ظالم کو کبھی پھلتے پھولتے نہیں دیکھا

892

ابوقلابہ سے مروی ہے کہ میں نے شام کے بازار میں ایک آدمی کی آواز سنی جو ’’ آگ آگ‘‘ چیخ رہا تھا۔ میں قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کٹے ہوئے ہیں اور دونوں آنکھیں نہیں ہیں‘ منہ کے بل زمین پر پڑا گھسٹ رہا ہے اور ’’ آگ آگ‘‘ چیخ رہا ہے۔ میں نے اس سے حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ’’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھسے تھے‘ جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ چیخنے لگیں‘ میں نے اُن کے منہ پر طمانچہ مارا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ’’تجھے کیا ہو گیا ہے‘ عورت پر ناحق ہاتھ اٹھاتا ہے‘ خدا تیرے ہاتھ پائوں کاٹے‘ تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کرے اور تجھے آگ میں ڈالے!‘‘ مجھے بہت خوف معلوم ہوا اور میں نکل بھاگا۔ اب میری یہ حالت ہے جو تم دیکھ رہے ہو‘ صرف آگ کی بددعا باقی رہ گئی ہے۔‘‘
’’نیرو‘‘ کے نام سے ہم میں سے اکثر لوگ واقف ہوں گے۔ روم کا یہ بدنامِ زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔ جب اُس کے باپ کی وفات ہوئی تو وہ بادشاہ بنا۔ تخت سنبھالنے کے بعد شروع شروع میں اس نے اپنی ظالمانہ فطرت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا، لیکن اقتدار کے چند سال گزرنے کے بعد اس کی طبیعت میں ایک مجنونانہ اشتعال کی سی کیفیت بڑھنے لگی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی ماں ’’ایگریپینا دی ینگر‘‘ (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ بعدازاں کچھ عرصے بعد ہی اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کردیا۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ پرانے شہر کی جگہ پر ایک نیا شہر بناسکے۔ یہ آگ ’’دی گریٹ فائر آف روم‘‘ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگائے جانے کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد شدید تشدد کرواکے مروا دیا۔ اس کی یہ ذہنی کج روی بالآخر اتنی بڑھی کہ اس نے خودکشی کرکے اپنی بھی جان لے لی۔
کنگ جان کو با آسانی انگلستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالم بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ بادشاہت کے حصول کے لیے اس نے اپنے ہی بھائی کے خلاف فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔ جب اس کے مخالفین نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں قلعے میں قید کرواکر بھوکا پیاسا مار دیا۔ اس نے بادشاہ بننے کے بعد ایک بہت بڑی بری و بحری فوج تشکیل دی اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات عائد کیے، معززین کی جائدادیں ضبط کرلیں اور امرا کو قید میں ڈال کر تشدد کے ذریعے ان کی دولت ہتھیا لی۔ بالآخر وہ پیچش کے مرض میں کئی سال زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوکر دنیا سے گزرگیا۔
ظالم لوگ اپنے اَنجام سے بے خوف ہوکرظلم و زیادتی کرتے، دھمکیاں دے کر لوگوں سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، لوگوں کے مال وجائداد پر قبضہ کرتے ہیں، چوری، ڈکیتی، رہزنی، لوگوں کے حقوق سلب کرنا، مظلوموں کو تکلیف دینا، دہشت گردی اور قتل و غارت گری جیسے گناہوں میں مبتلا ہوکرنہ جانے کس کس انداز سے اپنے جیسے مسلمانوں کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔
لیکن یاد رکھیے! ظلم کا انجام بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہے، ہم دنیا میں چاہے کسی پر کتناہی ظلم کرلیں اور بے خوف ہوکر گھومتے پھریں، مگر یہ بات یاد رہے کہ مرنے کے بعد ہر ظلم کو حساب دینا ہو گا۔ بہت سے ایسے ظالم و جابر لوگ گزرے جن کا شمار دنیا کے طاقتور افراد میں ہوتا تھا، جن کے پاس دنیاکے ہر طرح کے خزانے موجود تھے، جن کے حکم کی خلاف ورزی کرنا گویا موت کو دعوت دینا تھا، جو زمین پر اکڑ کر چلا کرتے تھے، جن کے ظلم و جبرکے نہ صرف کارنامے سن کر‘ بلکہ ان کانام سنتے ہی لوگ لرز جاتے تھے۔ شاید وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ایک دن انہیں بھی مرنا ہے اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہے۔ بالآخر موت نے انہیں اپنے شکنجے میں لے کر ان کا غرور و تکبر ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دیا۔ یہ قدرت کا انجام ہوتا ہے جو وہ دنیا والوں کو عبرت کا سبق اور رہتی دنیا تک مظلوموں کی حمایت کا سبق دینے کے لیے قدرت کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔
ظلم کے خلاف کھڑے ہونا، ظلم خود نہ برداشت کرنا اور دوسرے لوگوں کو بھی ظلم سے نجات دلانا ہر دور میں مسلمانوں کی پہچان اور ان کی امتیازی شان رہی ہے۔ مسلمان فاتحین جس ملک میں بھی پہنچے انھوں نے اپنا یہ امتیاز باقی رکھا اور عَدل کا نظام قائم کیا اسی وجہ سے وہاں کے کچلے لوگ جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور اس کی پناہ میں انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔
