے پروموٹ کر کے لاتے ہیںلیکن اگر اس کے ذیل میں وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ہندوستان کی شیطینیت کونظریاتی دائرے میں سمجھتے اور جانتے ہیں۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر کو سردی یا سیاسی گرمی کی وجہ سے موضوع بنایا گیا اس کا فیصلہ ابھی مشکل ہے ۔ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں یہ بھی آئے دن امڈ ہی آتا ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمدسے لیکر ضلع شرقی کے محتسب احمد جمال اعجازی تک ، وزیر اعلیٰ سندھ سے لیکر کیپٹن صفدر ،صمصام بخاری، قمر زمان کائرہ تک سب ہی اس بار لپیٹ میں نظر آئے ۔13لاکھ اموات میں سیپہلے نمبر پر امریکہ میں اب تک2.5 لاکھ اموات، دوسرے پر بھارت جہاں 1.3لاکھ اموات جبکہ پاکستان28ویں نمبر پرہے جہاں 7300کے قریب اموات پہنچ چکی ہیں۔کورونا کی ویکسین کی خبروں میں بھی تیزی آئی ہے ،مگر صرف خبروں تک۔اسی کورونا کی سختیوںمیںکرکٹ کے شائقین کے لیے اس ہفتہ پی ایس ایل2020کے باقی مقابلے لپیٹ دیئے گئے اور اس مرتبہ چیمپئن کا سہرا ’کراچی‘ کے سر پر سجا۔PSLFinal کے تناظر میں کئی ہیش ٹیگ دو تین دن چلتے رہے۔
ناموس رسالت کے تحفظ کے تناظرمیںگو کہ فرانس کی جانب سے کسی قسم کی معافی سامنے نہیں آئی ،حکومتی سطح پر بھی خاموشی رہی البتہ تحریک لبیک پاکستان بھر میں احتجاج کرتی نظر آئی ۔حکومت کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن سمجھ نہیں آیا۔لاہور، گجرات، راولپنڈی، کراچی ،پشاور سے فیض آباد اسلام آباد تک طویل ترین احتجاجوں کا روایتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے حد درجہ کوریج بائیکاٹ کیا۔سیکڑوں گرفتاریاں چھاپے جاری رہے جن کی اطلاعات صرف سوشل میڈیا پر ویڈیو ز وٹرینڈ کی صورت آتی رہیں۔ آخر میں قافلہ بالآخر تمام رکاوٹوں کے دہانے پہنچ ہی گیا، سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے قیادت سے لیکر کارکن تک سب ایک ہی ساتھ رہے کوئی کنٹینر والا ماحول نہیں نظر آیا۔جو آنسو گیس آتی ، وہیل چیئر پر موجود قائد تحریک تک بھی اُسی طرح پہنچتی جیسے دیگر کارکنان تک۔ایسے میں اسلام آباد میں نامعلوم وجہ سے حکومت کا لاک ڈاؤن ، مطلب راستے، موبائل سروس ، انٹرنیٹ سروس سب کچھ بند کردینا سمجھ سے باہر تھا۔اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ہوا کہ رستہ بند دیکھ کر مظاہرین وہیںبیٹھ گئے ۔ جبکہ ایسا کچھ دیگر کسی شہر میں نہیں کیا گیا۔اسلام آباد و پنڈی کے عوام کے لیے ایک بار پھریہ بہت سخت تجربہ رہا ۔اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا احوال معلوم کیے۔انہوں نے دو دن سے اسلام آباد کی صورتحال موبائل سروس بند ہونے، ٹریفک جام و دیگر تکالیف کا ذمہ دار حکومت و احتجاج کرنے والوں کو ٹھہرایا۔میں نے کہا بھائی حمایت نہیں کرنی، شرکت نہیں کرنی،کم از کم خاموش ہی ہو جاؤ۔اتنی معمولی تکالیف پر اتنا شور کیوں؟جب نعرہ تو یہ لگاتے ہو کہ ہمارے ماں باپ فدا؟ مگر وہ بضد تھا کہ نہیں اس سب کے پیچھے وردی والوں کی سپورٹ ہے۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ تو اور اچھی بات ہے ۔کہ اب اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری عسکری قوت بھی عشق رسول ؐ میں ڈوب کر تحریک لبیک کے ذریعہ دُنیا بھر کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر تم نے ہمارے پیارے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کی تو دیکھو ہم کیسے ملک کا دار الخلافہ جام کر سکتے ہیں جہاں تمہارا سفیر بھی بیٹھا ہے ۔اچھا اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی کی کوریج پر پابندی تھی؟مگر پھر گرفتاری و شیلنگ کیوں؟تشدد کی تو جماعت اسلامی نے بھی مذمت کردی؟اچھا اگر سب پری پلان تھا تو کیا فرانس کے صدر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے یہ سب کرنے کو کہا تھا تاکہ ایسا ری ایکشن ہو؟بہر کیف سوالات جوابات جاری رہے مگر سمجھ یہی آیا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے لبرل طبقہ فکر ہی نہیں بلکہ مذہبی حلقوں کا بھی ذوق جمالیات کچھ اس طرح ترتیب پایا ہے کہ وہ معرکہ حق و باطل میں عملاً شریک ہونے کے بجائے اس کو گھر بیٹھ کر ، ٹی وی اسکرین پر ملاحظہ کر کیمزہ لینا چاہتے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ ہے یوم اقبال والی ویڈیو نے منفی اَثرات ڈالے مگر وضاحت کو نہ ماننا بھی غلط اور ڈھٹائی کارویہ ہے۔ناموس رسالت کا معاملہ کہیں بڑا ہے اور اگر ایسا نہیں تو سب کا عمل، سب کے احتجاج و کیفیت بھی تو سب کے سامنے ہے نا؟ گرفتار کارکنان و ذمہ داران کی رہائی کے وقت بھی ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنا۔ کئی کو معاہدہ کی شقوں اور ماضی کے معاہدوں پر عمل نہ ہونے کا درد تھا۔ مگر ساری بات یہ ہے کہ جب حکم ہو ’فاقتلوہ ‘کاتو کیا وہاں ٹوکن مظاہرے یاپلے کارڈ یا ریلی تو نہیں ہونی چاہیے؟ یہ ایمانی معرکہ جس بڑے پیمانے پر مزاحمت چاہتا ہے ، وہ گھنٹہ بھر کے جلوسوں یا ٹھنڈے ہالوں والی کانفرنسوں یا گلی میں نعت و میلاد کی محافل سجا کر توکبھی حل نہیں ہو سکتا۔یعنی دشمن نبی کے خاکے لٹکائے اور آپ نعتیں پڑھ کر جھومتے رہو کہ آقا کی شان بڑی آقا کی شان بڑی۔


اسی طرح کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم سے سرکلر ریلوے کا شرمناک آغاز بھی ہوا ، جماعت اسلامی نے اس نام نہاد ٹرانسپورٹ سہولت کا بھر پور پوسٹ مارٹم کیا اور اسے ایک بھونڈا مذاق اور فراڈ قرار دے کر #KhiRejectsKCR_Fraud کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنایا۔ 3کروڑ کی آبادی کے لیے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر میں کوئی حکومت ٹرانسپورٹ کا کوئی مناسب نظام نہ دے سکی۔ پرانے ٹریک پر چلتی ہوئی ٹرین کونئی بوگی لگا کر سرکلر ریلوے کے نام دیکر دھوکہ دینے پر اپنا احتجاج سوشل میڈیا پر بھی رپورٹ کیا۔

حصہ