مسلم حکمراں ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ ظالموں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے ہیں۔ ایک مظلوم عورت نے دہائی دی تو عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے ایک لشکرِ جرّار تیار کیا اور العموریہ پر حملہ کر کے اس عورت کو آزادی دلائی۔ اندلس کے ایک مقامی حکمران نے اپنے بڑے حکمران کے ذریعے اپنی بیٹی کی آبرو ریزی کی شکایت کی تو طارق بن زیادؒ نے فوج کشی کی اور اندلس فتح کرلیا ۔
سندھ کے لٹیروں نے مسلمان مسافروں کے ایک قافلے کو لوٹ کر مردوں اور عورتوں کو قید کرلیا اور اس وقت کے راجا داہر نے انھیں آزاد کرانے سے اپنی بے بسی ظاہر کی تو محمد بن قاسمؒ نے حملہ کرکے انھیں آزاد کرایا۔
اس سلسلے میں قرآن اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور قرآن کی آیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو ، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔۱۱ (بخاری : 1469 ، مسلم : 19)
’’مظلوم کی بددعا ہر حال میں بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتی ہے‘ چاہے وہ فاجر ہو۔‘‘ ( احمد : 8795 )
ظلم کا انجام دنیا میں بھی برا ہے اور آخرت میں بھی بہت برا ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری کسی قوم کو اْٹھایا ۔‘‘ ( الانبیا :11)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’ظلم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دے گا ہی، بسا اوقات ظلم کرنے والے کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے۔‘‘ ( ابودائود : 4902 )
اسلام ظلم کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور ظالم کا ساتھ دینے کو بھی شدت سے منع کرتا ہے کہ کسی صورت میں بھی ظالم کا ساتھ نہ دیا جائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’جس شخص نے کسی ظالم کا ساتھ دیا‘ یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظلم کررہا ہے‘ تو وہ اسلام کے دائرے سے نکل گیا۔‘‘ ( بیہقی ، طبرانی)
’’جس شخص نے کسی جھگڑے میں ظلم کرنے والے کی مدد کی اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا۔‘‘ ( ابو دائود : 3598)
اسلام نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ظالم کا ہاتھ پکڑا جائے اور مظلوم کی حمایت کی جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
’’لوگ جب کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں، پھر بھی اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا تمام لوگوں کو دے۔‘‘ (ابودائود : 4338 ، ترمذی : 2168)
ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا ’’اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’مظلوم کی مدد کرنا تو ہماری سمجھ میں آتا ہے، یہ ظالم کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے ظلم کرنے نہ دو ، یہ اس کی مدد ہے۔‘‘( بخاری : 2444 )
ظلم کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو اس کا حق نہ دینا‘ ناحق طریقے سے کسی کا حق مارنا‘ بغیر قصور کے کسی کو سزا دینا‘ معاملات میں ناحق طرف داری کرنا وغیرہ ظلم کہلائے گا۔ یہ ظلم اس قدر بھیانک جرم ہے کہ اسے قیامت کی تاریکی سے موسوم کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’تم ظلم سے بچو کیوں کہ یہ قیامت کی تاریکیوں سے ہے۔‘‘
ظلم کی پہلی قسم اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ اللہ اس کائنات کا تنِ تنہا خالق و مالک ہے اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچو! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘
ظلم کی دوسری قسم بھی حقوق اللہ سے متعلق ہے اور یہاں پر اس سے مراد اللہ کی وہ معصیت ہے جو شرک کے علاوہ ہو۔
یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس: 44)
ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد سے متعلق ہے یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلاً ناحق خون کرنا، باطل طریقے سے کسی کا حق مارنا، کسی کا سامان چھین لینا یا چوری کرلینا، کسی کوگالی دے دینا، معصوم آدمی پر بہتان لگانا، لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا، کمزوروں کو پریشان کرنا، حق کے داعیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ۔
ظلم کی تینوں اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اللہ معاف نہیں کرتا اور نہ ہی نماز و روزہ اور حج و عمرہ جیسی عبادات سے تلافی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو (یا کسی طریقہ سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔(صحیح البخاری:2449)
nn

حصہ